ابراہیم افسر:جستجو، لگن اور محنت کا استعارہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 16-07-2024
 ابراہیم افسر:جستجو، لگن اور محنت کا استعارہ
ابراہیم افسر:جستجو، لگن اور محنت کا استعارہ

 

                                                 ڈاکٹرعمیرمنظر
                                 شعبہ اردو 
             مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
 
لکھنو آنے کے بعد دہلی میں جن لوگوں سے تعلق قائم ہوا ان میں ایک نوجوان اسکالر ڈاکٹر ابراہیم افسر(پ 1977) کا نا م سر فہرست ہے۔ان سے رابطے کا ذریعہ ڈاکٹر شاہ نواز فیاض بنے۔ایک روز فون پر گفتگو کے دوران انھوں نے رشید حسن خاں سے متعلق کسی بات پربرادرم ابراہیم افسر کا ذکر مناسب خوبیوں کے ساتھ کیا اور بتایا کہ رشید حسن خاں کی ادبی خدمات پر تحقیق کررہے ہیں۔یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ انھوں نے خان صاحب کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔اس کے بعد دلی کا جو سفر ہوا تو شاہ نواز فیاض نے ان سے ملاقات کی سبیل بھی پیدا کردی۔ملاقات چند برسوں کی ہے مگر محسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔رشید حسن خاں سے متعلق ابراہیم افسر کی جستجو اور لگن سے یہی اندازہ ہورہا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد خاں صاحب کی تحریروں تک رسائی کا ایک اہم ماخذ ابراہیم افسربھی ہوں گے۔ان کی تحقیق کا موضوع تو ”رشید حسن خاں کی ادبی جہات“تھا۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایوارڈ ہونے کے بعد یہ کتاب 2021میں شائع ہوئی۔ 
ڈاکٹر ابراہیم افسر ایک عرصے سے رشید حسن خاں سے متعلق لوگوں کی تحریروں کو جمع کررہے تھے۔ 2019میں ان تحریروں کو دوجلدوں میں ”رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں“ کے نام سے شائع کرچکے ہیں۔ رشید حسن خاں کے انٹر ویوز پر مشتمل ایک کتاب بھی مرتب کرکے اسی برس شائع کی۔ ایک کتاب ”نیر مسعود بنام رشید حسن خاں“ 2021میں شائع ہوئی۔اس کے علاوہ رسائل و جرائد میں رشید حسن خاں کی شخصیت اوران کے کارنامو ں سے متعلق ان کے متعدد اہم مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ چوں کہ ان کی تحقیق کا یہی میدان ہے اس لیے ان کو آسانی ضرور ہے مگر ان کی محنت اور لگن نے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے کہ کس طرح وہ رشید حسن خاں سے متعلق مختلف النوع تحریریں سامنے لارہے ہیں۔رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے(جلد اوّل2021)،رشید حسن خاں کے تحقیقی و تدوینی متعلّقات2022،رشید حسن خاں کی غالب شناسی(2022) اُردو اِملا: مسائل و مباحث(رشید حسن خاں کے حوالے سے۔2022)،معیار و میزان(رشید حسن خاں کی کتابوں پر تبصرے اور تجزیے۔2024) جیسی اہم کتابیں ان کے قلم سے نکل چکی ہیں۔بیشتر کتابیں انھوں نے خود شائع کی ہیں۔ بعض کتابوں کو انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیاہے۔ابرہیم افسر کا تعلق میرٹھ سے ہے۔تعلیمی مراحل کی تکمیل بھی وہیں ہوئی۔اس وقت تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ وہ حکومت دہلی کے شعبہئ تعلیم میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ 
