پروفیسر محمد توقیر عالم : مالی اعتبار سے نہیں تھے مضبوط لیکن بنے پروفیسر تو سیکڑوں طلباء کی کرتے ہیں مدد

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 26-06-2024
 پروفیسر محمد توقیر عالم : مالی اعتبار سے نہیں تھے مضبوط لیکن بنے پروفیسر تو سیکڑوں طلباء کی کرتے ہیں مدد
پروفیسر محمد توقیر عالم : مالی اعتبار سے نہیں تھے مضبوط لیکن بنے پروفیسر تو سیکڑوں طلباء کی کرتے ہیں مدد

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

وہ شخص کافی محترم ہوتا ہے جو کسی سہارے کے بغیر اپنی کامیابی کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ دنیائے ادب میں پروفیسر محمد توقیر عالم کا نام کافی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسیٹی کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد توقیر عالم ایک اوسط مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوئے۔ اپنے خاندان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے وہ پہلے شخص ہیں۔ آواز دی وائس نے پروفیسر محمد توقیر عالم سے تفصیلی بات چیت کیا۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے پروفیسر محمد توقیر عالم نے بتایا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا، نہ ہی پیسہ تھا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی پیروی تھی، آج میں جو کچھ ہوں اللہ کی مدد اور صرف اپنے بدولت ہوں۔ زمین پر مجھے کسی نے مدد نہیں کی بلکہ لوگوں نے میرا ٹانگ کھینچا۔ لیکن میں آگے بڑھتا رہا اور چونکہ میں مشکل وقت دیکھا تھا اس لیے مشکل میں پھنسے طالب علموں کی میں پوری طرح سے مدد کرتا رہا اور آج بھی کر رہا ہوں۔

پروفیسر توقیر عالم نے خود اپنی زندگی میں کافی جدوجہد کیا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ آج وہ سیکڑوں طلباء کو مالی مدد فراہم کرا کر انہیں اعلیٰ تعلیم دلا چکیں ہیں اور ان کا یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ بغیر کسی تفریق کے طالب علموں کی مدد کرنا ان کا مشن رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی سماج ترقی نہیں کر سکتا ہے لیکن تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں مالی مشکل رکاوٹ بنتی ہے اسی لیے اساتذہ کرام اور معاشی اعتبار سے مضبوط لوگوں کو ضرور ایسے بچوں کی مدد کرنی چاہئے جو پیسہ کی کمی کے سبب کالج میں یا یونیورسیٹیوں میں داخلہ نہیں لے پاتے ہیں۔

پروفیسر توقیر عالم نے کہا کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے اس کے جس کی اس نے کوشش کی۔ انسان جب اپنی استطاعت کے مطابق پوری محنت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نواز دیتا ہے۔ توقیر عالم کے مطابق میری کسی نے کوئی مدد نہیں کی لیکن میں ہمت نہیں ہارا اور اپنے مقصد پر اڑا رہا اور کامیاب ہوا۔ اس بات کی آج مجھے بیحد خوشی ہے۔

سرکاری اسکول سے تعلیم کی شروعات

پروفیسر محمد توقیر عالم کا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش 1955 میں بہار کے ضلع ویشالی میں ہوئی۔ ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور وہیں کے ایک سرکاری اسکول میں میری ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد مطیع الرحمن صاحب اس وقت کولکتہ میں ملازمت کرتے تھے۔ میں 5 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ  کولکتہ چلا گیا۔ کولکتہ کے ایک اسکول میں زیر تعلیم رہا اور وہیں ایک مسجد میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کیا۔ پھر میرے والد صاحب ایک بیماری کے سبب اپنے ملازمت سے استعفی دے کر گاؤں چلے آئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ساتویں جماعت میں بورڈ کا امتحان ہوتا تھا۔ میں اپنے گاؤں کے ایک سرکاری اسکول سے بورڈ کا امتحان پاس کیا اور اسکول ٹاپر رہا۔ پھر گاؤں سے ہم لوگ مظفر پور شہر میں شفٹ کر گئے اور مظفر پور میں عابدہ اسکول سے میں نے میٹرک پاس کیا اور مظفر پور کے مشہور لنگٹ سنگھ کالج میں میرا داخلہ ہوا۔ میں وہاں سے آئی اے، بی اے اور ایم اے تک کی پڑھائی کی۔

