بہار کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خورشید عالم نے کہا آج ہر گھر میں ایک ایڈوکیٹ کی ضرورت

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 20-06-2024
بہار کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل  خورشید عالم نے کہا آج ہر گھر میں ایک ایڈوکیٹ کی ضرورت
بہار کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خورشید عالم نے کہا آج ہر گھر میں ایک ایڈوکیٹ کی ضرورت

 

محفوظ  عالم :پٹنہ  

ایک ایسے ایڈوکیٹ کی کہانی جو بننا چاہتے تھے ڈاکٹر لیکن بن گئے وکیل وہ بھی ایک نام چین وکیل، ہم بات کر رہے ہیں بہار کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خورشید عالم کی۔ خورشید عالم جو کبھی چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا ٹی این سیشن کے ایک اوڈر خلاف کیس لڑے اور جیت گئے تو کبھی پٹنہ کے میئر کا ہائی پروفائل قتل کیس لڑا اور سرخیوں میں رہے۔ تو کبھی جب سارے وکیل تھک چکے تھے تو کٹیہار میڈیکل کالج کے ڈائرکٹر احمد اشفاق کریم کا کیس لڑا اور انہیں جیل سے چھڑایا۔

خورشید عالم قانونی بیداری مہم بھی چلاتے ہیں اور غریبوں اور ضرورت مندوں کو قانونی مدد بھی پہنچاتے ہیں۔ وہ واحد مسلم وکیل ہیں جو پٹنہ ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن میں دو دو بار وائس صدر کا انتخاب جیتے ہیں۔ ان کے بعد اب تک کوئی مسلم ایڈوکیٹ نے پٹنہ ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن کا انتخاب نہیں جیتا ہے۔ آواز دی وائس نے خورشید عالم سے تفصیلی بات چیت کیا۔

ایڈوکیٹ بننا اور انصاف دلانا دو الگ کام

ایڈوکیٹ بننا اور انصاف دلانے کے سلسلہ میں جاں فشانی کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ خورشید عالم پٹنہ ہائی کورٹ کے ایک ایسے مسلم وکیل ہیں جن کی نظر میں انصاف دلانا اور کمزور طبقات کی مدد کرنا سب سے اہم کام ہے۔ ان کا نام تب سرخیوں میں آیا تھا جب انہوں نے چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا ٹی این سیشن سے لوہا لیا۔ ٹی این سیشن نے اوڈر دیا تھا کہ انتخابات کے دوران لوگ اپنے آرمس کو جمع کرا دیں۔ خورشید عالم نے پٹنہ ہائی کورٹ میں اس اوڈر کو چیلنج کیا اور جم کر اس کے خلاف بحث و مباحثہ ہوا اور وہ کیس جیت گئے۔ وہ فیصلہ اس وقت پوری دنیا کے اخباروں کا سرخی بنا اور 24 گھنٹہ کے اندر آرمس کو واپس کرنے کا عدالت نے حکم سنایا۔ اس کے بعد خورشید عالم کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خورشید عالم 


ایک زمیندار اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے

معروف ایڈوکیٹ خورشید عالم کی پیدائش 22 اپریل 1956 کو بہار شریف کے کاغذی محلہ میں ہوئی۔ وہ ایک زمیندار اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان کے زیادہ تر لوگ پاکستان چلے گئے لیکن ان کے والد اور پھوپھی نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ خورشید عالم کے مطابق ان کا خاندان شروع سے ہی علم و ادب اور سیاست کے میدان میں سرگرم عمل رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے نانا نور محمد نے انگریزوں کی حکومت میں بہار سے اردو کا اخبار نکالا جس کا نام اتحاد تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اخبار کا ذکر تقی رحیم صاحب کی کتاب جنگ آزادی میں بہار کے مسلمانوں کی حصہ داری میں بھی ملتا ہے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ میرے ابا کا نام سدر عالم ہے، ان کے پر نانا شیخ احمد علی نے 1912 میں قومی مثنوی کے نام سے ایک مشہور کتاب لکھی تھی جس کو لکھنؤ کی لائبریری سے ہم لوگوں نے حاصل کر پھر سے شائع کرایا ہے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ اس طرح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خاندان کے بزرگوں کو علم و ادب سے کتنا گہرا لگاؤ تھا۔

