مذہب سماج کو متحد کرتا ہے منتشر نہیں، بین المذاہب ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ۔ مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 28-07-2024
 مذہب سماج کو متحد کرتا ہے منتشر نہیں، بین المذاہب ڈائیلاگ وقت کی ضرورت۔
مذہب سماج کو متحد کرتا ہے منتشر نہیں، بین المذاہب ڈائیلاگ وقت کی ضرورت۔

 

محمد محفوظ : پٹنہ 

خانقاہوں اور صوفیوں کا دربار قومی یکجہتی اور بھائی چارہ قائم کرنے میں صف اول میں رہا ہے۔ خانقاہ کوئی مندر یا مسجد یا گرجا نہیں ہے، خانقاہ ہندوستانی سماج کا وہ ادارہ ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ بیحد احترام و عقیدت کے ساتھ آتے ہیں۔ خانقاہوں نے لوگوں کو بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کی تعلیم دی ہے اور آج بھی وہ سلسلہ جاری ہے۔ ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے اور ایک ایسا ملک جہاں جامع ثقافت کو ملک کی ترقی کا بنیاد مانا گیا ہو یا مانا جاتا ہو اس ملک میں مختلف مذاہب کے بیچ ڈائیلاگ اور انٹریکشن کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اب جو لوگ سماج میں انتشار اور منافرت پھیلاتے ہیں دراصل وہ انسانیت، ہمدردی، رواداری اور خیرسگالی کے دشمن ہیں۔ اس لیے ہم لوگ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ غلطفہمیوں اور انتشار کو دور کر کے انسانیت، بھلائی، خیرسگالی اور قومی یکجہتی کا ماحول نہ صرف قائم کیا جائے بلکہ ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل ممکن ہو سکے جہاں مذہب، سماج میں دوریوں کا سبب نہیں بنے بلکہ پیار و محبت ایثار و قربانی اور انسانیت کے فروغ کا ذریعہ بنے۔
یہ کہنا ہے مشہور خانقاہ، خانقاہ منعمیہ میتن گھاٹ کے سجادہ نشین اور معروف اسلامک اسکالر مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا۔ 
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی نے کہا کہ بین المذاہب کا پروگرام بلکل ہونا چاہئے اور بار بار ہونا چاہئے یہ اس ملک کی ضرورت ہے۔ ہندوستان ایک کثیر لسانی اور کثیر مذہبی ملک ہے۔ ان کے مطابق جب تک یہاں بین مذہبی ڈائیلاگ اور بین مذہبی سماجی رابطہ بڑھے گا نہیں تو کیسے کام چلے گا اور سماج کی ترقی کیسے ہوگی، اس لیے بین المذاہب پروگرام اور مختلف مذاہب کے علماء، دانشور اور سماجی کارکن کا ایک ساتھ ملنا اور ایک ساتھ مختلف امور پر بات چیت کرنا نہایت ضروری ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس سے انسانیت کی ترقی ہوگی اور سماج میں منافرت اور انتشار کا خاتمہ ہوگا۔
ملک کی بھلائی میں یقین رکھنے والا منافرت نہیں چاہتا 
مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کے مطابق دراصل ہندوستان کی ترقی قومی یکجہتی اور بھائی چارے کے ماحول میں ہی مضمر ہے۔ کوئی یہ کہے کی امتیاز اور تعصب کے ماحول میں ہم ترقی کر لیں گے تو وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہر مذہب میں اچھی چیزیں موجود ہے اور ان اچھی چیزوں سے ہی انسانیت فروغ پا رہی ہے اور سماج کا تانا بانا زندہ و تابندہ ہے۔ کثیر المذاہب ملک میں یہ نہایت ضروری ہے کہ سبھی مذاہب کے بیچ آپسی ڈائیلاگ اور انٹریکشن کے ماحول کو پروان چڑھایا جائے اور جن باتوں سے، کم علمی میں یا تعصب کے سبب غلطفہمی پیدا ہوئی ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تبھی ملک کی تعمیر و ترقی کا اصل راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں صوفیوں نے یہی تو کیا ہے، کمپوزیٹ کلچر کا فروغ اور آپسی روداری کی وہ مثال پیش کرتے رہے ہیں اور ان کی کاوشوں اور خانقاہوں کے سبب ہی ملک میں بھائی چارہ و خیر سگالی کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کے مطابق جامع ثقافت میں رہنے والا ہر شخص اس بات کو سمجھتا ہے کہ مذہبی معاملات کو لیکر سماج میں انتشار پیدا کرنا ملک کے فلاح و بہبود کے لیے مفید نہیں ہے۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو سماج میں انتشار کو پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جو لوگ تمام مذاہب کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ اس ملک کی ترقی و تعمیر میں یقین رکھتے ہیں اور سماج کا فلاح اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
 
