۔۔۔10 دسمبریوم پیدائش پر خصوصی مضمون ۔۔۔
معصوم مرادآبادی
مولانا محمد علی، ایک نڈر، حوصلہ مند اور جوش وجذبہ سے سرشار ایسے مکمل انسان تھے جن کی ہماری جدوجہد آزادی اور قومی تحریک میں دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ خدا نے ان میں بیک وقت اتنی خوبیاں یکجا کردی تھیں’ جو عام طورپر کسی ایک انسان میں بہت مشکل سے یکجا ہوپاتی ہیں۔ تحریرو تقریر، میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم المرتبت رہنماؤں میں ان کی اپنی منفرد شناخت ہے۔
مولانا محمد علی جوہر، ان لوگو میں سے تھے، جنہوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کی راہیں متعین کیں۔ ان کی سوچ بالکل صاف اور واضح تھی۔ وہ لاگ لپیٹ کے آدمی نہیں تھے۔ اسی لیے کبھی مصلحت نے ان کے قدموں کو نہیں روکا۔ وہ جو صحیح سمجھتے تھے اسے جوں کا توں بیان کرنے یا اس کا عملی اظہار کرنے میں انہیں ذرا بھی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ تحریک آزادی کے بعض کوتاہ نظر مؤرخین نے انہیں جوشیلا اور جذباتی قرار دے کر ان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا محمد علی نے اپنے جوش وجذبہ سے ملک کی آزادی کے لیے جو کام لیا ہے’ اسے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ وہ بیک وقت ایک بہترین ادیب، صحافی، شاعر، انشاء پرداز، مقرر اور مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خداترس، نیک دل انسان تھے۔
مولانا محمد علی جوہر کی پیدائش10؍دسمبر1878ء کو ریاست رام پور کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد عبدالعلی خاں، والی رام پور کے مصاحبین میں شامل تھے۔ محمد علی ابھی دوبرس کے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ان کی تعلیم وتربیت کا بار ان کی والدہ بی اماں نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم انہوں نے رام پور میں ہی حاصل کی۔ 12؍ سال کی عمر میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آگئے اور یہاں سے انہوں نے 1898 میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی نے ان کی تعلیم وتربیت میں خاصی دلچسپی لی اور انہیں انڈین سول سروسز کے امتحان میں شرکت کے لیے انگلینڈ بھیجا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ بعد کو دوبارہ انگلینڈ جاکر انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
مولانا محمد علی کی شخصیت اور کردار کی تعمیر میں ان کی والدہ بی اماں کا اہم اور بنیادی کردار رہا۔ وہ ایک انتہائی سوجھ بوجھ والی دانشمند خاتون تھیں اور آزادی کی تڑپ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اسی لیے انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں میں اس جذبہ کی ایسی آگ بھردی تھی کہ وہ ساری عمر اسی میں لگے رہے۔ اس دور میں جبکہ تحریک خلاف اپنے عروج پر تھی یہ مصرعے نوجوانوں کے حوصلوں اور امنگوں کو دوبالا کرتے تھے۔
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دینا
بوڑھی ماں کا کچھ غم نہ کرنا
انگلستان سے واپس آکر مولانا محمد علی نے کچھ عرصہ رام پوراور بڑودہ میں ملازمت کی لیکن وہاں ان کا دل نہ لگا اور ۱۱ جنوری1911ء کو انہوں نے کلکتہ سے انگریزی اخبار ‘‘کامریڈ’’ جاری کیا۔ بعدازاں 1912میں دہلی سے اردوروز نامہ ‘‘ہمدرد’’ کا اجراء کرکے دنیائے صحافت میں دھوم مچادی۔ ‘‘کامریڈ’’کو بھی وہ کلکتہ سے دہلی لے آئے اور انہوں نے اس اخبار کے ذریعہ انگریز ی انشاء پردازی کے ایسے جوہر دکھائے کہ ایچ جی ویلز جیسا انگریزی ادیب یہ کہنے پر مجبورہوا کہ ‘‘محمد علی نے برک کی زبان، میکالے کا قلم اور نیپولن کا دل پایا ہے۔’’
