محفوظ عالم : پٹنہ
عبدالقیوم انصاری ایک ایسے مجاہدین آزادی تھے جنہوں نے ہمیشہ ٹو نیشن تھیوری کی مخالفت کی اور مسلم لیگ کے پاکستان بنانے کے خوابوں کے خلاف کھڑا رہے۔ عبدالقیوم انصاری کم عمری میں ہی تحریک آزادی میں شامل ہوگئے۔ ان کی پیدائش بہار کے ضلع روہتاس میں 1 جولائی 1905 کو ہوئی۔ ان کا خاندان مالی اعتبار سے کافی مضبوط تھا۔ عبدالقیوم انصاری کے والد مولوی عبدالحق ایک خوشحال تاجر تھے۔ ان کے نانا مولانا عبداللہ غازیپوری ایک بڑے عالم دین تھے، ان کی والدہ صفیہ خاتون حافظہ قرآن اور عالمہ تھیں۔ عبدالقیوم انصاری کی پیدائش روہتاس ضلع کے ڈہری آن سون میں ہوئی۔ وہ کافی ذہین تھے اور کہتے ہیں کی آٹھ سال کی عمر میں ہی اردو، عربی، فارسی اور دینیات میں انہوں نے دسترس حاصل کر لیا تھا۔ ڈہری آن سون اور سہسرام میں انہوں نے اسکولی تعلیم حاصل کی پھر وہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی اور کولکتہ یونیورسیٹی میں زیر تعلیم رہے لیکن پوری طرح سے تحریک آزادی میں شامل ہونے کے سبب درمیان میں ہی ان کی تعلیم کا سلسلہ مقطع ہو گیا۔
ہندو مسلم اتحاد کے چمپین تھے عبدالقیوم انصاری
عبدالقیوم انصاری مہاتمہ گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور علی برادران سے کافی متاثر تھے۔ انہوں نے تحریک عدم تعاون اور خلافت تحریک میں زبردست حصہ لیا اور کئی بار جیل بھی گئے۔ عبدالقیوم انصاری مظلوموں کے بھی آواز تھے، وہ شروع سے ہی مومن تحریک میں شامل رہے اور 1937 میں انہوں نے مومن کانفرنس کی بنیاد ڈالی، اور اس پلیٹ فارم سے ملک کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کی پوری کوشش کرتے رہے۔
عبدالقیوم انصاری مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے۔ ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو ملک کے مفاد کے لیے نہایت ضروری سمجھتے تھے۔ فرقہ واریت اور ہندو مسلم اتحاد میں دراڑ ڈالنے والوں کے خلاف رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد سے نہ صرف ملک آزاد ہوگا بلکہ مستقبل میں ملک کے لیے اور یہاں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے یہ طریقہ سب سے مفید ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم لیگ اور ان کے مطالبات کے سخت مخالف تھے۔ نتیجہ کے طور پر عبدالقیوم انصاری کے سلسلے میں مسلم لیگ آخری وقت تک پروپاگنڈا کرتی رہی اور یہاں تک کہ ایک بار عبدالقیوم انصاری پر حملہ بھی کرایا گیا۔ بہار میں مسلم لیگ کے بڑھتے اثرات کو دیکھتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے نوجوان عبدالقیوم انصاری کو مسلم لیگ کے خلاف کھڑا کیا۔ عبدالقیوم انصاری ہر اس پروگرام کا حصہ بنتے اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے کی بھر پور کوشش کرتے جس میں ہندو مسلم اتحاد کی بات کی جاتی اور ملک کو آزاد کرانے کی تدبیریں بنائی جاتی۔
مہاتمہ گاندھی سے تھے قریب
1920 میں عبدالقیوم انصاری کو ڈہری آن سون خلافت کمیٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا اور اسی سال کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں بہار سے ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے انہوں نے شرکت کی۔ اسی اجلاس میں عبدالقیوم انصاری کی ملاقات مہاتمہ گاندھی سے ہوئی۔ مہاتمہ گاندھی اس نوجوان مجاہد آزادی سے بیحد متاثر تھے اور عبدالقیوم انصاری پر مہاتمہ گاندھی کی تعلیمات اور شخصیت کا ایسا اثر تھا کہ وہ پوری زندگی گاندھی کے راستہ پر چلتے رہے۔ عبدالقیوم انصاری نے مہاتمہ گاندھی کے تحریک سول نافر مانی میں حصہ لیا۔ نتیجہ کے طور پر ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے پڑنے شروع ہوگئے۔ جس کے سبب عبدالقیوم انصاری کے والد کا کاروبار متاثر ہوا لیکن خاندان کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف کھڑا ہونا پسند کیا اور عبدالقیوم انصاری کی حوصلہ افزائی کی۔ 1922 میں عبدالقیوم انصاری کے باغیانہ سرگرمیوں کے نتیجہ میں پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔ جیل میں سخت مظالم کے بعد بھی ان کا حوصلہ نہیں ٹوٹا اور وہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ جنگ آزادی کی تحریک میں سرگرم ہو گئے۔
