اسکول،کالج اور یتیم خانہ کے بعد چیریٹیبل اسپتال کے لیے کوشاں ہیں- اشرف آدم ملا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Aamnah Farooque | Date 05-05-2024
اسکول،کالج اور یتیم خانہ کے بعد چیریٹیبل اسپتال کے لیے کوشاں ہیں- اشرف آدم  ملا
اسکول،کالج اور یتیم خانہ کے بعد چیریٹیبل اسپتال کے لیے کوشاں ہیں- اشرف آدم ملا

 

شاہ تاج خان : پونے 

مسلم سماج پربودھن سنستھا نے تعلیم کے میدان میں کام کیا تو یتیم بچیوں کے لیے آشیانہ(یتیم خانہ ) بھی قائم کیا ۔گذشتہ 39 برسوں سے یہ ٹرسٹ سماج کے پچھڑے اور بے حد غریب لوگوں کو جدید اور معیاری تعلیم سے آراستہ کرنے میں کوشاں ہے۔ٹرسٹ کے قیام کا خواب دیکھنے والی اشرف آدم ملا نے 1985 میں مسلم سماج پربودھن سنستھا کی بنیاد رکھ کر اپنے خواب کو حقیقت میں بدل دیا تھا ۔آج ایک بار پھر انہیں آنکھوں نے چیریٹیبل اسپتال قائم کرنے کا خواب دیکھا ہے۔9 دسمبر 1946 کو پیدا ہونے والی ملا میڈم نے ٹھان لیا ہے کہ وہ اسپتال بنا کر ہی دم لیں گی۔اور اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی۔چیریٹیبل اسپتال کو زمین پر کھڑا کرنے کے لیے وہ پچھلےتین چار سال سے بنا تھکے اور بنا رکےاپنے اس پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

مسلم سماج پربودھن سنستھا کی بانی اشرف آدم ملا کی چیرٹیبل اسپتال بنانے کی کوشش اور جدوجہد جاری ہے۔ کووڈ 19 کے دور میں ملا میڈم کو شدت سے ایک خیراتی اسپتال کی ضرورت کا احساس ہوا۔غریب عوام کو میڈیکل سہولیات کی عدم دستیابی نے انہیں اِس جانب متوجہ کیا۔

وہ بہت تیزی کے ساتھ اِس سمت میں کام کر رہی تھیں کہ حال ہی میں ہوئے ایک ایکسیڈینٹ نے ان کی رفتار کو کچھ حد تک متاثر کیا ہے۔انہیں کئی روز تک گھر پر رہ کر آرام کرنا پڑا۔ حالانکہ وہ پھر سے کام پر لوٹ آئی ہیں مگر اب وہ ٹو ویلر نہیں چلا سکتیں۔ ورنہ کام کے لیے ان کی نظر میں کوئی دوری معنی نہیں رکھتی تھی۔ ایک میٹنگ سے دوسری اور پھر تیسری میٹنگ کے لیے پہنچنے میں ان کا ٹو ویلر چابی لگاتے ہی اسٹارٹ ہو جاتا اور وہ وقت پر میٹنگ میں شریک ہو جاتی تھیں۔

ملا میڈم عمر کے اُس حصّے میں ہیں جب لوگ آرام کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں مگر وہ لگاتار بلکہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں 78 سال کی ہونے والی ہوں۔میرے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ ان کے لیے کہا جا سکتا ہے اٹھتے ہیں اپنے دل میں ابھی تازہ ولولے جوش اور ہما ہمی سے ریٹائر نہیں ہوئے مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر پونے مہاراشٹر میں جنوری 1985 میں مسلم سماج پربودھن سنستھا کا قیام عمل میں آیا۔اُس وقت ملا میڈم کے تین بیٹے اسکول میں زیرِ تعلیم تھے ،ان کے شوہر آدم ملا صاحب کیمیکل انڈسٹریز میں سائنٹسٹ تھے ۔اپنے شوہر کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے ملا میڈم کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے میرا ہمیشہ ساتھ دیا۔اپنی ذمّہ داری اور کام کی نوعیت کے سبب وہ سوشل ورک میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تھے لیکن وہ میری مالی امداد ہمیشہ کرتے رہے۔

