امروہا : محرم کیوں چھوڑ جاتا ہے ہندو مسلم اتحاد کا پیغام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 18-08-2024
امروہا :  محرم  کیوں چھوڑ جاتا ہے ہندو مسلم اتحاد  کا پیغام
امروہا : محرم کیوں چھوڑ جاتا ہے ہندو مسلم اتحاد کا پیغام

 

جمال عباس فہمی :امروہا 

امروہا کا محرم اپنی علم داری کےحوالے سے دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کے ماتمی جلوسوں کا نظم و نسخ، عزاداروں کی وضع داری، روایات کی پاسداری، عزاداروں کا ڈسپلن اور تبرکات عزا کی انفرادیت سے الگ ہٹ کر شہر کا محرم مختلف مذاہب کے ماننے والوں اور قوموں اور برادریوں کو مالی ، سماجی اور عقیدت کے اعتبار سے جوڑنے کا کام بھی کرتا ہے۔ محرم میں ایک مشہور مندر کے پوجاری عقیدت کے ساتھ علموں پر پھول بھی چڑھاتے ہیں اور عزاداروں کی خاطر بھی کرتے ہیں۔۔ ہندو پھول فروش ذولجناح، تابوت اور علموں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ ہندو خواتین ذولجناح پر چادریں چڑھاتی ہیں ۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی طرح ہندو مرد و زن اور بچے عقیدت کے ساتھ عزائی تبرکات کو چومتے ہیں ۔ ہندو خواتین اس امید اور عقیدے کے ساتھ ذولجناح کو دودھ پلاتی ہیں کہ کربلا کے بھوکوں اور پیاسوں کے صدقے میں انکے گھر آباد رہیں۔

ماتمی جلوسوں کا استقبال کرنے ، امام حسین کے عزاداروں کی خاطر مدارات کرنے اور تبرکات عزا کا احترام کرنے کے معاملےمیں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو مرد و خواتین بھی پیش پیش رہتی ہیں۔کہیں ہندو برادران گرمی میں عزاداروں کو پانی پلاتے ہیں تو کہیں مشروبات پیش کرتے ہیں۔ نگر پالیکا چیئر پرسن ششی جین اپنے تمام اہل خانہ کے ساتھ آٹھ محرم کو ماتمی جلوس کا استقبال کرتی اور ماتم داروں کی خاطر مدارات کرتی نظر آئیں۔ ششی جین نے امروہا کی عزاداری کو آپسی بھائی چارے کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا۔ ششی جین کے گھر کے سامنے ہی بہت سی ہندو خواتین سخت گرمی کے دوران ماتمی جلوس کا بے صبری کے ساتھ انتظار کرتی نظر آئیں۔ انہوں نے آرائش کو عقیدت کے ساتھ چوما اور نزر پیش کی۔ کئی خواتین نے تابوت اور ذولجناح پر چادر چڑھائی۔ ہندو عقیدت مند بھی ماتمی جلوسوں کے پیچھے پیدل چل کرامام حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ پنڈت بھون کمار شرما محمد اور آل محمد سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ انکی شان میں ہونےوالی محفلوں میں کلام بھی پیش کرتے ہیں اور مجلس میں نوحہ بھی پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ستیندر دھاری وال بھی امام حسین کی شان میں شاعری کرتے ہیں۔

