جمعہ کے خطبوں کی اہمیت اور اجتماعی ذمہ داریاں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 23-06-2023
جمعہ کے خطبوں کی اہمیت اور اجتماعی ذمہ داریاں
جمعہ کے خطبوں کی اہمیت اور اجتماعی ذمہ داریاں

 



عبد المعید ازہری

جمعہ کے خطبے ہمارے معاشرے کے لئے نہایت ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ خطبوں کی شروعات خود پیغمبر اسلام علیہ السلام سے ہوئی ہے جو اب تک جاری ہے۔پیغمبر اسلام کے دور میں ہر ہفتے کا ایک دن متعین ہوا اور وہ دن جمعہ کا تھا۔ ہفتے بھر جو بھی نئے احکامات و ارشادات،ایجادات و ضروریات اور آیات وبیانات ہوتے تھے انہیں جمعہ کے دن خطبے میں بیا ن کیا جاتا تھا تاکہ آس پاس کے علاقے سے جو لوگ جمعہ کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں انہیں وہ احکامات مل جائیں۔جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھتا گیا مسلمانوں کی آبادی بھی دور دارز تک وسیع ہوتی گئی۔ اس صورت میں سبھی لوگ تو ہر روز نبی کریم علیہ السلام کے پاس اکٹھا یا موجود تو نہیں ہو پاتے تھے اس لئے ایک دن خاص تھا۔

 جمعہ کے دن کا تعین صرف مسلمانوں کے یہاں نہیں ہے بلکہ معلوم تاریخ کے مطابق تقریبا ہر قوم کے یہاں یہ دن عظیم رہا ہے۔ البتہ یہودیوں نے اپنی عبادت کے لئے مخصوص دن میں تبدیلی کر لی تھی اور وہ جمعہ کی بجائے ہفتہ یعنی سنیچر کے روز صرف عبادت کیا کرتے تھے۔ یہودی علماء اس دن معاشرے سے مکمل کنارہ کش ہو جاتے تھے۔ ملاقات و مواصلت کے تمام راستے از خود بند کر لیتے تھے۔ البتہ اسلام میں ایسا نہیں رہا۔ بس جمعہ کی نماز کے دورانیے میں ہی تمام چیزوں سے خود کو منقطع کرنے کا حکم ہے باقی نماز کے بعد آدمی آزاد ہے جہاں چاہے جائے اور روزگار کی تلاش میں جد و جہد کرے۔

جمعہ کے خطبوں میں وقت کی جملہ ضروریات کا ذکر ہوتا تھا۔ معاشی، سماجی اور سیاسی صورت حال سے قوم کو آگاہ کرنا اور کسی بھی طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لئے انہیں تیار کرنا۔تعلیم و تربیت کابہترین ذریعہ ہوتے تھے جمعہ کے خطبات۔حالانکہ اب ان خطبوں کی صورت بالکل ہی بدل چکی ہے۔ پہلے تو ایک طویل عرصہ اس کشمکش میں گزر گیا کہ آیا جمعہ کے خطبوں کو ملکی اور علاقائی زبانوں میں دیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ چونکہ آج اسلام عرب کی سرحدوں سے نکل عجم کی تمام سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے۔ زمینی وسعت کے ساتھ زبانیں اور بولیاں بھی بدلی ہیں۔ چونکہ خطبوں کا مقصد تعلیم اور تربیت، آگہی اور بیداری ہے۔ تو اگر سامعین کی زبان میں انہیں ان کے مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی بات نہیں کی جائے گی تو خطبوں کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی تشویش لاحق ہوئی کہ اگر خطبوں کو ان کی اصل شکل سے بدل دیا گیا تو وقت اور حالات کے بدلتے اصل بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔قرآنی احکامات، نبوی ارشادات، دیگر ہدایات و بیانات جن کے اصول قرآنی ہیں ان کے اثر و رسوخ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ بہر حال اس کا بھی حل نکالا گیا کہ غیر عربی ممالک میں اصل خطبہ جمعہ سے پہلے وعظ و نصیحت کا ایک وقت متعین کیا گیا جس میں وہی باتیں علاقائی زبان میں کی جائیں جو خطبوں میں کی جاتی ہیں۔اس طرح زبان کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن افسوس یہ کہ مقصد ابھی بھی فوت ہی ہے۔