جوش اور جذبہ سے ملی کامیابی

پروفیسر توقیر عالم کے مطابق طالب علمی کے زمانے میں مالی اعتبار سے بہت زیادہ جدوجہد تو نہیں تھا لیکن یہ پوری طرح سے واضح تھا کہ جب تک محنت نہیں کریں گے کامیابی آسانی سے نہیں ملے گی۔ اسی لیے تعلیم کے تعلق سے میں بہت زیادہ سنجیدہ تھا اور اپنی پڑھائی کافی مستقل مزاجی کے ساتھ کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وقت کی ایسی پابندی تھی کہ میں بغیر ناغہ لائبریری میں روزانہ شام 4 بجے پہنچ جاتا تھا اور لائبریری بند ہونے تک مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں دن میں نہیں پڑھتا تھا لیکن لائبریری میں شام ٹھیک 4 بجے سے 8 بجے تک پڑھتا تھا۔ یہ واقع مشہور ہے کہ جب تک لائبریری میں تالا نہ لگ جائے اس وقت تک میں پڑھتا رہتا تھا۔ میں وقت کا اتنا پابند رہا ہوں کی 8 بجے کہیں پہنچنا ہو تو میں اس سے پہلے وہاں حاضر ہو جاتا تھا۔ وقت کی پابندی سے کوئی سمجھوتہ میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کی پابندی انسان کو کامیاب بناتی ہے اور میں نے اپنی پوری زندگی وقت کی نہ صرف قدر کی ہے بلکہ وقت کا پوری طرح سے پابند رہا ہوں اور آج بھی میں اس راستہ پر چل رہا ہوں۔ پروفیسر توقیر عالم کے مطابق بہار یونیورسیٹی میں طلباء یونین کی سیاست میں بھی کافی سرگرم رہا اور جنرل سکریٹری کے عہدہ پر لگاتار کئی سالوں تک بنا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اسکول کے وقت سے ہی میں ایک اچھا فٹ بال کا کھلاڑی تھا کالج و یونیورسیٹی میں بھی کھیل کے شعبہ میں میرا نام اول مقام پر رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آئی ٹی آئی بھی کیا ہے اور این ایس ایس کا گروپ لیڈر بھی رہا ہوں اس کے ساتھ ہی این سی سی میں بھی تھا اور لنگٹ سنگھ کالج کے کامن روم کا بھی میں اس وقت سکریٹری رہا۔ مجموعی اعتبار سے میں طالب علمی کے زمانے میں کافی متحرک تھا۔ بزم سخن ایک ادبی تنظیم تھی جس کا میں جنرل سکریٹری طالب علمی کے زمانے میں رہا اور اس وقت کئی اہم اور بڑے پروگرام منعقد کرانے کا سرف حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1972 میں جب پٹنہ میں زبردست سیلاب آیا تھا اس وقت ایک طالب علم اور طلبا لیڈر ہونے کی حیثیت سے میں 24 گاڑی سوکھا راحت رسانی کا سامان لیکر پٹنہ آیا تھا اور راحتی اشیا کی تقسیم کیا۔ 1974 میں جے پی مومینٹ کا میں متحرک کارکن تھا اور جئے پرکاش نارائن سے کافی قریب رہا۔ طلباء یونین کے لیڈر ہونے کی وجہ سے جے پی سے سیدھے طور پر بات ہوتی تھی۔ پروفیسر توقیر نے بتایا کہ ایم اے کے فورن بعد ہی میری بحالی ہوگئ اور میں مظفر پور کے نیتیشور کالج میں لکچرر ہو گیا۔ وہیں ریڈر ہوا اور پھر پروفیسر بنا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگڑی بھی بہار یونیورسیٹی سے حاصل کی۔

