محفوظ عالم : پٹنہ
کتابوں سے ایسا عشق جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ ایک ایسا شخص جس کی نگاہ میں کتابیں جمع کرنا، علم اور سماجی اصلاح زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ اس عظیم شخص کو دنیا خدا بخش خان کے نام سے جانتی ہے۔ بہار کے رہنے والے خدا بخش خان جنہیں عام طور پر مولوی خدا بخش خان کہا جاتا ہے، بر صغیر کی مشہور خدا بخش پبلک لائبریری کے بانی ہیں۔ دنیا کے علمی نقشہ پر پٹنہ کو خدا بخش لائبریری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خدا بخش خان کو کتابوں سے عشق تھا، انہوں نے اپنی پوری زندگی، پوری دولت، پوری جائداد کتابوں کو خریدنے اور اس کی حفاظت میں لگا دی۔ آج ان کی کوششوں کے سبب لائبریری میں 21 ہزار سے زائد مخطوطات کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس میں ایسے نادر مخطوطہ ہیں جس کا کوئی دوسرا نشخہ پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ یورپ، امریکہ ایشیا اور مختلف ملکوں سے عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے مخطوطہ پر تحقیق کرنے جوق در جوق محقق لائبریری میں آتے ہیں اور خدا بخش خان کے بنائے گئے علمی خزانہ سے مستفید ہوتے ہیں۔ اہل پٹنہ خدا بخش خان کی اس عظیم کارنامہ پر فخر کرتا ہے۔
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور محققین نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
خدا بخش خان کی منفرد شخصیت
ہندوستان پر کئی سو سال حکومت کرنے کے بعد مغلوں کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور اسی کے ساتھ وہ کتابیں جس کو لکھنے و ترتیب دینے میں برسہا برس کا وقت لگا تھا وہ بکھرے پڑے تھے۔ 1857 کے انقلاب کے بعد سلطانوں، باد شاہوں، راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کے ذاتی کتب کھانوں کی کتابیں ادھر ادھر بکھری پڑی تھی۔ وہ عربی، فارسی کے اہم ترین دستاویزات تھے جس میں نہ صرف ہندوستان کا ماضی چھپا تھا بلکہ بین الاقوامی وراثت کا قلمی نشخہ بے قدری کی مار جھیل رہا تھا۔ اس میں وہ کتابیں بھی تھی جو خالص مذہبی تھی اور وہ کتابیں بھی جو ہندوستان کی تاریخ، بادشاہوں کے سچے دستاویزات، طب اور سنسکرت، پالی، پشتو، ترکی، ہندی اور اردو کی اہم ترین کتابیں تھی۔ ان بکھرے ہوئے کتابوں کو جمع کرنے کی خدا بخش خان نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور یہاں سے شروع ہوا مخطوطات جمع کرنے کا وہ عظیم سفر جو بعد میں دنیا کو خدا بخش لائبریری کے شکل میں ملنے والا تھا۔
خدا بخش خان، بہار کے تھے اور 2 اگست 1842 کو ضلع سیوان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کو کتابوں سے بیحد لگاؤں تھا، خدا بخش خان کو کتابوں سے عشق وراثت میں ملا اور والد کی وصیت بھی اس میں شامل ہو گئی جب انتقال کے وقت خدا بخش خان کے والد نے خود سے جمع کئے گئے مخطوطات میں اضافہ کرنے کا ان کو وصیت کیا۔ دراصل مغل بادشاہ اورنگزیب کے دربار میں خدا بخش خان کے آباؤ اجداد کام کرتے تھے۔ ان کے والد پٹنہ کے ایک مشہور وکیل تھے۔ خدا بخش خان نے اپنے والد کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے خود قانون کی ڈگڑی حاصل کی اور پٹنہ میں وکالت کرنے لگے۔ وہ ایک مشہور وکیل بنے اور جتنا پیسہ کمایا وہ سب کتابوں کو خریدنے اور اس کی حفاظت پر لگا دیا۔
