منظور ظہور: اجمیر
ہندوستان کی روحانی راجدھانی اجمیر میں واقع چشتی سلسلہ کے معروف صوفی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر قوالی کا دور قابل دید ہوتا ہے،روحانیت کا منظر ہر کسی کو سحر زدہ کردیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درگاہ شریف میں آجکل ایک قوال کا جلوہ ہے جس کا نام شمبھو سونی ہے ۔یاد رہے کہ درگا شریف میں قوالیوں کا سلسلہ صبح فجر نماز کے فورا بعد شروع ہوتا ہے اور عشا نماز کے بعد رات 10 بجے تک جاری رہتا ہے جس میں درگاہ سے وابستہ شاہی قوالوں کے علاوہ مختلف قوال عقیدت اور محبت کے جذبے کے تحت قوالی پیش کرکے زائرین اور عقیدت مندوں کو روحانی سکون پہنچا کرداد وتحسین حاصل کرتے ہیں۔
درگاہ کے مشرق میں واقع 'احاط نور' اورجنوب میں واقع پائیتری دونوں طرف شاہی قوال صبح سویرے سے رات دیر گئے تک پنج وقت نماز اور دیگر مخصوص ,خدمت ' اور رسومات کی ادائیگی کو چھوڑ کر قوالی کی روائتی روحانی مجالس سجاکر زائرین کی داد بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس دوران سینکڑوں عقیدت مند, زائرین خدام قوالوں کو بھر پور 'نزرانہ ' پیش کرتے ہیں ۔شاہی قوالوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں سے آئے قوال بھی ,منت,اور عقیدت کے مطابق یہاں قوالی پیش کرتے ہیں۔
شمبھو سونی نامی قوال کی پیدائش اگرچہ مدھیہ پردیش کے مشہور شہر گوالیار کی ہے مگر انہوں نے اپنی جوانی کو خواجہ غریب نواز کی محبت میں قربان کیاہے - پچھلے 30 سال سے درگاہ کے صحن میں پائییتری کے نزدیک فجر کی نماز کے فورا بعد ڈف بجاکر 2 گھنٹے تک قوالی پیش کرتے ہیں۔
شمبھوسونی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے
شمبھو سونی نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ" ان کا تعلق کسی پیشہ ور انہ گلوکار فیملی سے نہیں رہاہے بلکہ والد گوالیار میں پنساری کی دکان چلاتےتھے اور وہ اسکول سے گھر آکر دکان پر کام میں والد کا ہاتھ بٹاتےتھے۔ اسے موسیقی اور گلوکاری سے بچپن سے دلچسپی تھی اور ہونٹوں پر فلمی گیت اور بجھن گنگناتا رہتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں نے دسویں کلاس پاس کرکے دکانداری کو خیرباد کیا اور کراماتی طورسے آل انڈیا ریڈیو گوالیار اسٹیشن میں آرڈیشن پاس کرکے یہاں سے بجھن گانے شروع کیا ۔اس دوران میری شادی بھی ہوئی اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔
ساٹھ سالہ شمبھو قوال کا کہنا ہے کہ وہ 30 سال قبل اپنی سرکاری نوکری , گھر بار, بیوی بچے کو ان کی مرضی سے تیاگ کرکے اجمیر آیا اور تب سے اب تک ڈف پر روز صبح 2 گھنٹے اسی مخصوص جگہ پر قوالی پیش کرتا ہوں۔اب یہیں کا ہوگیا،شمبھو کا دعوی ہے کہ " جہاں اسے خواجہ صاحب کی درگاہ سے محبت اور عشق ہے وہیں خواجہ صاحب کو بھی میری غلامی قبول ہے جس کا مجھے باضابط اشارہ ملاہے جو میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہوں۔
درگاہ شریف میں قوالی کا منظر
اپنی روزمرہ کی زندگی ,ضروریاکے بارے میں آواز دی وائس کو بتایا ک" ان کی بیوی بھی گوالیار سے کئی سال قبل راجھستان کے سورت گڑھ علاقے میں منتقل ہوچکی ہیں۔ جہاں وہ اپنے بیٹے جو اب انجیئنر ہے' کے ساتھ پرسکون ماحول میں زندگی گزاررہی ہے ۔
میری ضروریات ,مصروفیات ,خواہشات اور عادات بالکل سیدھے سادھے اور کئی دوسروں سے مختلف اور کم ہیں ۔کھنا پینا بھی کم ہے اور دوجوڑے کپڑوں میں خوش اور پرسکون رہتا ہوں ایک جوڑا دھونے کےلئے لانڈری کو دیتا ہوں اور دوسرا پہنتا ہوں ۔ قوالی کے بعد درگاہ کے کسی حصے میں بیٹھ کر غور وفکر کرتا ہوں ۔ کھانا کھاتا ہوں رات کو درگاہ کے کسی بھی گدی نشین (خادم) کی گدی یا حجرے میں موسم کے مطابق آرام کرتا ہوں اور اگلی صبح پھر نیند سے بیدار تازہ دم ہوکر ہاتھ منہہ دھوتا ہوں اورحسب دستور 2 گھنٹے تک قوالی سناتا ہوں۔"
شمبھو قوال کے بارے میں درگاہ کے گدی نشینوں کا مانناہے کہ یہ ان کا بھی چہیتا بن چکا ہے اور صاحب مزار یعنی خواجہ صاحب نے بھی ان کے دلوں میں شھمبو کی محبت ڈال دی ہے ۔