عبدالقیوم انصاری مظلوموں کے تھے آواز
ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم ہونے کے بعد، ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے ہندوستان کی بڑی صنعتوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ اس وقت ہندوستانی کپڑے کی صنعت پوری دنیا میں مشہور تھی اور اس میں مسلم سماج کے بنکروں کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ انگریزوں نے سازش کے تحت ہندوستان کے کاریگروں کا سامان باہر بھیجنے پر پابندی لگا دی، ظاہر ہے اس کا سب سے بڑا نقصان کپڑوں کے کاروبار میں لگے مسلم بنکروں پر پڑا اور ان کی معاشی اور سماجی حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ عبدالقیوم انصاری کا تعلق اسی سماج سے تھا اور وہ شروع سے ہی انگریزوں کے خلاف اٹھنے والے ہر محاذ کا حصہ بنتے رہے۔ جب جنگ آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے تو ایک طرف ملک کو آزاد کرانے کی جدوجہد شروع کیا وہیں ہندو مسلم اتحاد کو لیکر بیحد سنجیدہ رہے اسی کے ساتھ مسلمانوں کی پسماندگی اور کمزور برادریوں کی آواز بنتے رہے۔ انہوں نے کمزور طبقات میں وہ جوش اور جنون پیدا کیا تاکہ وہ پوری طرح سے جنگ آزادی میں شریک ہو سکے۔ اس تعلق سے انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور پورا مسلم سماج ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
عبدالقیوم انصاری کی خستہ حال حویلی
ٹو نیشن تھیوری کے تھے سخت مخالف
عبدالقیوم انصاری مسلم لیگ کی اس مانگ کے سخت مخالف تھے جس میں ایک الگ ملک بنانے کا خواب دیکھا جا رہا تھا۔ اس وقت فرقہ واریت شباب پر تھی اور عبدالقیوم انصاری ہندو مسلم اتحاد پر سب سے زیادہ زور دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں کے مسلمانوں کی حالت خراب ہوگی اور وہ قومی دھارے سے کٹ جائیں گے۔ مسلم لیگ کے پروپاگنڈا کا انہوں نے جواب دیا اور لوگوں کو سمجھانے کی پوری کوشش کی۔ 21 اپریل 1944 میں بہار مومن کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ اسلام خطرہ میں ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک سانحہ ہے کہ پاکستان کو بنا کر اسلام کو بانٹ دیا جائے۔ یہ اسلام کی شکست ہوگی اگر وہ زندگی کی جنگ سے اس طرح نکل بھاگے کہ وہ آسائشوں کا اسیر بن جائے۔ یہ غیر مستقل مزاج دماغوں کا پاگل پن ہے۔
اس موقع پر عبدالقیوم انصاری نے یہ بھی کہا کہ یہ کہنا کہ مسلم اکثریتی صوبے ان صوبوں میں مسلمانوں کو تحفظ دیں گے جہاں وہ اقلیت میں ہیں یہ بات بلکل بے وقعت ہے۔ آج بھی تو مسلمانوں کی مملکتیں افغانستان، ترکی، ایران اور دوسری بہت ساری جگہوں پر قائم ہیں۔ لیکن وہ ہندوستان کے اندرونی معاملات میں بلکل مداخلت نہیں کر سکتیں، باوجود اس کے کہ مسلم لیگ بار بار ان سے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کی شکایت کرتی رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے نام پر بننے والی حکومت بھی ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں کر سکے گی۔ ان کی یہ وجہ صرف اس لیے ہے کہ سچائی کو چھپانا چاہتے ہیں اور اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عبدالقیوم انصاری ہندوستان اور اس وقت کے ماحول کو لیکر کتنے فکر مند تھے۔ انہیں احساس تھا کہ مسلم لیگ جس راستہ پر چل رہی ہے اس میں کمزور طبقات کو ہی سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ عبدالقیوم انصاری نے ٹو نیشن تھیوری کی زبردست مخالفت کی لیکن پاکستان بننے سے وہ نہیں روک سکے۔ ملک کا تقسیم ہوا اور ان جیسے مجاہدین آزادی کے لیے وہ دن ایک بہت بڑے صدمے سے کم نہیں تھا۔
عبدالقیوم انصاری نے اس وقت بھی ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے خلاف کھڑا کیا جب 1947 میں پاکستان نے کشمیر پر حملہ کر دیا تھا۔ عبدالقیوم انصاری نے مسلمانوں کو اپنے ملک کی حفاظت اور بقا کے لیے پاکستان کے خلاف کھڑا ہونے کی اپیل کی۔ انہوں نے 1957 میں انڈین مسلم یوتھ کشمیر فرنٹ کی بنیاد ڈالی تاکہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو پاکستانی قبضہ سے آزاد کرایا جا سکے۔ جنگ آزادی کا یہ زبردست مجاہد اور عوام کا رہنماں 18 جنوری 1973 کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