سرسید ڈے اسپیشل:سرسید احمد خان اور اکبرؔ الہ آبادی: فکری و عملی اجتہاد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 18-10-2024
سرسید ڈے اسپیشل:سرسید احمد خان اور اکبرؔ الہ آبادی: فکری و عملی اجتہاد
سرسید ڈے اسپیشل:سرسید احمد خان اور اکبرؔ الہ آبادی: فکری و عملی اجتہاد

 

عبیدالرحمن نصیر

ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

دنیا میں یوں تو بے شمار انسان پیدا ہوتے ہیں اور روایتی طرز پر اپنی زندگی کے ایام گزارنے کے بعد مقررہ وقت پر داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں لیکن خالق کائنات انسانوں کی آبادی میں کچھ ایسے افراد بھی پیدا کرتا ہے جو فکری طرز پر دنیا کی مجموعی آبادی میں کچھ خاص امتیازات رکھتے ہیں۔یہ افراد نہ صرف فکری پہلو سے دنیا کے اندر نمایاں تبدیلیاں لاتے ہیں بلکہ عملی طرز پر بھی ایسے انقلاب برپا کرتے ہیں کہ دنیا کے اندر ان کی سوچ اور فکر سے انسانی سماج میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔جہاں پوری دنیا میں کئی ایسی شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے پورے عالم کا نقشہ تبدیل کر دیا وہیں سرزمین ہند کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر بھی کئی آفاقی و انقلابی شخصیات نے جنم لیا جن میں سرسید احمد خان اور اکبرؔ الہ آبادی کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سرسید احمد خان ۱۸۱۷؁ء کو دہلی میں پیدا ہوئے جب کہ اکبرؔ الہ آبادی ۱۸۴۶ء ؁میں الہ آباد میں پیدا ہوئے۔سر سید عمر کے لحاظ سے اکبرؔ الہ آبادی سے تیس سال بڑے تھے اور فکری لحاظ سے بھی وہ اکبرؔ کے مقابلے میں کئی امتیازات رکھتے تھے۔سر سید نے اقوام ہند خصوصاً مسلمانان ہند کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا وہ حصول علم اور جدید تعلیم سے آراستگی کا راستہ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔اقوام ہند کے تئیں ان کے رویے اور فکر سے نہ صرف عوام میں بیداری کے عناصر پیدا ہوئے بلکہ ان کی تعلیمات سے عوامی افکار میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔وہ ۱۸۶۲ء؁ میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی کا قیام کرنے سے قبل کئی کارہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ان کی علمی بصیرت نے انہیں اس سوسائٹی کے قیام کرنے کے لیے اُکسایا اوران کے اندر عملی جدوجہد کے وہ عناصر پیدا ہوئے جو ان کی اس فکر کو حقیقت کا جامہ پہنا سکے۔اس سلسلے کی شروعات کے بعد سر سید نے ۱۸۶۳؁ء میں ایک انگریزی مدرسہ قائم کیا اور ۱۸۶۶ء؁ میں علی گڑھ برٹش انڈین ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ سرسید ابتدا سے ہی تعلیم کو ترویج  دینے کے خواہاں تھے۔ وہ ہندوستانی عوام کو تعلیمی میدان میں یورپی عوام کے ہم پلہ دیکھنے کے خواہش مند تھے، اسی غرض سے انھوں نے انگلستان سے واپسی پر’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ جاری کیا۔ اس رسالے میں ہندوستانی عوام کی اصلاح اور تہذیب و تربیت کے لئے ایسے مضامین شامل کیے گئے تھے جو انسانی ذہنوں کو نہ صرف تعلیم کی طرف مائل کریں بلکہ ہندوستان کی قدیم تہذیبی و ثقافتی روایات کی بھی پاسداری ہو سکے۔سر سید کے اس عمل کو جہاں عوام نے سراہا وہیں دوسری طرف اس رسالے کے مخالفین کی بھی ایک جماعت تیار ہوگئی ۔یہ افراد دراصل سرسید کی سوچ و فکر سے واقف نہ تھے اس لئے انہوں نے اس رسالہ کی اشاعت پر پابندی عائد کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان افراد میں مولوی امداد علی اور مولوی علی بخش خان بہادر کا نام لیا جا سکتا ہے ۔سرسید چونکہ ایک آفاقی سوچ کے مالک تھے اس لیے ان کے راستے میں آئی رکاوٹوںسے وہ فوری نبرد آزما ہوئے اور اپنے مشن کو جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے ۱۸۷۵؁ء میں مدرستہ العلوم کی بنیاد رکھی اور تین سال بعد (۱۸۷۸ء) میں یہ مدرسہ ترقی کرکے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ہو گیا۔سرسید احمد خان کی جہد مسلسل اور فکری بلاغت سے ۱۹۲۰؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ۔علمی و ادبی لحاظ سے یہ یونیورسٹی دنیا میں اپنا ایک انفرادی مقام رکھتی ہے۔ جامعہ علی گڑھ گزشتہ ایک صدی سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا اور دیگر مغربی ممالک میں علم کی روشنی پھیلا رہی ہے۔مسلمانوں میں علمی شعور پیدا کرنے کے لیے اس ادارے نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس ادارے کے بانی سرسید احمد خان نے علی گڑھ تحریک چلائی اور جدید اردو نثر میں کئی مستند کتابیں تحریر کیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جدید اردو نثر کا بانی کہا جاتا ہے۔