خاندانی پش منظر

خورشید عالم کے والد کا نام سدر عالم ہے اور ان کی ماں مغربی بنگال سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کی والدہ بنگال کے شاعر قاضی نظر اسلام کی بھتیجی تھیں۔ خورشید عالم 10 بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کے پانچ بھائی اور پانچ بہن ہیں۔ ایک بہن فرزانہ عالم کولکتہ کی ڈپٹی میئر رہی ہیں جن کا 2011 میں ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال ہوگیا۔ باقی بہنیں امریکہ اور کینیڈا میں رہتی ہیں۔ دو بھائی باہر کے ملکوں میں ہیں۔ ایک گوا میں رہتے ہیں اور ایک بہار شریف میں۔ 1991 میں ان کے والد کا انتقال ہوا اور کورونا کے بعد انکی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ خورشید عالم کی شادی نکہت جہاں سے 1993 میں ہوئی، ان کے تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا بمبئی ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ ہیں۔ اور باقی کے دو بیٹے زیر تعلیم ہیں۔ خورشید عالم بہار اسٹیٹ اسکیٹنگ ایسوسی ایشن کے نائب صدر ہیں، بہار سوشل کلب کے بھی نائب صدر ہیں اس کے علاوہ کٹیہار میڈیکل کالج کے گور ننگ باڈی کے ممبر بھی ہیں۔

خاندان کے لوگ پاکستان چلے گئے

خورشید عالم کا کہنا ہے کہ تقسیم ہند کا زخم ہمارے خاندان پر کافی گہرا ہوا۔ ایک معروف اور علمی خاندان ملکوں کی تقسیم میں تیتر بتر ہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ پاکستان چلے گئے لیکن والد صاحب نے ہندوستان کا انتخاب کیا اور اپنے وطن سے کہیں جانا کسی قیمت پر گوارہ نہیں کیا۔ خورشید عالم کے مطابق چونکہ ان کے خاندان کے سبھی لوگ پاکستان چلے گئے تھے یہاں ہندوستان میں خاندان کے جو چند لوگ رہ گئے تھے انہوں نے اپنے وطن کو بنانے اور سنوارنے کی اپنی بہترین خدمات انجام دی اور تعلیم کے شعبہ میں آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کیا۔

ابتدائی تعلیم سے لا تک کا سفر

خورشید عالم کے مطابق انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مدرسہ میں شروع کی، پھر چھٹی جماعت سے سوگرہ  ہائی اسکول بہار شریف میں زیر تعلیم رہے اور وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پھر آگے کی تعلیم میں نے نالندہ کالج بہار شریف سے حاصل کیا۔ خورشید عالم کے مطابق اس وقت جے پی مومینٹ شباب پر تھا اور میں اس تحریک میں پوری شدت کے ساتھ شامل ہوا اور دو بار جیل بھی گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس درمیان میری پڑھائی بھی متاثر ہوئی۔ جیل سے نکلنے کے بعد پھر میں نے اپنی تعلیمی سلسلہ شروع کیا۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ وہ کبھی وکیل بننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور ڈاکٹر کے پروفیشن سے کافی متاثر تھے لیکن ایک بڑے بزرگ کے مشورہ پر میں نے پٹنہ کے کامرس کالج میں لا میں داخلہ لیا۔ یہ 1982 کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ لا کرنے کے بعد میں باقاعدہ پٹنہ ہائی کورٹ میں ایک وکیل کی حیثیت سے پریکٹس کرنے لگا۔

خورشید عالم  ان کی والدہ  اور ان کے دادا مرحوم پر کتاب کا سرورق


 سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی اےڈیسائی یا جسٹس پی این بھاگوت


