اے ایم یو : پروفیسر سہیل صابر کا 50 لاکھ روپئے کا انڈومنٹ فنڈ کیوں مثال بن گیا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2024
  اے ایم یو : پروفیسر سہیل صابر کا 50 لاکھ روپئے کا انڈومنٹ فنڈ کیوں مثال بن گیا
اے ایم یو : پروفیسر سہیل صابر کا 50 لاکھ روپئے کا انڈومنٹ فنڈ کیوں مثال بن گیا

 

منصور الدین فریدی :نئی دہلی  

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حال ہی میں ریٹائر ہوئے  پروفیسر سہیل صابر نے ضرورت مند اور مستحق اسٹوڈینٹس کو اسکالرشپ  کے لیے پچاس لاکھ روپئے انڈومنٹ یعنی وقف فنڈ کی شکل میں دیئے ہیں ۔ سابق اسٹوڈینٹس اور صاحب حیثیت کی جانب سے اس قسم کے ڈونیشن دئیے جاتے رہے ہیں لیکن یہ معاملہ کچھ خاص ہے ۔کیونکہ پروفیسر سہیل صابر اے ایم یو کی تاریخ میں پہلے ٹیچنگ اسٹاف ہیں جنہوں نے ضرورت مند اسٹوڈینٹس کواسکالر شپ مہیا کرانے کے لیے انڈومنٹ فنڈ قائم کیا ہے۔ڈاکٹر سہیل صابر کے مطابق ان کا یہ قدم اس قرض کی ادائیگی کا ایک طریقہ تھا جو وہ یونیورسٹی اور معاشرے دونوں کے لیے محسوس کرتے تھے۔اہم بات یہ ہے کہ ان کے فیصلے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ جذباتی لگاو کی روایت کو زندہ کردیا ہے بلکہ ہر کسی کو ایک ایسی راہ دکھائی ہے جو کہیں نہ کہیں بانی اے ایم یو سر سید احمد خان کی جدوجہد اور جذبے کو سب سے خوبصورت خراج عقیدت ہوسکتا ہے ۔

آواز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر سہیل صابر نے کہا کہ میں جو کچھ ہوں دراصل وہ اس تعلیمی چمن کا احسا ن ہے ۔میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر یہ فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ اس کا تاقیامت فائدہ ہوگا اور قدم اورفنڈ سے تقریباً 40 مستحق اسٹوڈینٹس فیضیاب ہوں گے۔ ضرورت مندوں میں اسکالرشپ کی تقسیم کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ پروفیسر سہیل صابر نے اس رقم کا چیک یونیورسٹی کے فنانس آفیسر پروفیسر ایم محسن خان کے کے سپرد کیا،اپنی پیشکش کو قبول کرنے کے لیے اے ایم یو کا شکریہ ادا کیا ۔ساتھ ہی یونیورسٹی نے بھی ان کے جذبہ کو سراہا ۔ پروفیسر سہیل صابر نے امید ظاہر کی ہے کہ جو قدم انہوں نے اٹھایا ہے وہ علی گڑھ میں مقیم ریٹائرڈ پروفیسرز میں بھی ایک لہر پیدا کرسکتی ہے ۔کیونکہ ان کی نظر میں یہ پہل ہر کسی کو کرنا چاہیے جو اپنے تعلیمی ادارے کے احسان کا قرض اتارنے کا بہترین طریقہ ہے ۔

پروفیسر صابر نے مذکورہ رقم کا چیک یونیورسٹی کے فنانس آفیسر پروفیسر ایم محسن خان کے سپرد کیا

اے ایم یو کے پروفیسر شافع قدوائی  نے پروفیسر سہیل صابر کے فیصلے کی سراہنا کی اور کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ یونیورسٹی کے کسی ٹیچنگ اسٹاف نےخطیر رقم کا ڈونیشن دیا ہے ۔ایک خو ش آئند قدم ہے ۔ایک مثال ہے ،ایک سبق ہے ۔ہر کسی کے لیے ایک پیغام ہے۔ انہوں نے آواز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خان کی سوچ کی عکاسی ہے جنہوں نے بچوں کی تعلیم کے ساتھ  مالی کفالت پر زور دیا تھا ۔پروفیسر سہیل صابر نے وہ کردکھایا جو آج تک کسی پروفیسر نے نہیں کیا تھا۔

بقول ابن سینا اکیڈمی آف میڈیول میڈیسن اینڈ سائنسز کے روح رواں حکیم سید ظل الرحمن انہوں نےعلی گڑھ میں گزارے 70 سال کے دوران ایسی کوئی نظیر نہیں پائی جب کسی ٹیچنگ اسٹا ف نے اتنی بڑی رقم ریٹائرمنٹ کے بعد یونیورسٹی کے ضرورت مند اسٹوڈینٹس کے لیے وقف کی ہو ۔

