کوئز کے رنگ حامد اقبال صدیقی کے سنگ

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 30-05-2024
کوئز کے رنگ حامد اقبال صدیقی کے سنگ
کوئز کے رنگ حامد اقبال صدیقی کے سنگ

 

شاہ تاج خان(پونے)

                ممبئی مہاراشٹر میں اردو زبان اورتعلیم کے فروغ  کے لیے کوشاں حامد اقبال صدیقی کو اردو میں جدید طرز پر جنرل نالج کوئز مقابلوں کا انعقاد کرتے ہوئے تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔وہ اب تک 275سے زیادہ کامیاب جنرل نالج کوئز شو منعقد کر چکے ہیں۔کوئز ٹائم ممبئی کے وہ بانی اور چیئرمین ہیں۔اس کے تحت اردو طلبا کے لیے جنرل نالج کوئز مقابلوں کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔اردو طلبا میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسکول میں قدم رکھتے ہی بچے انہیں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے ان کی جانب دوڑ پڑتے ہیں کہ حامد اقبال آ گیا۔۔ حامد اقبال آگیا۔۔! بچوں کے پیار،خلوص اور اپنے پن سے سرشار حامد اقبال صدیقی آواز دی وائس سے کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے جو سرور آتا ہے وہ میرا حاصلِ زندگی ہے۔سپر اسٹار آف اردو اسٹوڈنٹس کا خطاب اسی مقبولیت کے سبب بہت پہلے انہیں مل چکا ہے۔اس کے علاوہ ٹائمز آف انڈیا نے بھی انہیں سٹی اینجل کے خطاب سے نوازاہے۔

کیا کیا سوال کرتا ہے

ممتاز ہوگا جس کی معلومات کا دائرہ وسیع ہوگا۔ایک طالب علم میں فنون لطیفہ،سائنس ،کھیل کود، ٹیکنالوجی،سیاست،تہذیب وثقافت،فلم،طب،تاریخ،ریاضی،کرینٹ افیئرز(حالاتحاضرہ) وغیرہ کی معلومات کا ذخیرہ کسی بھی مسابقتی امتحان میں اس کی کامیابی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ہمارے تعلیمی نظام ،امتحانی نظام اور ملازمت کے لیے ہونے والے امتحانات کو اگر مدّنظر رکھا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تقریباً ہر امتحان میں پوچھے گئے سوالات میں جنرل نالج کے سوالات کا فیصد کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر بچوں کے ابتدائی دور سے ہی اس جانب توجہ دی جائے تو کسی بھی مسابقتی امتحان کی تیاری کا سلسلہ پرائمری اسکول سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔

اردو میں جدید طرز پر جنرل نالج کوئز مقابلوں کے بانی حامد اقبال صدیقی کا کہنا ہے کہ 1992-93 کے دوران میں اور میرے چند دوستوں نے مل کر نوجوانوں کے لیے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔کسی نے ریاضی پڑھانے کی ذمہ داری لی تو کسی نے ریزننگ پڑھانے کی اور مجھے جنرل نالج پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میں اپنے طالبِ علمی کے زمانے سے ہی مدارس میں اسلامی کوئز کے مقابلوں کا انعقاد کرتا آرہا تھا۔ تب میں سڑکوں پر ہی اسٹیج وغیرہ بنا کراسلامی کوئز کے پروگرام کیا کرتا تھا لیکن وہ پروگرام بھی طلبا میں کافی مقبول تھے۔ اس لیے مجھے جنرل نالج کوئز مقابلوں کو ترتیب دینے میں کچھ خاص دقت پیش نہیں آئی۔

awazurduایک پروگرام کے دوران حامد اقبال


حامد اقبال صدیقی کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر کوئز شو ز کے شروع ہونے سے بھی پہلے میں پورے شور شرابے،ہنگامے، میوزک  اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ جنرل نالج  کوئز مقابلوں کا انعقاد کر رہا تھا۔واضح رہے کہ جنرل نالج کوئز مقابلوں میں بچوں کو انعامات سے تو نوازا ہی جاتا ہے ساتھ ہی بچوں کے والدین کو بھی تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ طلبا کو جنرل نالج مقابلے کے لیے تیار کرنے والے اساتذہ کو بھی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔اتنا ہی نہیں پروگرام میں شرکت کرنے والے ہر بچے کو تحفہ ضرور دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جنرل نالج کے مقابلے میں شریک ہونے والا ہر بچہ بہت محنت کرتا ہے۔جیت ہار سے زیادہ ہم اس کی محنت کو اہمیت دیتے ہیں۔ جنرل نالج کوئز مقابلے میں تین نہیں بلکہ چار ٹیموں کو انعامات  دیئے جاتے ہیں۔حامد اقبال اپنے پروگراموں میں بڑے بڑے انعامات دینے کے سبب بھی بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔ انعامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ تو ہم نے ایک لاکھ نقد کا انعام بھی دیا تھا۔

آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر

                 اردو کی زبوں حالی کے تعلق سے کوئز ماسٹر حامد اقبال کا کہنا ہے کہ برسہا برس سے ایک غلط سوچ مسلط کی جا رہی ہے کہ اردو زبان میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔فرسودہ روش پر چلنے والے اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے  افراد ہی تو اردو کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔آج بھی ہمارے ملک میں اردو لاکھوں لوگوں کی کفالت کا ذریعہ ہے۔اردو تہذیب آج بھی بڑی کشش رکھتی ہے۔مثبت سوچ اختیار کرتے ہوئے  اگر اسے معاصر ٹیکنالوجی،اعلیٰ تعلیم،فیشن اور تفریحات سے جوڑ دیا جائے تو روزگار کے بہت زیادہ امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ حامد اقبال برسوں سے اردو اسکولوں کی بقا اور ان کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔جب ای لرننگ کا دور آیا تو انہوں نے اردو اسکولوں میں اسے متعارف کرانے کا بیڑا اٹھایا۔وہ اردو اسکولوں میں لیکچر دینے کے لیے بھی جاتے رہتے ہیں اور وہ بھی  بالکل مفت، وہ کوئی فیس چارج نہیں کرتے۔ کسی بھی اسکول کا دورہ کرتے ہوئے ان کے پاس طلبا کے لیے کیڈبری چاکلیٹ اور چھوٹے چھوٹے تحائف ضرور ہوتے ہیں۔وہ طلبا سے لیکچر کے دوران سوالات پوچھتے جاتے ہیں اور صحیح جواب دینے والے طلبا کو جواب دیتے ہی شاباشی کے ساتھ حامد اقبال چاکلیٹ دینا نہیں بھولتے۔

awazurdu

awazurduاردو میڈیم اسکولوں میں کوئز کو مقبول بنایا حامد اقبال نے 


اردو اسکولوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اردو اسکولوں کے حالات میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ان اسکولوں میں جنرل نالج کی جانب آج بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔وہ اپنے  ایک تجربہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں نے طلبا سے ملک کے صدر کا نام پوچھا تو بچوں نے نریندر مودی صاحب کا نام لیا۔  حد تو یہ ہے کہ طلبا کو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ تک کا نام معلوم نہیں تھا۔بے حد افسوس کے ساتھ وہ کہتے ہیں مجھے شدت سے احساس ہوا کہ 26-27 برس سے جنرل نالج کوئز مقابلوں کے انعقاد کے باوجود اب بھی بہت کام کرنا باقی ہے۔اسی لیے اب صرف کوئز ہی نہیں بلکہ اردو اسکولوں میں لیکچر دینے پرخاص توجہ مرکوز کی ہے۔تاکہ ان کی ذہن سازی کی جاسکے۔

بے شک وہ باغباں ہے اردو زباں کا               

سال 1999 میں کوئز ٹائم ممبئی نے پہلا انٹر اسکول جنرل نالج کوئزمقابلے کا انعقاد کیا تھا۔بڑے پیمانے پر کیے گئے اس پروگرام د کامیابی نے انہیں حوصلہ عطا کیا اور 2024 میں اسی سلسے کو برقرار رکھتے ہوئے 23 واں سالانہ جنرل نالج کوئز مقابلہ ’دھمال 2024‘ فروری ماہ میں کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا۔اس مقابلے میں پچاس اسکولوں نے شرکت کی تھی۔ہر اسکول سے تین طلبا پر مشتمل ایک ٹیم نے حصّہ لیا۔ دھمال 2024 کی ایک خاص بات یہ رہی کہ اس مقابلے میں چار نہیں بلکہ چھ ٹیموں کا انتخاب کیا گیا اور انہیں ٹرافی اور انعامات سے نوازا گیا۔حامد اقبال کا کہنا ہے کہ جنرل نالج کوئز مقابلوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ان کی اہلیہ زاہدہ صدیقی کی محنت اور کوششوں کا بڑا ہاتھ ہے۔انہوں نے بتایا کہ زاہدہ صدیقی سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں۔اور وہ اپنی تنخواہ کا ایک حصّہ اردو جنرل نالج کوئز مقابلوں پر صرف کرتی ہیں۔وہ بھی میری ہی ہم خیال یعنی اردو دوست ہیں۔جب سے ان کا ساتھ ملا ہے تب سے ہمارے کوئز مقابلوں کے معیار میں مزید نکھار آگیا ہے۔اپنی اہلیہ کی صلاحیتوں کا دل سے اعتراف کرتے ہوئے حامد اقبال کہتے ہیں کہ زاہدہ بہترین منتظم ہیں