رشید حسن خاں نے علم و تحقیق کی دنیا میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ان کی بیشتر کتابیں دستیاب ہیں۔ان کے بہت سے مضامین اور کتابیں ایک ادبی واقعہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی بازگشت دیر تک اور دور تک محسوس کی گئی۔اسی لیے ان کی کتابوں پر تعارف و تبصرہ ہوا نیز اد ب و تحقیق اور املا کے مسائل پر انھوں نے جو سوالات قائم کیے اس کی بازگشت آج تک ہے۔ اتفاق و اختلاف کے پہلو بھی نکلے اور اس طرح سے ان کی تحریریں ادبی غور وفکرکا سبب بنیں۔اس حوالے سے جو مضامین اور مقالے سپرد قلم کیے گئے وہ سب ہمارے سامنے نہیں ہیں لیکن ابراہیم افسر کی وجہ سے ادبی دنیا ان تحریروں سے واقف ہورہی ہے اور ان تحریروں کے مطالعہ کا موقع مل رہا ہے۔اسی سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کیسے کیسے اہم لوگوں نے خاں صاحب پر داد تحقیق دی ہے۔ان کے اٹھائے ہوئے سوالات پر اختلاف کے پہلو نکالے ہیں۔
موبائل اور انٹر نیٹ کے زمانے میں تحقیق کی آسانی ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ مواد کی دستیابی کا مسئلہ قدرے آسان ہوگیاہے۔کتابوں کی پی ڈی ایف کے چلن نے دیکھ کر کتاب پڑھنے کی روایت کو قدرے مدھم کردیا ہے۔مگر ان سب کے باوجود تلاش وجستجو کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس راہ کے تجربے ادبی زندگی کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ تحقیق رشیدی میں ابراہیم افسر نے میرٹھ،دہلی، شاہجہاں پور،آگرہ اور لکھنؤ کو ایک کردیا ہے۔ رشیدحسن خاں کے افراد خانہ سے ملاقات پر ہی بس نہیں کیا بلکہ رشید حسن خاں کے احباب کی تلاش و ملاقات، گفتگو اور مواد تک رسائی کی ضد نے بہت کچھ انھیں فراہم کردیا۔رشید حسن خاں کے احباب و متعلقین نے بھی ان کی خوب پذیر ائی کی اور گزری یادوں اور باتوں کو بھی ان کے سا منے اس طرح بیان کیا کہ اب وہ ابراہیم افسر کے ذہن سے نہیں نکل سکتیں۔رشید حسن خاں کے متعدد احباب سے نہ صرف انھوں نے ملاقات کی بلکہ ہم کلامی و ہم طعامی کا شرف بھی حاصل کیا۔رشید حسن خاں کے احباب میں ایک نام مشہور شاعر رباب رشیدی(وفات: 2022) کا ہے۔ ابراہیم افسر کی لگن اور محنت دیدنی ہے۔در اصل یہی لگن ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
شخصیات پر کام کرنے کی گنجائش اور اہمیت دونوں مسلم ہے۔ مگر سہل انگاری کے سبب ہی ان دنوں شخصی کارناموں سے متعلق موضوعات کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ ابراہیم افسر نے اپنی تحقیق کے ساتھ ساتھ رشید حسن خاں کی شخصیت، فن اور ان کی کتابوں سے متعلق تحریروں اورتبصروں کو تلاش کر کے ان کو شائع کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس نے موضوع کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔وہ قابل مبارک باد ہیں۔ امید یہ ہے کہ یہ سلسلہ بحسن خوبی انجام پائے گا۔
