صادقہ نواب سحر کے سر پر’ ساہتیہ ‘کا تاج

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-12-2023
 صادقہ نواب سحر کے سر پر’ ساہتیہ ‘کا تاج
صادقہ نواب سحر کے سر پر’ ساہتیہ ‘کا تاج

 

زیبا نسیم : ممبئی

 عہد حاضر میں ناول نویس ، افسانہ نگار، شاعرہ اور ڈراما نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنانے والی خواتین میں صادقہ نواب سحر ایک اہم نام ہے۔جنہیں  ساہتیہ اکاڈمی نے اردو کے زمرے میں ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ہے

آپ کو بتا دیں کہ ان کا اصلی نام صادقہ آرا ہے۔ ان کی پیدائش ۱۸ اپریل ۱۹۵۷ء کو آندھرا پردیش کے ضلع گھور میں ہوئی ۔ یہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں کوئی ادیب شاعر یا فکشن نگار پیدا نہیں ہوا تھا۔ اپنے خاندان کی پہلی ادیبہ ہونے کا اعزاز انہیں حاصل ہے۔قلمی ہمیں نام صادقہ نواب ہے، شاعری میں سحر خلص لکھتی ہیں، اس طرح وہ صادقہ نواب سحر کے نام سے معروف ہیں۔ اپنی خدمات کی وجہ سے وہ خاندان میں آنے والی نسل کے لیے مینار نور بن گئیں۔

صادقہ نواب نے اردو ہندی اور انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے پی ایچ ڈی میں ہندی غزل ۱۹۶۰ء کے بعد کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ ضبط تحریر میں لاکر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئیں ۔ آج کل کے ۔ ایم سی کالج کھولی ضلع رائے گڑھ مہاراشٹرا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور صدر شعبۂ ہندی کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ صادقہ نواب سحر ہمیشہ تصنیف و تالیف کے کام سے جڑی رہیں ۔ صادقہ نواب سحر نے ناول افسانے ڈرامے اور شاعری کے علاوہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے میں خاص دلچسپی لی۔ صادقہ نواب کی تخلیقات جو منظر عام پر آچکی ہیں

 اردوڈرامہ کی تاریخ میں خواتین ڈرامہ نگاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ ان میں زاہدہ زیدی، نادرہ ظہیر تیر ، بانو سرتاج اور نور العین علی نے عمدہ ڈرامے تحریر کیے ہیں ۔ معروف ناول نگار، شاعرہ، افسانہ نگار اور بچوں کی ادیبہ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں کا مجموعہ مکھوٹوں کے درمیان شائع ہو کر شائقین ڈرامہ سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔ ۲۷ مارچ عالمی یوم ڈرامہ کے موقع پر ہم ان کی ڈرامہ نگاری پر ہی بات کریں گے ۔ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کا شمار ہندوستان کے معروف ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ناول، افسانے ، غزلیں، نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ بچوں کے ادب کے لیے بھی انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ مشاعروں میں شرکت کرتی ہیں۔ ادبی اجلاس میں ماہر لسانیات کے طور پر مدعو کی جاتی ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ " انگاروں کے پھول“ منظر عام پر آیا۔ بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ ” پھول سے پیارے جگنو ۲۰۰۳ ء میں شائع ہوا ۔ ۲۰۰۸ء میں پہلا ناول کہانی کوئی سناؤ متاشا“ شائع ہوا۔ یہی ناول ۲۰۰۹ ء میں ہندی میں بھی شائع ہوا۔ افسانوں کا مجموعہ خلش بے نام سی بھی شائع ہو چکا ہے۔ موصوفہ کو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی پر بھی عبور حاصل ہے۔ ہندی میں بھی ان کی کئی تصنیفات شائع ہو چکی ہیں

 صادقہ نواب سحر دور حاضر کی ایک ایسی فکشن نگار ہیں جو سماجی مسائل کو شدت سے محسوس کرتی ہیں ، سوچتی ہیں، بجھتی ہیں اور پھر انہیں تخلیقی پیکر میں ڈھال کر قاری کے سامنے پیش کرتی ہیں ۔ صادقہ نے ناول بھی لکھے ، افسانے بھی اور ڈرامے بھی لیکن ہر صنف میں مقصد ایک ہی ہے۔ سماج و معاشرے کی اصلاح ۔

 اگر بات کریں -- کہانی کوئی سناؤ متاشا ایک اہم ناول ہے جس میں عورت کی نبض ٹٹول کر اس کے دکھ درد کو بڑی چابکدستی سے بیان کیا ہے ۔ کہانی کوئی سناؤ متاشاء میں جہاں انہوں نے عورت پر ہونے والے مظالم کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے وہیں افسانوں میں دکھ کے مارے انسانوں کو موضوع بنا کر سماجی برائیوں کو اجاگر کیا ہے۔