 آشیانہ یتیم خانہ میں بچیوں کو ٹرینگ دیتے ہوئے


اپنے شوہر کے پیسوں سے ہی میں نے اپنے کام کی شروعات کی تھی۔ملا میڈم خود بھی سرکاری ملازم تھیں۔اشرف آدم ملا میڈم چنتا منی ودیا مندر ،تھیور، مراٹھی میڈیم اسکول میں بہ حیثیت ایک استاد اپنی خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہو چکی ہیں۔تینوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور2015میں ان کے شوہرکابھی انتقال ہو گیاہے۔ اِس لیے اب وہ اپنا پورا وقت اپنے شوق اور جنون یعنی مسلم سماج پربودھن سنستھا کو دیتی ہیں۔جب ملا میڈم درس و تدریس کے پیشے سے منسلک تھیں اُس دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اُن کے اسکول میں تقریباً 1200بچے پڑھتے تھے لیکن مسلمانوں کے صرف دو یا تین ہی بچے اسکول آتے تھے۔جس سے انہیں بے حد مایوسی ہوتی تھی۔ حالانکہ اسکول کے قریب ہی مسلمانوں کی بستی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ہم نے سب سے پہلے سید نگر میں ٹین پترے کے شیڈ میں ایک پرائمری اسکول سے کام کا آغاز کیا وہاں ٹیلرنگ بھی سکھانے کا انتظام کیا تھا۔واضح رہے کہ 39 برس کی محنت کے بعد اب اِس ادارے کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کئی تعلیمی مراکز پونے کے مختلف مقامات پر قوم و ملت کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے قائم کیے جا چکے ہیں۔ رحمانی اردو بال واڑی ہے جہاں 66 بچے ہیں۔ شمس الدین انعامدار اردو پرائمری اسکول ہے جہاں 597 بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ رحمانی اردو ہائی اسکول جہاں 235بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔رحمانی جونئر کالج جہاں 191بچے ہیں۔انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ جہاں23طلبا زیرِ تعلیم ہیں۔اس کے علاوہ اسپیشل کمپیوٹر ٹریننگ کا بھی انتظام کیا گیا ہے جس میں پانچویں کلاس سے لے کر آٹھویں کلاس تک کے 345طلبا و طالبات کمپیوٹر سیکھ رہے ہیں۔اس ادارے کی جانب سے 1998 میں قائم کیا گیا ثمینہ اقبال آشیانہ (یتیم خانہ)یتیم بچیوں کے لیے کسی گھر سے کم نہیں ہے۔اِس وقت یہاں 32 یتیم بچیاں رہتی ہیں۔

ملا میڈم نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ہمارے اِس آشیانہ میں  65بچیوں تک کے رہنے کا انتظام ہے۔یہاں رہنے والی سبھی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کوئی ہنر بھی سکھائیں اورہم ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کا بھی باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے۔یہاں رہنے والی لڑکیوں کی شادی کی ذمّہ داری بھی ادارے کی جانب سے نبھائی جاتی ہے۔

اتنا ہی نہیں اگر کوئی لڑکی اعلٰی تعلیم حاصل کرنا چاہے تو ادارہ اُس کے اٹھارہ سال کے ہونے کے بعد بھی اخراجات کا انتظام کرتا ہے۔واضح رہے کہ اِس آشیانہ میں لڑکیاں آرٹیفیشیل جیولری بنانا سیکھتی ہیں تو سلائی کڑھائی اور سیریمک پینٹنگ بھی۔ملا میڈم مایوس ہو کر بتاتی ہیں کہ ہم نے سینئر کالج بھی قائم کیا مگر بچوں کی تعداد بہت کم تھی اِس لیے مجبوری میں ہمیں اسے بند کر ناپڑا۔ بر خلاف اس کے2006 میں قائم رحمانی جونئیر کالج میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے جہاں آرٹس، سائنس اور کامرس کی تعلیم اردو اور انگریزی میڈیم میں دینے کا انتظام ہے۔

 اشرف آدم ملا 


اسی کالج میں اب دوپہر کی شفٹ میں چھٹی سے دسویں کلاس تک تعلیم کے لیے رحمانی انگلش میڈیم اسکول شروع کرنے کی تیاری تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ آسانیوں سے پوچھ نہ منزل کا راستہ بیواؤں کو خود کفیل بنانے کی غرض سے اپنی پہلی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے ملا میڈم کہتی ہیں کہ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو میں بہت غمگین تھی۔ میرے والد صاحب کا انتقال1979میں ہی ہو گیا تھا اور 1984 میں میری والدہ بھی اِس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ میں اپنی والدہ کی یاد میں کچھ کرنا چاہتی تھی۔اپنے غم کو کم کرنے کے لیے میں نے جنوری 1985میں مسلم سماج پربودھن سنستھا کی بنیاد ڈالی۔

انہوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ادارہ قائم کرنے کا خیال اچانک نہیں آیا تھا بلکہ جب میں نویں کلاس میں پڑھتی تھی تب پونے میں سیلاب آیا تھا۔ تب میں اندا پور میں رہتی تھی۔ ہمارے اسکول کے بچوں نے مل کر ایک خطیر رقم سیلاب متاثرین کے لیے جمع کی تھی۔اور اُس کام کو کرتے ہوئے بہت سکون اور طمانیت کا احساس ہوا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور میں کچھ نہ کچھ کرتی رہی۔ پھرمیرے خدمت خلق کے جذبے کی تسکین کو اِس ادارے کی شکل میں راستہ مل گیا اور 1985سے شروع ہوا سفر آج بھی جاری ہے۔ ملا میڈم کی یہ خوبی اور خاصیت ہے کہ وہ صرف کرسی پر بیٹھ کر احکامات صادر نہیں کرتیں بلکہ خود ہر کام میں شامل رہتی ہیں۔