اے ایم یو کے پروفیسر شافع قدوائی نے آواز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرو فیسر سہیل صابر ایک ذمہ دار اور حساس استاد رہے ہیں ،وہ کمزور بچوں کو فری کوچنگ دیا کرتے تھے جبکہ اہم بات یہ کہ اپنے شاگردوں کے بارے میں خواہ وہ پڑھنے میں اچھے ہوں یا کمزور،ان کے والدین کوبذریعہ پوسٹ کارڈ ان کی تعلیمی پیش رفت سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ایسے استاد بہت کم ہوتے ہیں ۔وہ اے ایم یو کے سابق اسٹوڈ ینٹس کی ایسوسی ایشن سے بھی جڑے رہے ہیں اور ضرورت مند اسٹوڈینٹس  کی مدد کا کام انجام دیتے رہے ہیں ،وہ ہمیشہ سے ایک ایسے استاد رہے ہیں جنہوں نے  اپنے شاگردوں کا نہ صر ف حوصلہ بڑھایا ہے بلکہ ان کی ہر ممکن رہنمائی کی

پروفیسر سہیل صابر ہمیشہ یونیورسٹی کے طلبا میں مقبول رہے 


ممتاز مصنف ڈاکٹراسد فیصل فاروقی  نے آواز کو بتایا کہ پروفیسر سہیل صابر  کے قدم نے مثال قائم کی ہے ،وہ ٹیچنگ کے دور میں ہی اسٹوڈینٹس کے مددگار تھے ،وہ اپنے شاگردوں کی ہر ممکن مدد کرتے  رہے ہیں ۔اتنی بڑی رقم کا ڈونیشن  ان میں  سر سید کی سوچ و فکر کی عکاسی ہے۔ دراصل پروفیسر سہیل صابر کے والد بھی یونیورسٹی ہیلتھ سینٹر سے وابستہ رہے تھے ۔یہ نسلوں کا رشتہ ہے  جو اس فیصلے میں جھلک رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یوں تو اے ایم یو کو ملک اور بیرون ملک میں مقیم سابق اسٹوڈینٹس سے بڑے ڈونیشن ملے ہیں جس کی متعدد مثالیں ہیں  لیکن  ٹیچنگ اسٹاف میں پہلی بار کسی نے  اس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے

قابل غور بات یہ ہے کہ اتر پردیش کے بارہ بنکی کے رہنے والے پروفیسر سہیل صابر نے پہلے علی گڑھ میں اپنی تمام تعلیم مکمل کی،جس میں  کیمسٹری میں پی ایچ ڈی بھی شامل ہے۔ پروفیسر سہیل صابر نے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 1993 میں اس یونیورسٹی میں بطور لیکچرر شمولیت اختیار کی۔ وہ 1998 میں سینئر لیکچرر بنے اور 2003 میں انہیں  ریڈر کے عہدے پر ترقی ملی۔ وہ 2006 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنے اور 2015 میں پروفیسر کے عہدے پر ترقی پائی  ۔

پروفیسر سہیل صابر نے جو قدم اٹھایا ہے وہ یقینا ایک مثال ثابت ہوگا ، علیگ برادری میں سرسید کی سوچ اور فکر کو مزید تقویت بخشے گی  

 کیا ہوتا ہے انڈومنٹ فنڈ

انڈومنٹ فنڈ ایک سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو ہے جس کا ابتدائی سرمایہ عطیات سے حاصل ہوتا ہے۔ انڈوومنٹ فنڈز خیراتی اور غیر منافع بخش اداروں جیسے گرجا گھروں، اسپتالوں اور یونیورسٹیز کو فنڈ دینے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ انڈوومنٹ فنڈز کے عطیات ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔

انڈوومنٹ فنڈز ابتدائی طور پر چند خیراتی مقاصد کے لیے عطیہ دہندگان کے ذریعے لگائے جاتے ہیں۔ وہ عام طور پر ٹرسٹ کے طور پر قائم ہوتے ہیں، جو انہیں ان تنظیموں سے آزاد رکھتے ہیں جن کی وہ حمایت کرتے ہیں۔ انڈوومنٹ فنڈز نقد، ایکوئٹی، بانڈز، اور دیگر قسم کی سیکیورٹیز پر مشتمل ہوتے ہیں جو سرمایہ کاری سے آمدنی پیدا کر سکتے ہیں۔

انڈوومنٹ فنڈ اور ایک عام سرمایہ کاری فنڈ کے درمیان اہم فرق - جیسا کہ میوچل فنڈ - یہ ہے کہ انڈومنٹ فنڈ کا فائدہ اٹھانے والا انفرادی سرمایہ کاروں کے بجائے ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ عام طور پر، انڈوومنٹ فنڈ کی اصل قیمت برقرار رکھی جاتی ہے، جبکہ سرمایہ کاری کی آمدنی کو بعض مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس طرح انڈومنٹ فنڈ مستقل طور پر رکھا جا سکتا ہے۔ عطیہ دہندگان ان مقاصد کو محدود کرتے ہیں جن کے لیے انڈومنٹ فنڈ استعمال کیا جا سکتا ہے۔