پھولوں کی بارش

امام حسین سے امروہا کے ہندوؤں کی عقیدت کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔منڈی چوب کے تمام گل فروش تین محرم سے لیکر دس محرم تک وہاں سے گزرنے والے جلوسوں پر پھول بھی برساتے ہیں اور تابوت، ذولجناح اور نشانوں کے عملموں پر ہار بھی چڑھاتے ہیں۔ نو محرم کی تاریخ امروہا کی عزاداری میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس روز محلہ دربار کلاں سے برامد ہوکر عزاخانہ محلہ کٹکوئی تک جو علموں کا جلوس جاتا ہے اسے نشانوں کا جلوس کہتے ہیں۔ یہ نشان ہندو مسلم ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نشانوں پر زرد رنگ کا کپڑا بھی بندھا ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ نشانوں پر زرد کپڑا باندھنے کی ابتدا بابا گنگا ناتھ نے کی تھی۔ بابا گنگا ناتھ نشانوں کے جلوس کا خود استقبال کرتے تھے اور ماتم داروں کی خاطر مدارات کرتے تھے۔ آج بھی یہ روایت برقرار ہے جب نشانوں کا جلوس بابا گنگا ناتھ مندر کے سامنے پہونچتا ہے تو مندر کی انتظامیہ کمیٹی کے ارکان سمیت شہر کے معزز ہندو برادران نشانوں کی جوڑیوں پر ہار چڑھاتے ہیں۔ اس برس بھی نشانوں کے جلوس کا استقبال کرنے والوں میں مندر کمیٹی کے پرتول شرما، پون شرما ، سچین رستوگی، امیش گپتا، ستیندر دھاری وال، پنڈت بھون کمار شرما اور ڈاکٹر ناشر نقوی کے ساتھ ساتھ متعدد ہندو برادران شامل تھے۔ امام حسین سے عقیدت کے معاملے میں محلہ کٹرا غلام علی کے ایک قدیم مندر کے پوجاری کا ذکر نہ کیا جائے تو نا اںصافی ہوگی۔ پنڈت بھون کمار شرما کے مطابق جب ماتمی جلوس محلے میں واقع بڑا مندر کے سامنے سے گزرتا تھا تب مندر کے پوجاری اور ٹرسٹی پنڈت راجیو لوچن شرما اپنے ہاتھ سے عزاداروں پر پنکھا جھلتے تھے۔

برہمن خاندان جو محرم کے جلوس میں شامل ہوتے ہیں 


 ماتمی جلوس کی خصوصیات

ویسے تو امروہا میں برامد ہونے والے ماتمی جلوس کا ہر پہلو انفرادیت کا حامل ہے لیکن اس میں 'حسینی باجا' کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ 'حسینی باجا' 'تاشے'، 'ڈھول' اور 'جھانجھ' پر مشتمل ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں جلوس کے آگے پیشہ ور لوگ ہی باجا بجاتے تھے لیکن محلہ قاضی زادہ کے اصغر حسین نے باقاعدہ  ماتمی دھنیں ترتیب دیں اور قوم کے لڑکوں کو   ماتمی دھنوں پر باجا بجانے کی تربیت دی۔ اب یہ حالت ہیکہ حسینی باجا بجانے کی تربیت حاصل کرنے کی کسی کو ضرورت ہی نہیں ہے چھوٹے سے چھوٹا بچہ اور بڑے  سےبڑا بزرگ 'حسینی باجا' بجاتا ہے۔  اس باجے میں تاشے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تاشہ بجانے والا ہی ماتمی دھن کا تعین کرتا ہے اور ڈھول اور جھانجھ بجانے والے لوگ اسی دھن پر اپنے اپنے آلات بجاتے ہیں۔ اصغر حسین نے  حسینی باجا کے لئے تین ماتمی دھنیں ترتیب دیں۔ 'ماتم'، 'کلمہ' اور 'تین تال'  یہ تینوں دھنیں 'بول' پر مشتمل ہیں۔ ماتم کی دھن کے بول ہیں۔ 'سجدے میں سر کٹا' کلمے کی دھن کے بول ہیں۔ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ۔ اور تین تال میں قاتلان امام حسین پر تین مرتبہ لعنت کی گئی ہے۔

