پروفیسر قمر احسن: مدرسہ سے تعلیم کےسفر کا آغاز ۔۔۔ بنے چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 30-05-2024
پروفیسر قمر احسن: مدرسہ سے تعلیم کےسفر کا آغاز ۔۔۔ بنے چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر
پروفیسر قمر احسن: مدرسہ سے تعلیم کےسفر کا آغاز ۔۔۔ بنے چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر

 

محفوظ عالم ۔ پٹنہ 

چار چار یونیورسیٹیوں کا وائس چانسلر بننا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ایک مڈل کلاس فیملی میں پیدا ہوئے، مدرسہ سے تعلیم کی شروعات کی پھر پاٹھ شالا میں پڑھے اور سرکاری اسکول، انگلش میڈیم اسکول سے ہوتے ہوئے کالج اور یونیورسیٹی تک پہنچے، مسلسل محنت کیا اور کامیاب رہے۔ ہم بات کر رہے ہیں ماہر تعلیم و اقتصادیات اور چار چار یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلر رہے پروفیسر قمر احسن کے بارے میں۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے پروفیسر قمر احسن نے کہا کہ وہ جس یونیورسیٹی کے وائس چانسلر بنے وہاں کے تعلیمی نظام کو نہ صرف درست کیا بلکہ نئے نئے کورسیز اور خاص کر جاب اورینٹڈ کورس شروع کر کے طلبا کو فائدہ پہنچانے کی کامیاب کوشش کی۔ قمر احسن جب پٹنہ کے مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کا وائس چانسلر بنے تو اس وقت مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کاغذ پر تھی، انہوں نے اپنی مسلسل محنت سے یونیورسیٹی کو زمین پر اتارا اور بڑی تعداد میں طلباء کو یونیورسیٹی سے جوڑنے میں کامیاب رہے۔ ان کا ماننا ہے کی یونیورسیٹی ہو یا مدرسہ ایجوکیشن کے معاملہ میں روڈ سسٹم نہیں ہونا چاہئے بلکہ وقت وقت پر نصاب میں اور پڑھانے کے طریقہ میں بدلاؤ کا ہونا ضروری ہے تاکہ جو چیز جاب کے لیے ضروری ہو اسے پڑھایا جا سکے اور طلبا کو ملازمت حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔

پروفیسر قمر احسن سے آواز دی وائس نے تفصیلی بات چیت کی۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے قمر احسن نے کہا کہ میں ایک عام طالب علم تھا لیکن طالب علمی کے زمانہ میں کافی ایکٹو رہا اور مکمل اعتماد کے ساتھ ہمیشہ کام کرتا رہا، آج بھی میرا طریقہ وہی ہے۔

خود اعتمادی سے ملتی ہے کامیابی

پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ دراصل خود اعتمادی وہ جزبہ ہے جو جامع ثقافت کے ماحول میں انسان کو کامیاب ہونے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ قمر احسن کے مطابق میرے والد پولیس سروس میں تھے اور وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سب کے ساتھ مل کر رہنا چاہئے اور سب کو ساتھ لیکر کام کرنا چاہئے۔ گھر میں ایک ایسا ماحول تھا جہاں کسی سے نفرت اور بھید بھاؤ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہم لوگ ایک جامع ثقافت میں پرورش پائے اور بعد کے دنوں میں آپسی بھائی چارہ اور خیر سگالی کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ مختلف مذاہب اور گروپس کے ساتھ رہ کر پڑھائی کی اور بڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے مجھے کافی فائدہ ہوا اور میرے دوستوں نے بھی میرا کافی ساتھ دیا۔ پروفیسر قمر احسن کئی گورنر کے ساتھ کام کر چکیں ہیں اور مدرسہ، اسکول اور کالج کے تعلیمی نظام سے پوری طرح واقف ہیں اور اس میں ترمیم کرنے اور بہتر کرنے کے تئیں اپنی طرف سے انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ وہ کہتیں ہیں کہ جب میں مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کا وائس چانسلر تھا تو مدرسوں میں عصری علوم نافذ کرنے کی میں نے پوری کوشش کی، حالانکہ میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکا تاہم ہم نے سیکڑوں مدرسوں کو یونیورسیٹی سے جوڑ کر وہاں ایک بہتر تعلیمی ماحول قائم کرنے میں کامیاب رہا۔

