یوم اردو پر اردو زبان سے متعلق ایک اہم تحریر
ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مانو لکھنو کیمپس
اردو زبان سے محبت اور اس کے فروغ کے لیے سرگرم کردار ادا کرنے والوں سے یہ معاشرہ خالی نہیں۔اردو کے لیے توانا اور زندہ کردار کی صورت میں بہت سے لوگ متحرک اور سرگرم ہیں۔ ان کی فعالیت سے زبان اور سماج دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔دویہ رنجن پاٹھک کا شمار ایسے ہی سرگرم لوگوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے نہ صرف اردو زبان سیکھی بلکہ اب وہ اردو زبا ن سکھانے کا ایک چلتا پھرتا ادارہ بن چکے ہیں۔ان کی ٹیم میں نہال الدین عثمانی اور ڈاکٹر آرتی برنوال بھی شامل ہیں۔آرتی برنوال سنسکرت میں ڈاکٹریٹ ہیں ان دنوں وہ مہاراشٹر میں ہیں اور وہیں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔یہ لوگ ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں اور حسب موقع کیمپ لگا کر لوگوں کو اردو سکھاتے ہیں۔عام طور پر تدریس کے لیے کلاس روم یا اسی طرح کی کسی جگہ کاانتخاب کیا جاتا ہے مگر اردو سکھانے کے لیے پاٹھک صاحب کا جذبہ قابل رشک ہے کہ وہ ایک نئے انداز سے جب اور جہاں موقع ملتا ہے اردو کی کلاس لگا لیتے ہیں۔ان کے اس طریقے سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچا۔اردو سکھانے کا یہ کام بالکل مفت اور خالص ایک زبان سے تعلق اور شوق کی وجہ سے انجام دیا جارہا ہے۔
اردو کلاس کا ایک منظر
دیویہ رنجن پاٹھک بنیادی طور پر سائنس کے طالب علم رہے ہیں۔ 1987 میں انہوں نے لکھنو یونی ورسٹی سے بی ایس سی مکمل کیا۔تھیٹر سے ان کا شوق اور تعلق بہت پرانا ہے۔
شعر و ادب کے گونا گوں تجربے ان کی زندگی کا اہم حصہ ہیں خود وہ ایک بے حد دلچسپ انسان ہیں۔ادبی،سماجی اور سیاسی زندگی کا نہ صرف انھیں غیر معمولی شعور ہے بلکہ ظرافت اور طنزکی چاشنی سے اپنی گفتگو کے لیے بھی وہ مقبول ہیں۔وہ خالص لکھنوی ہیں اور یہاں کی عام ادبی فضا سے ان کا غیر معمولی سروکار رہا ہے۔ لکھنو کے عام ادبی حلقوں خصوصاًہندی کی اہم شخصیات کو انہوں نے قریب سے دیکھاہے۔ چونکہ ان کے والد آکاش وانی لکھنؤ سے وابستہ رہے ہیں اس لیے انہیں ریڈیو کاسنہری دور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔وہ زمانہ بھی کیا خوب تھا۔ ریڈیو صرف ترسیل و اطلاع کا مرکز نہیں تھا بلکہ زبان و ادب کے ماہرین اور نمایاں تخلیق کاروں کے ایک سنگم کے طورپر بھی اس کی شہرت تھی۔ کیا اردو اورکیاہندی زبان وادب کے کیسے کیسے نایاب اور اہم لوگ یہاں جمع ہوگئے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کو دیکھنے اور ان کو سننے کا قریب سے موقع پاٹھک صاحب کو ملا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت رواں دواں اردو بولنے پر قادر ہیں۔الفاظ کی ادائیگی بھی خوب کرتے ہیں اور خود انھیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ لکھنو کے ہیں اور اسی لیے وہ اس کے ادبی وتہذیبی نگارخانے کے محافظ اور ترجمان ہیں۔آج کے ز مانے میں کوئی شخص اگر اپنی زبان اوراپنے ادبی ورثے پر فخر کرتا ہے تو یہ ایک نہایت قابل رشک بات ہے
اردو سے عشق قابل دید ہوتا ہے
لکھنو میں رہنے اور ریڈیو کی قربت نے ادبی وتہذیبی شعور کو جل بخشی۔اور اسی نے اردو زبان کو باقاعدہ سیکھنے کے لیے ازخود متوجہ کیا۔ایک روز وہ اسی جذبے کے تحت وہ اردو ریسرچ سینٹر پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ مجھے اردو سیکھنی ہے۔ یو ٹی ار سی دراصل (حکومت ہند)کی ایک علاقائی شاخ ہے۔یہاں پر زبان سیکھنے اور سکھانے کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سے اردو سیکھنے والے خود کو بہت مطمئن پاتے ہیں۔2013میں یہیں سے پاٹھک صاحب نے اردو زبان کو باقاعدہ سیکھنے کا آغاز کیا اور بہت جلد نہ صرف زبان کو سیکھتے چلے گئے بلکہ بہت سے دیگر پہلوؤں کو بھی وہ اپنے شوق سے پڑھتے اور سمجھتے گئے۔ نہال الدین عثمانی سے تلفظ کی باریکیوں کو سیکھا۔نواب صاحب لکھنو کے ایک مشہور کاتب جو یو پی اردو اکادمی سے بھی وابستہ تھے ان سے اردو کس طرح لکھی جائے، لفظوں کو کیسے ملایا جائے یہ باریکیاں سیکھیں۔اپنی محنت اور لگن سے بہت جلد پاٹھک صاحب اردو زبان کو نہ صرف سیکھ گئے بلکہ اب وہ دوسروں کو سکھانے بھی لگے۔
