اردو شاعری میں گرو نانک کی یادیں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 15-11-2024
 اردو شاعری میں  گرو نانک  کی  یادیں
اردو شاعری میں گرو نانک کی یادیں

 

ریحان حسن

دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں ’اردو ‘بھی ایک ایسی زبان ہے جس نے تمام مذاہب اور انسانوں کے درمیان رواداری،یکجہتی، کشادہ دلی،درد مندی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں پل کا کام کیا ہے اور ایسا کیو ں کر نہ ہو اس لیے کہ لفظ اردو کے الفاظ ہی لسانی اتحاد کی نشا ند ہی کرتے ہیں کیونکہ سنسکرت میں ’ار‘ کے معنی ’دل‘ ہیں اور فارسی میں ’دو‘کے دو ہوتے ہیں اس طرح لفظ اردو دو دلوں کے جوڑنے کا نام ہے۔ شاید اسی لیے صوفیاء کرام نے بھی جن کی زندگی کا ہدف ہی قوموں کے درمیان انسانی یکجہتی کو فروغ دینا اور تمام مذاہب کے احترام کے ساتھ ساتھ خدا کے معین کردہ اصولوں پر عمل پیرا کرنے کا فریضہ انجام دینا تھا انھوں نے بھی ہندوستان میں اپنے ارشادات و پیغامات کو پہونچا نے کے لیے اسی زبان کو ذریعۂ اظہار بنایا۔

خواجہ معین الدین چشتی،خواجہ بختیار کاکی،نظام الدین اولیا، میر وارث علی شاہ،گیسو دراز،بلھے شاہ،بابا فرید اور گورو نانک دیو جی وغیرہ نے اپنے پیغامات اور فرمودات کو بنی نوع انسان تک پہونچانے کے لیے دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اس زبان کو اختیار کیا جو آپسی میل جول کی وجہ سے سر زمین ہند پر ’اردو ‘ کی شکل اختیار کر رہی تھی۔چونکہ یہ زبان ہندوستان میں بسنے والی تمام قوموں کے درمیان رابطہ کی زبان تھی لہٰذا اس زبان نے تمام مذاہب کے احترام کا سب سے زیادہ سبق بھی سکھایا۔اردو زبان کی تاریخ گواہ ہے کہ اردو زبان کے شعرا اور مصنّفین نے ایک دوسرے کے مذاہب کے متعلق نظم و نثر میں جس انداز سے نقوش ثبت کیے ہیں اس کی مثال شاذو نادر ہی نظر آتی ہے۔ اگر اس زبان میں حضرت محمد مصطفےٰ اور حضرت علیؓ وغیرہ کے متعلق نعتیں و منقبتیں ملتی ہیں تو رام اور گورو نانک دیو جی کے لیے نظمیں بھی نظر آتی ہیں جن میں عقیدت کے بیش بہا پھول نثار کیے گئے ہیں انھیں نظموں میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظم ’نانک ‘کے عنوان سے ملتی ہے جس میں ہندوستان میں بسنے اور رہنے والوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ذات واحد کی تعریف اور لوگوں کو صرف خدا کی عبادت کی طرف دعوت دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔شاعر مشرق گورو نانک دیوجی کے اس عملی اقدام کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں ؂

قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروانہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

آہ بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر

غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر

آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا

ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا

شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی

بارش رحمت ہوئی،لیکن زمیں قابل نہ تھی

آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

برہمن سرشار ہے اب تک اسی پندار میں

شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں

بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

(کلیات اقبال،بانگ درا،حصہ سوم، صفحہ (195

علامہ اقبال کی اس نظم میں گورو نانک جی کو ’مرد کامل ‘کہہ کر خطاب کیا گیا ہے جو قابل غورو فکر ہے کیونکہ اس شاعر کی زبان سے جملہ ادا ہوا ہے جسے لوگ حکیم امت کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

گورو نانک جی پر اردو میں ایک اہم نظم ولی محمد نظیر اکبرآبادی کی بھی ہے جو اپنے سیکولر طرز فکر کے سبب منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی نظم کاعنوان ’گرو نانک جی کی مدح‘ ہے۔ اس نظم میں گورو نانک جی کو مرد کامل کے بجائے ’کامل رہبر‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو مفہوم و معانی کے اعتبار قریب المعنی ہے۔