مولانا محمد علی کو زبان پر بلا کی قدرت تھی اور ان کے قلم میں ایسا جادو تھا کہ وہ انگریزی ہو یا اردو جب لکھتے تو پڑھنے والے ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی ملک وقوم کی خدمت کے لیے وقف کردی اور خوداپنی ذات کے لیے کچھ حاصل کرنے کی تگ ودو میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی ہوش مندی، بہادری، بے باکی ، زورقلم وقوت گفتار کی تعریف کرنے کے لیے ایچ جی ویلز کو اپنے زمانے کے کیسے کیسے ناموروں کا سرمایہ زندگی سمیٹنا پڑا ہوگا۔ اسے تنہا کوئی شخص ایسا نہ ملا جس میں مولانا محمد علی جوہر کے دل ودماغ، قلم اور زبان کی تمام صلاحیتیں جمع ہوں۔
دراصل 1914 میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی اور جرمنی کے حلیف کی حیثیت سے ترکی برطانیہ کے مقابلہ میں آگیاتو ‘‘کامریڈ’’ اخبار نے ترکوں کی حمایت کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو تنقید وملامت کا نشانہ بنایا۔ یہ بات ہندوستان میں موجود غاصب انگریز حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھائی، لہٰذا حکومت کا قہر ان پر نازل ہوااور مولانا محمد علی نظر بند کردیئے گئے۔ ‘‘کامریڈ’’ کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ دسمبر 1919میں انہیں قید سے رہائی ملی لیکن اس وقت تک عوام میں انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوچکی تھی اور یہیں سے بحیثیت لیڈر ان کی تعمیر کا عمل شروع ہوا۔ بعدازاں ان کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی تعداد امرتسر میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوئی اور ایک صحافی سے بڑھ کر ایک سیاسی قائد کے طورپر ان کی شناخت پروان چڑھی۔
سال 1919 میں ہی خلاف عثمانیہ کے تحفظ کے لیے جب مرکزی خلافت کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت علی برادران بیتل جیل میں قید تھے لیکن جب وہ رہا ہوئے تو خلافت کمیٹی پر چھاگئے۔ اس طرح مولانا محمد علی نے آہستہ آہستہ ایک کل ہند سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرلی اور ملک بھر میں گھوم گھوم کر مسلمانوں کو ترک موالات کا پیغام دیا۔ انہوں نے پوری قوم کے اندر ایک ولولہ اور جوش پیدا کردیا ۔ بقول خود
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی
نقد جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہرؔ
کام کرنے کا یہی ہے تمہیں کرنا ہے یہی
فروری 1920میں وہ ایک وفد لے کر اس غرض سے انگلینڈ گئے کہ خلافت کے بارے میں مسلمانوں کے موقف سے برطانوی حکومت کو آگاہ کرسکیں۔ یہ وفد اکتوبر1920میں واپس ہندوستان آگیا اور واپسی کے بعد مولانا محمد علی نے اپنے ایک اور خواب کو عملی جامہ پہنایا ، وہ تھا دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام۔ 29؍ اکتوبر 1920ء کو مولانا محمد علی نے مہاتما گاندھی کو ساتھ لے کر کالج کی مسجد کے ہال میں ایک نئے تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا جو سرکاری انتظام سے آزاد تھا۔ اس کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ رکھا اور اس کا افتتاح دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمودحسن سے کرایا۔ مولانا محمد علی22 نومبر1920کو جامعہ کے اولین وائس چانسلر مقرر ہوئے مگر اس حیثیت سے وہ صرف چھ مہینے کام کرسکے۔ اپریل1921میں مدراس جاتے ہوئے والٹائیر کے اسٹیشن پر گرفتار کرلیے گئے۔ جرم یہ تھا کہ انہوں نے کچھ دن پہلے کراچی میں ایک ایسی تقریر کی تھی جس سے مسلمان سپاہیوں کے دل میں انگریزی سرکار کے خلاف منافرت کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس قید سے انہیں اگست1923میں رہائی ملی۔
