قدم قدم پہ کوئی روشنی بکھرتی رہی

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 12-02-2025
قدم قدم پہ کوئی روشنی بکھرتی رہی
قدم قدم پہ کوئی روشنی بکھرتی رہی

 

ڈاکٹر عمیر منظر 
لکھنؤ
انتظار حسین نے گرد مہتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ احمد مشتاق کے شعر کب سے پڑھ رہا ہوں مگر عجب شاعری ہے اپنا نام نہیں بتاتی ہے۔ان کے بقول احمد مشتاق کی شاعری نے بتایا کہ نظریاتی شاعری بہت شریفانہ شاعری ہوتی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ اپنا نام بتادیتی ہے۔انتظار حسین کا خیال ہے کہ احمد مشتاق شاعری کی بارگاہ میں جوتیاں اتار کر داخل ہوتاہے۔یہ باتیں عبداللہ ندیم کے پہلے شعری مجموعے ”بوئے دوست“(اشاعت 2024)کو پڑھتے ہوئے یاد آرہی ہیں۔
عبداللہ ندیم کے تعارف کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ان کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے۔ وہ علامہ شبلی نعمانی کے مشہور شاگرد مولانا عبدالسلام ندوی کے خانوادے سے ہیں۔ شعری ذوق اور ادبی تربیت انھیں ورثے میں ملی ہے۔غور وفکر اور علوم و فنون سے دلچسپی خاندانی ہے۔البتہ جامعۃ الفلاح سے جامعہ ملیہ اسلامیہ تک ان کا تعلیمی سفر شعری ذوق کو پروان چڑھانے میں نہایت کارآمد رہا ہے۔ اگرچہ یہ جرنلزم کے طالب علم رہے ہیں اور یہی ان کا پیشہ بھی ہے مگر کیمرے کی آنکھ سے الگ  بصارت وبصیرت کو بروئے کار لاکر اپنے ادبی ذوق کو مہمیز کرتے ہیں اور اب ادبی دنیا میں ایک سرگرم تخلیق کار کے طور پر باضابطہ داخل ہورہے ہیں۔
عبداللہ ندیم کی غزلیں پرکشش اسلوب کی حامل کہی جاسکتی ہیں۔اس کشش کا اصل حسن وہ سادگی ہے جسے انھوں نے تحت بیانی کے ہنر سے آراستہ کررکھاہے۔کیونکہ لفظوں کے استعمال میں ان کے یہاں خاصا محتاط رویہ پایا جاتا ہے۔ تازہ کار اسلوب کی جھلک اور لفظو ں کو برتنے میں ایک خاص طرح کی خوش سلیقگی ان کا ہنرہے۔اردو غزل کی روایت سے جگہ جگہ استفادہ کی نہایت عمدہ شکلیں ان کے یہاں موجود ہیں شاید اسی وجہ سے عبداللہ ندیم کے یہاں تخلیقی تجربے کا ایک توانا رجحان  محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کا تخلیقی وفوربھی قابل رشک ہے۔چند برسوں میں جس طرح ان کی غزلوں نے لوگوں کو متوجہ کیا ہے،اسے ان کی فنی سربلندی کے ایک نمایاں وصف سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اسی طرح اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اردو ادب میں ایک توانا تخلیقی اظہار کا اضافہ ہوگا۔
آنکھ کھلی تو دیکھ کر اس کو میں دنگ رہ گیا 
اور کوئی شبیہ تھی آئینہ خیال میں  
ہم جو دریا بہانے والے تھے 
ایک کاغذ بھی ہم سے نم نہ ہوا  
 