ہیں کہتے نانک شاہ جنھیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو

وہ کامل رہبرجگ میں ہیں یوں روشن جیسے ماہ گرو

مقصود مراد امید سبھی بر لاتے ہیں دل خواہ گرو

نِت لطف و کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرباہ گرو

اِس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

(کلیات نظیر اکبرآبادی)

ولی محمد نظیر اکبرآبادی کی نظم ’گورو نانک جی کی مدح‘ میں پنجابی، عربی، فارسی ا ور اردو زبان کا ہنرمندانہ استعمال کیا گیا ہے۔نظم میں گورو نانک جی کی خصوصیات و امتیازات کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا یہ کہنا سچائی پر مبنی ہے۔

ہر آن دلوں بیچ یاں اپنے جو دھیان گرو کا لاتے ہیں

اور سیوک ہو کر ان کے ہی ہر صورت بیچ کہاتے ہیں

کر اپنی لطف و عنایت سے سکھ چین اسے دکھلاتے ہیں

خوش رکھتے ہیں ہر حال انھیں سب من کا کاج بتاتے ہیں

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابانانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

جو آپ گرو نے بخشش سے اس خوبی کا ارشاد کیا

ہر بات وہی اس خوبی کی تاثیر نے جس پر صاد کیا

یاں جس جس نے ان باتوں کو ہے دھیان لگا کر یاد کیا

ہر آن گرو نے دل ان کا خوش وقت کیا اور شاد کیا

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

نظیر اکبرآبادی نے اس نظم میں یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ جس نے بھی سچے دل سے گرو نانک جی کو یاد کیاانھوں نے آکر اس کا بیڑا پار لگایا اور اس طرح اس کی زندگی خوشی و شادمانی سے پر ہو گئی۔نظیر گرو نانک جی کی مدح سرائی کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہیں ؂

دن رات سبھوں نے یاں دل دے ہے یاد گرو سے کام لیا

سب منکے مقصد بھر پائے خوش وقتی کا ہنگام لیا

دکھ درد میں اپنے دھیان لگا جس وقت گرو کا نام لیا

پل بیچ گرو نے آن انھیں خوشحال کیا اور تھام لیا

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

گرو نانک جی کی بخشش و عطا کا ذکر کرتے ہوئے نظیر کا کہنا ہے ؂

جو ہر دم ان سے دھیان لگا امید کرم کی دھرتے ہیں

وہ ان پر لطف و عنایت سے ہر آن توجہ کرتے ہیں

اسباب خوشی اور خوبی کے گھر بیچ انھوں کے بھرتے ہیں

آنند عنایت کرتے ہیں سب من کی چنتاہرتے ہیں

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

نظیر اکبرآبادی نے گرو نانک جی کے جن صفات کا ذکر کیا ہے اس کی تصدیق ان کی زندگی کے مطالعے سے بھی بدرجۂ اتم ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ عظیم مذہبی رہنما ؤں میں گرو نانک دیو جی سب سے زیادہ ہمارے زمانے سے قریب ہیں ان کا زمانہ پانچ صدی سے زیادہ پہلے کا نہیں ہے لہٰذا ان کی زندگی اور تعلیمات تاریخ نگاروں کے سامنے ہے۔

جاوید وششٹ کا شمار اردو کے معتبر شعراء میں ہوتا ہے انھوں نے بھی گرو نانک جی پر گلہائے عقیدت نثار کیے ہیں ان کی مشہور نظم ’ذکر نانک‘کے عنوان سے ملتی ہے جس میں وہ کچھ یوں گویا ہیں ؂

ذکر نانک پہ سر جھکاتا ہوں

پھر میں لوح و قلم اٹھاتا ہوں

نکہت نو بہار آئی ہے

اس کا سندیس ہی تو لائی ہے

ذات اس کی ہے چشمۂ عرفاں

نام اس کا ہے نانک دوراں

نام نانک کا جام امرت کا

آج نانک ہے نام امرت کا

رازداں زندگی فطرت کا

آشنا درد آدمیت کا

اشک شبنم ہے وہ گل تر ہے

درد انسانیت کاپیکر ہے

وہ گرو ا ک دماغ روشن ہے

معرفت کا چراغ روشن ہے

(آج کل دہلی،گرو نانک نمبر،نومبر 1969، صفحہ 3)