دسمبر1923میں مولانا محمد علی جوہرکو کانگریس کاصدر منتخب کیاگیا لیکن وہ غالباً ایک برس بعد ہی اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے1924میں ‘‘کامریڈ’’اور ‘ہمدرد’دوبارہ نکالنا شروع کیے۔لیکن اس بار انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔1926میں ‘‘کامریڈ’’ اور مارچ 1929 میں ‘‘ہمدرد’’ کی اشاعت بند ہوگئی’ لیکن جتنے عرصہ بھی یہ دونوں اخبار زندہ رہے’ برطانوی حکومت کے ایوانوں میں ان کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔ انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعہ نہ صرف برطانوی سامراج کی چولیں ہلائیں بلکہ صحافت کو بھی ایک نیارنگ وآہنگ عطا کیا۔ ان اخبارات کی اشاعت کے پس پشت تجارتی مقاصد نہ تھے بلکہ یہ ایک مشن کے طورپر آزادی کی تحریک کو پروان چڑھانے اور آزادی کے متوالوں میں نیا جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لیے منظرعام پر آ ئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے ان اخبارات سے اوزار حرب کا کام لیا۔
مولانا محمد علی اور شوکت علی نے گاندھی جی کے شانہ بشانہ تحریک آزادی کو پروان چڑھایا۔ تحریک خلافت میں گاندھی جی کی شرکت دراصل علی برادران کی کوشش کا ہی نتیجہ تھی۔ 1915سے1920تک کے سیاسی حالات کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ علی برادران کی کوشش اور سعی سے قوم میں مہاتماگاندھی کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی میں اضافہ ہوا۔ علی برادران جب بھی مسلمانوں میں جاتے وہ گاندھی جی کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ جامعہ ملیہ کے قیام کی تقریب ہو یا پھر کانپور کی مسجد کا افسوسناک واقعہ’ علی برادران مہاتماگاندھی کو خاص اہمیت دیتے تھے اور یہ تینوں رہنما اس دور میں جنگ آزادی کے سرخیل کہلاتے تھے۔
مولانا محمد علی کا سب سے اہم کارنامہ تحریک خلافت کو قرار دیاجاسکتا ہے کیونکہ اس تحریک کے حامیوں نے ترکی کی زبردست حمایت کی اور ببانگ دہل انگریزوں کو وطن چھوڑنے کا حکم دیا۔ گاندھی جی نے تحریک ترک موالات کے تحریک خلافت کے ساتھ اشتراک عمل پر زور دیا اور دونوں تحریکیں انگریزوں کے لیے زبردست چیلنج بن گئیں۔ گاندھی جی اور مولانا محمد علی جوہر کے اشتراک عمل کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد ویگانگت کی ایک ایسی خوشگوار فضا قائم ہوئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مولانا محمد علی اور شوکت علی کا نام خاص طورپر تحریک خلافت سے وابستہ ہے جو کہ ہندوستان کی قومی تحریکوں کا ایک حصہ تھی۔ اس لیے خلافت کی تحریک کو ہندوستان کی تاریخ سے جدا کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔ یہ بات صحیح ہے کہ خلافت عثمانیہ کا مرد بیمار بستر مرگ پر پڑا ہو اتھا اور خلافت اسلامیہ کا تحفظ دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی مسئلہ بن چکا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک خاص طورپر ہندوستان میں مسلمانوں کے ملی اور قومی جذبات کو بیدار کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔ جہاں تک جذباتیت کا تعلق ہے’ مولانا محمد علی جوہر اوران کے ہم عصر اکابرین کی مجبوری یہ تھی کہ وہ برطانوی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو ہر صورت میں روکنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں برطانوی سامراج عالم اسلام کی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی شیرازہ بندی کو توڑدینے کی زبردست سازشیں کررہا تھا ، اس لیے ان بزرگوں کے سامنے تحریک خلافت بھی برطانوی سامراج سے دنیا کو نجات دلانے کا ایک وسیلہ تھی۔ اب جہاں تک مذہبی جذبات واحساسات کا تعلق ہے مولانا محمد علی جوہر کے تمام ہم عصر اکابرین خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان سب کے سب مذہب کے نام پر قومی تحریکوں کو آگے بڑھارہے تھے’ یہاں تک کہ مہاتماگاندھی بھی ہندوستان میں رام راج یعنی آزادی اور انصاف کی حکومت کاتصور پیش کررہے تھے۔
