سماج کو علم کی سخت ضرورت، بغیر محنت کے نہیں ملتی ہے کامیابی۔ امتیاز احمد

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 24-05-2024
سماج کو علم کی سخت ضرورت، بغیر محنت کے نہیں ملتی ہے کامیابی۔ امتیاز احمد
سماج کو علم کی سخت ضرورت، بغیر محنت کے نہیں ملتی ہے کامیابی۔ امتیاز احمد

 

محفوظ عالم ۔ پٹنہ 

مشہور مورخ اور خدا بخش پبلک لائبریری کے سابق ڈائرکٹر پروفیسر امتیاز احمد کے پڑھائے ہوئے سیکڑوں طلباء آج اوفیسر ہیں اور وہ ملک و سماج کی خدمت کر رہے ہیں۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ خالق کائنات اگر کسی کو کامیاب بناتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی دوسروں کی مدد کرے تاکہ سماج کا ہر طبقہ خوشیوں سے قریب ہو سکے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ تعلیم ہی وہ کونجی ہے جس کے بدولت انسان اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دے پاتا ہے۔ پٹنہ کے حج بھون میں چل رہے مفت بی پی ایس سی کوچنگ میں بھی امتیاز احمد طلباء کو پڑھاتے ہیں اور انہیں بی پی ایس سی کے لیے تیار کرتے ہیں۔

امتیاز احمد نے کہا کہ میرا خاندان درس و تدریس سے جڑا رہا ہے۔ پہلی بار میرے پر دادا نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی شروعات کی تھی، وہ جرمنی گئے اور وہاں سے انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگڑی حاصل کی اس کے بعد سے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ چل پڑا۔

معروف مورخ اور خدا بخش پبلک لائبریری کے سابق ڈائرکٹر پروفیسر امتیاز احمد کی پیدائش پٹنہ کے ایک عظیم علمی گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد قیام الدین احمد خود تاریخ کے پروفیسر تھے۔ اپنے والدین کے وہ واحد اولاد ہیں۔ امتیاز احمد شروع سے ہی کافی اچھے طالب علم رہے، ہمیشہ اپنے کلاس میں ٹاپ کیا اور محنت اور خود کے صلاحیت کی بنیاد پر پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ تاریخ میں استاد بن گئے۔ پروفیسر امتیاز احمد سے آواز دی وائس نے تفصیلی بات چیت کیا۔

پر دادا نے شروع کی انگریزی تعلیم کی روایت

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے پروفیسر امتیاز احمد نے بتایا کہ ان کا آبائی وطن پٹنہ ہے۔ ان کا تعلق صادق پور خاندان سے ہے۔ جنگ آزادی میں صادق پور خاندان اور صادق پور علماء کی قربانیاں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ان کے پر دادا ڈاکٹر عظیم الدین احمد نے انگریزی کی تعلیم حاصل کی، وہ جرمنی گئے، وہاں سے انہوں نے ڈاکٹریٹ کیا۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ان کے بعد ہمارے خاندان میں انگریزی اور ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ امتیاز احمد کے مطابق ہمارے پردادا کے بعد میرے دادا محترم نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور جوڈیشیل سروس کا حصہ بنے اور دادا کے چھوٹے بھائی کلیم الدین احمد پٹنہ یونیورسیٹی کے پروفیسر بنے۔ گھر میں درس و تدریس کا ماحول قائم ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب پروفیسر قیام الدین احمد بھی پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر رہے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ گھر میں درس و تدریس کا ایک ایسا عظیم ماحول تھا جس میں ان کی پرورش ہو رہی تھی۔ ان کے مطابق انہوں نے شروع میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ انہیں درس و تدریس کی دنیا میں ہی اپنا کیریر بنانا ہے لیکن وہ ایڈمنسٹریٹو سروس کے سلسلے میں بھی سونچ رہے تھے۔

awazurdu

طالب علم سے پروفیسر تک کا سفر

پروفیسر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ایک طالب علم تبھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ اپنی تعلیم کے سلسلہ میں نہ صرف یہ کہ ایماندار رہے بلکہ اپنی پڑھائی پر پورا فوکس کرے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ان کا داخلہ پٹنہ کے ایک نجی اسکول میں کرایا گیا جہاں سے وہ میڑک کا امتحان پاس کیے۔ پھر ان کا داخلہ پٹنہ کالج میں ہوا اور پٹنہ یونیورسیٹی سے انہوں نے بی اے اور ایم اے کی ڈگڑی حاصل کی۔ بی اے اور ایم اے میں انہوں نے ٹاپ کیا اور گریجویشن اور پی جی میں گولڈ میڈلسٹ رہے۔ پٹنہ یونیورسیٹی سے ہی انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگڑی حاصل کی۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ نمبر زیادہ تھا لہذا اس بنیاد پر ان کی تقرری 1979 میں پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ تاریخ میں ہو گئی۔ واضح رہے کہ ان کے والد محترم بھی اسی شعبہ میں پروفیسر رہ چکیں تھے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ 1979 سے 2004 تک وہ پٹنہ یونیورسیٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ رہے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے سونچا تھا کہ وہ ایڈمنسٹریٹو سروس میں جائیں لیکن دادا کے مشورہ پر انہوں نے ایک استاد بننے کا انتخاب کیا۔ اور ایک پروفیسر کی حیثیت سے سیکڑوں طلباء کے مستقبل کو سنوارنے کا مجھے موقع ملا۔