گورو نانک جی کے دل میں انسانیت کے لیے جو درد تھا اس کی جانب شاعر نے خوبصورت انداز میں اشارے کیے ہیں اور یہ باور کرایا ہے کہ انھوں نے اپنے قول و عمل کے ذریعے مذہب کی اصل سچائی سے لوگوں کو متعارف کرایا اور یہ ثابت کیا کہ مذہب تفریق و جدائی کا خواہاں نہیں بلکہ اتحادو یگانگت کا طلبگار ہے۔خدا کے نزدیک نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان،نہ کوئی بدھ مت ہے نہ کوئی عیسائی بلکہ دنیا کے تمام انسان خدائے واحد کے بندے ہیں اور ایک دوسرے کے تئیں انسانیت کی قدروں اور انسانیت کے اصول کی پاسداری ہی میں مذہب کی سچائی مضمر ہے۔

آج بھی گورودوارے کے دروازے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے کھلا رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ گرو نانک جی نے مذہب کی تفریق ختم کرنے کے لیے محض قول کا سہارا ہی نہیں لیا بلکہ عملی ثبوت بھی پیش کیایہی نہیں انھوں نے بھائی بالا جی جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور بھائی مردانا جن کا تعلق مذہب اسلام سے تھا دونوں کو ایک ساتھ رکھ کر انسانی یک جہتی و اخوت کا جو ثبوت پیش کیا ہے اس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ؂

یہ سنہری کلس، یہ گرودوارے

سب ہیں انسانیت کے گہوارے

ان میں گونجے ہے وہ مدھر بانی

جس طرح جل ترنگ میں پانی

روح کو فتح مند اس نے کیا

حق کا پرچم بلند اس نے کیا

درس توحید کا دیا سب کو

مل گیا جیسے اک دیا سب کو

(ایضا)

گرو نانک جی نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اخوت وبھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں جو سعی کی اس میں انھیں کامیابی و کامرانی بھی نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں مذہب کے انسان آج بھی گرو نانک کو عقید ت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی شان میں مختلف انداز سے نذرانۂ عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔جیسا کہ منور لکھنوی لکھتے ہیں ؂

ہر شوالے میں تکریم نانک کی تھی

خانقاہوں میں تعظیم نانک کی تھی

پاک سے پاک تنطیم نانک کی تھی

درس نانک کا تعلیم نانک کی تھی

منزلت یہ بنائے مباہات ہے

پانچ سو سال پہلے کی یہ بات ہے

(گرو نانک کا ظہور مقدس،آج کل دہلی،گرو نانک نمبر نومبر1969، صفحہ (25

گورو نانک دیو جی نے اس عہد کی ضرورتوں کے مطابق عقیدۂ توحید کو پیش کیا جو اسلامی عقائد کی اصل ہے۔ اسلام میں عقیدۂ توحید کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ عقیدۂ توحید یعنی تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا پروردگار عالم ہے اور وہ شکل و شمائل سے بالا تر ہے۔ اسلام نے انسانوں کے درمیان اخوت و بھائی چارے رواداری اور سماجی زندگی کو بے انتہا اہمیت دی ہے ان چیزوں کو گو رو نانک جی نے بھی انسانی زند گی میں اہمیت پر زور دیتے ہوئے پیا رو محبت،امن و آشتی،بھائی چارے اور انسان دوستی کا درس دیا اوہام پرستی، اندھی تقلید، بے روح مذہب پرستی، اونچ نیچ اور ذات پات کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئیں محبت و رواداری کا ایسا پیغام دیا جو ہر دور کی ضرورت ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ تمام مذاہب کے رہنماؤں نے انسانوں کی بھلائی ہی کے لیے کام کیا ان کے اقوال و اعمال انسانوں کو نیک سچے اور سیدھے راستے کی ہی رہنمائی کرتے ہیں گرو نانک دیو جی نے بھی اپنے اقوال و اعمال اور افعال کے ذریعے انسانوں کو سیدھے اور سچے راستے پر چلنے کی تلقین کی بسمل سعیدی دہلوی کا یہ کہنا صداقت پر مبنی ہے

کیا درس ہے وہ درس جو اقوال میں ہے

حکمت سی وہ حکمت ہے جو اعمال میں ہے

وہ قول ہو تیرا کہ عمل ہو، نانک

بے مثل وہ اس عالم امثال میں ہے

(رباعیات)