مذہبی دھرم گوروں کی بڑی ذمہ داری
مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کے مطابق ماضی میں سماج کا تانا بانا آج کے برعکس تھا۔ لوگوں میں کسی طرح کی کوئی فیلنگ نہیں تھی، اس منفرد اور خوبصورت ماحول میں ہر شخص اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا تھا بلکہ لوگوں کے ذہن میں خرافات نہیں تھا اس کی جگہ بھائی چارہ کی بات تھی۔ آج اس میں کمی واقع ہوئی ہے تو نہ صرف یہ کہ علم کی کمی ہے بلکہ کچھ قوتیں ایسی ہیں جو اپنے مفاد کے لیے اور وقتی ضرورت و فائدہ کے لیے سماج میں منافرت چاہتی ہے۔ ان کا مقصد ہوتا ہے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا اور ایک دوسرے کے خلاف غلطفہمیاں پیدا کرنا، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں کمیونٹی کے جو مذہبی و سوشل لیڈر ہیں اور جو دانشور طبقہ ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کریں۔ اس سے معاشرے میں یہ پیغام جائے گا کہ جن باتوں کو لیکر ذہن میں منفی سوال بنتا ہے وہ محض غلطفہمی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اصلیت تو پیار و محبت اور یگانگت ہے، محبت اور اتحاد ہے۔
بین المذاہب پروگرام ملک کے لیے مفید
معروف اسلامک اسکالر مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ ہم لوگ خود بھی بین المذاہب کا پروگرام منعقد کرتے ہیں اور مختلف مذاہب کے علما، دھرم گورو، سماجی لیڈر اور دانشوروں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے پروگراموں سے سماج میں اتحاد قائم ہوتا ہے اور غلطفہمیاں دور ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے مختلف پروگراموں میں شرکت بھی کرتے ہیں اور بین المذاہب پروگرام میں میرا کافی اچھا تجربہ رہا ہے، مجھے یہ احساس ہے کہ ایسے پروگراموں کے ذریعہ ہمیں اپنی باتوں کو دوسروں تک پہنچانے کا موقع ملا اور ساتھ بیٹھنے سے مسئلہ حل ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق آپسی انٹریکشن کے سبب سماج کو ایک پیغام دینے کا موقع ملا کہ ہم ساتھ ساتھ ہیں اور ساتھ ساتھ ہی رہنا ہمارے لیے بھی اچھا ہے اور ملک کے لیے بھی اچھا ہے۔ کسی بھی سماج کو اس تعلق سے متحد کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے اس کا نتیجہ بیحد مثبت ہوتا ہے اور سماج میں محبت اور انسانیت قائم ہوتی ہے۔
کثیرالمذاہب ملک میں یہ کام ضروری
مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کے مطابق دراصل ہر مذہب کا بنیادی کیریکٹر ایک جیسا ہے۔ وہ بنیادی کیریکٹر کیا ہے؟ وہ ہے اخلاق، کردار، انسانیت، لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک اور اتفاق سے یہ چیزیں ہر مذہب میں کامن ہے۔ یعنی جو عام چیزیں ہیں وہ غیر عام چیزوں کے مقابلہ میں کم ہے، زیادہ تر کامن باتیں ہیں۔ ہم سچ بولیں، جھوٹ نہیں بولے، ہم دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، ہم گرتے ہوئے کو تھام لیں، ہم کمزور اور مظلوموں کی مدد کریں وغیرہ۔ یہ باتیں کس مذہب میں نہیں ہے؟ تمام مذاہب اسی طرح کی تعلیم دیتی ہے۔ اس لیے اگر ان عام چیزوں کو ہم عام اسٹیج سے اٹھاتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ مذہبوں کے بیچ کی دوری کم ہوگی بلکہ سبھی مذاہب کے اندر جو اخلاقی خوبیاں ہیں اس میں اضافہ ہوگا۔ اسی لیے میرا کہنا ہے کہ مذاہب کے سبب سماج میں دوری پیدا کرنا ایک منفی فکر و عمل ہے۔ مذہب تو محبت تقسیم کرتا ہے اور لوگ مذہب کو ہی منافرت کا سامان بنا لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاہب سماج میں اتحاد اور محبت چاہتا ہے اور اس کے سچے عاشق کبھی بھی انسانیت کے خلاف نہیں ہو سکتے وہ تو انسانیت کی بقا اور اس کا فروغ چاہتے ہیں۔
 
