جامعہ ملیہ اسلامیہ : یہ اہل شوق کی بستی یہ سرپھروں کا دیار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 30-10-2024
جامعہ ملیہ اسلامیہ : یہ اہل شوق کی بستی یہ سرپھروں کا دیار
جامعہ ملیہ اسلامیہ : یہ اہل شوق کی بستی یہ سرپھروں کا دیار

 

                                                                                         ڈاکٹر عمیر منظر

                                                                                          شعبہ اردو

                                                          مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

ہم نے جس جامعہ ملیہ اسلامیہ کو پہلے پہل دیکھا تھا وہ اس مصرعے کے ہو بہو تصویر تھی۔یہ محض اہل شوق کی بستی نہیں تھی بلکہ یہ سرپھرں کا دیار بھی تھی۔داخلوں کے موسم میں چند سینئر چلتے پھرتے جامعہ میں ضرور مل جاتے اور کچھ تو جگہ جگہ باقاعدہ اسی لیے کھڑے رہتے کہ کوئی مل جائے اور اس کی رہنمائی کی جائے۔مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کہاں سے فارم خریدنا ہے اور کس طرح جمع کرنا ہے۔ اس وقت بہت رسمی سی کاررورائی ہوتی تھی اور فارم جمع ہوجاتا۔غالباً برادر گرامی سمیع اللہ اعظمی(کوہنڈہ)کی رہنمائی میں یہ کارروائی مکمل ہوئی تھی حالانکہ وہاں پر جناب عبدالرب اثری فلاحی،ڈاکٹر محمد ارشد (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ اسلامک اسٹڈیز)صاحب بھی موجود تھے۔ٹسٹ اور انٹرویو کے مراحل سے گذرتے ہوئے جب (بی اے آنرزاردو 1996) داخلہ پانے والوں کی فہرست میں نام آگیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہیں۔مانگی مراد پوری ہوگئی۔یہ خوشی اسی لیے بھی اہم تھی کہ ہم نے جامعہ کے علاوہ کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں فارم ہی نہیں بھرا تھا۔اور اس طرح رفتہ رفتہ اہل شوق کی بستی میں ہم بھی باقاعدہ شامل ہوگئے۔

اہل شوق کی بستی کے باسی جب تک جامعہ اسٹور کا حصہ نہیں بنتے وہ سرپھروں کے دیار سے واقف نہیں ہوپاتے۔شوق کی بستی کا یہ ایک اہم حصہ تھا جس کے لیے اسٹور پر بیٹھنا اور شاکر کے یہاں ناشتہ کرنا نیزاسٹور کی دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھا نا بھی اس بستی کے مکینوں کے لیے لازم تھا۔کچھ دن تو ادب آداب سمجھنے میں گذر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اس طرح شامل ہوئے کہ وہاں جائے بغیر دن مکمل ہی نہیں مکمل ہوتا لیکن اس کے باوجود ہم آج تک یہ نہیں بتا سکتے کہ شاکر کے یہاں ایک چائے کی قیمت کیا تھی یا ان کے یہاں چھولے اور سلائس کی کیا قیمت ہے۔جو بھی دے دیجیے رکھ لیا اور اگر پہلے گرد ن ہلا کر بتادیں کہ آج جیب خالی ہے تو چہرے پر کوئی شکن نہیں۔شاکر بھائی اسی طرح دکان سے رخصت کرتے تھے جو ان کا معمول تھا۔نکلتے وقت ضرور پوچھتے کہ چائے پی کہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔

دراصل جامعہ ملیہ اسلامیہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک تربیت گاہ اور طرز معاشرت کا چلتا پھرتا نمونہ تھی۔کیا اسکول اور کیا یونی ورسٹی سب لوگ ایک کنبہ کی طرح رہتے تھے۔جامعہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سوسائٹی کو بھی فروغ دیا تھا جس میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا۔سب برابر تھا۔جامعہ برادری نام دیا گیا تھا۔چپراسی یا دفتری کو حکم نہیں دیتے تھے کہ پانی لاؤ یا یہ کام کرو۔بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ عام طورپر تیسرے اور چوتھے درجے کے ملازمین کو میاں صاحب کہتے تھے۔ایک صاحب کو پیاس لگی تو انھو ں نے کہا کہ میاں صاحب گلہ خشک ہوا جارہا ہے۔وہ اٹھے اور فوراً ان کے سامنے ایک گلاس پانی پیش کردیا۔جامعہ کی تاریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے انسانیت اور انسانی ہمدردی کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔بعد کے دنوں میں جب کچھ ترقی اور تعمیر ہوئی اوردیگر مقامات سے بھی لوگوں کا تقرر ہوا تو کسی نے میاں صاحب کا نام لے کر پکارا ور کہا کہ پانی لائیے۔انھوں نے فوراً جواب دیا کہ چپراسی سمجھ رکھا ہے جائیے خود پی لیجیے۔

ہم نے جس جامعہ میں قدم رکھا اس میں گذشتہ صدی کے آخری چند برس باقی تھے۔شان و شوکت سے بے نیاز اورچمک دمک سے دور اک سلسلہ ہے تعلیم کا جو جاری و ساری ہے۔اساتدہ میں پہلے پہل جن لوگوں سے قریب ہونے اور انھیں دیکھنے کا موقع ملا ان میں پروفیسر صغرا مہدی،پروفیسر خالد محمودکے نام نامی شامل ہیں۔حالانکہ چند برسوں میں ہی یہ فہرست طویل ہوتی چلی گئی۔چند برس کے دوران ہی ایسا محسوس ہوا کہ ہم اپنے ان اساتذہ کے گھر کے ایک فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔پروفیسر صغرا مہدی طلبہ کا بہت خیال بھی رکھتیں مگر غلطی پر اسی طرح برہم بھی ہوتیں۔ان کی ناراضی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی مگر یہ سب وقتی تھا بعد میں اسی طرح وہ ٹوٹ کر چاہتیں۔ایک دو دفعہ مجھے بھی ان کے غصے کا شکار ہونا پڑا لیکن اگلہ لمحہ ہی ان کی محبت اور ممتا کا ہوتا۔پروفیسرخالد محمود ایک سرشار طبیعت کے مالک ہیں۔خوش ہونا اور خوشی کو دو چند کرنے کاہنر بس وہی جانتے ہیں۔اپنے طلبہ سے لے کر دیگر لوگوں تک ان کا ہمیشہ سے یہی برتاؤ رہا ہے۔اردو ان کی کمزوری ہے اس نام پر کوئی ان کو لوٹ بھی لے تو وہ اف تک نہیں کریں گے۔دراصل انھوں نے جامعہ کے بہت سے قدیم اساتذہ اور کارکنان کو قریب سے دیکھا ہے۔ان کی صحبتیں اٹھائی ہیں جو خلوص اور ایثار کا چلتا پھرتانمونہ تھے۔محبت اور انسیت کا یہی جذبہ ان کے اندر موجزن ہے۔وہ جامعہ کو ایک کنبہ سمجھتے ہیں او ر اسی لیے آج بھی استاد محترم جامعہ ملیہ اسلامیہ اور یہاں کے لوگوں کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگرچہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔

دکانیں شہر میں ساری نئی تھیں

مجھے سب کچھ پرانا چاہیے تھا

جامعہ کے بارے میں پروفیسر صغرا مہدی نے ایک جگہ لکھا ہے:

جامعہ فرشتوں کی نہیں انسانوں کی بستی تھی یہاں انسان مع اپنی ساری کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ بستے تھے آپسی اختلاف رائے بھی ہوتا تھا۔ایک دوسرے سے ناراض بھی ہوجاتے تھے۔ان میں کچھ لوگ محنتی اور باصلاحیت تھے کچھ کم محنتی اور محدود صلاحیتوں کے مالک تھے کچھ غیر معمولی کچھ معمولی اور عام سے تھے مگر سب کچھ ایک رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اس رنگ کے شیڈ ہلکے بھی تھے گہرے بھی تھے۔جامعی رنگ (ہماری جامعہ ص:31)