awazurdu

awazurduحامد اقبال ایک کوئز پروگرام کے دوران


آج کی بات ہوئی ذہن نشیں تھوڑی سی

                 1958کو ممبئی میں پیدا ہونے والے حامد اقبال صدیقی علامہ سیماب اکبر آبادی کے پوتے ہیں۔ان کا خاندان سو پرس سے بھی زیادہ عرصے سے اردو زبان کی خدمت میں منہمک ہے۔پچھلے 93 برس سے ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ شاعر کے وہ معاون مدیر ہیں۔حالانکہ اس ادبی جریدے کی اشاعت کچھ وقت سے مسدود ہے۔جہاں تک روزگار کا تعلق ہے وہ ڈیزائنر ہیں۔خواتین کے لیے لباس ڈیزائن کرنا ان کا پیشہ اوراردو اسکولوں میں زیرِتعلیم بچوں کے لیے لیکچر اور جنرل نالج مقابلوں کا انعقاد کرنا ان کا مشغلہ ہے۔اس کے علاوہ حامد اقبال صدیقی شاعری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔روزنامہ انقلاب کے سبھی ایڈیشنز میں ان کا کالم گلستانِ اشعار پابندی سے شائع ہوتا ہے۔بحیثیت شاعر حامد اقبال صدیقی قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ہمہ جہت شخصیت کے مالک  حامد اقبال کا کہنا ہے کہ میں مشاعروں میں شرکت کرتا ہوں لیکن جب بھی مشاعرہ اور بچوں کا پروگرام ایک ہی دن ہوں  تو میں مشاعرہ کے اسٹیج کو چھوڑ کر بچوں کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتا ہوں۔جب کسی اسکول میں سامنے طلبا خاموش بیٹھے ہوں اور حامد اقبال کے ہاتھ میں مائک ہو تو انہیں کا شعر پڑھاجا سکتا ہے کہ

ہمہ تن گوش ہے یہ ویرانی

یار  حامد خطاب کر لینا

awazurduاسکول کوئز کا ایک منظر

awazurdu

ترویج دے رہا ہے جو اردو زباں کو

                جاذب نظر شخصیت،دلکش آوازاور اس پر شستہ اردو۔وہ جب مائک سنبھالتے ہیں تو سامعین  ان کے انداز بیان کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ان کی گفتگو لوگوں کو باندھے رکھتی ہے۔جنرل نالج کوئز مقابلہ ہونے کے باوجود ہال کا ماحول بے حد ہلکا پھلکا رہتا ہے۔وہ اپنی باتوں سے ماحول کو بوجھل نہیں ہونے دیتے۔حامد اقبال کے پروگراموں میں شرکت کرنے والے بچے انہیں تاعمر یاد رکھتے ہیں۔ وہ بے حد خوش ہو کر بتاتے ہیں کہ میں جب باہر نکلتا ہوں تو بہت سے لوگ مجھے آکر سلام کرتے ہیں۔جو طلبا زیرِتعلیم ہیں وہ تو مجھ سے ملتے ہی ہیں ساتھ ہی جو اب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، جب وہ میرا ذکر کرتے ہیں تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔واضح رہے کہ حامد اقبال صدیقی کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے وہ ان ہزاروں بچوں پر ہی اپنا پیار،شفقت اور خلوص لٹاتے رہتے ہیں۔

                چند برس قبل انہوں نے اپنی تحریک کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے اردو تعلیمی اداروں میں نئے قلمکاروں کی تلاش پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔اس کے علاوہ کوئز ٹائم ممبئی کے بینر تلے وہ ہر سال ’اردو کی محبت میں‘ پروگرام بھی ترتیب دیتے ہیں۔جس میں اردو کی بے لوث خدمت کرنے والوں کو ’محب اردو اعزاز‘ اور ’اعترافیہ ایوارڈ‘ سے نوازا جاتا ہے۔جنرل نالج کوئز کے مقابلوں کے انعقاد  کے ساتھ ساتھ ان کا قلم بھی تیزی سے چل رہا ہے۔ان کی اب تک سات کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن کا موضوع جنرل نالج ہی ہے۔

awazurdu

awazurdu

                حامد اقبال صدیقی کا کہنا ہے کہ اردو ایک مکمل،جدید اور زندہ زبان ہے۔دنیا کی تمام زندہ زبانوں کی طرح اردو میں بھی سائنس، تاریخ،جغرافیہ اور دیگر جدید علوم کی تدریس ہونی چاہئے۔وہ مانتے ہیں کہ اردو اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بہت محنت، کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔فی الحال یہ امید تو کی ہی جاسکتی ہے کہ جنرل نالج کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دیگر اردو  دوست بھی اس طرح کے پروگراموں سے ترغیب حاصل کریں گے۔بیت بازی اور شعرو شاعری کے مقابلوں کے ساتھ ساتھ جنرل نالج کو بھی بچوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔حامد اقبال کہتے ہیں کہ اردو کا مطلب صرف شعرو شاعری ہی نہیں ہے۔نا جانے ہم اردو والے یہ بات کب سمجھیں گے۔