اسی طرح ان کے ڈرامے بھی سماج میں پھیلے ہوئے تو ہمات کے خلاف اعلان جنگ ہیں۔ اگر خواتین ایسی با حوصلہ ہوں ں تو یقیناً سماج میں انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ مکھوٹوں کے درمیان صادقہ نواب سحر کے بہترین ڈراموں کا کلیکشن ہے۔ اس میں شامل ہر ڈرامے کا مقصد اصلاح ہے۔ وہ کہیں تعلیم سے مطمئن نظر نہیں آتیں، کہیں سماج کے طور طریقوں پر ضرب کاری لگاتی ہیں اور کہیں عورت پر ظلم کرنے والوں کو آئینہ دکھاتی ہی

 ڈاکٹر صادقہ نواب سحر اس خوبصورت احساس کی حامل ہیں جو خزاں کو بھی بہار میں بدل دیتا ہے اور ریگ زار کو بھی گلزار بنا دیتا ہے۔ وہ بہت مثبت اور تعمیری ذہن رکھتی ہیں ۔ ہر باب میں ان کا نقطہ نظر متوازن ہے۔ وہ گو کہ عملی طور پر ہندی ادبیات سے وابستہ ہیں مگر اردو میں بھی ان کا ایک الگ مقام ہے۔ ایک فکشن نگار، ڈرامہ نگار اور تنقید نگار کی حیثیت سے وہ اپنی الگ شناخت بنا چکی ہیں۔

ان کا ناول کہانی کوئی سناؤ متاشا ادبی حلقوں میں موضوع بحث رہا اور یہ ناول اردو، ہندی اور تیلگو زبانوں میں بھی شائع ہوا۔ اس کا ایک ایڈیشن پاکستان سے بھی طبع پذیر ہوا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ دخلش بے نام سی اور ڈرامہ کا مجموعہ مکھوٹوں کے درمیان بہت مقبول ہوئے ۔ ہندی اور انگریزی میں بھی ان کی بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور مختلف تنظیموں اور اداروں نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں اعزازات سے نوازا ہے

اصل نام : صادقہ آراء (پہلے صادقہ آراء بحر کے نام سے شائع ہوئی

تعلیم :۔ ابتدائی تعلیم :۔ امام باڑہ اسکول، بھانڈی بازار ثانوی:۔ انجمن اسلام طیب جی ہائی اسکول، بیلاس روڈ، ممبئی

1974بی اے:۔ (اردو، فارسی) صوفیہ کالج ممبئی یونیورسٹی، ممبئی 1978 ایم اے (اردو) ممبئی یونیورسٹی ممبئی ۱۹۸۱ ایم اے (ہندی)، ممبئی یونیورسٹی، ممبئی 1993۔ ایم اے (انگریزی) ممبئی یورسٹی ممبئی 1987۔ ڈی ایچ ڈی:۔ (ہندی: ) ہندی غزل: اور دشینت کمار کا خصوصی مطالعہ ممبئی یو نیورسٹی ممبئی، 1991۔ سیٹ، پونا، یو نیورسٹی:1995)

ادبی شناخت: ناول و افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، تنقید، بچوں کا ادب۔ راہ معاش :۔ درس و تدریس۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر، گائیڈ وصدر شعبۂ ہندی، ایم سی کالج، کھپولی، ممبئی یونیورسٹی) ضلعی رائے، مہاراشٹر-۴۱۰۲۰۳

والدین :۔ خواجہ میاں صاحب اور شرف النساء بیگم شوہر: محمد اسلم نواب

اولا دیں: لبنا (بیٹی ) محمد نبیل

پتہ: 301، صادقہ مینشن، شاستری نگر، کھولی ضلع رائے گڑھ، مہاراشتر

مطبوعات :۔ اردو کتابیں

انگاروں کے پھول (شعری بحث)، مکتبہ فکر وفن ممبئی،1996 میں پھولے سے پیارے جگنو (بچوں کی نظموں کا مجموعہ) 2003 میں کوئی سناؤ متاشا (ناول) 2008 میں ویشنل پبلشنگ ہاؤس، دلی کوئی سناؤ متاشا (2010) زاد پہلی ٹیشنس، کراچی سے مکھ کے درمیان (اردو کا طبع زاد ڈرامائی مجموعہ) 2012 تخلیق کار پبلشر، دلی

خلش بے نام سی افسانوں کا بحث ) 2013 ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس، دلی جس دن سے..... (ناول) 2016 ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دلی

(ہندی کتابیں)

۔ 2000 ۔ مجروح سلطانپوری کی کلیات کا ترجمہ وادارت ہندی میں،سارانش پر کاشن، دلی سے