سوشل میڈیا اور نوجوانوں کو سبق
آج وقت بدل گیا ہے، سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کوئی بھی بات سیکنڈوں میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جا رہی ہے۔ اس ماحول میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ مذہبی علما، دھرم گورو، سماجی لیڈر، دانشور بین المذاہب پروگرام منعقد کرے اور غلطفہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے اور ایک دوسرے کے بیچ محبت اور بھروسہ کا ماحول قائم کیا جائے۔ مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ اس تعلق سے نوجوانوں کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو نوجوانوں کو یہ جاننا چاہئے کی افواہ سے بچنا اور بے بنیاد باتوں سے اپنے آپ کو بچانا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ افواہ اور بے بنیاد باتیں ہمیں مذہب کے حوالہ سے سننے کو ملتی ہے، بلکل بے بنیاد باتیں سوشل میڈیا پر بھری رہتی ہے۔ جو مستند لوگ ہیں ان سے بات نہیں کی جاتی ہے بلکہ لوگ اور کم علم لوگ افواہ پھیلاتے ہیں جو کچھ جاننے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
 
میرا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ کسی بھی مذہب پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یا اپنے ذہن میں اس بات کو منفی لینے سے پہلے اس کی حقیقت کو ضرور جانچ لیں، اور یہ مان کر چلے کہ پہلے ہمارے باپ دادا سب مل کر رہتے چلے آئیں ہیں۔ نوجوانوں کے ذہن و دماغ میں یہ بات بھی رہنا ضروری ہے کہ اس ملک میں ایک دوسرے کے ساتھ سوشل تانا بانا اور سوشل فیبرک ملا جلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو سمجھنا چاہئے کہ اگر ہم آج اس طرح کی غلطفہمیوں میں پڑے رہے گے تو اس سے سماج بھی برباد ہوگا اور ملک بھی برباد ہوگا اور ہم بھی برباد ہونگے، اس لیے کہ ہم معاشرے اور ملک کا سب سے اہم حصہ ہیں۔

مختلف مذاہب کے بیچ خانقاہوں کا بڑا رول

مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ دراصل قومی یکجہتی اور خیر سگالی کے ماحول کو قائم کرنے میں سب سے بڑا رول خانقاہوں اور صوفیوں کا رہا ہے۔ خانقاہوں میں کیا ہوتا ہے؟ صرف کمپوزیٹ کلچر کی بات ہوتی ہے اور قومی یکجہتی کا فروغ ہوتا ہے۔ خانقاہوں میں صبح سے شام تک ہر مذہب کے لوگ آتے ہیں، خانقاہ ہندوستانی سماج کا وہ ادارہ ہے جہاں سب سے زیادہ قومی یکجہتی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کسی بھی خانقاہ میں چلے جائیے وہ کسی مندر یا کسی مسجد یا کسی گرجا کی طرح نہیں ہے بلکہ خانقاہ میں آپ کو ہر مذہب کے لوگ پورے احترام و عقیدت کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ خانقاہوں نے ملک میں بھائی چارے اور خیر سگالی کے ماحول کو پروان چڑھانے اور اسے بنائے رکھنے میں بیحد اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ خانقاہوں میں پہنچنے والے لوگوں میں بھید بھاؤ نہیں ہوتا ہے وہ صوفیوں کے دربار میں آکر انسانیت کا سبق حاصل کرتے ہیں اور سماج میں انسانیت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ 
 
