قرآن اوربلیک ہولز: علمی اور قرآنی پہلو

Story by  ڈاکٹر شبانہ رضوی | Posted by  [email protected] | Date 12-01-2025
 قرآن اوربلیک ہولز: علمی اور قرآنی پہلو
قرآن اوربلیک ہولز: علمی اور قرآنی پہلو

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی

بلیک ہولز کے متعلق تحقیق اور سائنسی انکشافات ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہے ہیں۔ اپریل 2019ء میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی جب ناسا کے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کے ذریعے بلیک ہول کی پہلی واضح تصویر جاری کی گئی۔ یہ تصویر ایک ایسے بلیک ہول کی تھی جو اب تک دریافت ہونے والے سب سے بڑے بلیک ہولز میں شمار ہوتا ہے اور زمین سے تقریباً 5 کروڑ 50 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس حوالے سے برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق قابل ذکر ہے، جنہوں نے بلیک ہولز کی ساخت اور ان کی انتہائی کشش ثقل پر روشنی ڈالی۔ ہاکنگ نے وضاحت کی کہ یہ کائنات کے ایسے علاقے ہیں "روشنی بھی ان کی کشش ثقل سے فرار نہیں ہو سکتی۔"اور ان کی کشش ثقل پوری کہکشاؤں تک کو نگل سکتی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک ایسے عظیم سائنسدان تھے جنہوں نے سائنس کی دنیا کو نئی راہیں دکھائیں۔ ان کی شخصیت نہ صرف نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے بلکہ ان کی کہانی ان لوگوں کے لیے بےحد متاثر کن ہے جو مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جسمانی معذوری کے باوجود انہوں نے علم کی بلندیوں کو چھوا اور یہ ثابت کیا کہ محنت، لگن، اور شوق کسی بھی چیلنج کو سر کرنے کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکلات ہماری منزل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ ہمارے عزم کو آزمانے کا ایک ذریعہ ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ ایک مشہور تھیوریٹیکل فزکس کے ماہر اور کاسمولوجسٹ تھے، جنہیں بلیک ہولز اور کائنات کی ساخت پر ان کی تحقیق کی بدولت جانا جاتا ہے۔ ہاکنگ نے بلیک ہولز کو کائنات کی سب سے پراسرار شے قرار دیا، جو روشنی کو بھی اپنی کشش ثقل کے ذریعے قابو میں لے لیتے ہیں۔

دوسری طرف، قرآن مجید میں ایسے علمی اور حکمت کے پہلو بیان کیے گئے ہیں جو انسانی عقل اور سائنس کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اس مضمون میں ہاکنگ کی تھیوریز اور قرآن کی آیات کے مابین ممکنہ تعلق کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگرچہ قرآن اور احادیث میں بلیک ہولز کا صریح ذکر نہیں، تاہم بعض آیات اور تفاسیر میں ایسے مقامات کا ذکر ملتا ہے جنہیں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں بلیک ہولز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

بلیک ہولز اور قرآنی اشارے:

ہاکنگ کے مطابق، بلیک ہولز وہ اجسام ہیں جو اتنی شدید کشش رکھتے ہیں کہ روشنی بھی ان سے فرار نہیں ہوسکتی۔ قرآن میں سورۃ التکویر (81:15-16) میں فرمایا گیا:

"فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ، ٱلْجَوَارِ ٱلْكُنَّسِ"

(قسم ہے ان ستاروں کی جو چھپ جاتے ہیں اور جو چلتے ہیں اور غائب ہوجاتے ہیں۔)

یہ آیات ان ستاروں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو اپنی زندگی کے اختتام پر منہدم ہوکر بلیک ہولز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

1784ء میں جان مشیل نے ایک نظریہ پیش کیا تھا کہ کائنات میں ایسے اجسام موجود ہیں جو روشنی کو جذب کر لیتے ہیں۔ اسی طرح حالیہ سائنسی دریافتوں نے اس خیال کو مزید تقویت دی کہ بلیک ہولز روشنی کو بھی اپنے اندر قید کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دیکھنے میں تاریک اور پراسرار دکھائی دیتے ہیں۔

ہاکنگ ریڈیئیشن اور فنا کا تصور:

ہاکنگ نے 1974 میں یہ نظریہ پیش کیا کہ بلیک ہولز اپنی توانائی کو "کوانٹم اثرات" کے ذریعے خارج کرتے ہوئے ختم ہو جاتے ہیں۔ قرآن میں فنا کے تصور کو یوں بیان کیا گیا ہے:

سورۃ الرحمن (55:26-27):

"كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو ٱلْجَلَـٰلِ وَٱلْإِكْرَامِ"

(زمین پر موجود ہر شے فنا ہو جائے گی، اور صرف آپ کا رب  باقی رہے گا۔)

یہ آیات بلیک ہولز سمیت ہر مخلوق کی فنا کو اللہ کی ہمیشگی کے تصور کے ساتھ جوڑتی ہیں۔