اشفاق محمد خاں نے اپنی آپ بیتی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ جامعہ کی تعلیمی فضا،یہاں کا ماحول،اساتدہ اور طلبہ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا سب ایک پریوار کا حصہ ہیں۔کسی طرح سے نہ اپنے بیگانے کا احساس تھا اور نہ چھوٹے اور بڑے کا تفاخر سب اس طرح رہتے تھے کہ گویا ایک گھر اور خاندان کے لوگ ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان اور بعد کے لوگوں نے یہاں جو تعلیمی اور تربیتی فضا قائم کی تھی اس میں فکر ونظر کی کشادگی کا خاص عنصر شامل تھا اور یہی وجہ ہے کہ یہاں داخل ہونے والا ہر بچہ طالب علم ہوتا تھا اسے مذہب کے آئینے سے نہیں دیکھا جاتاتھا۔ایک بار حکومت کی طرف سے یہ جاننے کے لیے کہ یہاں پر مذہب کی بنیاد پر بچوں کی تعداد کیا ہے دریافت کیا تو مجیب صاحب نے جواب دیا کہ یہاں سب طالب علم ہیں کوئی ہندو مسلمان نہیں ہے۔1947کے ہنگاموں کے بعد جامعہ شرنارتھیوں کے لیے ایک بڑی قیام گاہ کے طور پر کام آئی۔ان کی تعلیم کایہاں نہایت معقول انتطام کیا گیا۔چونکہ اس وقت بتدائی کلاس سے لے کر کالج تک کی تعلیم یہاں ہوتی تھی اور ٹیچر ٹریننگ کا بھی یہاں انتظام تھا جس سے کہ اس وقت بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ڈاکٹر سلامت اللہ نے اپنی خود نوشت یادوں کے چراغ میں اس وقت کے بعض اہم وقعات کا ذکر انھوں نے کیا ہے۔امریکہ سے اسی دوران وہ اعلی تعلیم مکمل کرکے ہندستان لوٹے تھے۔انھوں نے لکھا ہے کہ شرنارتھیوں کی آبادکاری کے لیے حکومت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے ٹیچر کالج میں ٹریننگ کے لیے بھیجی جاتی تھیں۔ڈاکٹر سلامت اللہ امریکہ سے واپسی پر اسی ٹریننگ کورس کا حصہ تھے۔اس کورس کے ایک واقعہ کاانھوں نے بطور خاص ذکر کیا ہے۔

کورس کے خاتمے پر طالب علموں کو سرٹیفکٹ دینے کی خاطر ایک جلسہ کیا گیا۔پروگرام کے مطابق ان کے کسی نمائندے کو جامعہ میں ان کی تعلیم اور قیام کے دوران اپنے تاثرات بیان کرنا تھا۔ نمائندگی ایک لڑکی نے کی۔اس  نے اپنی تقریر میں کہا”جب ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ٹریننگ کے لیے آئے تھے تو اندیشہ تھا کہ نہ جانے کیسی گذرے گی۔سچ ہے کہ ہمیں ڈرتھا کہ کہیں اسی قسم کے تکلیف دہ حالت نہ پیش آئے جیسے پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے تھے۔اس وجہ سے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی لیکن آج جب ہمیں واپس جانا پڑرہا ہے تو جامعہ چھوڑنے کو جی نہیں چارہتا۔

اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اس سماج کو او ربھی بہت کچھ دیا ہے۔جامعہ کے ایک طالب علم جتیندر کمار آنند جنھوں نے کہ جامعہ سے گریجویشن کیا تھا اور یہیں ایک عرصہ تک ملازمت کی پھر وہ غالباً کناڈا چلے گئے مگر جامعہ میں جو کچھ انھوں نے دیکھا تھا اسے تاعمر فراموش نہیں کرپائے۔ایک خط میں وہ پروفیسر صغرا مہدی کو اپنی پرانی یادیں لکھتے ہیں۔