ایک وکیل کی حیثیت سے ہائی کورٹ میں شروعات

خورشید عالم کا کہنا ہے کہ پٹنہ ہائی کورٹ میں 1989 میں وکالت کی میں نے شروعات کی۔ اس وقت کے ایک بڑے وکیل اور سابق وزیر شکیل احمد خان کے ساتھ پریکٹس شروع کیا۔ قریب دو سال ان کے ساتھ کام کیا اور پھر میں نے1992 سے آزادانہ پریکٹس شروع کر دیا۔ اس درمیان کئی بڑے بڑے مقدموں کو لڑا اور جیتا۔ لیکن 1995 میری زندگی کا ایک بڑا ٹرنگ پوائنٹ تھا، جب میں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے خلاف ایک کیس جیتا اور پوری دنیا میں عدالت کے فیصلے کی شہرت ہوئی اور اس مقدمہ کا فیصلہ سرخیاں بنا اور اسی وقت سے میرے نام اور کام کی شہرت ہونے لگی۔ انہوں نے کہا کہ دراصل ہوا یہ تھا کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا ٹی این سیشن نے انتخابات کے مدنظر یہ حکم دیا تھا کہ جتنے بھی آرمس ہیں اس کو جمع کرایا جائے۔ میں نے اس اوڈر کے خلاف پٹنہ ہائی کورٹ میں پی آئی ایل فائل کیا جس میں مجھے کامیابی حاصل ہوئی۔ میں وہ کیس لڑا اور جیتا، تمام ملک اور بیرونی ممالک کی میڈیا نے کورٹ کے اس فیصلہ کو اپنا سرخی بنایا تھا۔ اور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں جو آرمس کو جمع کرایا گیا تھا اسے 24 گھنٹہ کے اندر چھوڑنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت کا یہ فیصلہ اتنا اہم تھا کہ سال کے بہترین فیصلوں میں اسے شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خورشید عالم بمقابلہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نام سے یہ فیصلہ نیٹ پر بھی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کے بعد لگاتار اہم اور وی وی آئی پی مقدمہ میرے سامنے آئے جس میں لگاتار میں کامیاب ہوتا رہا۔ اس میں سے ایک پٹنہ کے میئر کشن مراری کا ہائی پروفائل کیس تھا۔ ایک قتل کیس میں وہ پھنس گئے تھے وہ پیچیدہ مقدمہ تھا اس کو میں نے جیتا۔ کٹیہار میڈیکل کالج کے ڈائرکٹر احمد اشفاق کریم کو 2014 میں گرفتار کیا گیا تھا، کئی بار ان کا بیل رجیکٹ ہوا تھا۔ آخر کار میں نے اس کیس کو لیا۔ کئی وکیل پہلے ان کا کیس لڑ چکیں تھے لیکن جب میں نے اس کیس کو لیا تو اس میں بھی مجھے بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور وہ جیل سے باہر نکلے۔ انہوں نے بتایا کہ درجنوں ایسے مقدمہ کو سلجھانے اور جیتنے کا سلسلہ رہا ہے، میں کافی خوش ہوں کہ میں نے ایسے لوگوں کی بھی مدد کی ہے جو پریشان حال اور مصیبت زدہ کسی نہ کسی کیس میں پھنس کر عدالت آتے ہیں۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل وکیل بننا نہیں چاہتے تھے

خورشید عالم 2016 سے پٹنہ ہائی کورٹ میں بہار حکومت کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ہیں، ساتھ ہی وہ واحد مسلم ہیں جو پٹنہ ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن میں دو دو بار وائس صدر کا انتخاب جیتے ہیں۔ ان کے بعد اب تک کوئی مسلم ایڈوکیٹ نے پٹنہ ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن کا انتخاب نہیں جیتا ہے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ وہ وکیل بننا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی خواہش ایک ڈاکٹر بننے کی تھی، انہوں نے کہا کہ آج بھی یہ کسک ہے کہ میں ڈاکٹر نہیں بن سکا وہ ایک زندگی بچانے کا پروفیشن تھا اور کافی بہتر پروفیشن تھا۔ لیکن وکالت میں مجھے جو عزت و احترام ملا ہے اب وہ افسوس ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب میں ایک وکیل ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ وکالت خود اپنے آپ میں کافی اچھا پروفیشن ہے۔ اس کے ذریعہ لوگوں کی عزت بچائی جاتی ہے اور انہیں ان کی مصیبت سے نکالنے کا کام ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں اب میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر گھر میں ایک ایڈوکیٹ ضرور ہونا چاہئے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ میں نے خود اپنے دو بیٹوں کو ایڈوکیٹ بنایا ہے، جس میں سے میرا بڑا بیٹا بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل قانونی جانکاری نہیں ہونے سے کئی سارے مسئلہ سامنے آتے ہیں اور خواہ مخواہ لوگ دشواریوں میں الجھ جاتے ہیں۔ آج کی ضرورت ہے کہ ہر فیملی میں، ہر خاندان میں ایک بچہ کو ضرور ایڈوکیٹ بنایا جائے۔

