اردو کا شجر سایہ دار سریندر شجر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-07-2024
اردو کا شجر سایہ دار سریندر شجر
اردو کا شجر سایہ دار سریندر شجر

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

دنیا کی شیریں ترین زبانوں میں اردو سر فہرست ہے۔ یہ محبت کی زبان ہے۔ اس کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے بنیادی عناصر میں قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی شامل ہے۔ جہاں اس کا شجرہ بابا فرید گنج شکر اور امیر خسرو تک پہنچتاہے وہیں درمیان میں چندربھان برہمن جیسے لوگ بھی آتے ہیں جن کا خون جگر اردو میں شامل ہے۔ اردو کی یکجہتی کی ایک مثال ہیں سریندر شجر جو کئی دہائیوں سے اردو میں شاعری کر رہے ہیں۔اردو کا ماضی شاندار رہا ہے اور اب بھی یہ دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہے مگر ہندوستان میں زبان لکھنے پڑھنے والوں میں تقریباً تمام مسلمان ہیں مگر سریندر شجر آج بھی اپنی شاعری کے ذریعے زبان کی تبلیغ وتشہیر میں لگے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اردو، مذہبی دیوار سے بہت بلند ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اردو ایک خوبصورت زبان ہے جو خاص طور پر اپنے زبردست لٹریچر اور شاعری کے لیے جانی جاتی ہے۔ اپنی شاندار لسانی خصوصیات کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد محترم اردو زبان لکھتے پڑھتے تھے مگر میں نے دہلی میں اسکول کی تعلیم پائی تب تک اس مرکز اردو میں اردو کا رواج ختم ہوچکا تھا مگر میں نے شوق میں اردو پڑھ ڈالی اور اسی شوق میں شاعری بھی کرنے لگا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اردو شاعری اپنے آپ میں ایک بااثر صنف ہے۔ یہ بہت سے تغیرات اور طرزوں کے ساتھ ایک وسیع موضوع ہے، جو مقامی لوگوں کی زبان اور روایات کے بارے میں مزید جاننے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔

awaz

سابق وزیراعظم ہند اندرکمار گجرال کے ساتھ سریندر شجر

شاعری میں امیرقزلباش کو استاد بتانے والےشجر کا کہنا ہے کہ اردو کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اسے کسی مذہب سے جوڑ کر دیکھنا درست نہیں۔ یہ ہندوستانی ثقافت کی عکاس ہے۔ یہ ہمیشہ اپنے قارئین اور سامعین پر ایک پر سکون اور خوبصورت تاثر چھوڑتی ہے۔ شجرغزل کے شاعر ہیں اور ان کے دو شعری مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ ان میں ایک "شجرصدا" ہے جب کہ دوسرا "ریت کی دیوار" ہے۔ وہ غزل میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور اسی لحاظ سے مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اردو کی محبت نے انہیں دنیا کے کئی ملکوں کی سیر کرائی ہے۔ انہوں نے پاکستان اور عرب ملکوں میں تو مشاعرے پڑھے ہی ہیں ، شاعری نے انہیں کچھ دوسرے ملکوں کی بھی سیر کرادی ہے۔

awaz

ان کی شاعری کے بارے میں معروف شاعر مخمور سعیدی مرحوم نے لکھا ہے کہ " شجر کے لہجے میں بڑی سادگی ہے، وہ اپنی بات اس بے تکلفی اور آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ان کے ہر شعر پر آمد کا گمان گزرتا ہے لیکن اس آمد میں آورد بھی شامل ہے، یعنی ان کی سادگی میں پر کاری بھی ہے۔ انھوں نے زندگی کو دیکھا ہی نہیں برتا بھی ہے اور برتنے کے اس عمل میں وہ جن جذباتی اور ذہنی کیفیات سے گزرے ہیں ، وہ گونا گوں ہیں ، اسی لیے ان کے ہاں موضوعاتی تنوع ہے۔ ان کی ہر غزل اپنے قارئین اور سامعین کو متوجہ اور متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایک شعر کسی ایک کو متوجہ کرے گا تو دوسرا کسی اور کو۔ جس شاعر کا کلام اس وصف سے متصف ہو، اس کی ہر دل عزیزی کے امکانات روشن ہونے میں کسے شک ہو گا۔ کم از کم مجھے تو نہیں ہے"۔

مخمور مزید لکھتے ہیں سریند رشجر کی شاعری ایک ایسے شخص کے مشاہدات اور محسوسات کا اظہار ہے جو خود آگاہ ہے اور جس کے آئینہ فکروفن میں اس ماحول اور معاشرے کی تصویریں بھی منعکس ہو رہی ہیں جس میں وہ سانس لے رہا ہے ۔ وہ ہر راہگزر سے کھلی آنکھوں کے ساتھ گزرے ہیں اور کھلی آنکھوں کے اس دلچسپ سفر میں انھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، جو کچھ محسوس کیا ہے وہی لفظوں میں ڈھل کر ان کا شعر بن گیا ہے۔ ان کے نظریہ شاعری کا اظہار ان کے کئی شعروں میں ہوا ہے، ایک جگہ کہتے ہیں

صرف لفظوں کا ہی کاروبار ہو

پھر تو ہر اک شاعری کرنے لگے

awaz

ریت کی دیوار، بیک کور پر ہروفیسر مظفرحنفی اور رفعت سروش نے تعریفی کلمات ہیں۔ بہرحال شجر ان دنوں دنیا بھر میں مشاعرے پڑھ رہے ہیں اور ان کے سہل ممتنع کے خوبصورت اشعار سامعین کو پسند آرہے ہیں۔ ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں۔

یوں تو سب سامان پڑا ہے

لیکن گھر ویران پڑا ہے

شہر پہ جانے کیا بیتی ہے

ہر رستہ سنسان پڑا ہے

زندہ ہوں پر کوئی مجھ میں

مدت سے بے جان پڑا ہے

تبھی چلیں ہیں اس قافلے والے

جب رستہ آسان پڑا ہے

شاعر کانٹوں پر جیتا تھا

پھولوں پر دیوان پڑا ہے

awaz

اشک آنکھوں میں چھپا لیتا ہوں میں

غم چھپانے کے لیے ہنستا ہوں میں

شرم آتی تھی کبھی تجھ سے مجھے

زندگی اب خود سے شرمندہ ہوں میں

مدتوں سے آئینہ دیکھا نہیں

کوئی بتلائے مجھے کیسا ہوں میں