اکبرؔ الہ آبادی بچپن سے ہی اس بات پر فکر مند تھے کہ انگریز نہ صرف ہندوستان کی تہذیب اور ثقافت کو مٹانے کے درپے ہیں بلکہ وہ یہاں مغربی نظام تعلیم متعارف کرا کے یہاں کے عوام میں مغربی رجحانات کی پاسداری کا درس عام کرنا چاہتے ہیں ۔سرسید احمد خان کی تعلیمی میدان میں اقوام ہند کے لیے کی گئی کوششوں کو اکبر ؔانگریز ی تعلیم اور رجحانات کے مترادف ہی سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ اولاً سرسید احمد خان اور علی گڑھ تحریک کے مخالف نظر آتے ہیں۔اکبرؔ الہ آبادی کی سوچ اور فکر کا احاطہ کرتے ہوئے صغریٰ مہدی لکھتی ہیں :

’’اکبرؔ کہتے تھے کہ ہمیں ترقی کرنا چاہیے ۔زمانے کے ساتھ بدلنا چاہیے۔ نئے علوم حاصل کرنا چاہئے۔ مغربی تہذیب کی اچھی باتوں کو بھی قبول کرنا چاہیے مگر اس طرح کہ بنیادی طور پر ہم اپنی تہذیب ،اپنے مذہب اور اپنے ملک سے رشتہ قائم رکھیں۔۔۔۔ وہ ان ہندوستانیوں کو بھی پسند نہیں کرتے تھے جو اندھا دھند انگریزوں سے مرعوب ہو کر ان کی نقل کر رہے تھے ۔ـ‘‘

بحوالہ: اکبر الہ آبادی ازصغریٰ مہدی،ترقی اردو بیورو نئی دہلی ۱۹۸۳ء،ص ۲۴۔

      اکبرؔ کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ سر سید اور علی گڑھ تحریک کے سخت مخالف تھے لیکن یہ بات قطعی درست نہیں ۔سر سید نثر کے ذریعے جب کہ اکبر شاعری کے ذریعے عوام میں ایسی بیداری پیدا کرنے کی دھن میں لگے ہوئے تھے جس سے عوامی اصلاح کے ساتھ ساتھ اقوام ہند میں تحریک آزادی کے رجحان کو بھی تقویت حاصل ہو۔دونوں افراد ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے ۔علی گڑھ میں قیام کے دوران اکبرؔ کے مراسم سرسید اور ان کے رفقاء سے رہے۔ اس دوران اکبرؔ کو سرسید کی فکر سے واقفیت حاصل ہوئی اور وہ سرسید کے حامی ہو گئے ۔اس تناظر میں صغریٰ مہدی لکھتی ہیں

