وہ مرد رویش حق نے جس کو دیے ہیں انداز خسروانہ

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 27-05-2024
 وہ مرد رویش حق نے جس کو دیے ہیں انداز خسروانہ
وہ مرد رویش حق نے جس کو دیے ہیں انداز خسروانہ

 

(ممتاز مورخ اور اسلامی اسکالر پروفیسر احمد ظلی سے ایک ملاقات)

       ڈاکٹر عمیر منظر 
         شعبۂ اردو 
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس.لکھنو
 پندرہ مئی (2024)کی وہ ایک گرم شام تھی،جب علی گڑھ میں تقریباًپانچ برس کے بعد پروفیسر اشتیاق احمد ظلی (پ:1942) کے سامنے ان کے گھر پر بیٹھا ہوا، ان کی محبتوں اور عنایتوں سے سرشارہورہا تھا۔ان کی خوشی اور ضیافت کے لیے بیقرار ی دونوں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔کبھی شبلی اکیڈمی کے سمیناروں میں مہمانوں کے لیے سرتاپاسرگرم دیکھتا تھا اور آج علی گڑھ ان کے گھر میں کچھ اسی طرح کے مناظر تھے ۔خوشی و محبت کا اظہار اور عنایت وشفقت ان کے مزاج میں اس طرح سے شامل ہے کہ وہ اس کے لیے بہانے نہیں تلاش کرتے بلکہ ان کے یہاں یہ دریاہمیشہ رواں دواں رہتا ہے ۔ظلی صاحب ہم سب کے لیے مربی اور سرپرست کی حیثیت رکھتے ہیں ان سے ملاقات کی خوشی اور بات چیت صرف خوش گوار احساس کی حامل نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہماری بہت سی کمیوں کی اصلاح بھی ہوجاتی ہے۔آج ان کے ساتھ ایک مدت کے بعد بیٹھنے کا موقع ملا تھا ۔میں کبھی ان کی گفتگو سننے میں محو ہوجاتا تو کبھی ان کو دیکھنے لگتا ۔چہرے سے بزرگی کے آثار اب زیادہ نمایاں ضرور ہیں مگر مزاج کی شگفتگی اور شیفتگی کا انداز وہی ہے
کس طرح سے دیکھوں بھی باتیں بھی کروں ’’ان سے‘‘
آنکھ اپنا مزہ چاہے دل اپنا مزہ چاہے
 کووڈ کی وباکا زور اور لاک ڈاؤن نے عام ہندستانیوں کو ایک بھیانک صو رت حال سے دوچار کردیا تھا ۔ اسی میں پروفیسر ظلی کی طبیعت خراب ہوئی مگر یہاں معاملہ کووڈ کا نہیں بلکہ بے خوابی کا تھا اور اس میں بھی ذمہ داری کی حساسیت زیادہ شامل تھی ۔ان دنوں وہ شبلی اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے ۔لاک ڈاؤن کےسبب ادارہ معاشی تنگی کا شکار ہوگیا ۔فکر مندی کی وجہ سے بیماری بڑھتی گئی یہاں تک کہ رابطہ بھی منقطع ہوگیا ۔کبھی کبھی ہفتہ گزر جاتا کوئی خیریت نہیں ملتی ۔برادر گرامی ڈاکٹر عرفات ظفر(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )کو بار بار پریشان کرتا اور انھیں کے توسط سے آپ کی صحت کا بلیٹین جاری ہوتا ۔اس دوران مختلف لوگوں کے فون نمبر وہ دیتے رہتے تاکہ خیریت ملتی رہی ۔جب طبیعت ذرا بہتر ہوئی تو ایک دن مژدہ سنایا کہ آج ادارہ تحقیق و تصنیف کی مسجد میں جمعہ پڑھنے گئے تھے ۔ایک دو مواقع پر موبائل تصویر بھی ملی ان تصویر کو دیکھ کر دکھ ضرور ہوا مگر حالات بدلتے رہے اور طبیعت بہتر ہوتی گئی ۔اس دوران میں جب کبھی منٹ دو منٹ کے لیے بات ہوجاتی تو بے پناہ خوشی ہوتی ۔اس کے سوا ہم لوگ کیا کہہ سکتے تھے کہ نہیں آپ ٹھیک ہوجائیں گے ۔آج انھیں کی رہنمائی میں جناب نعمان بدر فلاحی(ریسرچ اسکالر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )کے ساتھ ظلی صاحب کے یہاں محفل جمی ہوئی تھی ۔ظلی صاحب کی ایک حیثیت بلبل ہزار داستان کی ہے ۔وہ ہوں اور لطف و انبساط کا کوئی پہلو نہ آئے ۔شبلی اور شاگردان شبلی زیر بحث نہ ہوں ۔شبلی اکیڈمی کو یاد نہ کریں۔ماہنامہ معارف کا ذکر نہ ہو یہ کہاں ممکن ہے
