ڈاکٹر احمد عبدالحئ : سرجری کی دنیا میں بہار کا فخر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 14-05-2024
ڈاکٹر احمد عبدالحئ : سرجری کی دنیا میں بہار کا فخر
ڈاکٹر احمد عبدالحئ : سرجری کی دنیا میں بہار کا فخر

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

دنیا کی عظیم شخصیتیں تب اپنے عظمت کی بلندیوں پر پہنچتی ہے جب اس نے زمانہ کی گردش اور اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کیا ہوتا ہے۔ کامیابی کے لئے دولت سے زیادہ جنون کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کے اندر کا جنون، ہمت اور حوصلہ کامیابی کے اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں دنیا ادب سے اس شخص کا نام لیتی ہے اور وہ نام ہی کسی پروفیشن کی پہنچان بن جاتا ہے۔ اسی میں سے ایک نام ڈاکٹر احمد عبدالحئ کا ہے۔ ڈاکٹر احمد عبدالحئ ریاست اور بیرونی ریاست میں یکساں مقبول ہیں۔ وہ سرجری کی دنیا کے وہ نام ہیں جس پر اس پروفیشن سے تعلق رکھنے والے لوگ ناز کرتے ہیں۔ آواز دی وائس نے لیجنڈ شخصیت ڈاکٹر احمد عبدالحئ سے تفصیلی بات چیت کیا۔

بہار کے مسلمانوں میں امیر ترین خاندان میں ڈاکٹر احمد عبدالحئ کی پیدائش 20 جولائی 1942 کو پٹنہ میں ہوئی۔ ابھی ملک آزاد نہیں ہوا تھا اور آزادی کا پروانہ ملک کو ملنے ہی والا تھا۔ ان کے والد محترم خود ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ انگریزی حکومت میں ایک نامی گرامی ڈاکٹر تھے۔ ان کا نام ڈاکٹر محمد عبدالحئ تھا۔ ملک آزاد ہوا تو ان کی بہترین خدمات کے سبب انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تین بھائی اور ایک بہن میں ڈاکٹر احمد عبدالحئ سب سے بڑے ہیں۔ والد محترم نے کافی اہتمام کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص انتظام کیا۔ پٹنہ کے سب سے پوش علاقہ میں رہائش تھا اور رہنے سہنے کا کافی اعلیٰ معیار تھا۔ بچپن میں ڈاکٹر احمد عبدالحئ کو گھر پر دین کی اور قرآن مجید کی تعلیم دی گئی۔ جب وہ چھ سال کے ہو گئے تو ان کا داخلہ شہر کے باوقار ادارہ سینٹ زیویئر اسکول میں کرایا گیا۔ ان کی والدہ خود بھی ایک اعلیٰ اور اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی بچوں کی دیکھ بھال ان کی نگرانی میں ہوئی۔ ڈاکٹر احمد عبدالحئ شروع سے ہی پڑھنے لکھنے میں با صلاحیت تھے لہذا اسکول کے ہر جماعت میں انہوں نے ٹاپ کیا۔

جب میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینٹ زیویئر اسکول میں قریب 9 سال تک میں نے تعلیم حاصل کی۔ اس وقت اس اسکول میں امریکن ٹیچر تھے وہ سب پادری تھے۔ کافی اچھی پڑھائی ہوتی تھی۔ اس وقت ایک کورس چلتا تھا جس کا نام سینئر کیمبرج تھا۔ اس کی کاپی انگلینڈ جاتی تھی اور وہاں سے رزلٹ آتا تھا۔ اس کورس کا فائدہ یہ تھا کی آئی اے سی کا آدھا سے زیادہ کورس کور ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ امتحان 1958 میں کافی اچھے نمبروں سے میں نے پاس کر لیا۔ پھر میرا داخلہ پٹنہ کا ممتاز ادارہ پٹنہ سائنس کالج میں ہو گیا۔ سائنس کالج میں، میں چند مہینہ گزارا، میرا آئی اے سی مکمل ہو گیا اور اس کے بعد پٹنہ یونیورسیٹی کے پٹنہ میڈیکل کالج میں میرا داخلہ ہو گیا۔ اس زمانہ میں کمپٹیشن نہیں تھا۔ آئی اے سی کے نمبر کے بنیاد پر ایڈمیشن ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کی پٹنہ میڈیکل کالج میں میرا داخلہ 1960 میں ہوا تھا۔

