منصور الدین فریدی: آواز دی وائس
یہ ہماری تہذیب ہے،جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں،اس لیے سیاست کو بھول جائیں،ہماری تہذیب ہمیں بھائی چارے کو پروان دیتی ہے ۔۔اس لیے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں مسجد کی دیکھ ریکھ کروں یا صفائی ۔میرے لیے یہ صرف ایک خدمت ہے۔ ایک ذمہ داری ہے جو ہمارے دادا سے وراثت میں ملی ہے جس کا سلسلہ میرے بعد بھی جاری رہے گا ۔
یہ ایک پنڈت جی کے الفاظ ہیں، جو قریب ساڑھے سو سال قدیم مسجد کے نگراں ہیں۔جی ہاں! ایک مسجد متولی ایک ’پنڈت جی‘ہیں۔ دوسری چونکانے والی بات یہ ہے کہ یہ مسجد جسے انار والی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مندروں کے شہر بنارس یعنی وارانسی میں گنگا گھاٹ کے قریب ہے ۔ ایک ہندو تیرتھ استھان،ایک ہندو مذہبی مقدس شہر،اس کی گود میں ایک مسجد کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں ایک پنڈت جی۔ دیکھ ریکھ وہ بھی دل سے نہ کہ لفظی جمع خرچ سے، بات جھاڑو اور صفائی سے لے کر مرمت تک ۔ ہر کام کی ذمہ داری پنڈت جی کے کندھے پر ہے، جسے وہ 50 سال سے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں-وہ بھی بڑی خاموشی کے ساتھ ۔ جو نسل در نسل کی خذمت اور عقیدت کو بیان کرتی ہے ۔
آپ کو بتا دیں کہ چوکھمبا بنارس کے پرانے شہر کا ایک مشہور علاقہ ہے جس کا نام 14ویں-15ویں صدی کی مسجد چوراسی کھمبا مسجد سے پڑا ہے۔جو کبھی تارا شاہ بابا، میرا شاہ بابا، انار شہید بابا اور چوکھمبہ بابا، کی قبروں والی درگاہ کے ساتھ یہاں مشہور ہوا کرتی تھی۔حالات بدلے،وقت گزرا اور تقسیم ملک کا درد سامنے آیا ۔ اس تبدیلی سے محلے کو یہ نام دینے والی مسجد بھی تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی۔لیکن مسجد اپنی جگہ سلامت رہی۔ کیونکہ ایک ہندو خاندان نے عمر بھر مسجد کی اچھی دیکھ بھال اور اس کی حرمت کو برقرار رکھا۔ بیچن بابا اس مسجد کے دوسری نسل کے نگراں ہیں۔
بنارس کے خوبصورت گنگا گھاٹوں کے قریب تنگ گلیوں سے گزرنے کے بعد جب آپ اس مسجد کے قریب پہنچتے ہیں تو اس کے صدر دروازے پر ہی ایک تخت پر درویش نظر آنے والے پنڈت جی براجمان نظر آتے ہیں، طویل قد ، لمبی داڑھی، پتلا جسم مگر مضبوط آواز اپنی کہانی بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں
بیچن بابا مسجد میں صفائی کرتے ہوئے
آواز دی وائس سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بے بیچن بابا کہتے ہیں کہ ۔ ہمارے اپنے اصول ہیں ،قدریں ہیں ،تہذیب ہے ،مل جل کر رہنے کی تاریخ ہے ،اس اتحاد کو کوئی نہیں توڑ سکا ہے ۔میں جو بھی کررہا ہوں وہ اپنی تہذیب کا نمونہ ہے،جسے ہم بھول رہے ہیں ، یہ ہماری تہذیب ہے،جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں،اس لیے سیاست کو بھول جائیں،ہماری تہذیب ہمیں بھائی چارے کو پروان دیتی ہے،س لیے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں مسجد کی دیکھ ریکھ کروں یا صفائی ۔میرے لیے یہ صرف ایک خدمت ہے۔ ایک ذمہ داری ہے جو ہمارے پتا جی سے وراثت میں ملی ہے، جس کا سلسلہ میرے بعد بھی جاری رہے گا ۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر میں ہندو ہوں تو کیا ہوگا؟ مسجد کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ گیان واپی مسجد میں کیا ہورہا ہے۔۔ مجھے سیاست کا علم نہیں ۔۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ جب تک میں ہوں اس مسجد کی نگہبانی کروں گا اور میرے بعد میرا بیٹا یہ ذمہ داری نبھائے گا ۔ بیچن بابا نے یہ بھی بتایا کہ ایسا وقت کیسے آیا جب مسجد کے ارد گرد تشدد پھوٹ سکتا تھا لیکن ان کے پتا جی نے مداخلت کی اور شرپسندوں کو بھگا دیا تھا
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے بے چن یادو نے کہا کہ میں جو بھی میں جو بھی کر رہا ہوں ، وہ میرے لیے ایک معمول ہے میری زندگی کا حصہ ہے یا میری زندگی ہے- یہ کام اچھا ہے ,اسی لیے میرا نام بھی اچھے انداز میں لیا جا رہا ہے, دنیا میری کہانیاں دکھا رہی ہے - میرے لیے یہ زندگی بالکل عام سی ہے،،جس میں بھائی چارہ ہے، محبت ہے پریم ہے اور اور ملی جلی تہذیب ہے۔-
دراصل 72 سالہ ہندو کیئر ٹیکر بیچن بابا نے اپنی زندگی عملی طور پر اس قدیم مسجد کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے ۔ جو مذہبی تنازعہ میں الجھے شہر میں اتحاد کے احساس کی نمائندگی کرتی ہے۔ان کی موجودگی اور کوشش کے سبب 2001سے چوکھمبا مسجد کے امام مولانا دلو رحمان اس مجسد میں نماز جمعہ اور نماز عید کی امامت کرتے ہیں پنڈت بےچن یادو سے جب دریافت کیا گیا کہ ان کی اولاد اس خدمت کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ میرے پانچ بچے ہیں سبھی بیٹے ہیں سب برسر روزگار ہیں ۔بچوں کی جانب سے مجھے کوئی پریشانی اور رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ میرے کام اور میری خدمت سے خوشی محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے دادا بھی یہی خدمت انجام کرتے تھے جو میں کر رہا ہوں۔اب مجھے اس بات کا بھروسہ ہے کہ میرے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ میرا چھوٹا بیٹا جو ابھی 20 سال کا ہے وہ میرے بعد اس وراثت کو اگے بڑھائے گا یہی میری خوش قسمتی ہے
انار والی مسجد کے رکھوالے بیچن بابا
آج ملک میں ماحول خواہ کچھ بھی ہو مگر یہ ہے ہندوستان اور یہ ہے ہندوستان کی اصلی شکل۔ جب بنارس کی صبح سورج کی کرنیں نمودار ہوتی ہیں اور گھاٹ سے مندروں کی گھنٹیاں سنائی دیتی ہیں تو اس مسجد کے رکھوالے بے چن بابا اشنان اور پوجا کے لیے نکلتے ہیں ۔ یہ ہے ہندوستان کی تہذیب ,جسے ہم گنگا جیسی پوتر اور سمندر جیسی گہری ۔گنگا جمنی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں۔ یقینا بات تو حیران کر دینے والی ہے مگر یہ حقیقت ہے اور یہ ہمارے سامنے ہے ۔ جو ملک کی اس طاقت کو بیان کر رہی ہے جسے جھنجوڑنے والے، توڑنے والے اور ہلانے والے ہر دور میں آئے اور چلے گئے مگر یہ تہذیب اپنی مضبوط اور گہری بنیادوں پر آج بھی اسی طرح اٹل سینہ تانے کھڑی ہے جیسے کہ ہزاروں سال قبل تھی