پٹنہ یونیورسیٹی میں پڑھاتے ہوئے بنے مشہور مورخ

پروفیسر امتیاز احمد کی دلچسپی قرون وسطی کی تاریخ، جدید تاریخ اور بہار کی تاریخ میں خاص طور سے ہے۔ امتیاز احمد قریب سات کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے 80 سے زائد مقالہ دنیا کے مختلف ریسرچ جرنل میں شائع ہو چکیں ہیں۔ انہوں نے ملک اور بیرونی ممالک خاص طور سے پاکستان، یو اے ای، انگلینڈ اور امریکہ کے مختلف سیمینار میں شرکت کی ہے۔ امتیاز احمد کو مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا ہے جس میں 2022 کا مولانا آزاد ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ان کی علمی، ادبی اور بہترین تعلیمی خدمات کے پیش نظر 2004 میں امتیاز احمد کو مخطوطات کے معاملہ میں پورے بر صغیر میں مشہور خدا بخش پبلک لائبریری کا ڈائرکٹر بنایا گیا۔

خدا بخش لائبریری کا جب ڈائرکٹر بنے

خدا بخش پبلک لائبریری میں امتیاز احمد ڈائرکٹر بنے اور لائبریری کی ترقی کے سلسلے میں انہوں نے کافی کام کیا۔ نادر مخطوطات کا ڈیجیٹلائجیشن کا کام ہو یا پھر مخطوطات کی حفاظت کا سوال وہ ہر مرحلہ پر لائبریری کی ترقی اور بقا کے لیے مسلسل کام کرتے رہے۔ ان کے وقت میں لائبریری میں مختلف سیمینار مسلسل منعقد ہوتا رہا۔ ملک اور بیرونی ممالک کے اسکالر سیمینار میں شرکت کرتے اور لائبریری سے استفادہ حاصل کرتے رہے۔ ملک کے بڑے سیاسی رہنماؤں کا دورہ بھی لائبریری میں لگاتار ہوتا رہا۔ امتیاز احمد کافی ایکٹو ڈائریکٹر کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2014 میں وہ خدا بخش پبلک لائبریری کے ڈائرکٹر کے عہدہ سے سبک دوش ہو گئے اس کے بعد بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔

awazurduپروفیسر امتیاز احمد اپنی اہلیہ کے ساتھ


تعلیمی مدد پہنچا کر سیکڑوں طلبا کو بنایا اوفیسر

امتیاز احمد ایک مشہور مورخ ہیں اور قرون وسطی اور جدید تاریخ پر ان کو دسترس حاصل ہے۔ لہذا وہ بی پی ایس سی کی تیاری کرنے والے نوجوانوں کو پڑھاتے ہیں۔ پٹنہ کے حج بھون میں حکومت کی جانب سے مفت بی پی ایس سی کی کوچنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ حج بھون کا کوچنگ کافی اچھا ہے اور اب تک سیکڑوں طلباء کو اس کوچنگ سے کامیابی مل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں حج بھون کے بی پی ایس سی کوچنگ میں طلباء کو پڑھاتا ہوں اور ان کی تیاری میں مدد کرتا ہوں۔ تاریخ کے پروفیسر رہے امتیاز احمد کے پڑھائے سیکڑوں طالب علم بی پی ایس سی میں کامیاب ہو چکیں ہیں اور ایک اوفیسر کی حیثیت سے وہ ملک و سماج کی خدمت کر رہے ہیں۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ آج کے وقت میں تعلیمی مدد کرنا سب سے بڑی مدد ہے۔ اگر کسی نوجوان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ اوفیسر بن جائے اور سماج و ملک کی خدمت انجام دے تو اس سے بڑی مدد کیا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر سماج کی تصویر نہیں بدلتی ہے۔ چاہے کوئی بھی سماج ہو آج کے وقت میں اسے سب سے زیادہ فوکس تعلیم پر اور اپنے بچوں کی پڑھائی پر کرنا چاہئے۔

