منصور الدین فریدی : نئی دہلی
قرآن پاک کے نسخے ۔ ہندوستان میں نہیں بلکہ برصغیراور چین سے ترکی تک مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچانے کا کام کسی عالم دین نے نہیں بلکہ ایک برہمن نے کیا تھا ،جسے ہندوستان کی تاریخ میں منشی نول کشور کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اٹھارہویں صدی میں پرنٹنگ کے انقلاب کے دوران جب نول کشور نے لکھنو میں ہینڈ پریس کا آغاز کیا تو سب سے پہلے مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کی اشاعت کی تھی جن میں قرآن پاک کے نسخے بھی شامل تھے ۔ جس کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں قرآنی نسخوں کو گھر گھر پہنچایا جاسکا جو اس سے قبل نادر ہوا کرتے تھے یا پھر شہر کے امرا یا اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہی ہوتا تھا لیکن نول کشور کے ‘ایک روپیہ آٹھ آنے ’ کے قرآنی نسخوں نے ناظرہ کو آسان بنایا اور ساتھ ہی ترجمہ مہیا کرایا جو مسلمانوں کے لیے ایک بڑا تحفہ تھا ۔
نول کشور کی زندگی کو قرآن پاک کے احترام کے لیے ایک مثال مانا گیا، جہاں ایک جانب نول کشور پریس نے قرآن پا ک کے ترجمے کے ساتھ نسخے شائع کرکے گھر گھر پہنچائے۔وہیں دوسری جانب اردو، فارسی،سنسکرت اور ہندی کی کتابوں کو شائع کرکے ادبی ذخیرہ بنایا۔اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پرنٹنگ پریس کو ایک عجوبے کا درجہ حاصل تھا،اس وقت قرآنی نسخے بھی عام نہیں تھے۔ قرآن پاک کا نسخہ نادرہوا کرتا تھا، امیر حسن نورانی نے منشی نول کشور کی بائیو گرافی، سوانح نول کشورمیں لکھا ہے کہ ۔۔۔لکھنو میں نول کشور پریس نے قرآن مجید کو مختلف سائز اور ترجمہ کے ساتھ چھاپا، قرآن چھاپنے کے بعد وہ اسے بہت کم قیمت پرمارکیٹ میں لاتے، اس حکمت یا انداز نے قرآن نہ شہری اشرافیہ کے ساتھ غریب اور گاوں کے مسلمانوں تک بھی پہنچنا شروع ہوا۔
قرآن پاک کا احترام یا سمان
منشی نول کشور کو پرنٹنگ کے دوران قرآن پاک کے احترام اور احتیاط کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ انہوں نے پرنٹنگ کا کاروبار ضرور کیا تھا مگر مذہبی کتابوں کو احترام کرتے تھے،ہر کسی کے مذہبی جذبات کا خیال رکھا کرتے تھے ،وہ اس کام میں معیار کو اہمیت دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ منشی نول کشور نے قرآن پاک کے نسخوں کی پرنٹنگ سے قبل اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے، ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازمت دی، پرنٹنگ پریس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ قرآنی نسخوں کی چھپائی میں شامل اسٹاف مسلمان ہوا کرتے تھے، کلام پاک کی کتابت کرنے والے کیلی گرافرس یعنی خطاط و خوس نویس کو سخت ہدایت تھی کہ کبھی بھی بلا وضو کتابت نہیں کریں گے دیگر ملازمین کو بھی کام شروع کرنے سے قبل وضو کرنے کی سخت ہدایت تھی، قرآن کے نسخوں کی چھپائی شروع ہونے سے قبل پریس کو صاف کیا جاتا،اور فرش پر صاف چادریں بچھائی جاتیں، تاکہ کوئی کاغذ زمین پر نہ گرے، احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی بائڈنگ ہوتی تھی اس مقام پر کسی شخص کو جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
منشی جی کے پوتے کے پوتے لو بھارگو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ۔۔۔ منشی جی کا چھاپہ خانہ ان معنوں میں بے حد مشہور اور مقبول تھا کہ اس میں کلام پاک کی کتابت کرنے والے خوش نویسوں اور خطاطوں کو سخت ہدایت تھی کہ کبھی بھی بلا وضو کتابت نہیں کریں گے۔ گویا اسلامی تصنیفات کے سلسلہ میں پاکیزگی اور طہارت کا پورا خیا ل رکھا۔ یہاں سے جو مذہبی نسخے شائع ہوتے تھے وہ دنیا بھرمیں جاتے تھے۔