آج آزاد ہندوستان میں بعض کوتاہ قلب اور تنگ نظر لوگ یہ سوال بڑی شدت سے اٹھاتے ہیں کہ مذہب پہلے ہے یا وطن؟ اس سوال کا سب سے بھرپور اور مدلل جواب مولانا محمد علی جوہر نے لندن کی گول میز کانفرنس کی اپنی معرکۃ الآرا تقریر میں کچھ یوں دیا تھا۔
میرے پاس ایک تمدن ہے۔ ایک سیاسی نظام ہے۔ ایک نظریۂ زندگی ہے اور اسلام ان سب کا امتزاج ہے۔ جہاں تک احکام خداوندی بجالانے کا تعلق ہے’ میں اول بھی مسلمان ہوں، دوئم بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں، یعنی مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں، لیکن جہاں ہندوستان کا سوال آتا ہے جہاں ہندوستان کی آزادی کا سوال آتا ہے یا جہاں ہندوستان کی فلاح وبہبود کا سوال آتا ہے۔ میں اول بھی ہندوستانی ہوں اور آخر بھی ہندوستانی ہوں اور ہندوستانی ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔
لندن کی گول میز کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا۔
میں جس مقصد سے یہاں آیا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جاسکتا ہوں جب کہ میرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ ہوگا، ورنہ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیر ملک میں جو اگر آزاد ہے، مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔’’
لندن ہی میں 4؍ جنوری 1931کو مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سرزمین بیت المقدس (یروشلم) میں دفن ہوئے۔ رسول اللہؐ کی معراج بھی بیت المقدس کے راستے ہوئی تھی، اس لیے علامہ اقبال نے اپنی فارسی نظم میں مولانا محمد علی کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیاکہ ۔۔۔ سوئے گردوں رفت ازاں راہے کہ پیغمبر گزشت
یعنی وہ آسمان پہ اس راستے سے گئے جو پیغمبراسلام کا معراج کا راستہ تھا۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھارکر ایک قوت بنادیا تھا۔ انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی۔ بقول مولانا سیدسلیمان ندوی‘‘وہ شکست خوردہ فوج کا آخری سپاہی تھا’جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔ آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گراکہ پھر کھڑا نہ ہوسکا۔
مولانا محمد علی کے وصال کو عرصہ بیت چکا ہے لیکن فضاؤں میں آج بھی ان کی یہ آواز گونج رہی ہے
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےلکھا ہے کہ۔۔۔
محمد علی کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ بڑے تھے لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ تنگ دلوں اور تنگ نظروں کا فیصلہ ہے۔ مرد غازی کے کارنامے کا اندازہ مقبولیت کی وسعت، مال غنیمت کی فراوانی،جشن وجلوس کی ہماہمی وطرب انگیزی، تمغہ واسلحہ کی جنگ اور جھنکار سے نہیں کیاجاتا، بلکہ اس کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی تلوار، بکھری ہوئی زرہ، بہتے ہوئے لہو، دہکتی ہوئی روح، دمکتے ہوئے چہرے اور ڈوبتے ہوئے سورج کے وقت اس نے جنگ کیسے کی۔
آگے لکھتے ہیں ----
کس بلاکے بولنے والے اور لکھنے والے تھے کہ بولتے تو معلوم ہوتا ابو الہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرارہی ہے، لکھتے تو معلوم ہوتا کہ کیمپ کے کارخانے میں توپیں ڈھلنے والی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ مرتب ہورہا ہے۔ ملک وملت کی جنگ اب بھی جاری ہے، لیکن نعرہ جنگ خاموش ہے۔