ـ’’۔۔۔۔۔انھیںاس بات کا اندازہ ہوا کہ سرسید جو بھی کر رہے ہیں اس میں ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے ۔ان کے دل میں قوم کا درد ہے اور وہ سچے دل سے قوم کی بھلائی چاہتے ہیں ۔‘‘

ایضاً صفحہ ۲۶۔

سرسید احمد خان کی وفات پر اکبرؔ الہ آبادی کو گہرا صدمہ ہوا۔ اپنے ایک شعر میں اکبرؔ فرماتے ہی

  بعد  سید  کے  میں  کالج  کا  کروں  کیا  درشن

اب  محبت  نہ  رہی  اس  بت  بے  پیر  کے  ساتھ

سرسید احمد خان کی قوم کے تئیں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اکبرؔ لکھتے ہیں ۔

ہماری  باتیں  ہی  باتیں  ہیں  سید  کام  کرتا  تھا

 نہ  بھو لو  فرق  جو  ہے  کہنے  والے ، کرنے  والے میں

کہے  جو  چاہے  کوئی  میں  تو  یہ  کہتا  ہوں  اے  اکبرؔ

 خدا  بخشے  بہت  سی  خوبیاں  تھیں  مرنے  والے  میں

      ایسی سوچ ،فکر اور عمل جو سماج کے لیے اصلاحی ہو اس کے تئیں انسان کا مثبت رویہ بھی دراصل اسی سوچ کی ترویج ہوتی ہے اکبرؔ الہ آبادی نہ صرف سرسید کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر کو مزید ترقی دینے کی غرض سے انہوں نے اپنی شاعری میں طنز و ظرافت کے لبادے میں مغربی تہذیب کا مذاق اڑایا اور لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے فکری پہلو اجاگر کیے جن سے عوام میںحصول علم کی تڑپ اور مشرقی اقدار وتہذیب کے تئیں محبانہ رویہ اجاگر ہوا۔اکبر ؔنے اپنی شاعری کے ذریعے سماج کے ہر طبقے میں بیداری پیدا کی ہے۔ اکبرؔ الہ آبادی کے زمانے میں ہندوستان کی  صورتحال اور ہندوستانی اطوارو عادات اور طور طریقے حتیٰ کہ طرز معاشرت کی تبدیلیوں کا احاطہ کرتے ہوئے عبدالماجددریابادی لکھتے ہیں

’’۔۔۔۔پرشباب قوم انگریز نے تیر و تبر، توپ و تفنگ سے کہیں زیادہ بے پناہ حربہ ،پروپیگنڈاکا استعمال شروع کر دیا اور اپنے ایجنٹوں ،گماشوں، کارندوں کو سکول اور کالج کے مادی قا لب میں بنا کھڑا کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہر دل پر برطانیہ کی عظمت کا نقش، ہر زبان پر اقبال سرکار کا کلمہ ،دادخواہی کے لیے گھر سے نکلئے تو قانون انگریزی ،کتابیں انگریزی ،عدالتیں انگریزی، لڑکوں کو پڑھنے بٹھائیے تو اسکول انگریزی، کالج انگریزی ،کتابیں انگریزی، زبان انگریزی ،سفر کے لیے باہر نکلئے تو سڑکیں انگریزی، سواری( ریل) انگریزی، ٹکٹ انگریزی، سفر کی منزلیں (اسٹیشن) انگریزی، دکھ درد میں مبتلا ہو جائے تو علاج کے لیے دعائیں انگریزی، تشخیص انگریزی، شفاخانے انگریزی، ۔۔۔۔۔ڈاک انگریزی،۔۔۔ بینک انگریزی، ۔۔ناول اور ڈرامے انگریزی ،۔۔۔ماضی کو جاننا چاہیے تو تاریخیںانگریزی ،حال سے باخبر رہیے تو اخبارات انگریزی،۔۔۔ عہدے انگریزی، علوم انگریزی، فنون انگریزی، صنائع انگریزی۔ خلاصہ یہ ہے کہ زمین انگریزی آسمان انگریزی۔‘‘