جو کچھ تھا وہ کتابوں پر خرچ کیا
خدا بخش پبلک لائبریری کے سابق ڈائرکٹر اور معروف مورخ پروفیسر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ خدا بخش خان ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ایک ایسے آدمی تھے جو مخطوطات کو خریدنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ ان میں کتابوں کو خریدنے کی ایک دیوانگی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خدا بخش خان نے اپنی زندگی میں جو بھی کمایا وہ کتابوں کو خریدنے پر خرچ کیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنا ذاتی مکان کتابوں کے ساتھ عوام کے حوالہ کر دیا۔ وہ پٹنہ کے لیے اور پورے عالم کے اہل علم کے لیے ایک تحفہ ہے اور خدا بخش خان کا ایک غیر معمولی کام ہے۔
پروفیسر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ کتابوں کے معاملہ میں خدا بخش خان ایک بہت اہم نام ہے، جنہوں نے پٹنہ میں مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مخطوطہ کو جمع کرنے کی شروعات تو ان کے والد محترم سے ہوئی اور بعد میں خدا بخش خان نے 1891 میں اسے ایک پبلک لائبریری بنا دیا۔ لائبریری کا افتتاح اس وقت بنگال کے گورنر نے کیا تھا۔ اپنے افتتاح کے وقت لائبریری میں قریب 4000 نادر مخطوطہ موجود تھے لیکن آج مخطوطات کی تعداد 21 ہزار سے زائد ہے اور کتابیں لاکھوں کی تعداد میں ہے۔
پروفیسر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ جب تک خدا بخش خان زندہ رہے ان کا ایک ہی مشغلہ تھا کتابوں کو خریدنا انہوں نے بہت سارے مخطوطہ کو خریدا، مخطوطات کو خریدنے کے کئی سارے قصہ مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک وکیل تھے، ایک بار ایک قتل کا مقدمہ ان کے پاس آیا۔ وہ اس وقت کے مجسٹریٹ کے پاس گئے اور بتایا کہ اس طرح کا ایک کیس میرے پاس آیا ہے، تو مجسٹریٹ نے کہا کہ مولوی صاحب میں جانتا ہوں یہ مقدمہ آپ کو اچھا پیسہ دے گا جس کا آپ اچھا استعمال کریں گے، یعنی مجسٹریٹ کو معلوم تھا کہ مولوی خدا بخش جو پیسہ کمائیں گے اس سے وہ کتابیں خریدیں گے۔
خدا بخش خان کے مشکل دن
پروفیسر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ایک وقت ان کے حالات کافی اچھے تھے اور انہوں نے 50 روپیہ کے وظیفہ پر ایک ملازم کو صرف مخطوطات کو خریدنے پر معمور کیا تھا۔ اس کے بعد وقت بدلتا گیا، ان کے حالات اچھے نہیں رہے، فالج ہو گیا اور آمدنی کا کوئی سلسلہ نہیں رہا۔ اس وقت مخطوطات کو فروخت کرنے کا ان کے پاس کافی اوفر آیا لیکن انہوں نے مخطوطات کو فروخت نہیں کیا۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ 50 روپیہ وظیفہ پر کبھی انہوں نے اپنا ملازم رکھا تھا، آخر وقت میں حکومت نے ان کو دینے کے لیے 50 روپیہ کا وظیفہ مقرر کیا۔ ایک طرح سے ان کی ناقدری تھی لیکن ان کا جذبہ قابل احترام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری کمائی اور اپنا مکان سب کچھ عوام کے لیے وقف کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا منفرد پہلو ہے۔ خدا بخش خان کی وصیت تھی کہ جو بھی چیزیں اور کتابیں لائبریری میں موجود ہے وہ یہاں سے باہر نہیں جائے گی۔