۔ 2002 مجروح سلطانپوری کی غزلوں کا ترجمہ اور ادارت ہندی میں، وانی پر کاشن، دلی سے

۔ 2007 ہندی غزل: فکر وفن خصوصی جائزہ: دشینت کمار (تحقیق)

پتھروں کا شہر (نظموں کا شہر 2002) کہانیاں کوئی سناؤ متاشا (ناول) ء ہندی میں بھاونا پر کاشن، دہلی  منت۔ کے تحت شایع شدہ )2012

ساہتیہ میں آلوچنا کی چنا ( تنقیدی مضامین ) 2012 ( وانگھئے پر کاشن علی گڑھ) اور جس دن سے ... (ناول) 2017 بھاونا پر کاشن، دہلی

پھر کھلے پھول (غزلوں کا مضمون، 2017 پری درشیہ پر کاشن ممبئی

کوئی بات سناؤ متاشا ( ناول ) 2014 ۔

(انگریزی)

غزل اور اینڈڈ ( تحقیق ) 2010 کا کوئی سناؤ متاشا ( ناول ) 2014

پنجابی، تیلگو، کنزہ، انگریزی، مارواڑی، اور مراٹھی زبانوں میں بھی ترجمے ہوتے ہیں۔

نصابی کتابیں شامل ہیں:۔

بالی ہند کی اردو کی پانچویں کی نظم میں "آؤ دعامانگیں شامل ہیں مغربی بنگال بورڈ آف کینڈری ایجوکیشن کی اردو کی دسویں کتاب میں ڈرامہ" سلطان محمود غزنوی شامل

انعامات و اعزازات:-

مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا سنہ 2004 کے لئے”ساحر لدھیانوی ایوارڈ مہارتیہ اردو ساہ اکادمی کا مکھوٹوں کے درمیان (اردو کا طبع زاد ڈرامائی مجموعہ) اردو ساہتیہ اکادمی کا رشیدت النساء ناول ناول کوئی سناؤ متا پر موسم ساہتی اکادمی اکادمی اکادمی کا مکھوٹوں کے درمیان۔ اختراعی افسانوی افسانوی مضمون خلش بے نام سی پر ہندی ساہتیہ کا کل ہند ناول ناول کوئی سناؤ متاشا پر اتر پر اردو ساہتیہ اکادمی کا کل ہند افسانوی مجموعہ خلش بے نام سی مہاراشٹر ہندی ساہتی اکادمی منشی پر چند رایوارڈ 'منت افسانوی بحث پر۔ مہاراشٹر ہندی ساہتیہادمی کا جینیندر کمار ایوارڈ ناول کوئی سناؤ متاشا پر ہندوستانی بھا شاپر یش، کولکاتا کا یو الیکھک پر کاشن سمان (اردو ناول سناؤ متاشا') مغربی بنگالی اردو ساہتیہادمی کا کوئی مولانا ابوالکلام آزاد افسانہ مجموعہ بے خلش۔

مہاراشٹر اردو سہتیہ اکادمی نے میر یورو نامی ڈرامے کو بیسٹ اسکرپٹ رائٹنگ کے نقد انعام سے نوازا۔

میپروین شاکر ایوارڈ۔ اردو ساہتیہ پریشد، پونا، 13۔ اسباق میگزین ایوارڈ، پونا 14۔ مجروح اکادمی ایوارڈ، 15 - آدرش شک پُرسکار 16 - شری بالو جا ساہتیہ کلا اکادمی ایوارڈ، دلی، 17۔ مہاراشٹر لوک کلیا نگری سیوا سنستھانے مہاراشٹر گورو پر سکار، 18 مراٹھا سیوا سنگھ نے جیجاؤ ساوتری سمان سے نوازا، 19۔ یوا جگت اخبار کااز 20۔ ہندی بھوشن، (راشٹریہ ہندی ساہتیہ پریشد، میرٹھ، اتر پردیش)، 21- ساوتری بائیوا ویرانگنا نیشنل فیلوشپ

اعزاز (بھارتیہ دلت ساہتیہ اکادمی، دلی)، 22 - ہم کثرا نیشنل ایوارڈ-2010۔ 23ساہتیہ ادمی کے ہم پروگراموں (ممبئی، اودے پور اور پورٹ بلیئر) میں اپنی کہانیاں، غزل اور نظم پیش کیں، 24ہندوستانی گیان پی سے شایع ” آج کی باتیں“ ( ہندی میں )

بے شمار مشاعروں، ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں میں حصہ ممالک ادبی پروگراموں میں حصہ لیا:۔ماریشس، دوبئی، جدہ، لندن، پیرس، سویزرلینڈ کا دورہ کیا ہے