آج کی تقریروں اور خطبوں کا آپس میں کہیں کوئی تال میل نہیں ہوتا۔ جن تقریروں سے قوم کو سماجی، مذہبی اور اخلاقی طور پر بیدار کیا جانا تھا ان تقریروں نے اپنا ایک اور رخ اپنا لیا جس میں انتشار اور نفرتیں پروان چڑھنے لگیں۔مسجدوں اور مجلسوں کا بٹوارہ ہو گیا۔درسگاہیں اور خانقاہیں تقسیم ہو گئیں۔ایک خدا، ایک رسول اور ایک قرآن کا تصور دینے والے اسلام کے ماننے والوں نے اسی خدا، رسول اور قرآن کا نام لیکر امت کو اس قدر منتشر کر دیا کہ آج اصل اسلام قوم و ملت کی فکرو نظرسے بالکل ہی پوشیدہ ہے۔رسول، آل رسول اور اصحاب رسول کی عظیم قربانیوں کے سائے میں پروان چڑھنے والا اسلام آج ہمارے افکار و نظریات اور اعمال وکردار میں نہیں ہے بلکہ جس نے جس اعتبار سے اسے سمجھا اس نے اسی کو خدا کا اسلام متعین کر دیا۔

خطبوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت خطبہ ہو رہا ہو اس وقت کوئی نماز، ورد یا وظیفہ درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ خطبہ نماز میں شامل ہے۔ بعض محققین نے اس کی تشریح اس طرح کی ہے کہ چونکہ جمعہ ظہر کے قائم مقام اور ظہر میں چار رکعت نمازیں فرض ہیں لیکن جمعہ میں صرف دو رکعت ہیں لہذا خطبہ باقی بچی دو رکعتوں کے قایم مقام ہے۔چونکہ خطبہ میں وقت کی ضرورتوں مسائل اور حل پر گفتگو ہونی ہوتی ہے جو کہ نہایت ہی حساس ہوتی ہے اس لئے اسے خاموشی سے سننا واجب قرار دیا گیا ہے۔

ہندوستان کی مسجدوں کا اگر مطالعہ کریں تو ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہوگی کہ ہماری مسجدوں کے جمعہ کے خطبے یا اس کے قایم مقام وعظ ونصیحت کی تقریریں قوم کے مذہبی مسائل سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ مذہبی مسائل میں بھی اپنے فرقوں کو کسی بھی صورت حق پر کہنے اور دوسرے کو کسی بھی صورت میں باطل پر کہنے پر زیادہ زرو ہوتا ہے۔دیگر معاشرتی مسائل ہمارا موضوع نہیں ہوتے۔گاؤں محلے سے مسجد کی طرف جانے والی گلیوں سے گندہ پانی بہتا ہو یا راستے میں کیچڑ پڑا ہو اسے وعظ کے موضوع میں اہمیت نہیں دی جاتی۔مسجد کے ارد گرد بسنے والے لوگ کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں ہمارے خطیب اور واعظ اس سے ناواقف ہیں۔کسی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں باہمی تعاون کی اہمیت و افادیت بھی ہماری تقروروں کا موضوع ہونے کا تقاضہ کرتی ہیں۔لیکن انہیں اہمیت نہیں دی جاتی۔ ملک میں امن امان قائم رہے اس کے لئے اپنے علاقے میں باہمی اخوت اور مساوات قائم کرنے کی تدبیریں ہمارے وعظ و نصیحت کے مکالمے کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔

اسلام میں مسجد سب سے اہم ادارہ اور امام سب سے اہم ذمہ داری کا عہدہ ہے۔ ہمارے ملک میں خدا کے فضل سے کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن افسوس یہ دونوں ہی اپنے مقاصد سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔جب مسجد کا مام زمانے کے موجودہ سیاسی و سماجی اور اخلاقی و معاشی حالات سے واقف ہی نہیں ہے تو وہ مسجد میں آئے ہوے لوگوں کو کیا پیغام دے گا۔ہمارے ملک میں لاکھوں ادارے ہیں۔ ہر ادارے سے سیکڑوں فارغ ہر سال نکلتے ہیں لیکن امامت کی ذمہ داری کا حامل کوئی عالم شاید باید ہی نصیب ہوتا ہے۔ہمارے مذہبی معاشرے میں امامت کا حال یہ ہے کہ جس مولوی کو کہیں کوئی کام نہیں ملتا وہ امامت کرلیتا ہے۔جن مدارس سے یہ امام فارغ ہو رہے ہیں ان کا کورس یا کتابیں کوئی الگ نہیں ہوتی ہیں۔ایک ہی کورس سب کے لئے ہے۔امامت کا الگ سے کوئی کورس نہیں۔امام کے لئے کوئی تربیتی نظام نہیں ہے۔نہ ہی امامت کے لئے کوئی تعلیمی معیار سیٹ ہے۔قرآن پڑھ لیتا ہو۔ نماز پڑھانا جانتا ہو۔زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس کی آواز اچھی ہو اور اعلی معیار یہ ہے کہ وہ تقریر کرتا ہو۔

اسلام کے کے سب سے اہم عہدے کی تقرری کا حال یہ ہے کہ اس تقرری کو جاہل انجام دیتے ہیں۔اس سے برا اس عہدے کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے۔امامت کی باقائدہ ٹریننگ اور تربیت کا کوئی پختہ انتظام ہمارے یہاں نہیں ہے۔ اس کا کوئی مخصوص معیار سیٹ نہیں ہے۔اس کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشرتی اصول و ضوابط طے نہیں ہیں۔ہر مسجد کے کمیٹی کے اپنے اصول ہیں۔ کسی مسجد کہ خادم چاہئے، کسی کو نوکری کرنے والا چاہئے، کسی خوشامدی والا سروس فراہم کنندہ چاہئے۔ صحیح معنوں میں امام کسی کو نہیں چاہئے کیونکہ صحیح معنوں میں امامت کیا ہے اس سے آگاہ نہ خود امام ہے اور نہ ہی کمیٹی ہے۔

یہاں اچھے امام کے نہ ہونے اور خطبہ میں صحیح مسائل کا ذکر نہ ہونے پیچھے اجتماعی وجوہات ہیں جو اجتماعی کوششوں سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

تمام تر کمیوں کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارا معاشرتی نظام بھی درہم برہم ہے۔ اس میں صرف مولوی کی کمی نہیں ہے۔ مولوی اگر خالص مذہبی مسائل سے ہٹ کر معاشرتی، سیاسی یا سماجی مسائل پر گفتگو کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے ہمارے سیاسی اور سماجی ٹھیکیدار روک دیتے ہیں۔ اسے دین کا حصہ نہ مانتے ہوئے مولوی کو اپنا کام کرنے کی ہدایت دے ڈالتے ہیں۔ایک مولوی سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اجتماعی مسائل کے حل کے لئے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں۔ ہر شعبے کا ماہر امام کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کر سکتا ہے۔مسجد کے امام کو سنا جانے کی روایت بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی کسی کو اس طرح نہیں سنتا۔ لہٰذا معاشرے کے ہر جہت کے مسائل پر امام کے ساتھ گفتگو کر کے اس کے حل کی تلاش کیوں نہیں کی جا سکتی۔ یہاں پر آکر ہر ماہر فن کا ایگو اور اس کا احساس برتری اسے ایسا کرنے نہیں دیتا۔ البتہ تنقید کے لئے اس کا ضمیر آسانی سے آمادہ ہو جاتا ہے۔

اجتماعی مسئلے کا حل اجتماعی کوشش ہے۔ اجتماعی ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک پر ڈالنا اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا ہے۔خود کی ناکامی اور نا اہلی کا کھلا اظہار ہے۔

 ہمارے مدارس میں امامت کا ایک علیحدہ اورباقائدہ شعبہ قائم ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