جب پروفیسر بنے

پروفیسر محمد توقیر عالم کا کہنا ہے کہ میں نے شروع میں ہی اپنا گول واضح کر لیا تھا کہ یا تو مجھے پروفیسر بننا ہے یا پھر وکیل۔ انہوں نے کہا کہ میں ایل ایل بی کی ڈگڑی بھی حاصل کی لیکن چونکہ میرا پہلے ہی ایم اے کے فورن بعد لکچرر کی نوکری ہو گئی تو وکیل بننے کا خیال ترک کر دیا اور ادھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹیچر کی حیثیت سے میں سنجیدگی کے ساتھ اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ توقیر عالم کے مطابق اس وقت لکچرر بننا کوئی آسان کام نہیں تھا خاص طور سے مجھ جیسے طالب علم کے لیے جس کا کسی طرح کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں تھا اور نہ ہی میرے خاندان میں کوئی اعلیٰ تعلیم حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی ٹھان لیا تھا کہ مجھے ہر قیمت پر اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے اور میں کر کے رہا۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ آج بھی میرے خاندان میں مجھ سے زیادہ تعلیم کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں ایک لکچرر بننے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کی خوشی کتنی ہوگی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر توقیر عالم نے کہا کہ اب میں بہار یونیورسیٹی کا پروفیسر تھا اور شعبہ اردو کا ہیڈ بھی بنا۔ اس وقت میں نے تین بڑے قومی اور بین الاقوامی فنکشن بھی کرایا جس میں فیض احمد فیض اور علامہ جمیل مظہری قابل ذکر ہے۔ اس بین الاقوامی سمینار میں ملک اور بیرونی ممالک سے ادیبوں نے شرکت کی تھی۔ واضح رہے کہ پروفیسر توقیر عالم ایک دانشور، ادیب، صحافی، ناقد اور مقبول ٹیچر کی حیثیت سے کافی مقبول ہیں۔ ان کی تحقیقی مضامین تواتر و تسلسل کے ساتھ مختلف جرائد و رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

طلبا کی مدد

پروفیسر محمد توقیر عالم کے مطابق وہ کافی جدوجہد کر کے اس مقام تک پہنچے تھے تو ایک گول یہ بھی تھا کہ طالب علموں کو ہر قیمت پر خوب مدد کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک واقع شروع دن میں ہی میرے ساتھ ہوا وہ یہ کہ میں نیا نیا لکچرر کے طور پر جوائن کیا تھا۔ ایک دن کالج سے نکل رہا تھا کہ میں نے دیکھا کالج کے گیٹ پر ایک طالب علم زارو قطار رو رہا ہے۔ میں اس وقت اسکوٹر سے چلتا تھا، اسکوٹر روکا اور اس طالب علم سے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو۔ اس نے بتایا کہ آج فارم بھرنے کی آخری تاریخ ہے اور کچھ پیسہ کم ہو رہا ہے جس کے سبب میں اپنا فارم نہیں بھر پا رہا ہوں۔ پروفیسر توقیر عالم کے مطابق میں اس لڑکے کو جانتا بھی نہیں تھا۔ بہر حال اس کو لیکر کالج گیا اور جتنا پیسہ اس طالب علم کا کم ہو رہا تھا وہ میں نے دیا اور اس کا فارم بھرا گیا۔ انہوں نے کہا کی اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ پیسوں کی کمی کے سبب کسی طالب علم کا فارم اگر نہیں پر ہو رہا ہے تو اس کا پیسہ میں دونگا اور اس طالب علم کا فارم بھرا جائے گا۔ میں نے کالج کے ایڈمیشن کے شعبہ کو یہ ہدایت دی کہ کوئی بھی طالب علم اگر اس مسئلہ سے جوجھ رہا ہو تو بغیر کسی سے پوچھے آپ اس کا فارم بھر دیں اور پیسہ مجھ سے لے لیں۔ میں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ اردو کا طالب علم ہے مسلمان ہے یا ہندو ہے، کوئی بھی طالب علم ہو اس کی مدد ہونی چاہئے اور اس طرح سے میں نے سیکڑوں طلباء کی مدد کی۔ فارم بھرنے کی آخری تاریخ کو میں پورے دن کالج میں رہتا تھا تاکہ طلباء کی مدد کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بدلا بھی اللہ نے ہمیں دیا۔ میرے ساتھ درجنوں طالب علم پڑھتے تھے لیکن اس مقام تک صرف میں پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا، نہ ہی پیسہ تھا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی پیروی، آج میں جو کچھ ہوں اللہ کی مدد اور صرف اپنے بدولت ہوں۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ زمین پر مجھے کسی نے مدد نہیں کی ہے بلکہ لوگوں نے میرا ٹانگ کھینچا ہے۔ لیکن میں آگے بڑھتا رہا اور چونکہ میں مشکل وقت دیکھا تھا اس لیے مشکل میں پھنسے طالب علموں کی میں پوری طرح سے مدد کرتا رہا اور آج بھی کر رہا ہوں۔