ماتم کی دھن پر حسینی باجا خاص طورسے اس وقت بجایا جاتا ہے جب جلوس عزاخانہ سے برامد ہوتا ہے اور جب جلوس شہر کی گشت کے بعد واپس اسی عزاخانے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی وقت پر اس دھن پر حسینی باجا بجایا جاسکتا ہے۔ حسینی باجے کی آواز کو سن کر لوگوں کو اندازہ ہوجاتا ہیکہ جلوس آنے والا ہے۔ محرم کے دوران موسیقی کے آلات بالخصوص تاشے اور ڈھول بنانے اور فروخت کرنے والوں کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ تاشے اور ڈھول پہلے جانور کی کھال سے منڈھے جاتے تھے لیکن اب پلاسسٹک کا چلن عام ہو گیا ہے۔ محرم میں پھٹے ہوئے تاشے اور ڈھول کی منڈھائی بھی ہوتی ہے اور نئے تاشے اور ڈھول فروخت بھی ہوتے ہیں۔ڈھول میکر ارشاد احمد کہتے ہیں کہ محرم میں انکی آمدنی میں سال بھر کی نسبت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ بچوں میں حسینی باجے کی مقبولیت اور شوق کو دیکھتے ہوئے چھوٹے تاشے، ڈھول اور جھانجھ بھی بازار میں آگئے ہیں۔ ان سامانوں کو خریدنے والوں میں ہر قوم و مذہب کے بچوں کے والدین شامل ہیں۔

امروہا  میں ہندو خاندان محرم کے جلوس میں شربت کا اہتمام بھی کرتے ہیں 


امروہا میں محرم کی تاریخ

 بعض روایات کے مطابق امروہا میں ماتم داری کا آغاز  500 برس پہلے ہوا تھا۔ لیکن باضابطہ طور پر عزاداری اور علم داری کا آغاز 17 ویں صدی  عیسوی میں بزرگ شاہ مسکین کی  شہادت کے بعد ہوا۔ انہیں اورنگ زیب کے عہد میں ماتم داری کے جرم میں قتل کردیا گیا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے آٹھ محرم کو  علم اٹھا کر  جلوس عزا کا آغاز کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جلوس کے مشمولات اور عزائی تبرکات  میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عزاخانے تعمیر ہوئے۔ ماتمی جلوس منظم کئے گئے۔  تین محرم سے  آٹھ محرم کے عزائی جلوس  نظم و ضبط، ترتیب اور وقت کی پابندی کے لئے مشہور ہیں۔ ہر جلوس روزانہ کم و بیش17 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے واپس اپنے مقام ابتدا پر پہونچتا ہے۔ ماتمی جلوسوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ سب سے آگے قطار در قطار اونٹ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے والے اونٹ پر  سیاہ علم  ہوتا ہے اور قافلہ حسینی کی خواتین کی محملوں کی تمثیل کے طور پر ایک یا دو اونٹوں پر سیاہ عماریاں ہوتی  ہیں۔ بقیہ اونٹوں پر عزادار سوار ہوتے ہیں جو توشہ تقسیم کرتے ہیں۔

 اونٹوں کی قطار کے بعد  حسینی باجا ہوتا ہے اس کو پہلے پیشہ ور افراد بجاتے تھے لیکن اب یہ بھی  قوم  کے بچے اور جوان بجاتے ہیں۔ اس کے عین پیچھے آرائش ہوتی ہے۔ اسے آرائش کا جلوس بھی کہتے ہیں۔ یہ  مرکزی جلوس کی پیشوائی کا کام کرتا ہے۔ آرائش کے جلوس میں درجن بھر  سے زیادہ تخت یا تابوت ہوتے ہیں۔  یہ تخت شہیدان کربلا کی قبروں کی  شبیہ ہوتے ہیں۔ کچھ تختوں پر قافلہ حسینی کےلٹے ہوئے سامان کی شبیہیں ہوتی ہیں۔ ان میں نالکی پالکی اور روشن چوکی ہوتی ہے۔ روشن چوکی، نوبت خانے کی طرز پر بنی ہوتی  ہے۔

