خورشید اکرم
یہ ہندوستان بنام پاکستان کا معاملہ نہیں ہے۔ مگرسوشل میڈیا میں دس برس کے مشاہدہ کے دوران اس بات کا بارہا احساس ہوا کہ پاکستانی اردو احبابِ قلم کے مقابلے ہندوستان کے احباب کے یہاں بہت یک رنگی ہے۔ ان کو دنیا، زمانہ، حالات و حوادث سے جیسے کوئی مطلب ہی نہیں۔ اپنی شاعری، اپنی تصویر، اپنی شادی کی سال گرہ، اپنی کتاب، اپنے خون میں شوگر کی مقدار، اپنے باپ کی بیماری جیسی باتوں یعنی خود تشہیری کے علاوہ کچھ جیسے ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی احباب کے یہاں دل اور دنیا دونوں کی بات ہوتی ہے۔ سنجیدہ بھی اور لطف و مزاح بھی۔ سوشل میڈیا سنجیدہ مباحث کا میڈیم نہیں ہے لیکن سنجیدہ کلامی کے لیے گنجائیش ہے۔
اجتماعی اور معاشرتی احساسات و جذبات کے اظہار کا اسکوپ ہے۔ ہندوستانی احباب کے یہاں یہ سب کم کم ہے۔ نہ کوئی آرٹ پر بات کرتا ہے، نہ سیاست پر نہ فلموں پر۔ اب یہی دیکھیے کہ پچھلے ایک ہفتہ سے کلکتہ کے ایک اسپتال میں ایک ڈاکٹر کے ریپ اور بہیمانہ قتل پر پورے ملک میں کہرام مچا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستانی احباب نے بھی اس پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے، اس کے انسانی سروکاروں اور معاشرتی اثرات و عواقب پر سنجیدگی سے گفتگو کی ہے۔۔۔مگر ہندوستان کا اردو داں حلقہ۔۔۔۔خدا کی پناہ!
ہندوستان کے اردو معاشرے کی ایک طرح کی بے حسی سے متعلق میری اس بات پر بیشتر احباب نے اتفاق کیا۔ کچھ نے نہیں بھی کیا اور کچھ نے دوسری طرح کی منطق پیش کی۔ پہلے،میں یہ واضح کر دوں کہ کوئی بھی مشاہدہ اور اس سے اخذ نتیجہ اکثریت کے رویہ کی بنیاد پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر میں نے اردو معاشرے کے سرد رویے کے بارے میں بات کی تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کسی نے کچھ کیا ہی نہیں (ہوگا)۔ لیکن پچھلے ایک ہفتہ میں سوشل میڈیا اور کم از کم دہلی کے سب سے بڑے اردو اخبار کے مطالعے کے بعد میں اُس نتیجے پر پہنچا تھا جس کا ذکر کیا۔ دو تین ہفتہ پہلے بنگلہ دیش میں اتنے بڑے اتھل پتھل کے دوران بھی میں نے ہندوستانی اردومعاشرہ کو کم و بیش اسی طرح لا تعلق پایا۔ میں ایسا ہر گز نہیں کہتا کہ ہر معاملے میں ہر شخص لازماً بولے۔ لیکن جو بڑے معاملات ہیں ان میں کم از کم کچھ لوگ تو اس طرح بات کریں کہ باقی لوگ جن کی معلومات یا سمجھ کم ہے انہیں کچھ معلوم ہو، سمجھ ہو۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کے معاملات سے باخبری ہمارےشعوراورلاشعوردونوں کوکمک پہنچاتی ہے۔اور کم از کم ادیب کے لیے باخبری بہت ضروری چیز ہے، صرف باخبری نہیں بلکہ اس کی اپنی ایک رائے بھی ہونی چاہیے۔جس کا اظہار وہ بوقت ضرورت کر سکے۔
اب سوال یہ کہ پاکستان معاشرے کے مقابلے یہاں بے خبری زیادہ ہے تو کیوں ہے؟ تو اس کا جواب تلاش کرنے کی یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ یہاںمیں اپنی بات کو مسلمانوں کے عمومی رویہ پر نہیں بلکہ اردو سے وابستہ دانشور طبقہ، اہل قلم اور صحافی تک محدود رکھتا ہوں کیونکہ فی الوقت میرے مخاطب وہی ہیں۔ مختصرا ًجو وجہیں میں سمجھ پایا ہوں وہ نکتہ وار یوں ہیں