 ۔ایک مختصر سے وقفے میں امکانات کی بہت سی دنیاکی سیر کی گئی ،جن میں شاگرد شبلی مولانا عبدالباری ندوی کا واقعہ بھی سنایا ۔بتایا کہ سلطنت آصفیہ میں جب علامہ شبلی نعمانی کے حبیب لبیب ریاض الرحمن خاں شروانی مدارالمہام تھے توجامعہ عثمانیہ میں جدید فلسفہ کے استاد کے طو رپر مولاناعبدالباری ندوی کا تقرر کیا۔ایک مرتبہ نواب صاحب نے مدارالمہام سے پوچھا کہ وہ پروفیسر صاحب کہاں ہیں جن کا تقرر آپ نے کیا ہے لوگ تو کہتے ہیں کہ ان کی پاس فلسفہ کی کوئی ڈگری نہیں ہے ۔ریاض الرحمن خاں شروانی نے برجستہ کہا کہ وہ فلسفی نہیں ہیں بلکہ فلسفہ جدیدہ ان کے ہاتھ پر ایمان لایا ہے ۔واضح رہے کہ مولانا عبدالباری ندوی کی سرپرستی میں پروفیسر ظلی نے لکھنؤ میں کچھ برس گزارے ہیں ان ایام کے بہت سے واقعات وہ سناتے ہیں ۔وہ مولانا عبدالباری کا ذکر بہت احترام اور عقیدت سے کرتے ہیں ۔شبلی کے تئیں ظلی صاحب کے یہاں جو فکری توسع اور ہمہ گیری ہے اسے شاگرد شبلی کی تربیت کا فیض کہا جاسکتا ہے
سابق نائب صدر حامد انصاری کے ساتھ ایک یادگار تصویر

 سال 2014میں سہ روزہ بین الاقوای شبلی صدی تقریبات کی دھوم پورے ملک میں تھی ۔شبلی اکیڈمی بقعہ نور بنی ہوئی تھی ۔ ایک مدت بعد قرب و جوار سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ یہاں آئے ۔چوتھے روز جب کچھ فرصت ملی تو میں نے دھیرے سے عرض کیا کہ آپ کئی مہینوں سے اس تقریب کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔اب جبکہ صدی تقریبات تزک و احتشام کے ساتھ اختتام کو پہنچ چکی ہے ،ہندستان کے علاوہ پاکستان ،ترکی،مصراور دیگر خلیجی ممالک کے مندوبین کی سرگرم شرکت رہی ہے ۔کیا کسی موقع پر علامہ شبلی کا خواب میں دیدار ہوا کہ نہیں ۔آپ کے کمرے سے ان کی قبر کا فاصلہ کچھ نہیں ہے مسکرائے اور کہنے لگے عزیز م میں نے عملی زندگی گزاری ہے ۔خواب دیکھنے والوں میں ہمارا شمارکہاں ہے ۔یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے اسے مولی قبول کرلے بس یہی دعا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
پروفیسر ظلی ہمارے ان بزرگوں کی یاد گار ہیں جنھیں زبان وادب اور تہذیب و ثقافت پر دسترس حاصل ہے ۔اردو،عربی اور فارسی کے علاوہ انگریزی زبان پر انھیں عبور ہے ۔دوران طالب علمی ایک بار پروفیسر نسیم قریشی نے انھیں مثنوی مولانا روم پڑھتے ہوئے دیکھ کرتعجب کا اظہارکیا تھا۔جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے فارسی کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ہے تویقین ہی نہیں آیا اور جب یہ بتایا کہ اتنی فارسی تو وہاں(اعظم گڑھ) کے بہت سے لوگ جانتے ہیں تو وہ حیرت میں ڈوب گئے ۔وہ شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہیں میں پروفیسر رہے اور کم وبیش چاردہائیوں تک درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔یونی ورسٹی کی مختلف ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے مگر کہیں بھی ان کے بنیادی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔استاد کے علاوہ دیگر حیثیتوں سے بھی ان کے ساتھ گزارے ہوئےخوش گوار ایام کویاد کرنے والے بہت ہیں۔
 عہد وسطی کی تاریخ سے پروفیسرظلی کی خاص دلچسپی ہے
  ۔ضیا ء الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہی کے انگریزی ترجمہ سے ہی آپ کے علمی وفور کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ یہ کتاب سلطنت عہد کے بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہے ۔عہد وسطی کے تاریخی تناظر میں فارسی زبان کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ۔پروفیسر ظلی کا شمار ہمارے زمانے کے ان چندمورخین میں ہوتا ہے جو اپنے موضوع  کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی استادانہ رتبہ رکھتے ہیں۔