وہ اپنی پہلی ناکامی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں بیواؤں کے لیے کام کرنا چاہتی تھی لیکن بیوہ خواتین گھر سے باہر آکر کام کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئیں۔ ملا میڈم اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اُس وقت بیوہ عورتوں نے اپنے گھر والوں پر بوجھ بننا پسند کیا اور انہیں سمجھانے کی ہماری ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی اور میرا پہلا پروجیکٹ پوری طرح ناکام ثابت ہوا۔ میں فیل ہو گئی۔

ملا میڈم اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ شاید وہ دور ہی ایسا تھا لیکن کچھ عرصے بعد جب ہم نے آشیانہ(یتیم خانہ) قائم کیا تو کئی بیوہ عورتیں ہمارے پاس آئیں اور طلاق یافتہ خواتین بھی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور نظریات میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔

اشرف آدم ملا ایک پروگرام میں 


واضح رہے کہ پہلے پروجیکٹ کی ناکامی نے ملا میڈم کو کسی نئے راستے کی تلاش کی راہ دکھائی اور پھر انہوں نے تعلیم کے میدان کا انتخاب کیا ۔جس کے تحت بال واڑیسےلے کر آئی ٹی آئی تک کے مراکز قائم کرنے کے بعد اب وہ ایک چیریٹیبل اسپتال قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی ملا میڈم یتیم خانہ کو آشیانہ ہی کہنا پسند کرتی ہیں۔اس آشیانہ میں صرف لڑکیاں ہی رہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بچیوں کا گھر ہے ان کا آشیانہ ہے۔جب اس آشیانہ میں قدم رکھا تو یہاں کی صاف صفائی اور وہاں موجود لڑکیوں کو دیکھ کر یقین ہو گیا کہ یہ لڑکیاں گھر میں ہی رہتی ہیں کسی یتیم خانے میں نہیں۔دوپہر کے کھانا تیار ہو چکا تھا۔ کھانا کھانے سے پہلے سبھی لڑکیاں نمازکے کمرے میں ظہر کی نماز ادا کر نے چلی گئی تھیں۔باورچی خانے میں موجود خالہ نے بتایا کہ نماز پڑھنے کے بعد لڑکیاں کھانا کھائیں گی۔ یہ روز کا معمول ہے۔ اس دن کھانے میں دالچہ چاول پکائے گئے تھے۔ساتھ ہی شیر خورمہ بھی تیار کیا گیا تھا۔ زمین پر چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں جس پر سلیقے سے قطار میں چھوٹی چھوٹی میز رکھی ہوئی تھیں۔ جس کے اطراف بیٹھ کر نماز کے بعد سبھی بچیاں دوپہر کے کھانے کا لطف لینے والی تھیں۔

ملا میڈم کہتی ہیں کہ میں تو ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ کسی بھی بچے کو ہمارے آشیانہ کی ضرورت نہ پڑے۔ہم بچوں کے لیے کچھ بھی کر لیں مگر ان کے ماں باپ نہیں بن سکتے۔ہم ان بچوں کے لیے تعلیم ،صحت،خوراک کا انتظام تو کر سکتے ہیں لیکن والدین کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔اس آشیانے سے کئی لڑکیاں شادی کر کے جا چکی ہیں جنہیں ضروری سازو سامان اور کچھ زیورات کے ساتھ وداع کیا گیا ہے اور وہ اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ان کی خبر گیری ادارے کی جانب سے کی جاتی ہے۔

لڑکیوں کے ساتھ اشرف آدم ملا  


اس کے علاوہ کئی لڑکیاں اعلٗی تعلیم حاصل کرکے ملازمت بھی کر رہی ہیں۔ گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے اشرف آدم ملا نے اپنے دن کے چوبیس گھنٹوںمیں سے گھراور ملازمت کی ذمّہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے بھی وقت نکالا۔بنا تھکے اور بنا رکے وہ تینوں محاذ پر ڈٹی رہیں۔ ہار ماننا ان کی فطرت میں شامل نہیں ہے۔

ملا میڈم کے شوہر سائنٹسٹ تھے۔وہ اپنے مرحوم شوہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ سیدھے طور پر تو مسلم سماج پربودھن سنستھا سے منسلک نہیں تھے لیکن انہوں نے مجھے کام کرنے سے کبھی نہیں روکا ۔ملا میڈم کی تنہا کی گئی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہی ہے کہ مسلم سماج پربودھن سنستھا کے متعدد تعلیمی مراکز میں غریب خاندان کے بچے بھی بے حد کم فیس ادا کر کے جدید اور معیاری تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ فی الحال تو ان کے ذہن میں چیریٹیبل اسپتال نے ہلچل مچائی ہوئی ہے۔وہ ہر کام اپنی نگرانی میں کرا رہی ہیں ۔کاغذ پر پلان تیار ہے۔اس کی ہر پہلو سے وہ خود باریکی سے جانچ کر رہی ہیں۔امید ہے کہ اشرف آدم ملا میڈم کے چیریٹیبل اسپتال کا کام جلد ہی شروع ہو جائے گا۔