کولکتہ :یہودی اداروں کے مسلم نگہبان

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-06-2024
کولکتہ :یہودی اداروں کے مسلم نگہبان
کولکتہ :یہودی اداروں کے مسلم نگہبان

 

 منصور الدین فریدی  / محمد شمیم حسین

 خوشیوں کا شہر ۔۔۔ کولکتہ  اپنے دامن میں ایسی لا تعداد کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ جو اس شہر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی روح کو بیان کرتی ہیں۔ایسی ہی ایک کہانی ہے شہر میں یہودی عبادت گاہ ،قبرستان اور اسکولز کے ساتھ مسلمانوں کے رشتے کی۔ یہ رشتہ ہے صدیوں پرانا۔جو اب شہر میں نہ کے برا بر یہودیوں کی موجودگی کے باوجود  پروان پا رہا ہے ۔ جن کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ شہر میں یہودیوں کی تعداد انگلیوں پرگنے جانے کے باوجود ان کے ادارے محفوظ ہیں  جبکہ ان کے کئیر ٹیکرز مسلمان ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کولکتہ میں ایشیا کی سب سے بڑی یہودی عبادت گاہ یعنی  سیناگوگ کے کئیر ٹیکر ایک مسلم خاندان ہے۔ یہ ہے مگین ڈیوڈ  سیناگوگ  جس کی تعمیر  1884 میں ہوئی تھی ۔ اسی طرح یہودیوں کے قبرستان کی زمین بھی ایک مسلمان کی دین تھی ،جبکہ تین  یہودی اسکولز میں اس وقت سب سے زیادہ مسلم بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں -یہودی عبادت گاہوں کی دیکھ ریکھ کا کام کر رہے ہیں مسلم خاندان۔ وہ بھی پانچ یا چھ دہائیوں سے۔یہ سن کر یقینا آپ حیران ہوں گے۔ کیونکہ  دنیا کی انسانی تاریخ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کئی نسلوں سے جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔لیکن اس شہر میں دونوں مذہبوں کے ماننے والوں کے درمیان امن اور احترام کے سوا اور کچھ نہیں۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ممتاز یہودی اسکالر اور مصنفہ جیل سلیمن نے کہا کہ کولکتہ میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کے ساتھ  یہودی اسکول ،قبرستان اور کئی ادارے بھی مسلمانوں کی دیکھ ریکھ  میں ہیں۔ جبکہ اسکول میں اکثریت بھی مسلم بچوں کی ہے۔

یہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ایک ایسے وقت جب دنیا اسرائیل اور حماس تنازعہ کے سبب غزہ کی تباہی کا گواہ بن رہا ہے ۔ایک بڑا طبقہ اس کو سیاسی کے بجائے مذہبی چشمے سے دیکھ رہا ہے ۔ جیل سلیمن کہتی ہیں کہ  ۔۔۔۔  غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ افسوسناک ہے ،ہم انسانی جانوں کے تلف ہونے سے پریشان ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ جلد سے جلد امن قائم ہو اور حالات معمول پر آئیں ۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کی رضا کار جیل سلیمن نے کہا کہ کولکتہ میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کے ساتھ  تین یہودی اسکولز بھی مسلمانوں کی دیکھ ریکھ  میں ہیں۔ان میں اکثریت بھی مسلم بچوں کی ہے۔ سال 1940 کے عشرے میں شہر میں ایک پھل پھولتی ہوئی یہودی کمیونٹی تھی جس نے مسلم برادری کے ساتھ  قریبی، دوستانہ تعلقات برقرار رکھے تھے۔ ان کی قربت اور دوستی کی وجہ سے دونوں مذہبی گروہ کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہے۔تاہم مختلف قومی اورعالمی واقعات کی وجہ سے کولکتہ کے یہودی لوگ شہر سے دور ہجرت کرنے لگے۔ شہر میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد تقریباً 6,000 تھی،لیکن اب کولکتہ میں صرف 15 سے کم یہودی باشندے باقی رہ گئے ہیں، جن میں سے بیشتر بزرگ ہیں۔

