منصور الدین فریدی
خطبہ جمعہ ۔۔۔ مذہبی پلیٹ فارم سے خالص مذہبی پیغام دینے کا نام نہیں ہے،اس کی نہ صرف مذہبی اہمیت ہے بلکہ معاشرتی افادیت بھی ہے۔ ۔ در حقیقت مسلمانوں کو قدرتی طور پر ہفتہ میں ایک دن ان کی اصلاح اور رہنمائی کا زرین موقع ملتا ہے۔یہ دین کے لیے چراغ تو دنیا کے لیے مشعل ہے لیکن حقیقت اب کچھ اور ہوگئی ہے۔اب اس کی فضیلت اور اجر وثواب کے متعلق تو گفتگو کی جاتی ہے لیکن اہمیت اور افادیت کا پہلو یاتو نظر انداز کردیا جاتا ہے یا اس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب خطبہ جمعہ کے تعلق سے بہت سے اعتراضات ابھرتے ہیں اور سوال بھی۔
بحث یہ ہوتی ہے کہ خطبہ جمعہ کی شکل کیا تھی اور اب کیا ہے۔ خطیب کا کردار کتنا اہم تھا اور اب کیا ہے؟
خطبہ جمعہ کی اہمیت یا دلچسپی میں کمی کا سبب کیا ہے؟
نمازیوں کی دلچسپی میں کمی آئی یا پھر خطیب کی زبان تھم گئی؟
نمازیوں کا مزاج بدل گیا یا پھر خطیب کا انداز ؟
نماز جمعہ، جس کی روح خطبہ جمعہ ہوا کرتا تھا، اب کہاں ہے؟
کیا اب جمعہ صرف دو رکعت نماز تک محدود ہوگیا؟
نماز کے ساتھ مسلمانوں کی رہنمائی کی روایت کہاں گم گئی؟
بحث یہ بھی ہے کہ نمازیوں کی دلچسپی میں کمی کا سبب کیا ہے؟
اس کی اہمیت کو بحال کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اس سلسلے میں الگ الگ رائے ہیں اوراپنا اپنا نظریہ ہے۔
دراصل خطبہ جمعہ ایک ایسا ذریعہ رہنمائی ہے جو قوم کو گمراہ ہونے سے بچا سکتا ہے ،نازک حالات میں مایوسی سے بچا سکتا ہے،مذہبی طور پر ملک و قوم کی اہمیت اور ذمہ داریوں کا احساس دلا سکتا ہے ،منافرت سے دور لیجا سکتا ہے اور مذہبی رواداری کا پابند رکھنے کا عادی بنا سکتا ہے۔
مسلم دانشوراور علما اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔ خطبہ جمعہ کی افادیت کو برقرار رکھنے کے لیے انداز بیاں سے موضوعات کے انتخابات تک رائے دے رہے ہیں۔ خطبہ کی زبان اور جامعیت پر بھی روشنی ڈالی جارہی ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ اگر خطبات جمعہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو پھر خطیب مسجد کی ذمہ داری بھی اسی اعتبار سے بڑھ جاتی ہے، ضرورت ہے کہ خطبات تبرک یا وقت گزاری کے بجائے اصلاح اور پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ بن سکیں
اب یہی تجاویز سامنے آرہی ہیں کہ خطبہ کی زبان مقامی ہو۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ آسانی سے سمجھ سکیں یعنی کہ خطیب کو نمازیوں کی اکثریت کی زبان، تہذیب اور پس منظر کا خیال بھی رکھنا چاہئے،تاکہ اس کی بات کے دماغوں میں آسانی سے اتر سکے- اب نئی نسل کے نمازیوں کی اکثریت چونکہ انگلش اور ہندی میڈیم کی پیداوار ہے اس لئےخطیبوں کے عربی اور اردو کے آسان الفاظ کے ساتھ انگلش کے الفاظ کا بھی استعمال کرنا چاہیے۔
خطیب کو جذباتی اور رد عمل کی نفسیات سے بالاتر ہوکر اپنی بات کرنی چاہئےکیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی ذاتی رائے سے اوروں کا بھی اتفاق ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے آیات اور احادیث سے جو نتیجہ آپ نکال رہے ہوں وہ درست نہ ہو، اس لیے اب مذہبی رہنما اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ خطبہ جمعہ کو آسان بنانے کے ساتھ مختصر رکھنا بہتر ہے کیونکہ نماز جمعہ میں لوگ زیادہ دیر مسجد میں ٹھہرتے نظر نہیں آتے ہیں ۔اگر خطبہ طویل ہوتا ہے تو اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