بسمل سعیدی نے گورو نانک دیو جی کو اس دنیا میں بے مثل قرار دیتے ہوئے ان کی عظمت و جلالت کا اعتراف کیا ہے۔گورو نانک دیو جی کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف ان کے آگے انسانوں کے سر خم نہیں ہوئے بلکہ بڑے بڑے سورماؤں اور شہنشا ہوں کے سر بھی آپ کے حضور میں جھک گئے چنانچہ عزیز وارثی دہلوی یوں گویا ہیں

تیرے قدموں پر شہنشاہوں کی پیشانی جھکی

زندگی تیری یقیناًلائق تحسین ہے

(بابا گورونانک)

انسانوں اور شہنشاہو ں نے گورو نانک دیو جی کے حضور سر نیاز خم اس لیے کیا کہ انھوں نے انسانوں کو جہالت و تاریکی سے نکال کر خواب غفلت سے بیدار کیا اور یہ باور کرایا کہ خدا ہی عبادت کے لائق ہے اور سبھی کا پروردگار ذات واحد ہی ہے جیسا کہ رام کشن مضطر نے گورو نانک دیو جی کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ؂

مثل خورشید جہاں تاب تھا نانک کا ظہور

تیرگی دور ہوئی پھیل گیا نور ہی نور

اک تجلی سے ہوا سینۂ گیتی معمور

ایک آواز نے بخشا ابدیت کا شعور

حق کی تعلیم سے انسان کو جب گیان ہوا

ایک ہے سب کا خدا سب کو یہ عرفان ہوا

(بابا نانک مرشد کامل)

در اصل گورو نانک دیو جی کی تعلیمات کسی ایک مذہب اور مکتبۂ فکر کے لیے مخصوص نہ تھی بلکہ ان کی تعلیمات اور اعمال و افعال میں تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے پیغام پنہاں ہے۔انھوں نے کسی ایک مذہب کے لوگوں کی بھلائی پیش نظر نہ رکھی بلکہ تمام انسانوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے کام کیا چنانچہ گورو نانک دیو جی کی تعلیمات کے عالمگیر ہونے کا اعتراف جناب الہہ یار خاں جوگی نے کچھ ان الفاظ میں کیا ہے ؂

نانک اعظم کی ہر تعلیم عالمگیر تھی

الفت انساں کی جیتی جاگتی تصویر تھی

ایک مذہب کے لیے ہرگز نہ تھی محدود وہ

سب کو دکھلاتی تھی راہ منزل مقصود وہ

(نانک اعظم)

اردو شاعری میں نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں بسمل ایمن آبادی کا بھی نام ہے۔ انھوں نے گورو نانک دیو جی کے نام کے حروف کی تشریح شعر میں یوں نظم کیا ہے ؂

نون سے نور خدا روشن ہے تیرے نام پر

ہے الف اللہ اکبر کا علم با کرو فر

کن کو الٹا صاف تیرا نون کاف آیا نظر

مرحبا اے عالی چشم عالی نسب عالی گہر

چار دانگ عالم میں تیرے نام کی کیا دھوم ہے

جو ترا خادم ہو وہ اب بن گیا مخدوم ہے

(مسدس)

گورو نانک دیو جی نے دنیا میں انسانوں کی رہنمائی و رہبری جس انداز سے کی اس کا اعتراف ہر مکتبۂ فکر کے افراد نے کیا ہے۔ ان کے صالح اعمال و افعال کے سبب صرف ان کا کام ہی ہر دل عزیز نہیں بلکہ ان کا نام بھی سبھی کوعزیز ہے جیسا کہ شفقت کاظمی ڈیرہ غازی خاں کہتے ہیں ؂

ہم کو دل سے عزیز ہیں دونوں

وہ تیرا کام ہو کہ نام ترا

(نذر عقیدت)

گورو نانک جی نے تمام انسانوں کے درمیان مساوات کا درس دیا اور انھوں نے یہ باور کرایا کہ مخلوق خدا کی خدمت ہی اصلا عبادت ہے چنانچہ خموش سرحدی نے آپ کی تعلیمات و افکا ر کی ترجمانی ’بابا نانک ‘کے عنوان سے نظم میں کچھ یوں کیا ہے ؂