منشی نول کشور پریس سے شائع ہونے والی ادبی کتابوں کی فروخت بھی کافی تھی اور ایک زمانے میں پاکستان سے جو وفد اجمیر شریف کے عرس پر آیا کرتا تھا اس وقت مطبع نول کشور کے کچھ مخصوص حضرات ان کتابوں کے نمونے لے جاتے اور ان کو دکھاتے تھے اورپاکستان کے کتب فروش ان کتابوں کا آرڈر دیتے تھے ۔
منشی کول کشور نے لاہور میں روزنامہ کوہ نور اور اس کی پریس سے بہت تجربہ حاصل کیا تھا
منشی جی کی زندگی کی
منشی نول کشورتین جنوری 1836کومتھرامیں پیداہوئے تھے،ان کے والد کانام پنڈت جمنا پرساد تھااوروہ علی گڑھ کے زمیندارتھے،نول کشورنے آگرہ کالج سے تعلیم حاصل کی تھی، پھر آگرہ کے ایک اخبار‘سفیرآگرہ‘ میں مضامین لکھنے شروع کئے۔ جن سے مقبولیت ملی تو،لاہور کے ہر سکھ رائے جی اپنے اخبار‘ کوہ نور‘ کے لیے طلب کرلیا ۔ 1853میں نول کشورکچھ کر دکھانے کے جذبے کے ساتھ لاہور پہنچے-جہاں ہرسکھ رائے جی کے اخبار اورپرنٹنگ پریس میں ملازمت کرلی۔ ان کی ذہانت سے ہر سکھ رائے جی اس قدر متاثر ہوئے کہ چھاپےخانے یعنی کہ پرنٹنگ پریس کی تمام ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دیں ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ منشی جی نے اس میدان کی تمام باریکیوں کو بخوبی سمجھ لیا۔۔۱۸۵۷کے آخر میں سکھ رائے جی سے اختلافات کے بعد وہ آگرہ لوٹ آئے تھے ۔۔۔۔۔
لکھنو کا رخ
آگرہ میں انہیں سکون نہیں ملا ،کچھ کرنے کا جوش انہیں لکھنو لے گیا،جو غدر کے بعد سماجی اور ثقافتی طور پر بکھرا ہوا تھا ۔اس بارے میں نول کشور کے پوتے کے پوتے لو بھارگو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب دادا جی (منشی نول کشور) لاہور سے لکھنؤ آئے اور پیشہ ٔ طباعت سے باقاعدہ وابستہ ہوگئے تو رکاب گنج (لکھنؤ) میں ایک چھوٹا موٹا چھاپہ خانہ مطبع نول کشور کے نام سے قائم کیا جس میں ہاتھ کا پریس استعمال ہوتا تھا جس نے ترقی کرتے کرتے منشی جی کی پہچان ناشر کی حیثیت سے مستحکم کردی ۔طباعت کا کام اس قدر بڑھا کہ پریس کی جگہ چھوٹی پڑنے لگی چنانچہ ہمارے پردادا جی نے حضرت گنج میں ایک بڑی جگہ پر چھاپہ خانہ کو توسیع دی۔ بعد میں یہ سڑک انہی سے منسوب ہوئی۔ حضرت گنج لکھنؤ میں واقع وہ سڑک اب بھی منشی نول کشور روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔حضرت گنج میں پریس منتقل ہونے کے بعد منشی جی نے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا جس کو بعدمیں سر سید احمد خاں کے مشورہ سے روزنامہ کر دیاان کا 92 برس کی عمر پانے والا یہ روزنامہ’اودھ اخبار‘ کے نام سے مشہور ہوا۔پریس کا نام تھا، نول کشور پریس،جو تاریخ میں برصغیر کے سب سے بڑے پبلشنگ ہاوس میں سے ایک بنا۔ جس نے 37سا ل کے دوران اردو ،فارسی ،سنسکرت اور ہندی کی چار ہزار سے زیادہ کتابیں شائع کی تھیں۔ جن میں ہندو ،مسلمانوں اور سکھوں کی مقدس کتابیں بھی شامل تھیں، نول کشور پریس کا ملک بھر میں جال بچھایا۔ اس پریس میں 1200سے زیادہ ملازم تھے جبکہ تین سو پریس مین تین سو ہینڈ مشین چلایا کرتے تھے، اپنی پریس کے لیے انہوں نے جرمنی سے کاغذ تیار کرنے کے لیے مشین بھی منگائی تھی تاکہ کاغذ سستا رہے اور قلت کا شکار نہ ہوں، انہیں ہندوستان کا ولیمس کیسٹن کہا گیا جنہوں نے چودھویں صدی میں پرنٹنگ پریس سے دنیا کو رو برو کرایا تھا ۔
لکھنو میں نول کشور پریس کا پرانا فوٹو
ایک پریس جس کا جال بچھا تھا
نول کشور پریس خاص لکھنؤ کا تھا لیکن اس کی شاخیں الہ آباد، کانپور، آگرہ، دہلی، لاہور، پٹیالہ، اجمیر اور جبل پور وغیرہ میں بھی تھیں ۔ اس پریس کی شہرت ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں بھی تھی۔ اچھی طباعت سے افغانستان ، ایران ، مصر ، لندن، ترکی، برما، عراق اور افریقی ممالک سے بھی آرڈر ملتے تھے ۔ منشی جی نے فارسی کتابوں کی اشاعت میں خاص دلچسپی لی چنانچہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی مستند کتابوں کے فارسی تراجم کرائے۔ ’’شاہنامہ فردوسی‘‘ بڑے سائز میں تین حصوں میں شائع ہوا ۔اس کا اردو ، ہندی ترجمہ بھی کرایا۔ پیرہن یوسفی‘‘ منظوم کا اردو ترجمہ چھ حصوں میں ، جواہر الاسرار تین جلدوں میں ، کلیات شمس تبریز(مولانا روم کا کلام)، دیوان شمس تبریز ، کلیات ۔عارفی اور کلیات غالب وغیرہ سب منشی نول کشور کے مطبع سے شائع ہوئے