ایک اہم بحث یہ ہے کہ کیا خطبہ جمعہ کوئی غیر عالم دے سکتا ہے؟ جو مذہب کا نہیں بلکہ کسی اور پیشہ کا ماہر ہو؟ اس پر علما کی رائے بٹی ہوئی ہے لیکن اب دنیا کے کونے کونے میں یہ تجربہ کیا جارہا ہے اور کامیاب بھی ہے جس کے لیے کچھ شرطیں ہیں جن کا ہم آگے ذکر کریں گے۔
خطبہ جمعہ ۔۔۔۔ صرف ایک دینی پیغام نہیں ہے بلکہ دنیاوی مسائل کے تئیں بیداری اور حل کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ جسے مثبت سوچ کے ساتھ خوبصورت الفاظ میں بیان کیا جانا چاہیے ، اس میں زبان کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ضروری نہیں کہ پہلا خطبہ عربی میں ہو بلکہ مقامی زبان میں دیا جانا زیادہ بہتر ہے ۔کیونکہ خطبہ کا مقصد لوگوں کو مختلف مسائل سے واقف کرانا اور مشورے دینا ہوتا ہے اس لیے مقامی زبان کا استعمال ہی عملی طور پر بہتر ہوتا ہے ۔
یہ ہے ممتاز دانشوروں اور علما کی آرا جو انہوں نے آواز دی وائس کے ساتھ بات چیت میں ظاہر کی ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے ممتاز دانشور ڈاکٹر رضی الاسلام کا کہنا ہے کہ خطبہ کس زبان میں ہو اس پر علما میں بحث ہے کیونکہ کچھ کا ماننا ہے کہ رسول اللہ کے عربی میں خطبہ دیا کرتے تھےجبکہ کچھ مقامی زبان میں خطبہ کی حمایت کرتے ہیں ۔میرا ماننا ہے کہ نماز جمعہ کا پہلا خطبہ اردو میں دیا جاسکتا ہے کیونکہ خطبہ کا مقصد لوگوں کو سمجھانا بجھانا ہے ،بات صرف دین کی نہیں ہوتی ہے لوگو ں کو حالات حاضرہ سے واقف کرانا ہوتا ہے ،سماجی ،معاشی اور سیاسی مسائل اور الجھنوں سے پر روشنی ڈالنی ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر رضی الاسلام کا کہنا ہے کہ خطبہ کے لیے کوئی شرط نہیں ہے کہ کوئی عالم یا مفتی ہی دے گاجو بھی ایسا شخص جو قرآن پڑھ سکتا ہے اور حدیثوں کو بیان کر سکتا ہے وہ خطبہ دے سکتا ہے۔ اظہار خیال اپنی مادری زبان میں کی جائے جب بات حوالے کی ہو تو آیات اور حدیثوں کو درست انداز میں پیش کرسکے ۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر بات خطبہ کے طویل یا مختصر ہونے کی ہوتی ہے تو حدیثوں میں رسول اللہ کے خطبہ کا محتصر اور نماز کا طویل ہونے کا ذکر آیا ہے۔ دراصل اگر خطبہ ھویل ہوتا ہےتو لوگ اکتانے لگتے ہیں ،بیزار ہوجاتے ہیں ۔ بات اگر مختصر کی جائے تو دل میں اتر سکتی ہے۔ آجکل خطبہ کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ خطیب طویل خطبہ کی کوشش میں بہک جاتے ہیں ،ان میں بے بنیاد کہانیاں اور قصے شامل کئے جاتے ہیں ۔ اس سے گریز کرنا چاہیے
ملک کے ایک اور ممتاز عالم مولانا ظہیرعباس رضوی کہتے ہیں کہ خطبہ جمعہ کی اس وقت عجیب وغریب صورتحال ہے ۔پہلے خطبہ نماز جمعہ کی روح ہوا کرتا تھا اب ’روح جمعہ ‘ ہی غائب ہے ۔ اب نمازجمعہ دو رکعت نماز کے سوا کچھ نہیں ۔خطبہ کے نام پر قصے کہانیوں کا دور چل پڑتا ہے وہ بھی گمراہ کن۔ رسول اللہ نے جس جمعہ کو قائم کیا تھا وہ اب نظر نہیں آتا ہے۔خطبہ جمعہ کا مقصد تھا کہ لوگوں کو حالات حاضرہ سے واقف کرانا ،ان کے مسائل کا حل مہیا کرنا،بات معاشی ہو،سماجی یا پھر مذہبی ہر موضوع پر راہ دکھانے کا کام کرتے تھے خطبے۔ اب حالات برعکس ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج مساجد میں بات کرنا مشکل ہوگیا ہے حالانکہ ایک وقت مدینہ میں مسجد نبوی سماجی مرکز تھی۔ہر مسئلے پر تبادلہ خیال ہوتا تھا،مذہبی کے ساتھ سماجی اور ادبی محفلوں کا مرکز تھی۔