خدا برتر، خدا واحد،مگر انساں برابر ہیں

تفاوت جو روا رکھتے ہیں انسانوں میں کافر ہیں

عمل سے بندۂ خاکی فرشتہ بھی ہے شیطاں بھی

عمل کے سوز سے روح ودل آدم منور ہیں

تری تعلیم تھی یہ زندگی سچ ہے حقیقت ہے

مسلسل خدمت خلق خدا اصل عبادت ہے

(بابا نانک)

انسانوں کے درمیان ا میر و غریب،ادنی واعلی کا تصور ہرگز جائز نہیں البتہ انسان اپنے کردار اور علم کے سبب تو لائق تعظیم و تکریم ہو سکتا ہے لیکن بحیثیت انسان تمام انسان برابر ہیں اور یہی گورو نانک جی نے بھی انسانوں کو درس دیا۔سچ تو یہ ہے کہ آپ کی ذات والا صفات جہل کی تاریکی کو ختم کرنے کا سبب تھی جیسا کہ متر نکودری نے کہا ہے ؂

جہل کی تاریک محفل میں،شب ظلمات میں

سر بہ سر اک نور پیکر تھی گورو نانک کی ذات

مخزن مہر وفا،مجموعۂ صدق و صفا

عام انسانوں سے برتر تھی گورونانک کی ذات

(گورو نانک)

گورو نانک جی کی ذات والا صفات جب مجموعۂ صدق وصفاہے تو ایسی ہستی پر سر زمین ہند کو ناز کیوں کر نہ ہو کہ اس نے اپنے قدم میمنت لزوم سے اس زمین کو وہ عزت بخشی کہ ہندوستان کی زمین قابل رشک بن گئی چنانچہ اندرجیت گاندھی گویا ہیں ؂

اے گو رو نانک، مسیحائے زماں

فخر عالم، نازش ہندو ستاں

ذات تیری مایۂ تقدیس تھی

معتقد کیوں کر نہ ہو تیرا جہاں

(ذات نانک)

مندرجہ بالا اشعار میں شاعر نے گورو نانک جی کی صفات و کمالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ باور کرایا ہے کہ آپ نے اس زمین پر قدم رکھتے ہوئے اخو ت و مساوات کا درس دیا اور اچھو توں کو معاشرہ میں وہ عزت و وقار دلایا جس کے وہ مستحق تھے اور انھوں نے اس عمل خیر کے لیے دنیا کے گوشے گوشے کا سفر کیا ظہور احمد سہارنپوری کا کہنا ہے ؂

وہ مکہ کا زائر بنارس کا راہی

خدا کو خبر ہے کہ کیا بن کے آیا

(گورو نانک جی مہاراج کی آمد

انھوں نے سفر کے شدائد و مصائب مخلوق خدا کی بہتری کے لیے ہی برداشت کیے وہ خلق خدا کی بہبودی و فلاح کے لیے ہمہ وقت کو شاں رہے۔جیسا کہ سوڈھی گور بچن سنگھ کوشاں کا کہنا ہے ؂

انھیں بہبودی خلق خدا کا تھا خیال اتنا

مسافت میں رہے اور اس غم سے مضطر تھے گورو نانک

سچ تو یہ ہے کہ خاطی انسان کے فہم و ادراک سے بلند تر ذات پروردگار ہے اور کائنات کے ذرے ذرے میں اس کی جو حکمتیں پوشیدہ ہیں ان حکمتوں سے خداہی کما حقہ واقف ہے۔اس نے اس زمین پر اپنے منتخب بندوں کو اسی لیے بھیجا ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے اور ہر قطرہ میں جو حکمتیں ہیں اس سے انسان کو متعارف کرائیں تاکہ خدا کی ذات کا عرفان ہو سکے اور اس طرح دنیا میں باطل سر نگوں ہو جائے اور حق کا بول بالا ہو پورن سنگھ ہنر امرتسری کے بقول ؂

اجالا نور حق کا ہوگیا سارے زمانے میں

کہ باطل کے لیے اک تیغ آتش بار نانک تھے

(گورونانک)

سرزمین ہندپر ایک وقت ایسا بھی تھا جب کہ جہالت کی گھٹاچھائی ہوئی تھی اور قیامت خیز عالم تھا ایسے ماحول میں گورونانک دیو جی ہندوستان میں آئے اور انھوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعے سے لوگوں کے قلوب کو روشن ومنور کیا جیسا کہ جگن ناتھ آزاد گویا ہیں ؂