پھر اس کے بعد تو سیل رواں کا ذمہ تھا 
بس ایک ضبط کی دیوار ہم گرا لیتے 
 
بالآخر اس طرح آرام آیا 
محاذ عشق پر میں کام آیا 
 
شب کی کھڑکی میں کون بیٹھا ہے 
چاند کس پر ہوا ہے سودائی 
یہ اشعار بیان کی سادگی کے مظہر کہے جاسکتے ہیں۔لیکن ان میں اکہری صورت نہیں ہے بلکہ فن کار نے خاص اہتمام سے اپنے تخلیقی جذبے کو متشکل کیا ہے۔شعری ہنرمندیوں کا استعمال کسی اچنبھے اور چونکانے والے انداز میں نہیں ہے بلکہ اس میں سلیقہ مندی اور صناعی کو خاص دخل ہے۔ایک خاص وصف ان اشعار کا مجموعی آہنگ اور اسلوب ہے۔سب کچھ کہہ کر کچھ نہ کہنے کایہی ہنر شناس و شناخت کا وسیلہ بنتا ہے۔ پہلے شعر کا کرافٹ غیر معمولی ہے۔’دنگ رہنے‘کا سبب آئینہ خیال کی کوئی شبیہ تھی۔شبیہ اچھی ہے یا بری۔ خوب صورت ہے یا بد صورت شعر سے واضح نہیں ہوتا۔دوسرے مصرعے میں ”اور کوئی شبیہ“کا فقرہ ایسا بلیغ اور دورس ہے کہ تشریح یا وضاحت کے بعد بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے۔یہ ابہام ہی شعر کے حسن میں اضافہ کا سبب ہے۔بلکہ معنوی تہہ داری کا غماز ہے۔ بظاہر سب کچھ واضح ہے مگر وضاحت کے بہت سے پہلو تشنہ رکھے گئے ہیں۔یہی تشنگی شعر کاحسن ہے۔اس نوع کے بہت سے اشعار ان کے یہاں ملتے ہیں۔
دوسرے شعرمیں مبالغہ کی صورت کو ایک نئی شکل دی گئی ہے۔ غالب کا شعر سامنے کا ہے’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا‘۔دریا بہانے والے تھے اور اسی پر پورا زور ہے مگر کیا صورت بنی کہ ایک کاغذ بھی ہم نم نہیں کرسکے۔اس شعر میں بھی کاغذ نم نہ ہونے کی کیا صورت تھی واضح نہیں ہیں۔ان دونوں اشعار کاحسن عدم وضاحت میں پوشیدہ ہے۔البتہ غزل کی رسومیات سے واقفیت رکھنے والے ان اشعار کی تشریح و تعبیر میں ان سے فائدہ اٹھائیں گے اور اسی سے یہ اشعار سمجھ میں آئیں گے۔اردو غزل میں گریہ پر بے شمار شعر کہے گئے ہیں۔کیسے کیسے پہلو نکالے گئے ہیں۔میر کا شعر تو بہت مشہور ہے۔
میر ے رونے کی حقیقت جس میں تھی 
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا 
 بے چارگی دونوں جگہ ہے مگر شکلیں مختلف ہیں۔
تیسرے شعر میں ’سیل رواں‘ ضبط کے تضاد کے طور پر آیا ہے۔شعر کے کلیدی الفاظ یہی ہیں لیکن ضبط کے سبب کو واضح نہیں کیاگیا ہے۔ضبط کو داخلی استحکام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔خارج کی کوئی شکل داخلی عدم استحکام کی صورت میں ہی قائم ہوتی ہے۔’سیل رواں کا ذمہ‘یہ فقرہ بھی خوب ہے۔اسے بے اختیاری بھی کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ جب ہم نے دیوار ضبط کو گرالیا تو پھر اپنے اختیار میں رہا کیا۔اب جو کچھ ہے وہ سیل رواں کے ذمہ ہے۔ اس نوع کے مضامین کی متعدد صورتیں غزل کی روایت میں ملتی ہیں۔مثلاً
ہم نے خوش بو کے بند کھول دیے 
اب ہوا تیری ذمہ داری ہے 
یا یہ شعر
وہ پتا اپنی شاخ سے ذرا جدا ہوا ہی تھا 
نہ جانے پھر کہا ں کہاں ہوا اڑا کے لے گئی 
عبداللہ ندیم کاایک شعرملاحظہ فرمائیں۔
تمام عمر پھری بوئے گل پریشاں پھر 
بس ایک بار جو رشتہ صبا سے ٹوٹ گیا 
”بوئے دوست“ کی خوبی یہی ہے کہ اس میں روایت سے استفادہ کی نہایت عمدہ اور قابل رشک  شکلیں ملتی ہیں۔ آپ چاہیں تو اسے عبداللہ ندیم کی تخلیقی ہنر مندی کہہ سکتے ہیں۔
آخر کے دونوں اشعار بھی روایت کے پرتو کا خوب صورت عکس ہیں۔آرام محاذ عشق پر کام آنے سے ملا لیکن عشق کا کون سا محاذ تھا۔اس کو قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔عشق حقیقی اور مجازی دونوں صورتیں شعر سے برآمد ہوتی ہیں۔ فن کار کی یہی کام یابی ہے کہ وہ اپنے قاری کو غور و فکر کی ایک وسیع دنیا فراہم کردے۔آخری شعرغزل کے عشقیہ مضامین کے ایک عمدہ پہلو پر ہے مگراس کی مزید خوبی شعر کے استفہامیہ اسلوب کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے۔کون بیٹھا ہے اور کس پر سودائی ہے یہ کسے نہیں معلوم۔لیکن کون اور کس نے تلاش معنی کے امکانات کو مہمیز کردیا ہے۔ 
عبداللہ ندیم کی شاعری پڑھتے وقت ایک احساس یہ بھی ہوتا ہے کہ زمانہ کی ناہمواریوں اور سیاسی کمزوریوں کا ایک عمومی بیان جو ان دنوں ہماری شاعری میں زیادہ درآیا ہے ان کے یہاں نایاب نہ سہی مگر کم یاب ضرور ہے۔اس رویے کی انتہائی شکل شکوہ اور طنز کے طورپر سامنے آتی ہے نیز یہ بھی ہوتا ہے کہ فن کار کے یہاں رفتہ رفتہ راست بیانی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور شاید اس کے بعد کی صورت فنی زوال سے عبارت ہوجاتی ہے۔عبداللہ ندیم کے یہاں یہ صورت کم سے کم ہے۔زمانے اور حالات کا شکوہ ان کے یہاں بھی ہے۔زمانہ کی نارسائیوں پر وہ بھی شکوہ سنج ہے مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس بیان میں انھوں نے تحمل اور برداشت پر نگاہ زیادہ رکھی ہے۔
مسیحائی لبوں نے آج کی تھی 
مرے زخمو تمہیں آرام آیا 
 