اول: ہندوستان کا جواردومعاشرہ ہے وہ شاعری میں اس قدرڈوبا ہوا ہے کہ اس کے اندرسنجیدہ بحث میں الجھنے کا مادہ ہی نہیں رہا۔ اس کی تجزیاتی فکر کو شاعری گھن کی طرح کھا چکی ہے۔ ویسے تو یہ پورے اردو معاشرے کا مسئلہ ہے لیکن ہندوستان میں یہ زیادہ کیوں ہے اس کی وجہ آگے آتی ہے۔
دوئم : یہاں وہ میڈیم یا پلیٹ فارم نہیں ہیں جہاں سیاسی، سماجی، ثقافتی، فکری بحثیں ہوتی یا ہو سکتی ہیں۔ ادب میں جدیدیت کے حامیوں نے رسائل سے 'غیر ادبی' موضوعات کو ٹاٹ باہر کردیا تھا۔ یہاں تک کہ ان موضوعات پر بات کرنے والا ترقی پسندی کا طوطا سمجھا جانے لگا۔ لہذااردو میں سماجی، سائنسی، ثقافتی، مذہبیاتی،عمرانی ۔۔۔تمام طرح کی فکری بحثیں ختم ہو گئیں۔ بچ گئی صرف تحقیق اور تنقید۔ایک سے بڑھ کر ایک ادبی رسالے نکلے مگر یہاں سے کبھی' ارتقا 'جیسا رسالہ نہیں نکلا جس میں کچھ فکر و نظر کی باتیں ہوں۔ یہاں تو کوئی 'ہم سب' یا 'تجزیات' جیسا آنلائن میگزین بھی نہیں۔
تین: یہاں کے اردو اخبارات ہمیشہ سے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص رہے ( فلسطین اورعالم اسلام اسی کی توسیع رہے ہیں)۔ لیکن پچھلے پچیس تیس برس میں یہ پوری طرح مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ہر اخبار یک رنگا ہوگیا ہے جس میں ہندوستانی مسلمانوں کی مظلومیت اورمذہب کی باتوں کے علاوہ کوئی اور مضمون مشکل سے ملے گا۔ پچھلے دس برس میں مودی اور بھاجپا کی مخالفت بھی ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں دیگر موضوعات یا دیگر متبادل خیالات کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ نتیجہ کے طور پر غور و فکر کرنے اور متبادل نقطہء نظر رکھنے والوں کے لیے کوئی پلیٹ فارم ہے ہی نہیں۔پچھلے چالس پچاس برس میں یہاں کوئی ڈھنگ کا اردو صحافی نہیں پیدا ہوا۔ کالم نگار اخبار کا پیٹ بھرتے ہیں اور اخبار مولوی کا منہ بھرتے ہیں۔
چار: سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک ایک ایسا متبادل پلیٹ فارم بن سکتا تھا جس پرمباحثے نہ سہی کچھ سنجیدہ باتیں تو ہو ہی سکتی تھیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا جدیدیت کے لا شعوری طورپرپروردہ ادیبوں کو سیاسی و سماجی مسائل پر بات کرنا بالکل گوارہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ پھربحث و تمحیص کی تمیز بھی نہیں پیدا ہوسکی۔ شاعری بھلے کر لیں گے۔ سیاست اور سماج سے بے گانگی کا عالم یہ ہے کہ ابھی ہمارے وقت کے سب سے بہترین ادبی رسالہ اثبات نے جب اپنا مزاحمت نمبر نکالا تو اس میں نوے فی صد مواد ہندی انگریزی کے تراجم تھے یا پاکستان کے آنلائن رسائل سے ماخوذ مضامین ۔ یہاں لکھنے والے ہیں ہی کہاں؟ خود ہندوستان میں جو سب سے بڑی سیاسی مزاحمت سوشل میڈیا کے ذریعہ چل رہی ہے اس کا رسالہ میں خفیف سا ہی ذکررہا۔ہندوستان کے اردو دانشوروں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ اس بار کا ہندوستانی چناؤ سیاسی پارٹیوں سے زیادہ میڈیا کی جنگ تھی جس میں یوٹیوب اور سوشل میڈیا نے حکومت کے پٹھو مین اسٹریم میڈیا کوچت کر دیا۔ حد تو یہ کہ اثبات میں شامل اپنے مضمون میں میں نے مزاحمت کی مثال کے طور پر میاں پوئٹری کا خصوصی ذکر کیا لیکن ایڈیٹر صاحب نے اس کو توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھا۔