خورشید عالم  کی کچھ یادیں 


غریبوں کو قانونی مدد

خورشید عالم غریب اور ضرورت مندوں کا مقدمہ بھی لڑتے ہیں اور مسلم سماج میں قانونی بیداری لانے کی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ مسلم تنظیموں کے مختلف پروگرام میں انہیں بلایا جاتا ہے وہ قانون کی اور لیگل جانکاری مہا کرانے کے تعلق سے نہ صرف پروگرام میں شرکت کرتے ہیں بلکہ باقاعدہ لوگوں کے درمیان قانونی بیداری کا پروگرام بھی چلاتے ہیں۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ وہ آل انڈیا لائرس کاؤنسل کے سینٹرل کمیٹی کے میمبر بھی ہیں، اس کا کام ہے غریبوں کو قانونی مدد کرنا، انہیں جیل سے چھڑانا اور ان کا کیس لڑنا۔ انہوں نے بتایا کہ کافی لوگوں کو ہم لوگوں نے مدد پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کافی لوگوں کو جیل سے چھڑایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غریب عوام کو قانون کی جانکاری نہیں ہوتی ہے اور پیسہ کی کمی کے سبب وہ قانونی چارہ جوئی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم لوگ ایسے لوگوں کو مدد پہنچاتے ہیں جو معاشی اعتبار سے کمزور ہیں اور کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس چکیں ہیں۔

ہر گھر میں ایک بچہ کو بنائے ایڈوکیٹ

خورشید عالم کا کہنا ہے کہ انہیں طالب علمی کے زمانے میں کوئی مالی مشکلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا تاہم یہ ضرور تھا کہ پڑھائی میں کبھی بھی کوتاہی نہیں کی اور اپنے کام میں ہمیشہ لگے رہے۔ مسلسل محنت کیا اور آج اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر محنت اور مسلسل کام کے کوئی بھی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ خاص طور سے وکالت کے پروفیشن میں تو بلکل ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا میں جب وکیل بن گیا تو پوری طرح سے وکالت پر توجہ دی۔ شروع میں کرمنل لا کا کیس لڑا، پھر میں سول اور دوسرے مقدموں کو لڑنے لگا۔ ان کا کہنا ہے کہ آج میں ہر طرح کا مقدمہ لڑتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وقت ہمیشہ بدلتا رہتا ہے آج کا وقت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہر گھر میں ایک ایڈوکیٹ ضرور ہو۔ خورشید عالم نے مسلم سماج سے بھی اپیل کیا ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو لیکر پورا فوکس رہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں۔ ساتھ ہی گھر میں ایک بچہ کو ضرور ایڈوکیٹ بنائے تاکہ حال اور مستقبل میں آنے والے مسئلہ سے نپٹنے کی وہ خود تیاری کر سکے اور قانونی اعتبار سے سماج بیدار ہو سکے۔

سیاست سے دلچسپی

خورشید عالم کا ایک سیاسی کیریر بھی رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ جے پی مومینٹ میں شامل ہوئے تھے اور جیل گئے اس کے بعد انہوں نے سیاست میں بھی اپنا قسمت آزمایا تھا۔ اس وقت کے کئی بڑے سیاسی رہنماؤں سے انکے گہرے مراسم تھے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم چندر شیکھر جی سے کافی اچھا رشتہ رہا تھا۔ کانگریس پارٹی میں رہے بعد میں لیفٹ پارٹی جوائن کیا۔ 2000 میں وہ اسلام پور سے مالے کے ٹکٹ پر بہار اسمبلی کا انتخاب بھی لڑے لیکن انہیں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں انہوں نے سیاست کو چھوڑ دیا اور پوری طرح سے اپنے وکالت کے پروفیشن پر گامزن رہے۔

سماجی کاموں سے گہرا لگاؤ

خورشید عالم کا خاندانی پش منظر ایسا رہا ہے جہاں ان کی شروع سے ہی سماجی و فلاحی کاموں میں دلچسپی رہی ہے۔ خورشید عالم کا کہنا ہے کہ وہ قانونی بیداری لانے کے سلسلے میں مختلف مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح بلا تفریق مذہب و ملت وہ ہر کسی کو قانونی مدد پہنچاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان 10 پشتوں سے ایک جوائنٹ فیملی ہے۔ خورشید عالم بہار شریف میں مختلف اسکول بھی چلاتے ہیں جس کی دیکھ ریکھ ان کے چھوٹے بھائی کرتے ہیں۔ اسکول میں یتیم اور حافظ بچوں کو مفت تعلیم دینے کا انتظام ہے۔ انہوں نے کہا کے میرے والد صاحب کے نام پر سدر عالم میموریل اسکول قائم ہے جہاں بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کا انتظام ہے۔ کئی بی ایڈ کالج بھی چل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی ادارہ کے بہتر خدمات کے سبب حال میں بہار کے گورنر نے انہیں اعزاز سے نوازا ہے۔ خورشید عالم مانتے ہیں کہ آج سماج کو سب سے زیادہ ضرورت تعلیم کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ سماجی سطح پر تعلیم کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