جب پرو وائس چانسلر بنے

پروفیسر توقیر عالم کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو درس و تدریس اور طلباء کی مدد کے لیے وقف کیا۔ کافی لکھتا تھا اور میرے مضامین قومی سطح پر بڑے رسالوں میں لگاتار شائع ہو رہے تھے۔ طالب علمی کے زمانے سے میں لگاتار ادب و تحقیق پر کام کر رہا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 میں مجھے پٹنہ کے مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسیٹی کا پرو وائس چانسلر بنایا گیا۔ جب میں بہار یونیورسیٹی کے شعبہ اردو سے ایک پرو وائس چانسلر بن کر پٹنہ کے مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی میں پہنچا تو دیکھا کہ یہ یونیورسیٹی حج بھون کے پاس میں بنے چند کمروں میں چل رہی ہے۔ اسی میں میرا دفتر بھی تھا۔ جب میں نے چارج سنبھالا تو کوشش شروع کی کہ اس ادارہ میں پڑھائی کا ماحول قائم کیا جائے۔ یونیورسیٹی کے پاس نہ ہی اپنی زمین تھی، نہ کوئی عمارت اور نہ ہی پیسہ تھا۔ کسی طرح سے کوشش کیا اور طلباء کا کلاسیز شروع کرایا۔ انہوں نے کہا کہ میں خود بھی پڑھاتا تھا اور باہر سے کچھ لوگوں کو بلا کر طالب علموں کا کلاس کراتا تھا۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ اسی درمیان کچھ دنوں کے لیے جیتن رام ماجھی بہار کے وزیر اعلیٰ بنے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو یونیورسیٹی کے مسئلہ پر بات کیا اور زمین دینے کی گزارش کی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی نے پٹنہ کے میٹھا پور میں پانچ ایکڑ زمین یونیورسیٹی کے لیے مہیا کی۔ جس پر بعد میں یونیورسیٹی کی تعمیر ممکن ہو سکی۔ توقیر عالم کے مطابق 2014 سے 2017 تک میں مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کا پرو وائس چانسلر رہا اور اس درمیان یونیورسیٹی کے لیے اور وہاں پڑھنے والے طلباء کے لیے کافی کام کیا۔ پھر میری مدت کار پوری ہوگئ اور میں واپس مظفر پور بہار یونیورسیٹی کے شعبہ اردو میں آ گیا جہاں سے میں 2020 میں رٹائرڈ ہوا۔

محنت سے تقدیر سنورتی ہے

پروفیسر محمد توقیر عالم کا کہنا ہے کہ کامیابی کے لئے محنت کرنا ہوتا ہے اور محنت خود اعتمادی کے جذبہ سے ہونا چاہئے تاکہ دشوار کن راستوں کے باوجود منزل تک پہنچنا ممکن ہو سکے۔ پروفیسر توقیر عالم کا کہنا ہے کہ میرا خاندان مالدار نہیں تھا بلکہ ایک اوسط مڈل کلاس فیملی سے میرا تعلق تھا۔ میرے خاندان میں بہت پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے۔ چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگوں پر مشتمل میرا خاندان تھا۔ لیکن میں نے تعلیم حاصل کی اور کافی ایکٹو رہا۔ میں سوشل ایکٹیویٹی میں تھا، طلباء کی سیاست کیا، ٹیچر کی سیاست میں رہا، خوب لکھتا تھا اور میرے مضامین شائع ہوتے تھے۔ مالی اعتبار سے مضبوط نہیں تھا لیکن حوصلہ اتنا بلند تھا کہ میں کسی سے ڈرتا نہیں تھا اور پوری ایمانداری اور لگن کے ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ کرتا تھا۔ اس وقت لوگ کہتے تھے کہ پروفیسر وہی بنے گا جو بڑے لوگوں کا بیٹا ہوگا لیکن میں نے اس کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور کہا کہ نہیں پروفیسر وہ بھی بنے گا جو غریب کا بیٹا ہوگا۔ اور اس چیلنج پر میں کھرا اترا ایم اے کے فورن بعد میری ملازمت ایک لکچرر کی حیثیت سے ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری پڑھائی میں میری والدہ کا بہت بڑا رول رہا ہے، ان کی تربیت اور سنجیدگی کے سبب میں طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی یہ سمجھ گیا تھا کہ کس طرح سے پڑھنا ہے اور مجھے کہاں پہنچنا ہے۔