ہم بھی جو ساز باز ہوا سے کیا کریں 
شاید نہ پھر چراغ ہمارے بجھا کریں 
 
ہماری شاخ تمنا نہ ہوسکے شاداب 
اتر رہے ہیں یہاں موسم خزاں کتنے  
 
سنا ہے آپ مسیحائے دل فگاراں ہیں 
ایک آدھ زخم ہمارے بھی گر رفو ہوجائیں 
 
ان اشعار میں شکوہ بھی ہے اور طنز بھی۔ان کے مطالعہ سے ہمارے سامنے ایک خاص طرح کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ایک ایسی مجموعی فضا جو امید و یقین کو بارآوار نہ کرسکے۔اس نوع کی بہت سی شکلیں عبداللہ ندیم کی شاعری میں اعتبار حاصل کرتی ہیں۔ ان کا یہی انداز اور اسلوب ہے جو بار باران کی غزلیں پڑھنے کے لیے متوجہ کرتا ہے۔
غزل حسن و عشق کے بغیر مکمل نہیں کہی جاسکتی۔ شاعر بھی غزل میں عشقیہ مضامین کے بیان سے اپنی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔عشقیہ مضامین پر مشتمل ان کے اشعار کے نت نئے پہلو ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔اس تناظر میں عبداللہ ندیم کو پڑھتے جائیں اور عشقیہ جذبات واحساسات پر مبنی ان کے اشعار آپ کو مسرت اور بصیرت سے ہم کنار کرتے جائیں گے۔
ہم کو نئی محبت اب راس آرہی ہے 
یعنی کہ بڑھنے والا ہے اور بھی خسارہ 
 
