کولکتہ : سسک رہا ہے اردو تھیٹر ۔۔۔ کوئی فنکار بچا نہ فنکار نواز ۔ خورشید اکرام منا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-12-2024
 کولکتہ : سسک رہا ہے اردو تھیٹر ۔۔۔ کوئی فنکار بچا نہ فنکار نواز ۔ خورشید اکرام منا
کولکتہ : سسک رہا ہے اردو تھیٹر ۔۔۔ کوئی فنکار بچا نہ فنکار نواز ۔ خورشید اکرام منا

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 
بنگال میں اردو ڈرامہ کی تاریخ سنہری رہی مگر حال خراب اور مستقبل تاریک ہے ،کیونکہ بنگال میں اس فن کا نہ کوئی نگہبان ہے، نہ قدر داں ۔اردو کی فروغ کے نام پر پر محفل مشاعرہ سج سکتی ہے،لیکن ڈرامہ کی وراثت کو بچانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تھیٹر کا مطلب لوہے کے چنے چبانے کے مانند ہے ۔
اس مایوسی کا اظہار خورشید اکرام منا نے کیا جو اردو تھیٹر میں پانچ  دہائیوں سے زیادہ کا وقت گزار چکے ہیں لیکن اب بنگال میں اردو تھیٹر کی خستہ حالی سے دل برداشتہ ہیں ۔
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے خورشید اکرام منا کہتے ہیں کہ بنگال میں ڈرامہ  کی دنیا ویران ہورہی ہے،بنگلہ تھیٹر مررہا ہے ،ہندی  خستہ حال ہے اور اردو  کا نام ونشان نہیں ہے ۔ کولکتہ میں اردو ڈرامہ کا مطلب ہے، اپنی جیب کو خالی کرنا، خاص طور پر اردو میں تو کوئی تھیٹر کا رخ کرنے کا تیار نہیں ہے۔ اہل اردو کو ڈرامہ دیکھنے کے لیے پکڑ کر ہال تک لانا بہت مشکل  ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اردو ڈرامہ اپنی پہچان گنوا رہا ہے ۔
 
خورشید اکرام منا ۔ مختلف انداز اور کردار میں 

 آپ کو بتا دیں کہ خورشید اکرام ریڈیو ،ٹی وی اور تھیٹر میں سرگرم رہے،وہ بچپن میں محمد جان ہائی اسکول میں تعلیم کے ساتھ اپنے والد مرحوم عبدالودود کی پھلوں کے کاروبار میں مدد کیا کرتے تھے مگرانہوں نے تعلیم اورکاروبار کے ساتھ  تھیٹر کے شوق کو کو مرنے نہیں دیا۔ وہ اسکول سے سینٹ زیویرس کالج تک تھیٹر میں پسینہ بہاتے رہے اوراس کے بعد زندگی کے نشیب و فراز اور ضروریات کے مطابق خود کو وقت کے مطابق ایڈجسٹ کرتے رہے،تھیٹر سے بھی کبھی دور کبھی پاس کا دور گزرا لیکن تھیٹر ہمیشہ رگو ں میں خون بن کر دوڑتا رہا ۔ اس دوران تقریبا چالیس ڈراموں میں اپنے جوہر دکھائے جس نے انہیں کولکتہ میں تھیٹر کا ایک جانا پہچانا چہرہ بنا دیا ۔
خورشید اکرام نے آٹھوی دہائی میں آل انڈیا ریڈیو میں کام کیا اور پھر 1988 میں پہلا ٹی وی سیریل پروفائل کا حصہ بنا۔ بدھا دیپ داس گپتا کی بنگالی فلم ‘ انور کا عجیب قصہ‘ میں کام کیا تھا لیکن ان کا رجحان ہمیشہ تھیٹر کی جانب ہی رہا ،جسے وہ ایک نشہ ہی مانتے ہیں ۔بہرحال  ان کا ماننا ہے کہ سلور اسکرین کے ساتھ  اداکاری کے نئے پلیٹ فارم کے مقبول ہونے کے سبب تھیٹر کی رونق پر اثر پڑا ہے ،نئی نسل کو اداکاری تو پسند ہے لیکن کوئی تھیٹر سے گزر کر فلموں میں جانے کا خواہاں نہیں، سب قسمت آزمانے کے لیے ممبئی کا رخ کرتے ہیں،فلمیں ملیں یا سیریل ۔ان میں پیسہ ملے گا لیکن تھیٹر کمانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے ۔جبکہ اب تھیٹر کی کامیابی کا دارومدار بڑے ناموں پر ہے ،اگر نصیر الدین شاہ  ہوں تو ہال  بھر سکتا ہے ،لوگ ایک ایک ہزار روپئے کا ٹکٹ دے کر آسکتے ہیں ، ایک زمانے میں فاروق شیخ یا اوم پوری  تھیٹر کی کامیابی کی ضمانت تھے،اب صورتحال بدل گئی ہے ،دراصل تھیٹرکی دنیا ہائی سوسائٹی کا شوق ہے،عام لوگ اس سے دور ہوچکے ہیں، ۔یہی وجہ ہے کہ نصیر الدین شاہ کے ڈرامے ہٹ ہوجاتے ہیں اور ہال بھر جاتے ہیں لیکن یہ عام تھیٹر کے ساتھ نہیں ہوتا ہے 
 