پانچ: کہا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمان مستقل دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔ اس نے ان کی ذہنیت کو شکست خوردہ کردیا ہے۔ لیکن۔۔۔ کرکٹ تووہ پھر بھی کھیلتے ہیں۔ فلم اورگلیمرانڈسٹری میں تو پھربھی چھائے ہوئے ہیں اور مشاعرے پھر بھی دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں۔ مذہبی اور ملی تنظیمیں بے حساب و بے شمار ہیں۔ اردو کے اخبارات و رسائل کی بھرمار ہے۔ دینی مدرسے لاکھوں ہوں گے۔۔۔تو کیا وہ واقعی وہ دیوار سے لگے ہوئے ہیں؟ تھوڑی حد تک تو یہ بات صحیح ہے مگر پوری نہیں۔ انہیں ہندو اور مسلمان دونوں کی فرقہ پرست جماعتیں دیوار سے لگائے ہوئے ہیں۔ ہر مذہبی اور ملی جماعت ایک ہی زبان میں بات کرتی ہے، وہ بات جو انہیں ان کے زخمی احساسات و جذبات سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں دیتی۔ یہ ویسے تو عامیوں کا مسئلہ ہے لیکن بیشتر ادیب بھی عین مین عامیوں کی طرح ہی سوچتے ہیں۔ اور ان ہی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ جب معاشرہ کا سوچنے والا ذہن عامیانہ رویے کو درست مان لے تو بہتری کا، متبادل راستہ کہاں سے نکلے گا۔
اور آخری مگر سب سے تلخ بات : ہندوستانی اردو قلمکاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ جن مسائل سے وہ براہ راست متاثر ہوتے یا ہو سکتے ہیں، مثلا فسادات یا سی اے اے وغیرہ، ان کے سوا معاملات میں ان کی شرکت ، شمولیت نہ کے برابر ہے۔ بنگلہ دیش سے اسے کچھ نہیں لینا، منی پور سے اسے کچھ نہیں لینا۔ مگر فلسطین اور بوسنیا سے اتنا زیادہ ہے کہ عادل منصوری جیسے خالص جدیدیے بھی جذبات میں آکر نظم کہتے ہیں اور شب خون جیسے 'خالص ادبی رسالہ ' میں وہ چھپتی ہے۔
لہٰذا میں پھر کہوں گا کہ ہندوستان کے مقابلے پاکستانی اردو ادیبوں نے مومیتا دیب کے معاملے میں ہندوستانی اہل اردو کے مقابلے صد گنا زیادہ حساسیت دکھائی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ خود کو معاشرہ کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ہم۔۔۔افسوس ہم خود کو اس معاشرہ کا حصہ نہیں اس کےکشتہ سمجھتے ہیں۔ اور ہمیں تھپک کے سلانے کے لیے ادب کا معجون تو ہے ہی۔
نوٹ : مضمون نگار انڈین انفارمیشن سروس کے سابق افسر اور معروف رسالہ آجکل کے سابق ایڈیٹر ہیں ۔افسانے، شاعری اور تراجم پر مشتمل متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔اردو ہنداور انگریزی میں سماجی و ثقافتی موضوعات پر صحافتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ اپنی سنجیدہ تنقیدی فکر کے لیے خاص طور پر جانے جاتے ہیں۔