 
متحد سماج اپنی ترقی کا راستہ ہموار کر لیتی ہے
مولانا ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کے مطابق کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کا راز دراصل محبت اور خیر سگالی کے ماحول پر منحصر کرتا ہے۔ متحد سماج اپنی ترقی کا راستہ ہموار کر لیتی ہے لیکن منافرت اور انتشار کا شکار کوئی بھی ملک اپنے ماضی کے وراثت کو بھی بچا پانے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ہم تمام مذاہب کا احترام کرے اور بین المذاہب پروگراموں کے ذریعہ سماج میں محبت اور امن کا پیغام پہنچائے، جس کی کوشش وقت وقت پر کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے۔ 
انہوں نے کہا کہ صالح اور منافرت سے پاک ماحول بنانے میں سب سے بڑا کردار صوفیوں کا رہا ہے اور صوفی ہی اس معاملے میں سب سے بڑا رول ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اصل میں صوفیوں نے اپنے صوفیانہ فلسفہ کو یہی کہ کر پیش کیا کہ اس کائنات کو بنانے والا اللہ ہے، اس ذرہ ذرہ کو بنانے والا ایک ہے اور وہ سب کا بنانے والا ہے۔ اس کائنات میں جتنے بھی لوگ پائے جاتے ہیں وہ سب اللہ کا کنبہ ہے۔ اب اللہ کے کنبہ میں بھید کرنا، منافرت پھیلانا، نفرت کرنا، لڑائی جھگڑے کرنا اور اس طرح کی منفی باتوں کو سوچنا یہ کیسے صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ صوفی یہ کہتیں ہیں کہ اللہ نے سورج پیدا کیا، اللہ نے آسمان و زمین بنایا، سمندر بنایا، یہ جو بڑی بڑی چیزیں ہیں جس سے ہم روشنی لیتے ہیں اور جس زمین پر ہم چلتے ہیں، بستے ہیں اور جس ندی سے ہم پانی پیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا فائدہ حاصل کرنے میں اس نے تو کبھی ہمیں مذہب کے سبب یا مذہب کے بیچ تعصب یا تفریق نہیں کیا۔ اگر تفریق کرانا اللہ کو پسند ہوتا تو اس دنیا میں جتنے ناستک یا ملحد ہیں انہیں کبھی روشنی نہیں دیتا، کبھی پانی نہیں دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ نے سورج، چاند، زمین و آسمان بنایا اور سب ایک ہی طرح سے اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، اس بات سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں انسانوں سے محبت کرنا چاہئے اور ہمدردی کے جذبہ کو پروان چڑھانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بین المذاہب پروگراموں میں یہی بات ہوتی ہے کہ کس طرح سے انسانیت ترقی کرے اور سماج سے انتشار ختم ہو۔ آج کے وقت میں ان باتوں کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے اس لیے کہ لوگوں میں خواہ مخواہ کی غلطفہمیوں کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ ہم لوگ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں اور کوشش کرنی چاہئے کہ مذہب محبت کے لئے انسانیت کے لیے ہے نہ کہ سماج میں انتشار کے لئے۔ ہر مذہب میں اچھی باتیں ہیں اور ان اچھی باتوں میں بھائی چارہ اور قومی یکجہتی، عدل و انصاف، مظلوموں کی مدد اور انسانیت کا مقام سب سے اول ہے۔