awazurduپروفیسر قمراحسن  سابق صدر جمہوریہ کے ساتھ


awazurdu

مدرسہ، پاٹھ شالا اور مختلف اسکولوں میں کی پڑھائی

پروفیسر قمر احسن کی پیدائش اپریل 1952 میں پٹنہ میں ہوئی۔ وہ سات بھائی بہنوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ والد سید مظفر احسن پولیس سروس میں تھے، وہ ایڈیشنل ایس پی ہو کر رٹائرڈ ہوئے۔ قمر احسن کے مطابق والد صاحب کو پولیس سروس میں بہتر خدمات کے سبب میڈل بھی ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگوں کا تعلق بہار کے ضلع سیوان کے ایک گاؤں سے ہے۔ والد صاحب پولیس سروس میں تھے تو ان کا تبادلہ لگاتار ہوتا رہتا تھا جس کے سبب میری تعلیم کوئی ایک جگہ نہیں ہوئی بلکہ مختلف شہروں میں ہوئی اور میں مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم رہا۔ پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ جب میری ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، اس وقت میرے والد صاحب کی پوسٹنگ رانچی میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرا داخلہ رانچی کے ایک مدرسہ، مدرسہ اسلامیہ میں کرایا گیا تھا۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ میری باقاعدہ تعلیم ایک مدرسہ سے شروع ہوئی ہے۔ پھر میرے والد صاحب کا ٹرانسفر مظفر پور سی بی آئی میں ہو گیا تو میرا داخلہ اب یہاں ایک پاٹھ شالا میں کرایا گیا۔ میں اب مظفر پور میں ایک پاٹھ شالا کا طالب علم تھا۔ کچھ دنوں بعد پھر میرے والد صاحب کا ٹرانسفر ہوا اور اب میں ایک انگلش میڈیم اسکول میں پڑھنے لگا۔ کچھ دنوں کے بعد پٹنہ کے ایک سرکاری اسکول ملر اسکول میں بھی پڑھا۔ پھر والد صاحب کا بیتیا تبادلہ ہوا اور میں بیتیا کے، کے آر ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہا۔ کے آر ہائی اسکول سے میں نے 1967 میں میٹرک پاس کیا۔ پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے میرا داخلہ پٹنہ کالج میں کرایا گیا۔