بحوالہ :اکبرؔ نامہ از عبد الماجد دریابادی ادارہ فروغ اردولکھنؤ ۱۹۵۴ء صفحہ ۹۵۔۹۴

اکبرؔ نے انگریزی طرز معاشرت کو ہندوستانی تہذیب کی بقا کے لیے مضر قرار دیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں انگریزی تہذیب کا نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ مشرقی تہذیب کو مغربی تہذیب پر فوقیت بھی دی۔ انھوں نے مغربی نظام حیات کو ایک مرض سے تشبیہ دی ہے ۔مسلمانوں میں دین کی پاسداری اور دیگر اقوام مغربیت کے مرض کو ختم کرنے کی غرض سے اکبرؔ طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں۔

نئے  طریقوں  سے  مقصد  شرح  کارفرما  نہ  ہو سکے  گا

ادھر  جو  پردہ  نہ  ہو سکے  گا  ادھر  بھی  تقویٰ  نہ  ہو سکے  گا

 تمام  دنیا  نئی  روش  میں  جو  چھوڑ  بیٹھے  گی  دین  حق  کو

 جو  ایک  مومن  بھی  ہو گا  زندہ  تو  اس  سے  ایسا  نہ  ہو  سکے  گا

دوا  ترقی  کی  میں  نے  دیکھی  بصد  ادب  ہے  یہی  گزارش

 مرض  ترقی  کرے  گا  اس  سے  مریض  اچھا  نہ  ہو  سکے  گا

اکبر ؔ اپنی نظموں میں تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

تعلیم  لڑکیوں  کی  ضروری  تو  ہے  مگر

خاتون  خانہ  ہوں  وہ  سبھا  کی  پری  نہ  ہوں

اکبر ؔالہ آبادی اپنی نظموں کے ذریعے اچھے اخلاق اور مذہب وتہذیب سے حُب کا پیغام دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں

 غفلت  کی  ہنسی  سے  آہ  بھرنا  اچھا

 افعا ل  مُضر  سے  کچھ  نہ  کرنا  اچھا

 اکبر ؔ  نے  سنا  ہے  اہل  غیرت  سے  یہی

 جینا    ذلت  سے   ہو   تو  مر نا    اچھا

باہمی اتحاد کے لئے وہ لکھتے ہیں

 حالات  مختلف  ہیں  ذر ا  سوچ  لو  یہ  بات

 دشمن  تو  چاہتے  ہیں  کہ  آپس  میں  لڑ مرو

تعلیم نسواں کو ضروری قرار دیتے ہوئے اکبر ؔلکھتے ہیں

تعلیم  عورت  کو  بھی  دینی  ضرو ر  ہے

لڑکی  جو  بے  پڑھی  ہو  وہ  بے شعو ر  ہے

     اس کے علاوہ اکبر ؔالہ آبادی نے ہندوستان کے مختلف طبقات میں پیدا کشیدگیوں کو کم کرنے کی بھی  بھرپور کوشش کی ہے۔

الغرض سر سید احمد خان اور اکبر ؔالہ آبادی جیسی متحرک شخصیات کے فکری و عملی اجتہاد کا اس مختصر مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔البتہ مضمون میں ان کی سوچ فکر اور نمایاں کارناموں سے سماج میںآئی تبدیلیوں پر سرسری بحث کی گئی ہے۔ علم و فکر کی ترویج کے لیے دونوں شخصیات نے عالمی سطح پر غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ان کی سوچ اور فکر سے ہر دور میں قومیں فیض یاب ہوتی رہیںگی ۔علم و حکمت کے ان معماروں کے فکری و عملی اجتہاد کو عوام میں عام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ مضمون اسی فکر کی ایک کڑی ہے۔