منشی جی کے خاندان کے ایک وارث لو بھارگو کہتے ہیں کہ ۔۔۔ ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو بتاتے تھے کہ پریس میں اشرف علی نسخ نستعلیق کے بہترین کاتب تھے۔ طغریٰ نویسی میں نور خا ں صاحب کا جواب نہیں تھا۔ وہ اس فن کے استاد مانے جاتے تھے۔ احمد علی معکوس نویس تھے (اُلٹی تحریرجسے ’’مرر امیج‘‘ کہا جاتا ہے) اور اپنے فن میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ مولوی سید تصدق حسین کنتوری اور مولوی سید مظفر حسین تصحیح کے کام پر مامور تھے ۔ منشی جی مذہبی معاملات میں حددرجہ احتیاط کے قائل تھے۔ اسلامی کتب کی طباعت میں کوئی غلطی نہ ہو اور مسلکی مسئلہ پیش نہ آئے اس کیلئے سنّی کارکنان سے اہلسنت اور شیعہ ملازمین سے مذہب امامیہ کی کتابیں کافی احتیاط سے چھپواتے تھے۔
منشی نول کشور کے پوتے کے پوتے لو بھارگو کی افطار پارٹی اب بھی لکھنو میں گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے
منشی جی کا انتقال اور پریس کا زوال
سال 1895میں نول کشور کا انتقال ہوا تو وہ بے اولاد تھے،اپنے چھوٹے بھائی سیوک رام کے لڑکے پراگ نارائن کو گود لیا تھا۔ جو ان کے بعد وارث بنے تھے۔ بقول لو بھارگو ۔۔۔ منشی جی کے انتقال کے بعد ہمارے پر دادا منشی پراگ نارائن کی زیر نگرانی پریس چلتا رہا۔ ان کی محنت اور لگن سے منشی جی کے زمانے میں نکلنے والا اودھ اخبار اسی آب و تاب سے نکلتا رہا بلکہ ہندی میں نکلنے والے ’مادھوری‘ میگزین پر بھی زوال نہیں آیا۔ وہ بھی منشی پریم چند کی ادارت میں حسب روایت جاری رہا۔ منشی پراگ نارائن کے انتقال کے بعد منشی بشن نارائن نے پریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں.پریس نیز اخبار پوری توانائی کے ساتھ جاری رہے لیکن اس میں منشی نول کشور اور منشی پراگ نارائن کے زمانے والی بات نہیں رہ گئی تھی چنانچہ 1944 تک ’ اودھ اخبار‘ بند ہو گیا۔ منشی بشن نارائن کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں یعنی ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو اور چچا تیج کمار بھارگو نے پریس سنبھالا لیکن دونوں بھائیوں میں زیادہ عرصہ تک نباہ نہ ہوسکا اور پریس نیز دیگر املاک دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں جس سے تیسری پیڑھی میں پہنچ کر پریس پر زوال آگیا۔ یو ں سمجھئے کہ جس طرح تقسیم سے ملک کو نقصان ہوا ٹھیک اسی طرح اِس بٹوارے سے پریس کو بھی نقصان پہنچا۔ پوری دنیا میں منشی نول کشور کے نام سے مشہور اس چھاپہ خانہ کا نام بھی تبدیل ہو ا۔ یہ پریس ’ راجہ رام کمار پریس‘ اور ’تیج کمار پریس‘ ہوگیا
مگر دو نسلوں کے سفر کے بعد تیسری نسل تک پریس پر زوال آگیا،جائداد کی تقسیم کے ساتھ بکھر گیا نول کشور پریس، پوری دنیا میں منشی نول کشور کے نام سے مشہوراس پریس کے دو ٹکڑے ہوئے ، جس کے ساتھ ایک تاریخ دفن ہوگئی، لیکن حضرت گنج لکھنؤ میں واقع وہ سڑک جس پر ان کا تاریخی پریس قائم تھا اب بھی منشی نول کشور روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔نول کشور کی ایک پبلیشر کی حیثیت سے جو تصویر پیش کی وہ ان کی خدمات یا کارناموں کی مکمل کہانی نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ یا باب ہے ۔ ان کی زندگی پر متعدد کتابیں آچکی ہیں اور ہزاروں مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن ان کی خدمات کا اعتراف اب بھی مکمل نہیں ہوا ہے ۔ موجودہ حالات میں ان کی زندگی کا یہ پہلو اجاگر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مذہبی رواداری کا پیغام دیتا ہے ۔۔ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کا سبق دیتا ہے-