کوئی روزن نہ دریچہ نہ کوئی در رکھا 
بس تری یاد سے اس دل کو منور رکھا  
 
خاک اس کی ہمیں کچھ یونہی نہیں کھینچتی ہے  
دشت سنتے ہیں کہ مجنوں کا مکاں تھا پہلے 
یہ الگ بات مرے ہاتھ اسے چھو نہ سکیں 
دشت امکاں میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
 
ہماری ذات کی پرتیں بھی کھلتی جائیں گی 
بس ایک بار جو ہم اس کے روبرو ہوجائیں 
 
پہلے آنکھوں کو باوضو رکھتے 
تب کہیں اس کی آرزو کرتے 
 
ہمیں بھی خوف تھا آنکھوں سے بیوفائی کا 
سوپتلیوں میں ترے نقش کو ابھا ر دیا
  
یہ اشعار لفظ و معنی دونوں سطح پر متاثر کرتے ہیں۔مضمون میں تازگی کا احساس ہوتا ہے اور بار بار کے بیان کیے ہوئے مضمون کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ باندھنے کی کوشش کی ہے۔اردو غزل کے بہت سے وہ روایتی مضامین جن سے ہماری کلاسیکی اور روایتی شاعری کا دامن بھرا ہوا ہے انھیں بھی عبداللہ ندیم نے اس طرح نبھایا ہے کہ اس میں جدید وقدیم کا امتزاج درآیا ہے۔اس طور پر وہ اشعار اپنی روایت سے پیوست بھی ہیں اور جدید لب و لہجے کا خوب صورت اظہار بھی ہیں۔
آتا ہے سطح آب پہ صورت نئی لیے 
یارو فنا نہیں ہے بکھرنا حباب کا 
 
ریت پر نقش بنایا تو کبھی پانی پر 
اور بچوں کی طرح خوش ہوئے نادانی پر 
 
کچھ اور شور مچانے لگی ہے تنہائی 
ہم اب کی باراسے شہر کیا دکھائے آئے
 
مآل شوق سفر اور کیا بتائیں تمہیں 
قدم قدم پہ کوئی آرزو بکھرتی ہوئی 
 
اس کے علاوہ عبداللہ ندیم کی شاعری میں خواب کا استعاراتی استعمال بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ خوابوں کی اس دنیا میں سب کچھ دیکھا بھالا نہیں ہے۔کچھ تو آرزوئیں اور تمنائیں ہیں جن تکمیل کے لیے انسانی سرگرمی معمول کا حصہ قرارپاتی ہے اور یہ کبھی کبھی یہ سرگرمی اس کی پوری زندگی سے عبارت ہوجاتی ہے۔خواب جب محبوب کی یاد سے عبارت ہوجاتاہے تو اس صورت میں یہ پوری زندگی کا روگ بن جاتا ہے اور شاید عاشق کی یہی معراج ہے۔خواب کے مختلف پہلو عبداللہ ندیم کی شاعری میں دیکھے جاسکتے ہیں اور یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فن کار ایک لفظ کو کن کن جہتوں سے برت سکتاہے۔
میں جانتا تھا کہ تعبیر کیا نکلنی ہے 
میں اپنے خواب کو لیکن بدل نہیں پایا 
 
خواب کی سرزمیں سے بچ نکلیں 
یہ علاقہ ہے سارا پانی کا 
 
خواب پھر سے کہیں نہ درآئیں 
آنکھ لگتی نہیں ہے اس ڈر سے 
 
اک خواب کہ آنکھوں سے جدا ہو نہیں پاتا
اور ہاتھ بڑھاؤں تو مرا ہو نہیں پاتا
عبداللہ ندیم کے نئے اندازو اسلوب اور تازہ کارلہجے کی نہ صرف پذیرائی ہورہی ہے بلکہ اس کا استقبال بھی کیا جارہا ہے۔