 

خاندانی پش منظر

پروفیسر توقیر عالم کے مطابق میرے دادا ملٹری میں تھے اور میرے والد مطیع الرحمن کولکتہ میں ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خاندان مصلحت پسندی میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ سچ اور صحیح بات کسی کے بھی سامنے کہنے کی طاقت رکھتا تھا وہ اوصاف میرے اندر بھی موجود ہے، انہوں نے کہا کہ کسی کو برا لگے یا بھلا جو سچ بات ہے اس کے سامنے بول دیتا ہوں اور لوگ کیا کہیں گے اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ والد صاحب 5 بھائی تھے میرے والد کو چھوڑ کر باقی سبھی لوگ چھوٹے موٹے کاروباری تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھائی میں، میں اکیلا ہوں میری چھوٹی تین بہنیں ہیں جو اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ توقیر عالم کی شادی 1986 میں پٹنہ شہر میں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرا صرف ایک بیٹا ہے، وہ سوفٹویئر انجینئر ہے، دہلی میں رہتے ہیں اور ایک امریکن کمپنی میں کام کرتے ہیں۔

سماجی کاموں میں دلچسپی

پروفیسر محمد توقیر عالم کا کہنا ہے کہ سماجی کاموں میں میری شروع سے کافی دلچسپی رہی ہے۔ میں طالب علمی کے زمانے سے ہی سماجی و فلاحی کاموں میں مصروف رہا ہوں۔ سیلاب متاثرین تک راحتی اشیا پہنچانے کا معاملہ رہا ہو یا طلباء کی مدد کرنا، کوشش یہ رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کی جائے۔ توقیر عالم کے مطابق اگر مسلمانوں کی بات کرے تو میں دیکھتا ہوں کہ مسلم سماج میں تعلیم کا فقدان ہے اور اس کی وجہ غربت ہے۔ میں نے کوشش کیا اور اپنے تنخواہ کے پیسوں سے چار بچوں کو انجینئر بنایا۔ قریب 150 طلباء کو بی اے اور ایم اے کرایا اور درجنوں طلباء کو پی ایچ ڈی کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پوری فیس بھر دیتا تھا اور کتاب لائبریری سے دلوا دیتا تھا۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ بھی بلا تفریق مذہب میں نے بہت سے بچوں کی فیس بھرا اور انہیں پڑھایا۔ جن طلباء کی میں نے مدد کی ان میں سے کئی لوگ آج اچھے عہدہ پر کام کر رہے ہیں۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ایک ایسی مدد ہے جو ہر ٹیچر اور پروفیسر کو کرنی چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیم کے بغیر کسی سماج کے حالات نہیں بدلتے ہیں، اسی لیے سماجی سطح پر بھی جن کو جہاں بھی موقع ملتا ہے بچوں کی تعلیم میں ان کی مالی مدد ضرور کرنی چاہئے۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ درجنوں بچوں کو حافظ بنانے میں بھی میں نے مدد کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اگر کوئی بچہ حافظ بننا چاہتا ہے اور وہ غریب ہے اس کو حافظ بنانے کے لیے میں تیار ہوں اس کا پورا خرچ میں مدرسہ کو دے دونگا اور اس بچہ کو کسی طرح کی کوئی دقت نہیں ہوگی۔ توقیر عالم کا کہنا ہے کہ تعلیمی مدد ایک ایسی مدد ہے جس سے قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس بنیادی کام پر لوگوں کو ضرور توجہ کرنی چاہئے۔ پروفیسر توقیر عالم آج کئی تعلیمی اداروں، یونیورسیٹیوں، ادبی، سماجی اور ملی تنظیموں کے میمبر ہیں۔ وہ نیشنل بک ٹرسٹ، خدا بخش لائبریری اور یوتھ ہاسٹل ایسوسی ایشن کے لائف میمبر بھی ہیں۔