تو اک ابر کرم تھا جو زمان خشک سالی میں

دیار ہند پر برسا محیط بیکراں ہو کر

زمین کشور پنجاب کی تقدیر کیا کہیے

چمک اٹھا ہر اک ذرہ حریف کہکشاں ہو کر

(نانک)

گورو نانک دیو جی نے خدائے واحد کی عبادت کی تر غیب دیتے ہوئے ہرقسم کے فتنہ و فساد سے گریز کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ دنیا صلح و سلامتی اور امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے جیسا کہ گوہر ہوشیارپوری لاہور کہتے ہیں ؂

وعظ تیرا امن و صلح و آشتی

اے حقیقت کیش، اے سچے گورو

لوگ تیری عظمتوں کے معترف

عالم عالم،قریہ قریہ، کو بہ کو

سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنے قول و عمل سے انسانوں کو جو پیغام دیا وہ ایسا پیغام تھا جو دنیا کے ہر انسان کے لیے نفع بخش تھا۔ ان کی عظمت و منزلت کو دیکھ کر ہر انسان بقول ساحر ہوشیار پوری ؂

ایسا انسان کہ فرشتے کا یقیں ہو جس پر

ایسا مرشد کہ جسے مرشد کامل مانیں

ایسا رہبر کہ جسے رہ بر اعظم کہیے

(فرشتہ)

گورو نانک جی کے کردار، افعال و اعمال اور اقوال آج ہر انسان کے لیے توجہ کا مرکز ہیں۔ ان میں جس قدر خوبیاں اور اچھائیاں تھیں اس کا بیان کرنا شعرا، خطبا اور نثر نگاروں کے حیطۂ تحریر و تقریر سے باہر ہے۔ بلونت سنگھ فیض سرحدی کا یہ کہنا درست ہے ؂

کس سے ممکن ہے ثناء تیری گورو نانک جی

چاند تاروں میں ضیاتیری گورو نانک جی

نعرۂ حق تھی صدا تیری گورونانک جی

کتنی جاذب تھی ادا تیری گورو نانک جی

کوئی انسان ہو۔لازم ہے عقیدت تیری

سارے عالم کو مناسب ہے محبت تیری

گورونانک جی کی جاذب شخصیت اور کردار و اعمال کی بدولت ان کے وصال کے بعد ہر انسان ان کو اپنا کہہ رہا تھایہی نہیں بلکہ ان کی آخری رسومات کے فریضے کو انجام دینے کے لیے باہم نزاع کرنے سے بھی گریز نہ تھا لیکن وہ تو کسی خاص مذہب و ملت کی رہنمائی کے لیے نہ آئے تھے بلکہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کو صحیح اور سچا راستہ دکھانے کی غرض سے آئے تھے لہٰذبقول وید پال کوشل انبالوی ؂

تو نے تیرا۔تیرا کہہ کرسب دیا غلہ لٹا

اور جب پڑتال کی تو ایک دانہ کم نہ تھا

نعش پر تیری لڑے تھے مسلم وہندو مگر

کچھ نہ تھا زیر کفن گلہائے خنداں کے سوا

ان شعرا کے علاوہ علامہ منور لکھنوی،ابرار احسنی گنوری، ساحر ہوشیار پوری، امر سنگھ منصور، صغیر احمد صوفی، صابر ابوہری،گور بچن سنگھ کوشاں، مسرور لکھنوی، آر،ایس، کوثر، ست پرکاش سالک،ہری چند گل،طالب شملوی، گیان چند منصور، عشرت لدھیانوی اختر رضوانی وغیرہ نے بھی گورو نانک جی کے حضور خراج عقیدت جس انداز سے پیش کیا ہے وہ ان کے جذبات وخیالات کی عکاسی ہی نہیں کرتے بلکہ اردو شاعری کے شائقین کے لیے نت نئے تلازمات ا ور فنی و فکری اسرار و رموز سے واقفیت بھی کراتے ہیں۔یقیناًشعراء کے یہ اشعار گورو نانک جی کے حضور خراج عقیدت ہی نہیں بلکہ اردو زبان کے انمول خزینے بھی ہیں جن سے شعرا کواردو شاعری کی فنی باریکیوں کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم ہوتا ہے ؂