awazurdu

awazurdu ڈاکٹر احمد عبدالحئ اپنی کلینک  میں 


تعلیم حاصل کرنے کا رہا جنون

 ڈاکٹر احمد عبدالحئ کے مطابق وہ شروع سے ہی ایک ٹاپر طالب علم رہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا ایک جنون تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ بغیر جنون، محنت اور دیوانگی کے انسان کسی بھی فیلڈ میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ ایک ڈاکٹر بننے کا سفر تو اور بھی مشکل ہے، اسی لیے ہر اس شخص کو جو اس فیلڈ میں آنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت کرنے والا ہو اور اپنے وقت کا پابند ہو۔ ڈاکٹر حئی کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ خاندان میں کچھ غیر تحریری قانون بن جاتا ہے کہ والد صاحب ڈاکٹر ہیں تو ان کے فرزند بھی ڈاکٹر بنے گے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں بھی یہ پروفیشن کافی اچھا لگتا تھا۔ گھر میں سب کا یہ خیال تھا کہ میں ڈاکٹر میں ایک فزیشن بنوں، اسی لیے کے والد صاحب بہت مشہور فزیشن ڈاکٹر تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ میرے ایک دوست تھے ڈاکٹر سید احسان احمد، وہ بہت قریبی دوست تھے۔ انہوں نے کہا کہ سرجن کے بارے میں کیوں نہیں غور کرتے ہو۔ پھر انہوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن سرجری میں کام کر کے دیکھو۔ ڈاکٹر حئی کا کہنا ہے کہ پہلی بار جب میں سرجری میں گیا اسی دن یہ فیصلہ ہو گیا کہ میں سرجن بنوں گا اور آخر کار میں سرجن بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ 1965 میں ایم بی بی ایس اول نمبرات سے پاس کیا۔ پھر پی ایم سی ایچ سے ہی جنرل سرجری میں 1969 میں ایم ایس کیا۔ اس کے بعد 1971 میں ایم ایس آرتھوپیڈکس سرجری کی ڈگڑی حاصل کی۔ ٹاپر ہونے کے سبب بےشمار میڈلس میں نے حاصل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اب سرجری میرا ایک جنون بن گیا تھا۔ سرجری سیکھنے اور سرجری کرنے کی دیوانگی تھی۔

پروفیسر بنے اور مشکل ترین آپریشن کی شروعات

ڈاکٹر احمد عبدالحئ کے مطابق 1977 میں ان کی نوکری پٹنہ میڈیکل کالج میں ایک استاد کی حیثیت سے ہوئی۔ قریب 25 سالوں تک انہوں نے پی ایم سی ایچ میں پروفیسر اور سرجری کے صدر شعبہ سرجری کے عہدہ پر رہتے ہوئے سیکڑوں مشکل ترین آپریشن کو انجام دیا۔ ان میں کئی بڑی شخصیتیں تھی جن کا انہوں علاج کیا۔ ایک واقع انہوں نے سنایا کہ ایک دفع سابق وزیر اعظم چندر شیکھر جو اس وقت پی ایم نہیں بنے تھے وہ بیمار ہوئے۔ لکھنؤ میں علاج کرا رہے تھے۔ وہاں کے ڈاکٹر نے انہیں دہلی ریفر کر دیا وہاں بھی ان کے پیٹ کا درد ٹھیک نہیں ہوا۔ دہلی کے ڈاکٹرس نے انہیں پٹنہ جانے کی صلاح دی وہ پٹنہ کے پی ایم سی ایچ میں زیر علاج ہوئے۔ ڈاکٹر حئی نے بتایا کہ ایک ہمارے پروفیسر تھے ڈاکٹر یو این شاہی۔ ڈاکٹر یو این شاہی اور میں نے ان کا آپریشن کیا تھا۔ بعد میں وہ ملک کے وزیر اعظم بنے اور وزیر اعظم کی حیثیت سے جب وہ ایک بار پٹنہ آئے اور اشوک راج پتھ سے گزر رہے تھے، اسی سڑک پر پی ایم سی ایچ ہے تو کسی نے کہا کہ یہ پی ایم سی ایچ ہے۔ تو چندر شیکھر جی نے کہا کہ یہی ہمارا علاج ہوا تھا اور ہم لوگوں سے انہوں نے ملاقات کی۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت پی ایم سی ایچ کا کتنا بڑا رتبہ تھا اس سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر حئی کے مطابق امریکہ، انگلینڈ جیسے ملکوں میں لیکچر دیا، کام بھی کیا لیکن جو کچھ میں نے سیکھا وہ پی ایم سی ایچ سے ہی سیکھا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر احمد عبدالحئ نے 1977 سے اپنے رٹائر منٹ 2000 تک 50 سے زیادہ سرجن کو پی ایچ ڈی کرایا۔ 1978 میں ڈاکٹر احمد عبدالحئ نے انگلینڈ سے ایف آر سی ایس کی ڈگڑی حاصل کی۔ 1984 میں انہوں نے امریکہ سے ایف آئی سی ایس کی ڈگڑی اور 1988 میں ایف آئی اے ایم ایس کی ڈگڑی حاصل کی۔ انہوں نے 150 سے زیادہ سائنٹیفک مقالہ لکھا اور مختلف ملکوں میں لیکچر دئے۔ وہ ملک کے پہلے مسلم ڈاکٹر ہیں جو آل انڈیا سرجن ایسوسی ایشن کے قومی صدر بنے۔