وہ عالیشان عمارت دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی
بی این منڈل یونیورسیٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پی فیروز احمد کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر خدا بخش لائبریری نہیں ہوتا تو میرا ریسرچ پورا نہیں ہوتا۔ مسلم برادری کی معاشرتی و معاشی حالت پر میری تحقیق کا پوا کریڈٹ میں خدا بخش لائبریری کو دینا چاہتا ہوں اور یہ لائبریری اہل پٹنہ کے لیے خدا بخش خان کا ایک عظیم تحفہ ہے۔ ڈاکٹر پی فیروز احمد کا کہنا ہے کہ دراصل انہوں نے اپنی پوری زندگی کی کمائی کو قوم کے حوالہ کر دیا اور آنے والی نسلوں کو تعلیم سے روشناس کرانے کے تعلق سے ملک میں اگر کسی نے پہلی بار اس سمت میں کام کیا اس کا نام خدا بخش خان ہے۔ پٹنہ کے اشوک راج پتھ پر ایک عالیشان عمارت ہے، اس سڑک پر بہت ساری عالیشان عمارت ہے لیکن خدا بخش خان کی جو عمارت ہے وہ آج بہار کی سب سے بڑی پہنچان بن گئی ہے۔ بہار میں قومی یا بین الاقوامی کسی بھی کونے سے آنے والا کوئی بھی شخص چاہے وہ علم و ادب سے ہو، فلم انڈسٹری سے ہو، آرٹسٹ ہو، اسپورٹس سے ہو، محقق ہو یا کوئی قد آور سیاسی رہنما ہو، وہ بہار میں سب سے پہلے نالندہ کو دیکھنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ خدا بخش لائبریری کو دیکھنا چاہتا ہے۔ لائبریری پہنچ کر ہر شخص کتابوں کے نایاب ذخیرہ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر فیروز احمد کا کہنا ہے کہ لائبریری میں جا کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کتابوں کے لیے بنی ہے۔
خدا بخش خان کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا
ڈاکٹر فیروز احمد کے مطابق میں اپنی زندگی میں آج جہاں کھڑا ہوں اس میں خدا بخش لائبریری کا بہت بڑا رول ہے اور اس لائبریری کو خدا بخش خان نے بنایا ہے، میں تو ان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا جتنا کہ ان کا اہل علم پر احسان ہے۔ ڈاکٹر فیروز کے مطابق خاص طور سے پٹنہ یونیورسیٹی، پاٹلی پترا یونیورسیٹی، مگدھ یونیورسیٹی اور تحقیق کرنے والے قومی اور بین الاقوامی شخصیتیں خدا بخش خان کے بنائے گئے اس عظیم لائبریری سے مستفید ہو تے ہیں۔ وہ طلبا جن کے پڑھنے کا کہیں باہر انتظام نہیں ہے وہ اس لائبریری میں بنے شاندار ریڈنگ روم میں پورے دن پڑھتے نظر آئیں گے۔ ریسرچ کرنے والوں کے لئے ایک الگ سے ریڈنگ روم ہے جہاں وہ اپنے تحقیق کے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ آج جو بھی بڑے بڑے لوگ جو کسی بھی عہدہ پر فائض ہیں ان کا تعلق خدا بخش لائبریری سے رہا ہے۔ میں وہاں کا لائف ٹائم میمبر ہوں تو میرا ذاتی تعلق اس لائبریری سے ہے میں اپنے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ آج میں کچھ بھی کر پا رہو ہوں تو اس کا پورا سہرا خدا بخش لائبریری کو ہے چونکہ خدا بخش لائبریری نے ہم جیسے لوگوں کو سنوارا ہے، سینچا ہے۔ خدا بخش لائبریری سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ آج خدا بخش خان کا حق ہم جیسے لوگ ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ اللہ، خدا بخش خان کو جنت میں اعلیٰ مقام دے بس آج یہ دعا کر سکتے ہیں۔ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