مجھے یقین نہیں تھا 75سال کی عمر میں 13سال تک ہم ہندوستان بلکہ پاکستان کی تھوڑی سی یادیں رکھتے ہیں۔باقی سب جامعہ والوں سے وابستہ ہیں۔کسے معلوم تھاکہ یہ ہندولڑکا جس کے خاندان کو مسلمانوں نے بری طرح سے لوٹا اور جس نے اپنی آنکھوں سے اپنے رشتہ داروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مرتے دیکھا،وہی مسلمان کے ہاتھ اس کو آیندہ زندگی میں سنبھالیں گے۔یاد ہے کہ 1947میں ایک ٹرین کے دوڈبوں میں بم پھینک دیا گیا تھا والدین الگ ڈبے میں تھے اور میں الگ ڈ بے میں سواسی وجہ وہ ہمایوں کے مقبرے کے رفیوجی کیمپ میں ڈال دیے گئے۔میں کالکا جی کیمپ میں پھینک دیا گیا۔قسمت کی بات ہے کہ مجھے ایک مسلمان اٹھا کر لے گیا اور جامعہ والوں کے حوالے کردیا۔میرے والدین کے سوشل ورکروں سے معلوم ہوا کہ جتیندر نام کا ایک لڑکا کالکاسے سوشل ورکر جامعہ لے گئے ہیں والدین کی حالت پریشان کہ انھی مسلمانوں نے ہمارا سب کچھ لوٹا اور یہ سب میرے بچے کو مارنے کے لیے لے گئے ہوئے ہیں۔تین سال بعد میرے والدین مجھے ملے۔یقین نہیں آسکتا تھا کہ جن مسلمانوں نے ہمیں تباہ کیا وہی ہمارے لڑکے کو تربیت دے رہے ہیں اور اس کا خیال کررہے ہیں۔چھٹیوں میں گھر جاتا تو مجھے پاک کرانے کے لیے ہر دوار گنگا میں اشنان کے لیے لے جاتے کہ میں پاک ہوجاؤں۔مسلمانوں کا سایہ میرے اوپر سے دور ہوجائے انھیں پریشانی ضرور تھی، ڈر بھی تھا پر دوسا ل میں انھیں یقین ہوگیا کہ انھو ں نے تو مجھے پیدا کیا لیکن مسلمان میری آئندہ زندگی بنار ہے ہیں۔مجھے ماں،باپ،بھائی بہن کا پیار یاد نہیں پر جن مسلمانوں نے مجھے پالا،ان کا پیار اور تربیت کبھی نہیں بھول سکتا۔(ہماری جامعہ  250)

ان واقعات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ جامعہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک سماج کی تعمیر کیسے کی تھی۔ ماحول اور فضا کو کس طرح سازگار کیا تھا اور لوگوں کو ایک دھاگے میں کس طرح پرویاتھا، اس کا علمی مظاہرہ جامعہ نے کرکے دکھایا تھا۔ آج یہ سب باتیں خواب لگتی ہیں مگرکتابوں اور یادداشتوں میں سب کچھ درج ہے۔قربانیاں دینے والوں نے ادارے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا یہ دیکھے بغیر کہ کون کیا ہے اور اس کا مذہب کیا ہے۔آج انھیں قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی یوم تاسیس کے موقع پر آج یہ باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ایک صدی پہلے جامعہ نے جو عملی تاریخ رقم کی تھی آج ہمارے معاشرے کو پھر انھی سرپھروں کی ضرورت ہے تاکہ یہ بستی پھر سے اہل شوق کی بستی بن سکے اور ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ع

یہیں سے شوق کی بے ربطیوں کو ربط ملا