awazurdu ڈاکٹر احمد عبدالحئ کا فیملی فوٹو


awazurdu بائیں سے ۔۔۔ ڈاکٹر احمد عبدالحئ کے بھائی بہن کے ساتھ بچپن کا فوٹو۔ دائیں جانب  ڈاکٹر احمد عبدالحئ کے والد ڈاکٹر محمد عبدالحئ


جب دو کمروں سے شروع ہوا خود کا اسپتال

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کی پی ایم سی ایچ سے رٹائر منٹ کے بعد لالو پرساد یادو نے ان سے کہا کہ وہ پی ایم سی ایچ میں رہے، ان کی مدت بڑھا دی جائے گی۔ ڈاکٹر حئی کے مطابق میں نے انکار کر دیا اور پوری مستعدی کے ساتھ خود کے اسپتال کے لئے کام کرنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار خود کا کلنک قائم کرنے کا مشورہ ان کے نانا جان نے دیا تھا۔ نانا ایس ایم شریف ایک خاندانی آدمی تھے اور پٹنہ کا شریف کالونی ان کے نام پر ہی بنا ہے وہیں ان کا گھر تھا اور اس وقت پورے کالونی میں نانا کا ہی  ایک گھر ہوا کرتا تھا، اب تو پورا ایک محلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ 1969 کی بات ہے جب نانا کے شریف کالونی کے مکان میں حئی کلنک کے نام سے ایک اسپتال کی بنیاد ڈالی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا فضل رہا کہ دو کمروں سے شروع ہوا اسپتال جلد ہی 40 کمروں کا ایک چھوٹا سا اسپتال بن گیا۔ مریضوں کا تاتا لگا رہتا تھا۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب ایک بڑا اسپتال بنایا جائے۔ یہاں جگہ کم پڑ رہی تھی اسی لئے پٹنہ کے راجہ بازار سمن پورا میں تین چار بگہ کی ایک  ہماری زمین تھی وہاں اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ والد صاحب نے کافی حوصلہ بڑھایا اور اس وقت بہار کے گورنر تھے ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب انہوں نے بھی کافی اسرار کیا کہ تم لوگ اس کام کو زمین پر اتاروں۔ 1985 میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور اس وقت تک یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ ایک اچھا اسپتال بنانا ہے اور دیکھتے دیکھتے 100 بیڈ کا ایچ ایم آر آئی اسپتال بن کر تیار ہو گیا۔ انہوں نے کہا کی اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور اللہ کا یہ ہمارے اوپر ایک بڑا فضل تھا۔