نیشنل آرکائیوز اورہندستان کے بعض دوسرے ممتاز علمی مراکز جہاں تاریخ کے مصادر میں فارسی ناگزیر ہے وہاں کی اہم نشستوں میں پروفیسر ظلی کو تاریخ میں فارسی ماخذ پر دسترس کی وجہ سے مستقبل مدعو کیا جاتارہا ہے ۔اب اس طرح کے لوگ خال خال ہی ملیں گے ۔یہی حال اور انگریزی اور عربی کا بھی ہے ۔دراصل ہمارے بزرگوں کی یہ وہ نسل ہے جوسراپا علم تھے اور جنھوں نے ایک دنیا کو فیض پہنچایا ۔فیض رسانی کے اس عمل کی وسعت اور ہمہ گیری کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا ۔بقول مصحفی
جو بھی آئے ہے وہ نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جائیں 
پروفیسر اشتیاق احمد ظلی سے ملاقات اور ان کی گفتگو ایک سرشار طبیعت کا پتا دیتی ہے ۔ وہ خود بڑھ کر ہنستے مسکراتے ہوئے مصافحہ کرتے ہیں ،گلے لگاتے ہیں اور’’ عزیزم کیسے ہیں‘‘ کہہ کر خیریت دریافت کرتے ہیں ۔اپنے  چھوٹوں سے اس طرح کا تکریمی رویہ ہمارے معاشرے میں عام نہیں ہے اسی لیے اس کا کچھ زیادہ ہی احساس ہوتا ہے ۔ اردو ،عربی اور فارسی اشعار و محاورے اور بعض زبان زد عام مثالیں اور ضرب الامثال ان کی گفتگو کا خاص حصہ ہیں ۔ہمیشہ حوصلہ بڑھاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ وہ اپنی تحریروں میں  احتیاط اور سوچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرتے ہیں اسی لیے لکھنے والے کو بھی سخت محنت کی تاکید کرتے ہیں ۔ایک بار کہنے لگے عزیزم یہ بہت اچھا لکھا ہے لیکن اگر میں لکھتا تو یہ جملہ اس طرح ہوتا ۔اصلاح اور تربیت کایہ انداز بھی غیر معمولی ہے ۔چونکہ ان کی گفتگو کے حوالے بہت ہیں ۔وہ تاریخ کے ممتاز اسکالر ہیں مگر اسی کے ساتھ قرآنیات پر ان کی گہری نگاہ ہے ۔وہ تاریخ کا سفر جب بھی کرتے ہیں تو بے شمار قرآنی قصے ،واقعات اور نظیریں ان کے سامنے رہتی ہیں۔ عروج وزوال اس دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے اور اسی وجہ سے جب بھی کسی نوع کی سربراہی ملی تو اس پرکبھی فخر نہیں کیابلکہ یہ احساس دامن گیر رہا کہ کہیں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہوجائے کسی کا حق نہ مارا جائے اور اسی لیے اپبے زیردستوں سے بھی اس طرح بات کرتے کہ جیسے کوئی اپنے دوست سے باتیں کرے۔ممکن ہے بعض کے نزدیک شخصیت کی یہ نرمی اورمزاج کی حلاوت کسی نظم کے لیے مناسب نہ ہو ۔لیکن بقول میر
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں 
ایک پروگرام میں پروفیسر اشتیاق احمد صاحب مضمون کے ساتھ
 پروفیسر ظلی کے نمایاں کارناموں کی ایک جہت  دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی ڈائریکٹر شپ سے وابستہ ہے ۔ 2008سے 2020کے وسط تک اس ذمہ داری کو جس خوبی اور حسن انتظام کے ساتھ آپ نے انجام دیا وہ بہر حال ایک مثال ہے ۔ایک ایسا تاریخی ادارہ جس کے بارے میں یہ کہا جانے لگا تھا کہ یہاں کے رفقاء محض اپنی صفت قناعت پر زندہ ہیں ایک آن میں اس کی کایا پلٹ دی ۔انتظام سنبھالنے کے چند برسوں کے اندر ہی علم وادب کی دنیااکیڈمی کی طرف متوجہ ہونے لگی ۔ماہنامہ معارف کے توسط سے ادارہ کی علمی شان کا ظہور ہونے لگا ۔اور اس دوران بعض ایسے نمایاں کام ہوئے جس نے اکیڈمی سے استفادہ کو دو چند کردیا ۔دارالمصنفین کے مخطوطات کا ڈیجیٹائزیشن ، مخطوطات کی توضیحی فہرست ،مونس الارواح اور اکبرنامہ کا عکسی ایڈیشن ،اسلامی تاریخ سے متعلق نادر عربی مصادر کی ڈی وی ڈ ی کی فراہمی اور الندوہ (دور شبلی )کا عکسی ایڈیشن جیسے بے شمار کام ہیں جس نے اکیڈمی کے علمی وقار میں اضافہ کیا ۔