نوائے حق کی کشش تھی ترے ترنم میں

یقیں کی شمع جلائی شب توہم میں

(ایضا)

درشن جی مہاراج نے گورو نانک جی کے عزم بالجزم کا گن گان گاتے ہوئے ان کی تعلیمات پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے ؂

تری نگاہ زمان و مکاں سے بالا ہے

نہ جائے گا جو کبھی وہ ترا اجالا ہے

عظیم دل ترا وہ سر خوشی کا پیالہ ہے

جو نفرتوں کی جگہ پیار دینے والا ہے

حیات کے لیے مینار آگہی ہے تو

زمیں کے واسطے حکمت کی روشنی ہے تو

(ایضا)

اردو زبان میں ایک اور نظم سید اصغر بہرائچی کی ملتی ہے جس میں انھوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ گرو کی مدح و توصیف اس انداز سے ہو کہ گورو نانک جی زندگی کی مکمل تصویر نظروں کے سامنے آجائے سید اصغر بہرائچی اپنی اس کوشش میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گورو نانک جیسی شخصیتیں اس زمین پر بار بار پیدا نہیں ہوتیں اور نہ ہی ایسی با عظمت شخصیات دنیا کے ہر خطہ کو نصیب ہوتی ہے یہ سر زمین پنجاب کی خوش قسمتی ہے کہ ایسی شخصیت نے اس زمین پر قدم رکھا اور اس عظیم اوتار نے زندگی کی حقیقت سے واقف کرایا ان کا کہنا ہے ؂

ہزاروں میں کوئی ہوتا ہے اک انسان وہ دانا

کہ جس نے زندگی کا راز ہو،در اصل پہچانا

( رہنمائے تعلیم،دہلی،اپریل 2001، صفحہ 9)

سید اصغر بہرائچی سوانحی نظم ’گرو نانک ‘میں یوں گویا ہیں ؂

تلونڈی میں سحر کو جب گرو نا نک ہوئے پیدا

تو کالو چند کے گھر میں اجالا نور کا پھیلا

جہاں کی بے ثباتی پر ہنسے جب آپ اک دم سے

ترپتا ماں وداعی دوستاں قرباں ہوئیں جھم سے

حصول علم میں نکلے،تو طے منزل پہ کی منزل

نہ چھوڑی بزم کوئی اور نہ چھوڑی کوئی بھی محفل

اصغر بہرائچی نے گرو نانک جی کی جائے پیدائش تلونڈی کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے باپ کالو مہتا جی اور ان کی ما ں ترپتا کی بے انتہا محبت کو خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ گرو نانک جی کو دنیا والوں نے ان کے خلق و اخلاق،تعلیمات اور خدا کی وحدانیت کے تصور سے آشنا کرانے کے ذریعے پہچانا ؂

خدا کی ذات با برکات کو واحد جو پہچانا

اسی تحقیق پر دنیا نے ہے ان کو گرو مانا

زمانہ پانچ سو سالوں کا گذراہے مگر پھر بھی

گرو نانک کی تعلیمات زندہ ہے خدا گا

گرو نانک جی نے پیغام دیا کہ نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان بلکہ سب انسان ہیں اور مذہب آپس میں مل جل کر رہنے کا حکم دیتا ہے وہ انسانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا حکم نہیں دیتا بقول علامہ اقبال ؂

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

در اصل خدا تو ایک ہے البتہ اس کے نام مختلف ہیں جسے قوموں نے الگ الگ ناموں سے اپنا لیا ہے بقول گرو نانک جی ؂

انیکوں نام حق ہیں مگر واحد ہے وہ داتا

اسے اپنا لیا قوموں نے جس جس نام سے چاہا

کوئی مذہب سکھائے بیر یہ ممکن نہیں ہمدم

دلیلیں لاکھ کوئی دے نہیں مانیں گے ہرگز ہم

کرو تعظیم ہر مذہب کی ہے پیغام نانک کا

یہی آدرش نانک کا صلائے عام نانک کا

مذہب اخوت بھائی چارے اور رواداری کا حکم دیتا ہے اور تمام مذاہب کے رہنما انسانوں کی فلاح وبہبود کے خواہاں ہیں ان کے یہاں کالے گورے ادنی واعلی کا کوئی امتیاز نہیں بلکہ انسانی قدروں کی محافظت اور ترقی و بہبود ہی بنیادی مقصد ہے۔ جیسا کہ سید اصغر بہرائچی کا کہنا ہے ؂