 
خورشید اکرام منا  کی تھیٹر سے جڑی یادیں 

 تھیٹر کا آغاز 
وہ کہتے ہیں کہ محمد جان ہائی اسکول میں ڈیبیٹ میں حصہ لیا کرتا تھا،اسکول میں اس وقت تھیٹر پر بہت توجہ دی جاتی تھی ،ہمارے ٹیچر تھے سراج الحق پریمی ،وہ  ڈرامہ نگار کے ساتھ ہی ایک بہترین ہدایت کار  اور اداکار بھی تھے۔انہوں نے ہی اس شوق کو پروان دیا اور دسویں کلاس میں پہلا ڈرامہ کیا جس کا نام ’قلاباز یونین‘ تھا جسے بنگال کے معروف ڈرامہ نگار پروفیسر نیاز احمد خان نے لکھا تھا۔ دلچسپ  بات یہ ہے کہ  1978 میں اقبال صدی کے موقع پر ایک ڈرامہ ’ہمارا ہندوستان’  کیا تھا جس میں شیطان کے کردار میں بہترین اداکاری کا انعام ملا تو اداکاری نے رگوں میں مزید جوش مارا۔
اسکول کے بعد سینٹ زیویرس کالج کا رخ کیا تو اردو لٹریری سوسائٹی کا بینر منتظر تھا،اس وقت تھیٹر یا ڈرامہ اس قدر مقبول تھے کہ  مجھے اس کا سکریٹری  بنا دیا گیا ۔ اس میں سید نثار عابدی بھی رہے تھے جو اک وقت الیسٹرڈ ویکلی سے وابستہ رہے تھے ۔ جہاں پہلا ڈرامہ ‘ اور پھر ایسا ہوا‘  پیش کیا ۔اس کے ساتھ تھیٹر کی زندگی نے رفتار پکڑ لی تھی۔ تعلیم سے زیادہ وقت تھیٹر کے تاریک گوشوں میں بیٹھ کر ایک روشنی پیدا کرنے کی جدوجہد جاری رہی،کولکتہ تھیٹرکی دنیا میں ایک پہچان ملی 
 اپنے گروپ کا قیام 
دراصل تھیٹر میں اظہار خیال کی آزادی کا مسئلہ سامنے آیا جب 1981 میں جمشید پور میں ممتاز ادیب ذکی انور کا فرقہ وارانہ فساد کے دوران قتل ہوا اور ان کے ہم جماعت  اشتیاق احمد نے اس واقعہ پر ایک ڈرامہ لکھا،لیکن حکومت اور پولیس کے خوف سے کوئی  گروپ اس کو اسٹیج کرنے کو تیار نہیں ہوا ۔ اس وقت خورشید اکرام نے یونیورسل لٹل تھیٹر نامی گروپ قائم کیا ۔ بلکہ  3 جنوری 1980 کو کولکتہ کے کلا مندر میں اس ڈرامہ کو پیش کیا  جس کے ہدایت کار ایس ایم راشد تھےجسے بہت سراہا گیا تھا ۔
 
