منصور الدین فریدی : نئی دہلی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۔۔ 1857 کے غدر کے بعد سرسید احمد خان کی سوچ و فکر کا نتیجہ رہی، مگر تعلیم یا ایجوکیشن کے ساتھ اس سائبان نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کے ایسے مجاہد بھی پیدا کئے۔ جن کے کارناموں کو بیان کرنے کے لیے ان پر لکھی گئی کتابوں کی لائبریری بن سکتی ہے۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو تعلیم کی راہ پر رواں دواں کرنے کے ساتھ ان میں جنگ آزادی کی مشعل تھامنے کا حوصلہ بھی برقرار رکھا تھا ۔
اگر بات علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی کی ہوتی ہے تو اس کے قیام کے بعد جو پہلا چیلنج تھا وہ یقینا آزادی کی جنگ ہی تھا۔۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سرسید کی تحریک مسلمانوں کو تعلیم کے قریب کرنے کے ساتھ ۔انگریزوں سے لوہا لینے سے دور کردے گی۔ان کی غلط فہمی بہت جلد دور ہوگئی تھی کیونکہ علی گڑھ کے اسٹوڈ ینٹس رہے مجاہدوں کے کارنامے تاریخ کا حصہ بنے۔اہم بات یہ ہے کہ ان ہستیوں کی لڑائی کسی ایک ریاست تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ علیگ اسٹوڈ ینٹس ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے ۔۔۔۔ہر کسی نے اپنے اپنے علاقوں سے آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا۔ جب ہم جنگ آزدی کے متوالوں کی فہرست پر نظر ڈالیں گے تو اے ایم یو سے تعلق رکھنے والووں ناموں کی ایک لمبی لسٹ نظر آئے گی بڑے بڑے ناموں اور مقبول چہروں کی کہکشاں اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جنگ آزادی میں اے ایم یو کا کردار گولڈن رہا تھا ۔۔جبکہ اب گمنام مجاہدین آزادی کی تلاش مہم میں بھی ایسے ایسے نام سامنے آرہے ہیں جنہیں ابتک تاریخ نے فراموش کردیا گیا تھا ۔۔
سرسید احمد خان کے تعلیمی چمن سے انقلابی نعروں کی گونج ملک کے کونے کونے میں سنی گئی۔اگرایسے مجاہدین آزادی کے ناموں کی بات کریں، جو اے ایم یو کے اسٹوڈینٹس رہ تھے تو ان میں موسیٰ خان شیروانی،طفیل احمد منگلوری، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، ظفر علی خان،تصدق احمد شیروانی، عبدالمجید خواجہ، سید حسین، راجہ مہندر پرتاپ، سید محمود، سیف الدین کچلو، رفیع احمد قدوائی، کنور محمد اشرف، شیخ محمد عبداللہ ،عبدالماجد دریابادی،قاضی جلیل عباسی، قاضی عدیل عباسی، عبدالغفور،حافظ محمد ابراہیم، عبدالقیوم انصاری، عبدالرحمن،خان عبدالغفار خان، کیپٹن عباس علی خان،ڈاکٹر ذاکر حسین اور محمد حبیب شامل ہیں۔ یہی نہیں آزادی کی جنگ میں عورتوں کی حصہ داری کا ذکر ہوتا ہے توبیگم خورشید خواجہ، بیگم نشاط النساء، ڈاکٹر رشید جہاں،عصمت چغتائی اور نذر سجاد حیدر کے نام قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے صحافت اور ادبی تحریروں کے ذریعے ہماری جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔
اے ایم یو سے تعلق رکھنے والے کچھ مجاہدین آزادی کے تعارف کی بات کریں توایک اہم نام مولانا سیٹھ یعقوب حسن کا ہے۔جو ایم او کالج علی گڑھ کے طالب علم رہے۔ جنوبی ہندوستان کے اہم سیاست داں، خلافت،نان کوآپریشن، سول نافرمانی تحریک میں حصہ لیا وہ مدراس اسمبلی میں ممبر تھے۔اس کے ساتھ ایک نام موسیٰ خان شیروانی کا ہے ،سر سید کے قریبی تھے ساتھ ہی خلافت تحریک سے نان کوآپریشن،۔تک سرگرم رہے۔وہ کانگریس کے اہم رکن تھے۔ایک بڑا نام ہےمولانا حسرت موہانی کا۔ علی گڑھ کے طالب علم تھے اور اسٹوڈ ینٹ لائف میں ہی جنگ آزادی کا بگل بجا یا تھا،عظیم انقلابی رہنما نےانقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا، متعدد بار جیل گئے، ان کے ساتھ ایک انقلابی تھے۔ ۔ راجہ مہندر پرتاب،علی گڑھ کے نامور سپوت جنہں نے مولانا برکت اللہ بھوپالی اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ کابل افغانستان میں 1917 میں جلاوطن حکومت قائم کی۔ راجہ مہندر پرتاب اس حکومت کےصدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور برکت اللہ بھوپالی اس کے وزیر اعظم ۔ راجہ صاحب تمام زندگی ہندوستان کی تحریک آزادی میں سرگرم رہے۔ آزادی کی جنگ میں دو بھائیوں کی جدوجہد کا ذ کر آتا ہے تو زبان پر خود بخود علی برادران آجاتا ہے یعنی مولانا شوکت علی اور محمد علی،تحریک خلافت کے علم بردار، عدم تعاون تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ دونوں بھائیوں نے ملک اور قوم کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، مولانا جوہر نے کامریڈ اور ہمدرد جاری کیے، وہیں شوکت علی نے خلافت جاری کیا ۔
ایسے کچھ مزید نام ہیں جن میں مولانا ظفر علی خان ہیں جنہں نے لاہور پنجاب میں جنگ آزادی کا بگل بجا یا، ان کا اخبار زمیندار تحریک آزادی کا نمائندہ تھا۔ بہار کے ڈاکٹر سید محمود نے خلافت اورعدم تعاون تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد کے حامی احمد نگر جیل میں جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کے ساتھ تھے۔آزادی کے بعد نہرو کی دوسرے دور کی حکومت میں مرکزی وزیر بنائے گئے۔ ایک اور مجاہد رہ ہیں تصدق احمد خان شیروانی جو کہ گاندھی جی اور نہرو جی کے خاص ساتھیوں میں تھے۔ تمام بڑی تحریکوں کا حصہ رہے ۔
ان کے ساتھ رفیع احمد قدوائی کو بھول سکتا ہے اترپردیش میں جدو جہد آزادی اورکانگریس کےسب سے بڑے مسلم لیڈر،آزادی کے بعد ہندوستان کی پہلی حکومت میں شامل رہے ، ڈھاکہ کے سید حسین تحریک آزادی کے بڑے رہنما اور صحافی تھے،نصف درجن قومی آزادی کے اخبارات و رسائل کی ادارت کی ۔ ہوم رول لیگ ، خلافت تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ان کے ساتھ خان عبدالغفار خان کو کون بھول سکتا ہے ،صوبہ سرحد کے قومی لیڈر، خدائی خدمتگار تحریک کے بانی جو سرحدی گاندھی کے نام سے معروف رہے، آزادی کی تمام تحریکوں میں سرگرم حصہ لیا ۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزارا۔ تقسیم ہند کے سخت خلاف تھےجبکہ ہندوستان کے سچے دوست مانے جاتے تھے
جنگ آزادی میں اے ایم یو کے کردار کی ایک مختصر کہانی ہے ،جس میں کارناموں سے زیادہ ناموں کا ذکر ہے تاکہ ہم اور آپ اپنے ذہن میں یاد رکھ سکیں،یہ وہ نام ہیں جنہوں نے جنگ آزادی کو چنگاری سے شعلہ بنایا تھا۔