جو ہادی ہیں ترس انساں پہ کھانا ان کا منصب ہے

مئے عرفان پینا اور پلانا ان کا مشرب ہے

نگاہ معرفت میں چھو ٹی شے بھی ہے نہیں چھوٹی

وہ چاہے حلوہ تر ہو وہ چاہے خشک ہو روٹی

وہ دلدادہ ہیں کس درجہ غریبوں کی بھی دعوت کے

ملک بھاگو سے پوچھو، چاہے پوچھو بھائی لالو سے

فدا مردانہ ان پہ ہے تو قرباں بھی بالا ہے

کہ رتبہ ان کی خدمت سے بڑا دونوں کا اعلی ہے

اصغر بہرائچی نے گرو نانک کی انسانوں کے تئیں محبت و الفت کو پیش کرتے ہوئے ان کے بلند اخلاق و کردار کا بھی گن گان کیا ہے۔ شاعر نے اس نظم میں گرو نانک کی زندگی کی نیکی، ایثار اور بصیرت کو اشعار کی شکل میں جس طرح نظم کیا ہے وہ قابل داد ہے۔ گرو نانک نے اپنے عہد میں انسان دوستی اور معنویت سے بھر پور زندگی کا جو تصور پیش کیا اس کے پیش نظر آج بھی ننکانہ صاحب زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بقول سید اصغر بہرائچی ؂

وہاں جاتا ہے اصغر ہر گرو نانک کا دیوانہ

مرقع نور کا گلزار ہے جس جا پہ ننکانہ

گرو نانک کی محبت میں انسان اس لیے دیوانہ ہے کیونکہ وہ نیکی اور انسانی ہمدردی کا مجسمہ تھے۔وہ ذات پات اور ظاہری رسوم و عبادات کے مخالف تھے انھوں نے سماج میں پھیلی ہوئی بیماریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور ذات واحد کی مدح وتوصیف کا نغمہ گایا اور لوگوں کو اس کی اور صرف اس کی عبادت کی طرف گامزن رہنے کا درس دیا۔ انھوں نے جس محبت،مساوات اور خدمت خلق کی تعلیم دی اگر آج انسان صحیح طریقے سے ان کے بتائے ہوئے اصول پر عمل کرنے لگے تو یہ دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جا ئیگی چنانچہ ودیا ساگر آنند نے اپنی نظم ’گورونانک ‘(دیو جی کی بانی )میں اس سچائی کا یوں اعتراف کیا ہے ؂

تمھاری بانی کا چرچا جو عام ہو جائے

تو اس کے سنتے ہی راون بھی رام ہو جائے

تیرے گرنتھ کا آنند جہاں بسیرا ہے

اکال پرکھ کا واں سب کے دل میں ڈیرا ہے

ڈاکٹر بانو سرتاج نے گرو نانک دیو جی کی ایک مشہور راگ دھنا سری میں درج کائنات میں ہو رہی آرتی پد (نظم )کو کچھ یوں نظم کیا ہے ؂

فلک تھال ہے چاند سورج دیے ہیں

ستاروں کے جھرمٹ یہ موتیوں سے ہیں

جو ہے دھوپ خوشبوئے کہسار بھی ہے

تو جھونکے ہوا کے چنور کر رہے ہیں

نباتات میں پھول بے غم سماں ہیں

تیری آرتی میں یہ سب خود لگے ہیں

(قومی یک جہتی اور اردو شاعری،بانو سرتاج،اردو شاعری اور گرونانک، صفحہ65)

بانو سرتاج کی اس نظم میں اردو پنجابی الفاظ کی آمیزش انتہائی پر کشش ہے۔مختصر یہ کہ گورونانک دیو جی کی روحانی شخصیت کو اردو شعراء نے پیش کرکے اردو شاعری کی روشنی میں اضافہ کرتے ہوئے گورو نانک دیو جی کے عقیدت مندوں کے لیے اردو زبان میں ان کو یاد کرنے کی ایک نئی لطافت سے بھی آشنا کرایا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اردو زبان میں گرو نانک جی سے متعلق یہ نظمیں اردو ادب کا اہم سرمایہ ہی نہیں بلکہ اردو زبان کے اصل ہدف و مقصد کا گواہ بھی ہے۔