 اس کے پیچھے اصل اور مرکزی جلوس ہوتا ہے۔  حسینی باجے کے بعد کچھ علم ہوتے ہیں۔ اس کے  بعد امام  حسین کے جنازے کی شبیہ تابوت ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ علم ہوتے ہیں اس کے پیچھے امام حسین کی سواری کی شبیہ ذولجناح ہوتا ہے۔ ذولجناح کے  پیچھے والی دو صفوں میں 'دورہ' بولنے والے ماتم دار ہوتے ہیں۔ یہ 'دورہ' امام حسین کے فضائل اور مصائب پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب  اگلی صفوں والے 'شہید کربلا حسین'، 'رئیس کربلا  حسین'، 'امیر کربلا حسین'، 'عاشق کبریا حسین'۔'کشتہ خنجر جفا حسین' اور  'بے یار و اقربا حسین'  کہتے ہیں تو پیچھے صف بستہ تمام عزادار یک زبان ہو کر تین مرتبہ 'حسین' 'حسین' 'حسین 'کہتے ہیں۔ یہ دورہ دنیا بھر کے ماتمی جلوسوں میں  امروہا کے جلوس کو خاص امتیاز عطا کرتا ہے۔

 پنڈت بھون شرما  عاشورہ کو مجلس میں نوحہ پڑھتے ہوئے


غیر مسلم خواتیین کا اظہارعقیدت 


 تین محرم کو پہلا جلوس محلہ پچدرہ کے عزا خانہ ولیہ سے، چار محرم کو کوتوالی کے عقب میں واقع عزا خانہ حرمت شاہ سے، پانچ محرم کو محلہ سدو کے عزا خانہ رفاتی سے، چھ محرم کو محلہ گزری کے عزا خانہ مسماۃ نورن سے، سات محرم کو محلہ  کٹرہ غلام علی کے عزا خانہ سے اور آٹھ محرم کو محلہ قاضی زادہ کے عزا خانہ چاند سورج سے برامد ہوتا ہے۔ نو محرم کو دربار شاہ ولایت سے نشانوں کی جوڑیاں برامد ہوتی ہیں اور دس محرم کو مختلف عزا خانوں سے تربتتوں اور تعزیوں کے جلوس برامد ہوتے ہیں۔ وقت کی پابندی بھی ان جلوسوں کوایک  امتیازی شان عطا کرتی ہے۔ ماتمی جلوسوں کی نگرانی کرنے والی 'انجمن رضاکاران حسینی'   نے جو ٹائم ٹیبل تیار کررکھا ہے جلوس  اس کے مطابق چلتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ تک طے ہوتا ہیکہ  کس محلے میں جلوس کتنے بجے داخل ہو گا۔ وہاں کتنی دیر قیام کریگا اور وہاں سے کتنے بجکر کتنے منٹ پر روانہ ہوگا۔

 جہاں تک امروہا کی عزاداری سے مختلف پیشوں اور کاروبار سے جڑے افراد کے مالی فائدے کا معاملہ ہے تو لوگ محرم کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ عزا خانوں کی رنگائی پتائی  سے لیکر نزر و نیاز  اور مجلسوں  میں تقسیم ہونے والا تبرک   بنانے اور فروخت کرنے والوں کو محرم کے دنوں میں کروڑوں روپئے کے کاروبار کا موقع ملتا ہے۔  شہر میں جگہ جگہ نزر و نیاز کا اہتمام رہتا ہے  جس میں باورچی،  نانبائی، پھل فروش، مٹھائی فروش، ڈسپوزیبل سامان کے دوکاندار، مزدور، رکشا پلر اور دیگر کاروبار سے جڑے لوگوں کی شمولیت رہتی ہے۔آٹھ محرم کو شہر میں سیبوں کی قلت ہو جاتی ہے۔ سیب مہنگے دام پر فروخت ہوتے ہیں۔ اسکی وجہ محلہ قاضی گلی کے عزا خانہ مسماۃ چھجی میں ہونے والی ایک مجلس ہے جہاں  لوگ  اپنی منت  ماننے اور منت  پوری ہونے پر سیب نزر کرتے ہیں۔ اس مجلس میں کئی ٹن سیب نزر  اور تقسیم  ہو جاتے ہیں۔