 
 ایک چہرہ لاتعداد کردار 

اسٹیج سے دوری اور واپسی 
مظفر پور سے تعلق رکھنے والے خورشید اکرام کہتے ہیں کہ1980  میں والد نے پھلوں کی دکان کوالوداع کہا،اپنے آبائی گاوں میں جا بسے ۔جس کے سبب مجھے کاروباری ذمہ داری سنبھالنے کے لیے اسٹیج سے دوری اختیار  کرنے پر مجبور ہونا پڑا 1986 میں  میری شادی ہوگئی ،جس کے بعد بچوں کی تعلیم  دوسری بڑی ذمہ داری تھی ،سب بچوں کو فرینک انتھونی میں تعلیم دلائی۔ اس دوران کبھی کبھی اسٹیج کا رخ کیا۔ مگر2007 تک  جب بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگیا،سب تعلیم یافتہ ہوگئے اور برسر روزگار ہوگئے  تو میں دوبارہ اپنی زندگی کو تھیٹر کی ڈگر پر لانے کا فیصلہ کیا ۔بچوں نے حوصلہ افزائی کی،کہا کہ آپ دکان کسی نگراں کے حوالے کردیں اور وہ  کریں جس کی زندگی میں کمی محسوس ہورہی ہے ،وہ سب جانتے تھے کہ میں نے تھیٹر کے شوق کو اپنی خاندانی ذمہ داریوں کے سبب بڑی حد تک ترک کردیا تھا ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے 2010 میں کاروباری ذمہ داری چھوڑ دی اور دوبارہ کمر کس لی اور ڈرامہ کی دنیا میں غرق ہوگیا
تھیٹر میں دوسری اننگز
وہ کہتے ہیں کہ دراصل میرا گروپ یو ایل ٹی زندہ رہا ،جس کے پرچم تلے میں نے دوسری اننگز کا آغاز کیا ۔2012 میں آغا حشر  کے نام پر اخبار مشرق کا پروگرام ہوا جس کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی ۔یہ  بھی بہت کامیاب رہا تھا 2016 میں جبل پور میں ڈرامہ کیا تھا ۔ 2019 میں بریلی میں ’ ہائے ہینڈسم ‘ اسٹیج کیا تھا۔ممتاز دانشور پروفیسر محمد کاظم نے اسے بہترین کوشش قرار دیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاون کے بعد  راجدھانی میں سعید عالم  کے ساتھ تین ڈراموں میں کام کیا تھا، جن میں غالب کے خطوط ،لال قلعہ کا آخری مشاعرہ کے ساتھ غالب اور معرکہ کلکتہ  شامل تھے ۔لیکن کولکتہ سے دوری بہت مشکل ہے،اس لیے دہلی کو الوداع کہا ۔
 
ڈرامے معاشرے کوبڑے پیغام دیتے ہیں  

ڈرامہ پیغام دیتے ہیں 
خورشید اکرام منا کہتے ہیں کہ ڈرامے سماج کو پیغام دیتے ہیں ،معاشرے کی سچائی اور برائی کو عیاں کرتے ہیں ،مسائل کی جانب متوجہ کرتے ہیں ،بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ،اس کے لیے نکڑ ناٹک مثال ہے۔کوئی بھی اہم موضوع ہوتا ہے جس میں عوام میں بیداری پیدا کرنا ہوتی ہے تو نکڑ ناٹک کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ ساگر سرحدی کا ایک ڈرامہ فٹ پاتھ کے لوگوں کے مسائل کو پیش کرتا ہے تو ایک ڈرامہ ‘کسی سیما کی ایک معمولی سی گھٹنا ‘  دونوں جانب کے فوجیوں کا درد بیان کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہوتا ہے جس سے ہر بات دل میں اتر جاتی ہے۔ مگر اب تھیٹر ہی پاپڑ بیلنے جیسا ہے ۔
درد تو ہے 
خورشید اکرام کہتے ہیں کہ ڈرامہ میں ہدایت کاری اور اداکاری اتنی مشکل نہیں جتنی کہ اس کو آرگنائز کرنا ہے ،اب تھیٹر سستا سودا نہیں رہا ، اگر آرگنائز ہوگیا تو لوگوں کوتھیٹر تک لانا کسی پہاڑ کو سر کرنا ہے۔میرا ایک ڈرامہ 22دسمبر کو ہے جس کے لیے میں پچھلے دو ماہ سے اپنے تمام دوستوں اور خیر خواہوں سے رابطہ میں ہوں اور انہیں یاد دہانی کرا رہا ہوں تاکہ کچھ لوگ تھیٹر تک پہنچ جائیں ۔
 اردو ڈرامہ یا تھیٹر کے زوال کا ایک سبب اسکولوں کا گرتا معیار ہے،زبان بے انتہا خراب ہوگئی ہے ، اس میں سدھار کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ،بس محفل مشاعرہ کو اردو کا فروغ سمجھ لیا گیا ،ایک محفل پر  ایک رات میں لاکھوں رو پئے خرچ کر دئیے جاتے ہیں ،کچھ نامور شاعر حضرات کا بینک بیلینس بڑھ جاتا ہے لیکن اردو جہاں ہے وہیں رہ جاتی ہے ۔صرف واہ واہ اردو کے فروغ کی راہ نہیں ہوسکتی ہے ۔اگر ایسی توجہ کا حقداراردو تھیٹر بنے تو شاید ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جائے ۔