جب ساڑھے تین سو کمروں کا بنا ٹاپ اسپتال

ڈاکٹر احمد عبدالحئ کا کہنا ہے کہ جب ایچ ایم آر آئی اسپتال بن گیا اور ہم لوگوں نے کام کرنا شروع کیا تو اسپتال کو مینج کرنے کا ایک مسئلہ سامنے کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ مریض کو دیکھنا اور سرجری کرنا ایک بات ہے اور مینج کرنا ایک دوسری بات۔ مینج کرنا میرے مزاج میں نہیں تھا۔ پھر بہت جگہ سے بڑی بڑی کمپنیوں کا اوفر آنے لگا کی ہم لوگ آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ کئی کارپوریٹ کا اوفر تھا لیکن ہم لوگوں نے پارس کا انتخاب کیا یہ اس وقت نیا نیا اس فیلڈ میں آ رہے تھے۔ پارس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر دھرمیندر ناگر تھے ان سے بات ہو گئی اور پارس کا میں نے انتخاب کیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت بہار میں کوئی کارپوریٹ کے لوگ آنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم لوگوں کے ساتھ پارس نے کام کرنا شروع کیا اور ایچ ایم آر آئی اسپتال کا نام اب پارس ایچ ایم آر آئی ہو گیا۔ ساڑھے تین سو بیڈ کا اب یہ اسپتال بہار کے ٹاپ اسپتال میں سے ایک ہے۔

awazurdu ڈاکٹر احمد عبدالحئ بہار کے دو بڑے سیاستدانوں لالو پرساد اور نتیش کمار کے ساتھ


سماجی کام اور صوم و صلات کی پابندی

ڈاکٹر احمد عبدالحئ کا سماجی کاموں میں شروع سے ہی دلچسپی رہا ہے۔ وہ صوم و صلات کے بیحد پابند ہیں۔ کئی مدرسہ اور یتیم خانوں کے انتظامیہ ہیں۔ خود فلیم نام سے ایک سماجی تنظیم چلاتے ہیں اور غریب بچوں کو تعلیم سے ہمکنار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ ڈاکٹر حئی مسلم اور ہندو سبھی سماج میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک دن سب کو اس دنیا سے رخصت ہونا ہے، سب کو مرنا ہے اور ایک دن اس مالک کے سامنے، خالق کائنات کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنی زندگی میں کئے گئے ہر کام کے سوال کا جواب دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جو سوال جواب ہوگا تو مجھ سے اور میرے ڈرائیور سے جو سوال ہوگا اس میں فرق ہوگا۔ اللہ نے مجھے اتنی دولت، شہرت دی ہے تو سوال بھی اسی اعتبار سے پوچھا جائے گا اور اگر ہم نے لوگوں کی مدد نہیں کی تو ہماری پکڑ ہوگی۔ اسی لیے جو خدمت ہو سکتی ہے اس کو ہر قیمت پر کرنا ضروری ہے۔

خاندانی پش منظر

ڈاکٹر احمد عبدالحئ تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ بڑے خود ہیں اور دو بھائی امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔ ان میں سے ایک بھائی ڈاکٹر حامد عبدالحئ کا کویڈ کے دوران امریکہ میں انتقال ہوگیا۔ چھوٹے بھائی محمود عبدالحئ امریکہ میں ہیں اور وہاں کے بڑے ڈاکٹر میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بہن بھی امریکہ میں رہتی ہیں۔ ڈاکٹر احمد عبدالحئ بھی امریکہ گئے تھے لیکن والدین کی خدمت کے لیے انہوں نے یہی رہنا مناسب سمجھا اور پٹنہ میں رہ کر خدمت خلق کا کام انجام دے رہے ہیں۔

 عمر  82سال مگر کام کا جنون

1973 میں ڈاکٹر احمد عبدالحئ کی شادی پٹنہ یونیورسیٹی کے صدر شعبہ عربی رہے پروفیسر ڈاکٹر سید احمد صاحب کی صاحب زادی ہشمت عبدالحئ سے ہوئی۔ ان کے تین بچہ ہیں ایک بیٹا اور دو بیٹی۔ تنیوں ڈاکٹر ہیں۔ بیٹا ڈاکٹر ایم عبدالحئ ان کے ساتھ پٹنہ میں رہتے ہیں اور ایک بیٹی امریکہ میں اور دوسری بیٹی انگلینڈ میں رہتی ہیں۔ دونوں داماد بھی ڈاکٹر ہیں اور اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں۔ 82 سال کے عمر میں بھی ڈاکٹر احمد عبدالحئ روزانہ مریض دیکھتے ہیں اور پورے طور پر اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کام ہی سب سے بڑی دولت ہے اور جب تک انسان اس دنیا میں ہے اسے لوگوں کی خدمت اور کام پر پورے لگن اور توجہ کے ساتھ مصروف عمل رہنا چاہئے۔