ابراہیم افسر اپنے کاموں کے سلسلے میں فعال ہیں۔ ان کے یہاں آج نہیں بلکہ ابھی ہے۔ اور یہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ہے۔ رشید حسن خاں کے سلسلے میں کوئی معلومات یا تحریران سے دریافت کریں تو جب تک بتا نہ دیں بلکہ وہ تحریرآپ تک بھیج نہ دیں چین سے بیٹھ نہیں سکتے۔ ان کی یہی بے چینی اور کیفیت نے ان کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے۔ لوگ مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور یہ ہیں کہ کسی کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اگر معلوم ہوجائے کہ فلاں جگہ رشید حسن خاں سے متعلق کوئی مواد یا تحریر ہے تو وہ فون کرنے کے ساتھ ساتھ گھر سے نکل پڑیں گے کہ آپ کیوں زحمت کریں گے میں آجاتا ہوں۔ان کی طبیعت کے خلوص اور شکر گزاری کے جذبے نے لوگوں کوبہت متاثر کیا ہے۔ نہ شکوہ نہ شکایت بس کام کرنے اور جلد کر نے کی آرزو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے۔ ان کی مرتبہ کتابوں کے صفحات میں اس کو محسوس کیا جاسکتاہے۔ انکساری اور خلوص کا یہی جذبہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں اساتذہ،احباب اور اپنے سے چھوٹوں کا شکریہ بھی نہایت والہانہ انداز میں ادا کرتے ہیں۔کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا۔
ابراہیم افسر صاف گو اور کھلے دل کے مالک ہیں۔ توقع اور امید کے بجائے عمل کو رہنما بناتے ہیں۔ اپنی کتابوں کے مقدمے اور دیباچے لکھتے وقت یہ نہیں خیال کرتے کہ مخاطب اس سے خوش ہوگا کہ ناراض بلکہ صرف حقیقت بیانی سے کام لیتے ہیں چاہے اس کی زد میں وہ خود کیوں نہ آجائیں۔ وہ اپنے ادبی سفر کے دوران معمولی معمولی باتوں کے ذکر سے بھی گریز نہیں کرتے شاید یہ سوچتے ہوں کہ کہیں کوئی چیز لکھنے سے رہ نہ جائے۔میزبانوں اور احباب کا ذکر اور ان کی تعریف میں کبھی بخل نہیں کرتے۔سفر کی بعض ناگزیر حالتوں کا دلچسپ بیان بھی انھیں کا حصہ ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی بھوک کا ذکرکرتے ہیں تو روٹیوں کی تعداد بھی لکھ دیتے ہیں۔احباب و متعلقین کا ایک حلقہ ہے جو ان کے اس خلوص اور لگن کا قائل ہے۔ وہ بھی اپنے احباب کی پذیرائی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے بلکہ جابجا ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
رشید حسن خاں سے متعلق تحریروں پر مشتمل ان کی کتاب”رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں (جلد دوم)چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ لاک ڈاون سے کچھ پہلے یہ کتاب شائع ہوئی تھی۔پریس سے ملتے ہی فورا ایک کاپی لکھنو کے لیے روانہ کردی تھی مگرلاک ڈاون کی وجہ سے کتاب ملنے میں دومہینے سے زائد لگ گئے مگر ملی تو اس طرح کہ جیسے آج ہی پریس سے نکل کر آئی ہو۔یہ محض ان کے خلوص کا نتیجہ ہے۔وہ جتنی جلد بھیجنا چاہتے تھے اس میں محکمہ ڈاک حارج ضرور رہا مگر جب کتاب ملی تو اس محکمہ کے لیے دل سے دعا نکلی۔
عام طوپر چند کتابوں کے بعد یا تو جذبہ سرد پڑجاتا ہے یا موضوع سے دلچسپی باقی نہیں رہتی مگر ابراہیم افسر کے یہاں اس طرح کی کوئی بات ہی نہیں۔رشید حسن خاں سے متعلق ابھی بہت کام کرنے کا وہ منصوبہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ غالب اور میرٹھ بھی ان کے پیش نظر ہے۔اس نوع کے کام دوسروں کو مہمیز کرتے ہیں اور اردو زبان وادب ایک سرگرم تعلق کا اشاریہ بھی بن جاتے ہیں۔امید ہے کہ ابراہیم افسر اپنی تصنیفی و تالیفی سرگرمیوں سے نئے نئے معرکے سرکرتے رہیں گے،ابھی ابراہیم افسر کی دریافت اور بازیافت کے بہت سے جلوے دیکھنے ہیں۔