پٹنہ یونیورسیٹی میں اعلیٰ تعلیم اور ملازمت

پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ پٹنہ بہار کی دارالحکومت ہے اور اسی شہر میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تعلیم کے معاملہ میں پٹنہ کافی مشہور شہر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں پٹنہ یونیورسیٹی جیسا باوقار ادارہ ہے۔ اس وقت یہ یونیورسیٹی اور بھی ممتاز اور محترم ہوا کرتی تھی۔ میرا داخلہ پٹنہ کالج میں ہو گیا۔ پروفیسر قمر احسن کے مطابق پٹنہ کالج اور پٹنہ یونیورسیٹی میں پہنچا تو زندگی کو ایک الگ نظریہ اور زاویہ سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ میں معاشیات سے بی اے اور ایم اے پٹنہ یونیورسیٹی سے کیا۔ میں ایک عام طالب علم تھا لیکن اپنے کورس اور اپنی پڑھائی کو لیکر بیحد حساس تھا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ مدرسہ، اسکول، پاٹھ شالا اور نجی اسکول وغیرہ میں پڑھنے کا میرا تجربہ کافی وسیع تھا جب میں یونیورسیٹی میں آیا تا یہاں بھی کافی کم پیسہ لگتا تھا، کوئی خاص فیس نہیں تھی اور یونیورسیٹی کی لائبریری ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے مجھے کافی فائدہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ لائبریری سے کتابیں مل جاتی تھی جس کا میں نے خوب استعمال کیا۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ میں اپنے کورس کی کتابوں سے زیادہ غیر سلیبس کی کتابیں پڑھتا تھا۔ میرے والد صاحب نے بھی اس تعلق سے میرا حوصلہ بڑھایا اور میں ناول اور کہانیوں کی کتابیں کافی پڑھنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پریم چند، عصمت چغتائی کو پڑھنے کا کافی موقع ملا، ان کا کہنا ہے کہ اس درمیان میں نے انگریزی ناول بھی کافی پڑھا۔ اس سے میرا سوچنے اور سمجھنے کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا۔ قمر احسن کے مطابق وہ ہمیشہ یونیورسیٹی میں قومی دھارے کے طالب علم رہے۔ بغیر کسی خوف و خطر کے ہمیشہ اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جے پی مومینٹ شباب پر تھا اور طالب علمی کے زمانے میں، میں خود اس مومینٹ کا حصہ بنا۔ پروفیسر قمر احسن کے مطابق ایم اے کے بعد میں نے رانچی یونیورسیٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ اور اسی درمیان ایم اے کے بعد ہی مجھے مگدھ یونیورسیٹی میں 1977 میں ملازمت مل گئی اور میں چونکہ ہمیشہ سے ہی ایک ٹیچر بننا چاہتا تھا، حالانکہ والد صاحب چاہتے تھے میں سول سروسیز میں جاؤں لیکن میں نے کہ دیا تھا کہ مجھے ایک ٹیچر بننا ہے اور اسی کے مطابق میں نے اپنی پڑھائی کی اور اپنے آپ کو ڈھالا نتیجہ کے طور پر جب میں ایک استاد کی حیثیت سے کالج میں گیا تو وہ خواب میرا حقیقت میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں کافی خوش اور پر جوش تھا کہ اب جو تعلیم اور تجربہ میں نے حاصل کیا ہے اس کی روشنی میں طلباء کو فائدہ پہنچانے کی عملی کوشش شروع ہوگی۔

awazurdu

awazurdu

جب رجسٹرار بنا

پروفیسر قمر احسن کے مطابق میرے والد پولیس سروس میں تھے لیکن میرے دادا چھپرہ ضلع اسکول میں ہیڈ مولوی تھے۔ تو ایک طرح سے گھر میں درس و تدریس کا ماحول تھا اور دادا کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے میں ایک ٹیچر ہی بننا چاہتا تھا۔ میرا تجربہ مختلف اسکولوں میں پڑھنے کا تھا اور ذہنی اعتبار سے میں طلباء کو تعلیم دینے کے متعلق کافی پر جوش تھا۔ جب میرا خواب حقیقت کا رنگ لے چکا تو میں اپنا پورا فوکس طالب علموں کو پڑھانے اور ان کی تعلیمی معیار کو بہتر کرنے پر لگایا۔ پھر میرا ٹرانسفر پٹنہ کے اے این کالج میں ہوا، اے این کالج میں، میں ریڈر بنا، پروفیسر بنا اور صدر شعبہ معاشیات بنا اور یہاں کے بعد میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر رہا ہے کہ مجھے رجسٹرار کی ذمہ داری مل گئی میں تین تین یونیورسیٹیوں کا رجسٹرار بنا۔ پہلے نالندہ اوپن یونیورسٹی کا رجسٹرار بنا پھر ویر کور سنگھ یونیورسیٹی اور مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کا رجسٹرار رہا۔

جب مجھے وائس چانسلر کی ذمہ داری ملی

پروفیسر قمر احسن کی بہترین تعلیمی خدمات کے مدنظر حکومت نے انہیں متعدد یونیورسیٹیوں کا وی سی بنایا۔ وہ پہلی بار مدھ پورہ کے بی این منڈل یونیورسیٹی کے وائس چانسلر بنے۔ 2006 سے 2008 تک وہ  بی این منڈل یونیورسیٹی میں وائس چانسلر رہے۔ اس درمیان یونیورسیٹی میں مختلف کورسیز کو شروع کرانے سمیت طلباء کے امتحانات کا بیک لاگ کو صحیح کیا۔ انہوں نے اساتذہ کی موجودگی، طلباء کی حاضری کو بہتر بنانے، تعلیمی ماحول قائم کرنے، کیمپس اور اس کے دائرہ اختیار کے کالجوں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کامیاب کوشش کی۔ انہوں نے یونیورسیٹی میں جاب اورینٹڈ کورسیز کو متعارف کرایا ساتھ ہی ادارہ کی مالی حالت کو درست کیا۔ پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ مجھے مختلف یونیورسیٹیوں کا وائس چانسلر بننے کا موقع فراہم ہوا اور اس درمیان میں نے یہ کوشش کی کہ طلباء کو جاب اورینٹڈ کورس کرایا جائے تاکہ ان کا ہجرت بھی رک سکے۔ دراصل جاب اورینٹڈ کورس کے لیے بہار کے طلباء عام طور پر باہر کا رخ کرتے ہیں، میں نے یہ کوشش کیا کہ جن کورس کو پڑھنے وہ باہر کے صوبوں میں جا رہے ہیں ان کورسیز کو یہی شروع کیا جائے تاکہ ان کی تعلیمی ضرورتیں پوری ہو سکے۔