مولانا ظہیرعباس کہتے ہیں کہ جمعہ کے خطبہ میں بات اتحاد واتفاق کی ہو،قومی مفادات کی ہو،درمیانی راستہ کی ہو،جذبات سے دوری ہو،بات عملی ہو اور تنازعات سے دوری ہو۔ مگر اب ہم بہت سی خوبیوں کو بھول گئے خطبہ کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو راہ دکھائیں ،حالات حاضرہ سے آگاہ کریں اور اپنی حکمت پر روشنی ڈالیں ۔
مالیگاوں کے عالم اور سنسکرت کے ماہر مولانا جلال الدین قاسمی نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطبہ کے لیے ایک وسیع سوچ اور نظریئے کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس پر کسی مولوی یا عالم کا دبدبہ یا اجارہ داری نہیں ۔اس پلیٹ فارم سے ہر کوئی اپنا پیغام دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔خطبہ ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ سکتے ہیں ،اپنے مسائل کے حل تلاش کرسکتے ہیں ۔
مولانا قاسمی کہتے ہیں کہ خطبہ کے لیے ہمیں نئی نسل کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے،جس کی جتنی صلاحیت ہے وہ تحقیق کرکے خطبہ دے سکتا ہے غلطی ہو تو رجوع کر سکتا ہے وہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن جس موضوع پر کوئی بولے تو اس کی معلومات ہونا ضروری ہے ۔نئی نسل کے بچے اپنی زبان کے ساتھ انگلش کا استعمال بھی کرسکتے ہیں جس سے لوگوں کو بات سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی نئے انداز میں خطبہ دیں گے تو لوگو ںمیں دلچسپی ہوگی ۔ابتک وہی روایتی انداز چل رہا ہے ۔ خطیب کی لن ترانی جاری ہے ۔
ڈاکٹر قاسمی کہتے ہیں کہ میں ہمیں اب ایک نئے انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے اس میں اسلام یا قرآن کوئی رکاوٹ نہیں ،جو بھی رکاوٹیں یا مسائل ہیں وہ ہمارے پیدا کردہ ہیں ۔ اسلام بہت روشن خیال اور وسیع النظر ہے
ممتاز صوفی اسکالر اور انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ مفتی منظور ضیائی کہتے ہیں کہ بلاشبہ جمعہ کا خطبہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بات صرف مذہب یا عبادت کی نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلمانوں کو سماجی ،سیاسی اور تجارتی طور پر باخبر رکھنے کا طریقہ بھی تھا۔خطبہ میں ائمہ کو ایسی باتوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف دین کی معلومات میں اضافہ کریں بلکہ دنیاوی باریکیوں سے بھی واقف کرائیں
وہ کہتے ہیں کہ خطبہ جمعہ کا مقصد قوم میں بیداری بیدا کرنا اور احساس ذمہ داری کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اب اس کی اہمیت پر بحث ہورہی ہے لیکن ہم اس کو نہیں بھول سکتے کہ ہردور میں علما اور خطیبو ں نے قوم کی رہبری کی ہے۔ آج بھی اس کی افادیت برقرار ہے۔ ۔یہ نظام اسی لیے بنایا گیا تھا کہ مسلمان دین کے ساتھ دنیا سے جڑے رہیں ۔ حالات سے واقف رہیں اور اپنی ذمہ داری کے تئیں غافل نہ ہوں ۔
مفتی ضیائی کہتے ہیں کہ خطبہ جمعہ میں خطیب ملک و قوم کے بارے میں ہماری ذمہ داریوں پر روشنی ڈالیں ،حالات حاضرہ کے مطابق حکمت بیان کریں ۔امن وامان کی تبلیغ کرتے ہیں اور مذہبی ہم آہنگی واتحاد کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کریں تو بہت اثر ہوتا ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ خطیب زبان اور لہجے کا خیال رکھے۔ زبان آسان ہو اور جذبات سے پاک ہو۔