محنت ہی مقصد کے حصول کی کونجی ہے

امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ وہ طالب علمی کے زمانہ میں اپنی پڑھائی کو لیکر بیحد حساس تھے۔ وہ ایک اچھے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بننے کی بھی انہوں نے کوشش کی۔ ایک جامع ثقافت سماج میں جب کوئی رہتا ہے تو ایک دوسرے سے محبت اور رواداری اس کے اندر موجود ہوتی ہے اور سماج کے ہر طبقہ کے لئے وہ کام کرنا چاہتا ہے اور بلا تفریق مذہب و ملت سب کی قدر کرنا اس کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سے اب یہ طے ہو گیا تھا کہ مجھے ایک ٹیچر بننا ہے تو اس کے لیے میں نے محنت کی اور اس کے مطابق ہی میں نے اپنے آپ کو ڈھالنا شروع کیا۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ مجھے طالب علمی کے زمانے میں بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑا۔ بی اے اور ایم اے دونوں میں مجھے گولڈ میڈل ملا تھا۔ میرے خاندانی پش منظر میں درس و تدریس سے کافی سارے لوگوں کو شغف تھا۔ دادا سے لیکر والد صاحب تک سب لوگ پروفیسر تھے، اس سے مجھے حوصلہ ملا اور میں نے اس راہ کو اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پٹنہ یونیورسیٹی کی لائبریری کافی اچھی تھی اور تعلیم کا بھی کافی عمدہ ماحول تھا۔ میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا تھا اور ہر وقت لائبریری میں موجود ہوتا۔ اس وقت لائبریری میں وہ تمام کتابیں دستیاب تھی جس کی مجھے ضرورت ہوتی تھی۔ میں نے پٹنہ یونیورسیٹی کے لائبریری سے کافی فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا طالب علم کو محنت کرنی ہوتی ہے اور میں نے وہ محنت کیا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

سماجی اور تعلیمی کاموں میں دلچسپی

امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ جب میں پٹنہ یونیورسیٹی کا طالب علم تھا اس وقت پٹنہ میں جے پی مومینٹ کافی زوروں سے چل رہا تھا۔ میں نے ان تمام چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح سے پولیس اور طلباء کے درمیان ٹکراؤ ہو رہا تھا اور پولیس کس طرح سے یونیورسیٹی کے طلباء پر لاٹھی چارج کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بہرحال کئی ایسے واقعات زندگی میں سامنے آئے جس کے مدنظر سماجی اور تعلیمی کاموں میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔ انہوں نے کہا کہ شروع سے ہی میں مختلف تنظیموں سے جڑا رہا جو کسی نہ کسی سطح پر غریب، دلت، پسماندہ اور بے سہارہ بچوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوشش ہمیشہ رہی ہے کہ ایسے طلباء کو مالی مدد اور تعلیمی مدد پہنچا کر انہیں قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے جو کسی نہ کسی مجبوری کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پٹنہ سیٹی میں ایک بہت پورانی تنظیم ہے محمدن ایجوکیشن کمیٹی اس کا بھی میں ایک طرح سے ذمہ دار رہا ہوں۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام کئی تعلیمی ادارہ کام کر رہا ہے۔ یہ کوشش ہمیشہ رہی ہے کہ مالی اعتبار سے کمزور بچوں کو ہر ممکن مدد کی جائے ساتھ ہی جہاں تعلیم کی سماع روشن نہیں ہوئ ہے وہاں کم سے کم تعلیمی بیداری کا کام چلایا جائے تاکہ بچوں کو اور سماج کو فائدہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کام کو ہم لوگوں نے ترجیحی بنیاد پر کیا ہے۔

awazurdu

awazurduامتیاز احمد  پروگرام میں


سماج کو تعلیم کی سخت ضرورت

امتیاز احمد کی شادی 1981 میں ہوئی ان کے تین بچہ ہوئے، ایک بیٹی کا انتقال ہو گیا۔ دو بیٹی ہیں، ایک بیٹی جرمن زبان پڑھاتی ہیں۔ فیلیپین میں ان کی تقرری ہوئی ہے لیکن وہ فیل وقت طلباء کو پٹنہ سے ہی آن لائن کلاس کراتی ہیں۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے اکلوتے اولاد ہیں لہذا انہوں نے پٹنہ میں ہی رہنا بہتر سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ باہر کے کچھ جگہوں سے اوفر تھا لیکن میں نے پٹنہ یونیورسیٹی جوائن کیا اور پٹنہ میں اپنے والدین کے ساتھ رہ کر ہی تعلیم کے شعبہ میں اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی میں طلباء کو پڑھاتا ہوں اور سماجی و فلاحی کاموں میں مسلسل میرا وقت صرف ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے سماج کو علم کی سخت ضرورت ہے اور تعلیم کو عام کرنے کی ہر شخص کو اپنی سطح سے ضرور کوشش کرنی چاہئے۔