awazurduجایل سلیمن  کولکتہ میں یہودی وراثت کی نگہبان 


awazurduیہودی عبادت گاہ کے مسلمان کئیر ٹیکر


مسلمانوں سے رشتہ پرانا ہے

جب یہودی ہندوستان آئے تو ان کے مسلمانوں سے پہلے ہی مضبوط تعلقات تھے۔ کیونکہ ہماری جڑیں شام اور عراق سے جڑی تھیں ۔وہ کہتی ہیں کہ ہمارا عقیدہ ایک ہی ہے۔ایک آسمانی کتاب ہی ہماری مقدس مذہبی کتاب ہے۔ ہمارے پیغمبر بھی ایک ہیں،ہمارا کھانا پینا بھی ملتا جلتا ہے۔ ہم بھی حلال کا استعمال کرتے ہیں۔ ہماری عبادت گاہوں کی دیکھ ریکھ مسلمان کرتے ہیں کیونکہ ہم مذہبی امتیاز پر یقین نہیں رکھتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ 1796 سے ملک کی آزادی تک یہودی ایک بڑی کمیونٹی کی شکل میں تھے۔ دراصل ہم لوگ شام اور عراق سے ہندوستان آئے تھے۔ شہر میں تین عباد گاہیں تھیں لیکن یہ یہ سب سے بڑا سیناگوگ ہے۔

کیسے اور کیوں گھٹ گئے یہودی 

 قابل غور بات یہ ہے کہ 1940 کےعشرے میں کولکتہ میں یہودی ایک پھلتی پھولتی برادری تھی جس کے مسلم برادری کے ساتھ  قریبی اوردوستانہ تعلقات تھے۔اس  قربت اور دوستی کی وجہ سے دونوں مذہبی طبقات  کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ  رہے۔ تاہم  مختلف قومی اورعالمی واقعات بشمول دوسری جنگ عظیم اور ملک کے بٹوارے کے بعد کولکتہ کے یہودی لوگ شہر سے ہجرت کرنے لگے۔ایک وقت شہر میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد تقریباً 6,000 تھی لیکن اب کولکتہ میں صرف 15 یعنی کہ گنتی کے یہودی باشندے باقی رہ گئے ہیں۔جن میں سے بیشتر بزرگ ہیں۔

سیناگوگ  کا اندرونی منظر


awazurduکولکتہ کے تاریخی سیناگوگ کا بیرونی منظر


سیناگوگ میں چرچ کی جھلک

کولکتہ میں یہودیوں کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے جیل سلیمن کہتی ہیں کہ شہر میں تین عباد گاہیں ہیں لیکن یہ میگن ڈیوڈ سیناگوگ سب سے بڑا ہے ۔کولکتہ میں یہ تاریخی سیناگوگ کی عمارت کو دیکھ کر مرکزی یورپی چرچ کا خیال آتا ہے۔ جسے 19ویں صدی کے بزنس ٹائیکون الیاس ڈیوڈ نے تعمیر کیا تھا۔ اس بارے میں وہ کتی ہیں کہ جب ہم عالم عرب سے ہندوستان آئے تھے تو یہودیوں نے شام اور عراق کی طرز پر ہی سیناگوگ تعمیر کئے تھے یہی وجہ کہ ان کی ساخت چرچ کی مانند ہے۔۔ میگن ڈیوڈ اس انداز میں تعمیر کیا گیا تھا کہ دور سے یہ ایک چرچ لگتا ہے۔ اسے'لال گرجا' (ریڈ چرچ) کا نام دیا گیا۔

