پاکستان کا قومی ترانا لکھنے والے حفیظ جالندھری نے شری رام کی شان میں گیت لکھا

Story by  ثاقب سلیم | Posted by  [email protected] | Date 17-10-2024
 پاکستان کا قومی ترانا لکھنے والے حفیظ جالندھری نے شری رام کی شان میں گیت لکھا
پاکستان کا قومی ترانا لکھنے والے حفیظ جالندھری نے شری رام کی شان میں گیت لکھا

 

ثاقب سلیم 

اگر میں آپسے کہوں کہ پاکستان کا قومی ترانا لکھنے والے، شاہ نامہ اسلام کی تخلیق کرنے والے، مسلم لیگ کے لیڈر اور قرآن حافظ - حفیظ جالندھری - ہندو دیوی دیوتاؤں کی شان میں قصیدے لکھ چکے ہیں تو یقینا آپ مجھے پاگل کہیں گے، ہو سکتا ہے دیوانہ بھی کہہ لیں. اس میں غلط بھی کچھ نہیں. آج کے دور میں جب ڈانڈیاں کے پنڈال میں مسلمان کے جانے کی مناہی ہوتی ہے اور مندر مسجد کے نام پر نفرتیں سیاست کی بنیاد ہیں تو ایسے میں حفیظ جیسے پکّے مسلمان کی قلم سے شری رام کا قصیدہ کوری گپ ہی نظر  آئے  گا.
سچ تو یہی ہے کے حفیظ نے اپنی زندگی میں شری رام، شری کرشن، ماتا گنگا، شو جی اور دیگر ہندو دیوتاؤں کی شان میں وہ نظمیں لکھی ہیں کے شاید کوئی عام ہندو بھی نہ لکھ پاتا.    
آج دسہرہ ہے، رام جی کا دن ہے. تو ایسے میں کیا یہ  جائز  نہ ہوگا کے ہم اس دن کی مبارکباد حفیظ کی دسہرہ پر لکھے ایک گیت سے دیں؟ جس شان و شوکت سے حفیظ نے رام جی اور راون کی لڑائی کے بارے میں لکھتے ہیں وہ انکے دل میں شری رام کی عزت کو صاف درشاتا ہے.  وو لکھتے ہیں کہ،
"وہ جس کے تن پہ دس سر ہیں۔ اسی کا نام راون تھا
یہ تھا لنکا کا راجہ رام چندر جی کا دشمن تھا
اکٹر کر جو کھڑا ہے دوسرا ۔ راون کا بیٹا تھا
 بڑا شہ زور تھا یہ بھی ۔ مگر قسمت کا ہیٹا تھا
 اگر کچھ عقل ہوتی رام چندر جی سے لڑتے کیوں؟
 یہ ظالم اپنی ہمت دیکھتے ۔ اتنا اکڑتے کیوں؟"
اصل میں یہ گیت حفیظ نے چھوٹے بچوں کے لئے لکھا تھا. اس میں اہم بات یہ ہے کہ حفیظ رام چندر جی سے ملنے والی سیکھ مسلمان بچوں کو بھی دینا چاہتے تھے. انھیں اس سے کوئی گریز نہ تھا کہ مسلمان بچے رامائن سے صداقت اور شجاعت کا سبق لیں. شری رام کے لئے احترام بھی صاف نظر اتا ہے جو وہ آنے والی نسلوں کو بھی سکھانا چاہتے تھے.
پورا گیت جس کا عنوان دسہرہ ہے، کچھ یوں ہے-
"کئی دن سے لگا کرتا ہے میلا رام لیلا کا
اکھاڑہ جمتا ہے میدان میں ہر شام لیلا کا
یہ ان ہر روز کی تیاریوں کا آخری دن ہے 
جو سچ پوچھو تو اس میلے کا اصلی آج ہی دن ہے 
لگائی ہیں دکانیں چھپروں کی شہر سے باہر
سجائی ہیں قرینے سے دکان داروں نے بڑھ چڑھ کر
کھلونے والے تنبولی - بساطی اور حلوائی
ہے آدھے شہر کی خلقت تو سودا بیچے آئی
ہوئی سہ پہر اب بڑھنے لگا ہے زور میلے کا
سنائی دے رہا ہے دُور ہی سے شور میلے کا
بہت سے لوگ جو دیہات سے آئے ہیں گاتے  ہیں  
خوشی سے ہر طرف پھرتے ہیں۔ الغوزے بجاتے ہیں
چلے آتے ہیں لوگ اُمڈے ہوئے بس ایک تانتا ہے
یہ میلا ہے دسہرے کا کہ انسانوں کا دریا ہے ؟ 
کسی کے ساتھ لڑکی ہے کسی کے ساتھ لڑکا ہے 
کہیں گم ہو نہ جائے بھیڑ میں اس کا بھی دھڑکا ہے
کوئی پیدل چلا آتا ہے ۔ کوئی ہے سواری پر
کئی جاگیردار آئے ہیں۔ ہاتھی کی عماری پر
ہے اس میدان میں اک پتلا بہت لانبا بہت موٹا
 کھڑا ہے دوسرا بھی ساتھ ہی پر اس سے کچھ چھوٹا
یہ پتلے ۔ بانس اور کاغذ سے لوگوں نے بنائے ہیں
کھڑے ہیں جس طرح میدان میں لڑنے کو آئے ہیں
وہ جس کے تن پہ دس سر ہیں۔ اسی کا نام راون تھا
یہ تھا لنکا کا راجہ رام چندر جی کا دشمن تھا
اکٹر کر جو کھڑا ہے دوسرا راون کا بیٹا تھا
بڑا شہ زور تھا یہ بھی ۔ مگر قسمت کا ہیٹا تھا
اگر کچھ عقل ہوتی رام چندر جی سے لڑتے کیوں؟
یہ ظالم اپنی ہمت دیکھتے۔ اتنا اکڑتے کیوں؟
ہے رامائن میں لکھا حال لنکا پر چڑھائی کا
تھی راون کی تباہی بس نتیجہ اس لڑائی کا
زمانہ آج تک اس فتح کی خوشیاں مناتا ہے
لڑائی کا تماشہ ہر برس سب کو دکھاتا ہے
ابھی آئیں گے سیتا ۔ رام چندر اور لچھمن بھی
یہ کاغذ کے جو ہیں پتلے بنے کی خوب گت ان کی
فتیلے کو جلا کر آگ وہ اُن کو لگا دیں گے
 دسہرے کو جلا کر خاک کر دیں گے مٹادیں گے
لگی جب آگ دونو کو تو گولے خوب چھوٹیں گے
ڈریں گے تھڈدلی ۔ اک دوسرے پر آکے ٹوٹیں گے"