لکھنؤ: سوامی سارنگ محرم میں کیوں بنتے ہیں توجہ کا مرکز

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-07-2024
  لکھنؤ:  سوامی سارنگ محرم میں کیوں بنتے ہیں توجہ کا مرکز
لکھنؤ: سوامی سارنگ محرم میں کیوں بنتے ہیں توجہ کا مرکز

 

آواز دی وائس: نئی دہلی

لکھنؤ میں محرم کے دوران عزاداری میں ایک سوامی جی کی موجودگی ہر کسی کو چونکا دیتی ہے، کبھی سفید اور کبھی بھگوا رنگ کے لباس میں سوامی جی ، کسی مجلس میں نم انکھوں کے ساتھ نظر اتے ہیں، تو کبھی زنجیری ماتم کرتے ہوئے، گنگا جمنی تہذیب کے شہر لکھنؤ میں ،سوامی جی اب محتاج تعارف نہیں رہے کیونکہ امام حسین سے انکی عقیدت اب نئی بات نہیں،انہیں ہر سال محرم میں مختلف مجلسوں سے  عزاداری تک دیکھا جاتا رہا ہے

جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں سوامی سارنگ موہلے کی،  جنہیں اہل لکھنؤ  مذہبی رواداری اور بین المذاہب مذاکرات کے لیے جانتے اور پہچانتے ہیں، وہ ہندوستان کے ساتھ دنیا میں امن دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کا شری سوامی سارنگ گلوبل پیس فاؤنڈیشن بھی سرگرم ہیں

 سوامی سارنگ محرم کی مجلس میں شرکت کرتے ہوئے


دراصل دسویں محرم سے قبل سوامی سارنگ نے اپنے فیس بک پیج پر یوم عاشورہ کے سلسلے میں ایک اپیل  میں لوگوں سے بلا تفریق ماتم کا حصہ بننے کی درخواست کی تھی اور امام حسین کی قربانیوں کو یاد کرنے اور دنیا کو امن کی راہ دکھانے کے لیے متحد ہونےکی بات کی،انہوں نے اس پیغام میں کہا تھا کہ- ہر سال کی طرح اس سال بھی میں امام حسین کے دکھائے ہوئے انسانیت کے راستے پر چلتےہوئے، ہندو مسلم شیعہ سنی بھائی چارے، سماجی اتحاد اور عالمی امن کی راہ پر گامزن ہوں۔آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اور ہوم عاشورہ کے موقع پر  دیانت، محبت اور حب الوطنی کے راستے پر چل کر ملک و ریاست میں امن قائم کریں۔انہوں نے پیغام میں مزید کہا کہ - ہم لکھنؤ کی وکٹوریہ اسٹریٹ پر زنجیری ماتم  کریں گے،اپنا خون عالمی امن اور محبت کی راہ پر بہائیں گے ،شہادت امام  کو زندہ رکھیں گے، تمام حقوق کے علمبردار، امن پسند۔ محب وطن اور سماجی امن کے حامیوں، تمام مذاہب اور تمام برادریوں کا خیرمقدم ہے

سوامی سارنگ کی مجلسوں میں شرکت توجہ کا مرکز ہے


کون ہیں سوامی سارنگ 

سوامی سارنگ 7 مئی 1973 کو سنگم شہر الہ آباد کے ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ پھر وہ مزید تعلیم کےلیےراجستھان پہنچے، جس کے بعد انہوں نے آئی آئی ایم احمد آباد سے گریجویشن کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لکھنؤ آ گئے، گزشتہ 20 سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے انسانیت کے امام حسین پر اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔چھوٹی عمر میں مذہبی کتابیں اور مختلف مذاہب کا مطالعہ شروع کر دیں۔ بیسویں سال میں پہلی بار کربلا کے ہیرو امام حسین کا کردار پڑھا۔ وہ ان کے طرز زندگی، اقدار اور حق کے لیے اتنی عظیم قربانی سے بہت متاثر ہیں اور اسی لیے امام حسین کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا بنیادی مقصد عالمی سطح پرامن قائم کرنا ہے، اس کے لیے وہ امام حسین کے کردار کو سامنے رکھ کر کام کر رہے ہیں سوامی سارنگ کہتے ہیں کہ جس طرح پورا شہر امام حسین کے سوگ میں ڈوب جاتا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف حق اور سچ کی لڑائی صرف شیعہ مذہب تک محدود نہیں ہےانسانیت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ظلم کہیں ہو رہا ہے تو اس کا تعلق یزید سے ہے اور اگر انسانیت کا سبق پڑھایا جائے تو کہیں امام حسین سے ہے

سوامی سارنگ جی نے کہا کہ تجربہ اور ایمان دو اہم الفاظ ہیں۔ جن کے ارد گردانسانیت نے تہذیب کی داستان رقم کی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب نے تجربات سے ایک عقیدہ نظام تیار کیا جو انسانیت کے بنیادی اصولوں کو تشکیل دیتا ہے۔ آج دنیا تنازعات اور جنگ کے دہانےپرکھڑی ہے۔ اس وقت اس خلا کو پر کرنے کے لیے کچھ انسانیت کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا انسانیت کے پلیٹ فارم پر آجائے تو تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف وہ محرم کے جلوس میں ماتم کرتے ہیں اور دوسری طرف دیوی ماتا کے لیے یگیہ کرتے ہیں۔ وہ عالمی امن کے لیے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے ساتھ بھی کھڑے ہیں ۔ یہ ایسے راستے ہیں جن پر چل کر اجتماعیت اور بھائی چارے کا پیغام دیتاہے۔ دہشت گردی کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ بہت مطالعہ کیا،  آج جو بھی ظلم کرتا ہے اور مذہب کے نام پر دہشت پھیلاتا ہے اس کا تعلق یزید سے ہے۔

(سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ان پٹ کے ساتھ )