خدا بخش خان تھے ایک بڑے سوشل ریفارمر
اردو ادیب اسلم جاوداں کا کہنا ہے کہ خدا بخش خان کا اصلی نام مولوی خدا بخش خان تھا، وہ ایک بڑے سوشل ریفارمر تھے۔ ہر طبقہ میں تعلیمی بیداری لانے اور خصوصی طور پر خواتین کی تعلیم کو لیکر کافی سنجیدہ تھے۔ خدا بخش خان کا گھرانہ کافی تعلیم یافتہ تھا اور تعلیم سے خاندان کی بڑی دوستی تھی۔ اس تعلیمی دلچسپی کے نتیجہ میں خدا بخش خان نے ایک لائبریری کی بنیاد ڈالی جسے دنیا، آج خدا بخش لائبریری کے نام سے جانتی ہے۔ اسلم جاوداں کا کہنا ہے کہ خدا بخش لائبریری اتنی زبردست اور نادر لائبریری ہے جہاں 21 ہزار سے زیادہ مخطوطات ہے۔ بڑی قیمتی اور نادر کتابیں موجود ہے۔ یہ لائبریری اپنے ذخیرہ کے اعتبار سے پورے بر صغیر میں منفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے یہاں لوگ ریسرچ کرنے آتے ہیں۔ عربی، فارسی اور سنسکرت کے بھی نشخہ ہے جو اس لائبریری کو اور بھی عظیم بناتا ہے۔ اسلم جاوداں نے کہا کہ خدا بخش خان کے کام کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ انہوں نے کتابوں کو جمع کیا بلکہ سماج کے اصلاح اور تعلیم و تربیت کو لیکر بھی زور آزمائش کی۔ لائبریری کا قیام ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ پٹنہ میں یہ لائبریری موجود ہے جس پر اہل پٹنہ کو فخر حاصل ہے۔ خدا بخش خان نے پٹنہ کو ایک بہت ہی قیمتی اور گوہر نایاب کی طرح ایک تحفہ دیا ہے ہم ان کے شکر گزار ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کو اس کا اجر عظیم عطا کرے۔
کتابوں کو حاصل کرنے کی دیوانگی
اردو و ہندی کے شاعر نیلنشو رنجن کا کہنا ہے کہ بلاشبہ خدا بخش خان بہار کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جنہوں نے اہل عظیم آباد کو وہ شاہکار اور قیمتی تحفہ دیا ہے جس کو بنانے میں لوگوں کو صد یاں لگ جاتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسی لائبریری کا قیام کیا جہاں عربی، فارسی اور اردو کے علاوہ سنسکرت کے بھی نادر نشخہ موجودہ ہے۔ خدا بخش لائبریری کی اس قیمتی ذخائر کے سبب ہی دنیا اس جانب متوجہ ہوتی ہے۔ تحقیق کے شعبہ سے جڑے لوگ پوری دنیا سے یہاں آتے ہیں۔ 1969 میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت اس لائبریری کی دیکھ ریکھ کرتی ہے۔ دور قدیم کے نایاب نشخہ کے علاوہ مغلوں کے زمانے کی ایسی نایاب چیزوں کو خدا بخش خان نے جمع کیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ مخطوطات کے اس ذخیرہ نے لائبریری کو آج بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد پہنچان درج کرائی ہے۔ خدا بخش خان کی پہنچان یہ تھی کہ وہ کتابوں کو حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی صورت اختیار کر سکتے تھے اور ہر قیمت دینے کو تیار رہتے تھے۔ انہوں نے اپنا ذاتی دولت کتابوں پر خرچ کیا۔ اپنا مکان و زمین سب کچھ لائبریری کے حوالہ کر دیا۔ وہ عظیم شخصیت 3 اگست 1908 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئی۔ خدا بخش خان کو اہل علم اور اہل پٹنہ کی طرف سے ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