جیل سلیمن کہتی ہیں کہ عبادت گاہوں کو اب بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔یہ تین خوبصورت روحانی مقامات شہر میں ہماری موجودگی کی یاد ہیں ۔اس شہر میں ہم نے تجارت اورکاروباری کوششوں کے ذریعے ترقی اور خوشحالی حاصل کی جبکہ کولکتہ میں دو عبادت گاہوں کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے قومی یادگار قرار دیاہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سیناگوگ میں اجتماعی عبادت کے لیے کم سے کم دس افراد کا ہونا ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس عبادت گاہ میں طویل عرصے سے عبادت نہیں ہوسکی ہے ۔جب دیگر شہروں یاب ملکوں سے یہودی آتے ہیں تو عبادت کا اہتمام ہوتا ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اب کولکتہ میں یہودیوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے لیکن ان کے مختلف ادارے مضبوط اور منظم ہیں جن میں تین اسکول بھی شامل ہیں ۔اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ  ان اسکولوں میں اکثریت مسلم بچوں کی ہے کیونکہ یہ اسکول مسلم اکثریت علاقوں میں ہی ہیں ۔یعنی کہ یہود یوں کے تعلیمی ادارے اس وقت مسلمانوں کا بڑا سہارا ہیں ۔

 سارے جہاں سے اچھا ۔۔۔۔

یہودیوں کے ہندوستان سے رشتے کے بارے میں  جیل سلیمن کہتی ہیں کہ یہ سرزمین بہت خاص ہے ۔اس ملک میں ہر مذہب کو آزادی ہے ۔سب مل جل کر رہتے ہیں ۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بے مثال ہے ۔جیل سلیمن نے کہا کہ ہم ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہیں ،ہم ہمیشہ خوش رہتے ہیں ،خواہ کسی کی بھی حکومت رہے ،ہمیں کبھی کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوا کیونکہ ہندوستان ایک خاص سرزمین ہے۔۔۔ ہم ہندوستان کا احترام کرتے ہیں  

یکجہتی کی تاریخ

کولکتہ کی یہودی اور مسلم کمیونٹیز کے درمیان دوستی اور احترام کا پتہ قبرستان کے قیام سے لگایا جا سکتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ شالوم ہارون کلکتہ میں بغدادی یہودی کمیونٹی کے بانی عبادیہ کوہن نے قبرستان کے حوالے سے ایک بنگالی مسلمان دوست سے رابطہ کیا۔وہ ملک میں نئے تھے اور انہیں مدد کی ضرورت تھی۔مسلم دوست نے انہیں اپنی زمین کا ایک پلاٹ مفت میں پیش کیا، لیکن کوہن نے اپنے دوست کو دو برادریوں کے درمیان یکجہتی کے طور پر سونے کی انگوٹھی دی ۔آج اس قبرستان میں عبادیہ کوہن سمیت  8,625 قبریں ہیں ۔

  یہودیوں کی تعداد نہ کے برابر رہ گئی ،جس کے سبب عبادت گاہیں سنسان ہوگئیں لیکن ان کے اسلامی سرپرستوں کو امید ہے کہ ایک دن یہ عبادت گاہیں ایک بار پھر بھر جائیں گی جن کا ماننا ہے کہ اہم بات یہ ہے کہ ہم انسان ہیں، ہم کسی مندر میں، مسجد میں، کسی گرودوارے میں کام کر سکتے ہیں - یہ سب خدا کے گھر ہیں۔ انہیں صرف مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔رابل خان نے 2008 میں اپنے والد کی ذمہ داری سنبھالی تھی،وہ اب عبادت گاہ کے نگہبانوں میں سے ایک ہیں۔ان کے والد نے ریٹائر ہونے سے قبل عمارت کی دیکھ بھال میں 50 سے 60 سال گزارے تھے۔

کولکتہ کے یہودیوں کا ماننا ہے کہ عبادت گاہوں اور قبرستان کے مسلمان نگہبان اور مسلمان دوستوں کے ساتھ  دیگر دوست  ہمیشہ کی طرح ہمارے  قریب ہیں۔ اسرائیل اور غزہ کی صورتحال نے ہمارے تعلقات کو ذرا بھی متاثر نہیں کیا۔

 جیال سلیمن کہتی ہیں کہ میرا پیغام یہ ہے کہ ہر انسانی جان بہت قیمتی ہے،ہر کوئی برابری رکھتا ہے۔ مذہب بہت ہی پرائیوٹ ہوتا ہے ،ہم سب کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے ۔