وقت اور مکان کا تصور:

ہاکنگ نے اسپیس ٹائم (Space-Time) اور وقت کے بہاؤ کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا، جو آئن اسٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی سے جڑا ہوا ہے۔

سرن لیبارٹری کے 2011ء کے تجربات نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کچھ ذرات، جیسے نیوٹرینو، روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے حرکت کر سکتے ہیں۔ یہ دریافت سائنس اور قرآن کے درمیان تعلقات پر غور و فکر کے نئے دروازے کھولتی ہے۔قرآن وقت کے نسبتی تصور کو یوں بیان کرتا ہے۔

سورۃ المعارج (70:4):

"تَعْرُجُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ"

(فرشتے اور روح اللہ کی طرف چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔)

یہ آیت وقت کے مختلف رفتاروں کے ساتھ بہاؤ کو بیان کرتی ہے، جو بلیک ہولز کے قریب وقت کے آہستہ ہونے کے نظریے کے مطابق ہے۔

ستاروں کا گرنا اور بلیک ہولز کی تشکیل:

ہاکنگ کے مطابق، بلیک ہولز مرتے ہوئے ستاروں کے منہدم ہونے کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ قرآن میں ستاروں کے گرنے کا ذکر یوں کیا گیا ہے:

سورۃ النجم (53:1):

"وَٱلنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ"

(قسم ہے ستارے کی جب وہ گرتا ہے۔)

یہ آیت ان ستاروں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اپنی زندگی کے آخری مراحل میں بلیک ہولز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

سورۃ النجم:

سورۃ النجم کی آیات 12 سے 18 میں سدرة المنتہیٰ کا ذکر ہے:

"پھر جو کچھ اس نے دیکھا، تم اس میں جھگڑتے ہو۔ اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ سدرة المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ جب کہ اس سدرة پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)۔ نہ تو نظر بہکی، نہ حد سے بڑھی۔ بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔"بعض مفسرین کے مطابق، سدرة المنتہیٰ کائنات کا ایک ایسا مقام ہے جہاں سے آگے فرشتے بھی نہیں جا سکتے۔ کچھ جدید علماء اس مقام کو بلیک ہولز سے تشبیہ دیتے ہیں، جہاں زمان و مکان کی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔

سورۃ الواقعہ:

سورۃ الواقعہ کی آیت 75 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"پس نہیں! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے گرتے ہیں۔"

بعض علماء کے نزدیک، "ستاروں کے مقامات" سے مراد بلیک ہولز ہیں، جہاں ستارے اپنی زندگی کے اختتام پر منہدم ہو کر گم ہو جاتے ہیں۔

بعض ماہرین نے اس بات پر غور کیا ہے کہ بلیک ہولز کی ساخت قرآن میں مذکور بیری کے درخت (سدرة المنتہیٰ) سے مشابہ ہے، جس کا ذکر معراج کے دوران ہوتا ہے۔ یہ درخت اپنی باریک شاخوں اور پھیلاؤ کی وجہ سے بلیک ہول کی ساخت جیسا لگتا ہے۔

کائنات کا آغاز اور انجام:

ہاکنگ کے نظریے کے مطابق، کائنات کا آغاز ایک سنگولیرٹی (Singularity) سے ہوا اور بلیک ہولز بھی اسی اصول پر مبنی ہیں۔ قرآن میں کائنات کے آغاز کو یوں بیان کیا گیا ہے:

سورۃ الانبیاء (21:30):

"أَوَلَمْ يَرَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًۭا فَفَتَقْنَـٰهُمَا"

(کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے، تو ہم نے انہیں الگ کیا؟)

یہ آیت بگ بینگ تھیوری اور کائنات کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو ہاکنگ کی تحقیق کے مطابق ہے۔

اللہ کی حکمت اور انسانی علم کی حد:

ہاکنگ نے کہا تھا کہ بلیک ہولز اور کائنات کے راز سمجھنے سے ہم کائنات کے بنیادی اصولوں کو جان سکتے ہیں۔ لیکن قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ ہر چیز کا علم صرف اللہ کے پاس ہے:

سورۃ البقرہ (2:255):

"وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍۢ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَ"

(اور وہ (لوگ) اس کے علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے، سوائے اس کے جو وہ چاہے۔

اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق نے کائنات کے کئی رازوں کو بے نقاب کیا، مگر قرآن ان حقائق کو ہزاروں سال پہلے ہی بیان کر چکا ہے۔ سائنس قرآن کے علم اور حکمت کی تصدیق کرتی ہے، اور یہ دونوں مل کر انسان کو اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔یہ مضمون اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ سائنس اور قرآن ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکمیل کنندہ ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ سائنس تغیر پذیر ہے، جب کہ قرآن کا کلام اٹل اور حتمی ہے۔