ایک محتاط اندازہ کے مطابق دوسوں کے قریب کتابوں کے جدید ایڈیشن روشن طباعت کے ساتھ تیار کیے گئے ۔ان کوششوں نے بہت جلد اکیڈمی کو ایک بار پھر مرکزی حیثیت دے دی اس کا ذکر ہونے لگا اور مختلف حیثیتوں سے اس بارے میں گفتگو ہونے لگی ۔علم وادب کی ایک کہکشاں شبلی اکیڈمی اور ماہنامہ معارف کے توسط سے جگمگانے لگی یہاں تک کہ شبلی صدی،شبلی اکیڈمی صدی اور معارف صدی کا اہتمام جس طرح کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔حالی اور سرسید کو بھی یاد کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ سب لوگ علمی اور فکری آراکے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرسے رابطہ اور استفادہ جاری رکھیں اس کی متعدد عملی شکلیں آپ نے اکیڈمی کی سطح پر کرکے دکھا یا بھی ۔اپ کا ایک بہت بڑا کام معارف کے شذرات کا انتخاب بھی ہے 
  ۔دوجلدوں پر مشتمل یہ خصوصی نمبر ’’ہندستانی مسلمان شذرات معارف کے آئینے میں ‘‘معارف صدی کے موقع پر شائع ہوا ۔ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ نمبر آج بھی شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے ۔پروفیسر ظلی کے شذرات نے معارف کے گئے دنوں کی یاد تازہ کردی تھی۔حالات حاضرہ سے لے کر علمی موضوعات تک بے شمار شذرات آپ کی علمی دروں بینی اور مسائل و حالات کے گہرے ادراک کے غماز کہے جاسکتے ہیں ۔ان شذرات کا انداز و اسلوب بھی بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے ۔آپ کے منصوبے میں علامہ شبلی کے دوشاگردوں سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالسلام ندوی کی علمی و ادبی خدمات پر سمینار کا انعقاد تھا ۔سید صاحب پر سمینار کا اعلان معارف کے شذرات( فروری 2019) میں کیا ۔تاریخ بھی طے کردی مگر ملکی حالات کے سبب ملتوی کرنا پڑے ۔دوبارہ سمینار کا جب اعلان کیا تواس کی تاریخ سے پہلے کووڈکی تاریخ آگئی اور اس طرح ایک علمی منصوبے کی تکمیل کی حسرت باقی رہ گئی ۔ادھر شبلی اکیڈمی میں کوئی علمی محفل برپا ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں
مجھے نہیں معلوم کہ پروفیسر ظلی صاحب سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی لیکن پہلی بار انھیں سننے کا اتفاق علامہ فراہی سمینار(مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ ) کے موقع پر ہوا تھا ۔غالباً انھوں نے اس کے تمام اجلاس میں نظامت کا فریضہ انجام دیا تھا۔اس وقت میں انھیں بالکل نہیں جانتا تھا ۔لیکن سمینار میں ان کی پر اعتماد آواز اور کارروائی چلانے کے انداز نے بہت متاثر کیا تھا ۔انتہائی متانت اور وقار کے ساتھ وہ ان تمام مراحل سے گذر رہے تھے ۔ان کی پہلی تحریرجسے مجھے پڑھنے کا موقع ملاششماہی علوم القرآن(جولائی تا دسمبر  1990)کا وہ اداریہ تھا جو سقوط ماسکو کے تناظر میں انھوں نے تحریر کیا تھا ۔یہ تحریر آج بھی انتہائی اہم اور معنی خیز ہے
 مجھے اپنے جن بزرگوں کی شفقت اور محبت حاصل رہی ہے اور جنھوں نے علم ودانش کی ایک روایت کو فروغ دیا ہے ۔ان میں ایک نام پروفیسر اشتیاق احمد ظلی کا بھی ہے۔ان کی شخصیت کے جس انداز نے حد درجہ متاثر کیا وہ ان کی سادگی اور سادہ مزاجی ہے۔ ان سے استفادہ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔اب وہ کسی ادارہ کے ذمہ دارنہیں ہیں اس لیے وہ بھیڑجو عہدہ دیکھ کر جمع ہوتی ہے نہیں ہے لیکن ایسے لوگ اب بھی بہت ہیں جو ان سے گفتگو اور رہنمائی کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔مجھ جیسوں کے لئے تو یہی بہت ہے کہ ان کی وجہ سے علی گڑھ کا سفر بار بار کیا جاسکتا ہے ۔
صحت و سلامتی کے لئے بے شمار دعائیں