awazurdu

جب کاغذ پر چلنے والی ایک یونیورسیٹی کا وائس چانسلر بنے

2008 میں پروفیسر قمر احسن کو پٹنہ کی مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا۔ جب وہ مظہرالحق یونیورسیٹی میں وی سی بن کر آئے اس وقت وہ یونیورسیٹی پٹنہ کے بیلی روڈ پر چند کمروں کے ایک سرکاری عمارت میں قائم تھی۔ واضح رہے کہ مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسٹی 1998 میں قائم کی گئی تھی اور تین وائس چانسلر کی تقرری کے باوجود مظہرالحق یونیورسیٹی 2008 تک غیر فعال تھی اور پوری طرح سے کاغذ پر چل رہی تھی۔ قمر احسن کے مطابق میں نے ایک لائحہ عمل مرتب کیا اور اس کی روشنی میں محض 3 مہینہ میں یونیورسٹی کو فعال کر دیا۔ آج اس یونیورسیٹی میں مختلف شعبہ میں 20 ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسیٹی کے پاس پورے بہار میں چار درجن سے زیادہ نالج ریسورس سینٹر قائم ہے اور مدرسوں کے عالم اور فاضل کے قریب 116 اعلیٰ تعلیمی ادارہ کو یونیورسیٹی کے ذریعے باقاعدہ تعلیم فراہم کرانے کا انتظام کیاگیا ہے۔ یونیورسیٹی میں تدریس کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی پختہ انتظام ہے۔ پروفیسر قمر احسن مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی میں 2011 تک وائس چانسلر رہے اور اس درمیان ایک کاغذ پر چل رہے ادارہ کو زمین پر اتارنے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مظہر الحق یونیورسیٹی میں اس وقت مختلف کورسیز کی شروعات کی جس میں بی بی اے، بی سی اے، بی جے ایم سی، ایم بی اے، بی ایڈ وغیرہ قابل ذکر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس یونیورسیٹی کا تعلق مدرسوں سے بھی تھا تو اس درمیان میں نے کوشش کی کہ مدرسوں کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو مکمل طور پر درست کیا جائے لیکن کچھ لوگوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پھر بھی میں نے کافی کوشش کی کچھ حد تک میں کامیاب رہا۔

مدرسوں کے بارے میں میرا نظریہ

پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ مدرسوں کے سلسلے میں میرا تجربہ یہ ہے کہ مدرسہ دو طرح کے ہیں ایک تو وہ مدرسہ ہے جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور ایک مدرسہ وہ ہے جہاں تمام مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جن مدرسوں میں دینی تعلیم دی جا رہی ہے وہاں وہ تعلیم دی جائے لیکن جن مدرسوں میں مختلف مضامین پڑھائے جا رہے ہیں وہاں طلباء کے مستقبل اور وقت کی مانگ کو دیکھتے ہوئے تعلیم میں بدلاؤ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے حساب سے نصاب اور پڑھانے کا طریقہ ہر حال میں بدلنا چاہئے۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ مدارس کو دراصل لوگ ایک چارہ گاہ سمجھتے ہیں جو ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کا وی سی تھا اور مدرسوں میں وزٹ کے دوران میں نے دیکھا کہ جب کسی مدرسہ میں جانا ہوتا تھا تبھی وہاں طالب علم دکھائی دیتے تھے اور اس میں بھی 50 فیصدی طلباء کی موجودگی ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے اور وقت کے مطابق مدرسوں کا نصاب اور تعلیم کے طریقہ میں بدلاؤ ضرور ہونا چاہئے۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ نصاب میں روڈ سسٹم نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کی جگہ تحقیق کو شامل کرنا چاہئے۔ تحقیقی نصاب ہوگا تو طلبا کو فائدہ ہوگا ساتھ ہی اس سبجیکٹ کو پڑھایا جائے جس کی مانگ بازار میں ہو، جس مضامین کی ضرورت نہیں ہے اس کو ان مدرسوں میں جہاں صرف مذہب کی تعلیم نہیں دی جا رہی ہے اس کو پڑھانے سے طلباء کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔

ایمانداری اور محنت کو نظرانداز کرنے والے ناکام رہ جاتے ہیں

پروفیسر قمر احسن مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی کے بعد سدو کانہو مرمو یونیورسٹی، دمکا جھارکھنڈ کے وائس چانسلر بنے اس کے بعد وہ مگدھ یونیورسیٹی کی وی سی بنے۔ اس درمیان وہ اپنے ویژن کے مطابق طلباء کے تعلیمی معیار، یونیورسیٹی کے بہتر نظام اور اساتذہ کے مسئلہ کو حل کرتے رہے۔ پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ مختلف وقت میں مختلف گورنر کے ساتھ انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔ قمر احسن قریب 9 کتابوں کے مصنف ہیں اور 30 سے زائد ان کا مقالہ ملک کے بڑے جرنل میں شائع ہو چکا ہے۔ وہ این سی ای آر ٹی، اگنو اور مختلف جرنل کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر رہ چکیں ہیں۔ پروفیسر قمر احسن کا کہنا ہے کہ چاہے کوئی طالب علم ہو یا وہ کامیاب ہو کر کسی پوسٹ پر پہنچ جائے بہرحال اسے ایمانداری اور محنت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس خود اعتمادی ہوتی ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ بلا خوف اور پورے اعتماد کے ساتھ انسان کو اپنی پڑھائی میں اور اپنے کام میں مصروف عمل رہنا چاہئے۔

awazurdu

awazurduپروفیسر قمر احسن  کے بچپن کا فیملی فوٹو گراف


خاندانی پش منظر

پروفیسر قمر احسن پٹنہ میں پیدا ہوئے اور پرورش پانے والے سید مظفر احسن اور نفیس فاطمہ نقوی کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے خود کو ایک ماہر تعلیم، تعلیمی منتظم اور تعلیمی اختراع کے طور پر ممتاز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10ویں تک ہر بچہ کو اپنا گول بنا لینا چاہئے کہ اسے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے جو لوگ اپنے مقصد کو طے نہیں کر پاتے ہیں وہ اکثر ناکام رہ جاتے ہیں۔ قمر احسن کا کہنا ہے انہوں نے میٹرک پاس کرتے ہی اپنا گول واضح کر لیا تھا کہ مجھے ایک استاد بننا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 10ویں تک آتے آتے میری مختلف کہانیاں شائع ہونے لگی تھی۔ پروفیسر قمر احسن کی شادی 1980 میں ہوئی ان کے دو بچہ ہیں اور اہلیہ بھی ایک اسکول کی ٹیچر ہیں۔ دو بچوں میں بڑی بیٹی نیدرلینڈز میں شفٹ کر چکی ہیں اور بیٹا ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سات بھائی بہن ہیں۔ چار لوگ امریکہ میں ہیں، ایک انگلینڈ میں اور ایک کنڈا شفٹ کر گئے ہیں۔ قمر احسن کے مطابق وہ بھی امریکہ چلے گئے تھے اور پوری فیملی کو گرین کارڈ بھی دستیاب ہو چکا تھا لیکن والدہ کی طبیعت اچھی نہیں رہتی تھی تو وہ واپس پٹنہ آگئے اور یہی رہ کر تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے گھر کے سبھی لوگ آج کی تاریخ میں باہر کے ملکوں میں شفٹ کر چکیں ہیں۔ قمر احسن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئین ہیں۔ انہوں نے کہا کی اللہ کا کرم رہا ہے کہ میں اتنا کامیاب رہا