اردو زبان سے دلچسپی رفتہ رفتہ بڑھتی گئی، یہاں تک کہ 2014میں آل انڈیا کیفی اعظمی اکیڈمی کے زیر اہتمام پہلی بار اردو سکھانے کے لیے ایک کیمپ لگایا گیا اور یہیں دویہ رنجن پاٹھک نے اردو سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اردو زبان کو سکھانے کے لیے سب سے زیادہ معاون اور مددگار کتاب حیات اللہ انصاری کی دس دن میں اردو ہے۔ پاٹھک صاحب کاخیال ہے کہ اردو سیکھنے اور سکھانے دونوں کے لیے یہ کتاب ایک شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ اس کتاب کواردو سکھانے کے لیے بنیادی کتاب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اپنے بعض تجربوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں اردو زبان کو سکھانے میں کہانی کی مدد لیتا ہوں۔ یعنی کہانی کہتے جائیں اور اور لوگوں کواردو سکھاتے جائیں۔ عام طور پر لوگ اردو کے لیے باقاعدہ کلاس روم کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر اس گروہ نے جیسے اور جہاں بھی موقع ملتا چلتے پھرتے ایک ادارہ کے طور پر کام کیا ہے۔ کئی برس تک لکھنو کے کتاب میلوں میں انھیں ایک ہفتہ میں اردو سکھانے کا موقع دیا گیا۔ اور انھوں نے باقاعدہ اردوسکھانے کا اہتمام کیا۔
اردو کا استاد بننا ایک اعزاز بن گیا
اسی طرح لکھنو کے بعض علاقوں میں جہاں کیمپ لگا اردو کی تدریس کا فریضہ انجام دیا تو ایک دوبار لکھنو کی نواحی بستیوں سے بھی انھیں مدعو کیا گیا۔ بارہ بنکی میں ایک بار اردو سکھانے کے لیے کیمپ لگایا گیا۔ اس کے علاوہ لکھنو کے بعض تعلیمی اداروں میں بھی اس خوشگوار تجربے کو آزمایا گیا۔چلتے پھرتے اردو سکھانے کایہ سلسلہ نہ صرف کامیاب رہا بلکہ ایک بار مشہور صحافی وقار رضوی نے اپنے گھر پر مدعو کیا۔ اور نہایت اہتمام کے ساتھ اس ٹیم کو کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ بہت خوشگوار تجربہ رہا۔ بڑی پذیرائی ملی، حوصلہ اور اعتماد بڑھا۔ اخبارات میں رپورٹیں شائع ہوئیں۔تعارفی مضامین لکھوائے گئے۔کووڈ کے بعد ان کلاسوں پر بہت اچھا اثرنہیں پڑا لیکن پاٹھک صاحب اور ان کے رفقانے بغیر کسی معاوضہ کے اردو سکھانے کا کام جاری رکھا۔ ان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اب تک ان کو کوئی ایسی مناسب جگہ جہاں یہ باقاعدہ بیٹھ کر کلاس روم اور آفس کے تمام آداب کے ساتھ اردو سکھاسکیں۔کوئی آجائے تو اسے بیٹھا سکیں لیکن اس کے باوجود جوش کم نہیں ہوا۔جذبے کی آنچ مدھم نہیں ہوئی بلکہ سب کچھ جاری و ساری ہے۔ اترپردیش کے سابق گورنر رام نائک اردو کے سلسلے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اردو کی تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دو بار یہ بھی کہا کہ میں اردو سیکھنا چاہتا ہوں۔ دویہ رنجن پاٹھک، نہال الدین عثمانی اور ڈاکٹر آرتی سرنوال جن کے اندر اردو سکھانے کابے پناہ جذبہ تھا وہ گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔ گورنر صاحب کے ساتھ ایک طویل گفتگو رہی۔ وہ باقاعدہ تو اردو نہیں سیکھ سکے مگر اردو سکھانے والوں کو قاعدے ضابطے ضرور بتا گئے۔کام کیسے کیا جائے اس کی کچھ حکمتیں بھی بتائیں۔ان لوگوں کے کام کے طریقہ کار کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔
اردو کے سلسلے میں اسی طرح کے زمینی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس زبان سے محبت کرنے والے بہت ہیں، شاعری کے نام پر آج بھی شمار لوگ اردوزبان کو سیکھ رہے ہیں۔ اور یہ تجربہ نیا نہیں ہے لیکن اگر نیا کچھ ہے تو وہ تجربہ ہے جو اس ٹیم خصوصاً پاٹھک صاحب کا تجربہ ہے۔جذبہ اور لگن ہے۔پاٹھک صاحب ایسے ہی جذبوں سے معمور ہیں اور اپنے سماج کو اردو زبان سکھانے کے لیے سرگرم ہیں۔یہی سرگرمی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔زبان کے فروغ اور ترقی کے لیے عملی قدم اسی صورت میں اٹھانا ہوگا ۔ یہی آج کے دن کا پیغام ہے اور عملی کام کرنے والوں کے لیے ایک سبق اور نصیحت بھی ہے۔