ممبئی میں انجمن الاسلام کے سربراہ ڈاکٹر ظہیر قاضی کہتے ہیں کہ خطبہ صرف ایک تقریر نہیں ہے بلکہ قوم کو راہ دکھانے کی ذمہ داری ہے،قیادت ہے،اس کی دینی افضلیت بھی ہے اور دنیاوی اہمیت بھی رسول اللہ کا بھی مقصد یہی تھا کہ نماز جمعہ کو اکٹھا لوگوں کو دین کے ساتھ دنیا سے باخبر رکھا جائے۔ مختلف مسائل پر بات کی جائے۔سنسنی خیزی سے بچا جائے ۔ٹکراو کی باتوں سے گریز کیا جائے۔ موضوع کا انتخاب دانشمندی کے ساتھ ہو۔سیاسی باتوں اور سیاست کو تنازعہ کی شکل نہ دی جائے۔
آج کے ماحول میں مسلمانوں کے لیے اس خطبہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے بلکہ خطیب کا کردار بھی بہت نازک ہوگیا ہے۔ جنہیں چا ہیے کہ خطبہ میں مایوسی کی بات نہ کریں اور اعتدال پسندی کا پیغام دیں ۔ جارحانہ روئیے سے پرہیز کریں ۔نئی نسل کو راہ دکھائیں ،ہماری قوم میں ایک بڑا مسئلہ اب بھی تعلیم ہے۔ اس پر توجہ دی جانا چاہیے ساتھ ہی ائمہ کو چاہیے کہ نوجوانوں کو راتوں کو سڑکوں پر گشت کی عادت کو ترک کرنے کا مشورہ دیں۔
ڈاکٹر ظہیر قاضی کہتے ہیں کہ اہم ہوگا کہ خطبہ جمعہ کے پہلے حصہ میں کسی پروفیشنل سے تقریر کرائی جائے۔ ساتھ ہی بات کو مختصر انداز میں رکھا جائے۔کیونکہ آجکل لوگ مساجد میں جس تیزی سے آتے ہیں اسی تیزی کے ساتھ نکل جاتے ہیں ۔بات جامع ہو اور مختصر ہو۔دل اور دماغ میں اترنے والی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم شریعت کی حفاظت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ہمیں خود بھی شریعت کو محفوظ رکھنا ہوگا ۔خطبات میں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اپنی ماں بہنوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔اس معاملہ میں قوم کی بہت بری حالت ہے۔ اپنی خامیوں اور عیبوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر ظہیر قاضی کہتے ہیں کہ خطبہ کا استعمال مذہبی و دینی باتوں کے ساتھ دنیاوی اور پیشہ ورانہ پہلووں پر روشنی ڈالنے کے لیے ہونا چاہیے ۔اخلاقیات کا درس سب سے اہم ہے جو کہ کسی مسلمان کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔آپ کے آداب ہی آپ کی پہچان بنتے ہیں اس لیے خطبہ میں اخلاقیات کی اہمیت پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ یہی رسول اللہ کی تعلیم تھی۔
خسرو فاونڈیشن کے کنوینر اور دانشور ڈاکٹر حفیظ الرحمن کہتے ہیں کہ ا سلام میں خطبہ جمعہ کا تصوراپنے آپ میں اتنا اہم ہے کہ یہ مکمل انسانی گائیڈنس کے لیے ہے کہ انسانوں کو معاشرے میں کس طرح سے رہنا چاہیے، ملک میں کس طرح سے رہنا چاہیے، سماج میں کس طرح رہنا چاہیے, نظام تجارت میں کن اصولوں کو فالو کرنا چاہیے، ایک دوسرے سے انٹریکشن کرتے وقت کن اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے یعنی ہر چیز کی گائیڈنس کے لئے خطبہ جمعہ ہے
اسلامی دور حکومت میں یہ ہوتا تھا کہ حکومت کی طرف سے جو ایک گائیڈ لائن آتی تھی یا خلفائے راشدہ کے زمانے میں جو ایک گائڈلائنز ہوتی تھی لوگوں کو جمعہ کے دن پتا چل جاتا تھا کہ ہماری ڈیوٹی کیا ہیں یعنی ہمیں کیا کرنا ہے، ہمیں کس طرح سے چلنا ہے تو کمپلیٹ گائیڈنس اس کے اندر موجودتھا۔ اس لئے آج جو خطبے کا نظام ہے اسے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے
ہمارے بڑے علماء اور مرکزی اداروں و تنظیموں کو ایک ساتھ بیٹھنے کے بعد ایسی گائیڈ لائسنس تیار کرنا چاہیےکہ وہ سوشل میڈیا یا ای میل کے ذریعے پورے ملک میں آئمہ کرام کو اپنے اپنے متعلقین کو اپنے اپنے مسلک کے لوگوں کو گائڈ لائن بھیجیں تاکہ ہر جمعہ میں انسانیت کے لیے ایسا میسج ملے جو ہمیں یہ بھی گائیڈ کرتا ہو کہ مشترک معاشرے میں کس طرح سے آگے بڑھنا ہے