مہا کمبھ میلہ : یادگار حسینی انٹر کالج کیسے بنا گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2025
مہا کمبھ میلہ  : یادگار حسینی انٹر کالج  کیسے بنا  گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
مہا کمبھ میلہ : یادگار حسینی انٹر کالج کیسے بنا گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

 

  پریاگ راج : ہم ساتھ ساتھ ہیں ،پریشانی اور مصیبت میں کوئی مذہب دیکھتا ہے نہ ذات ۔ پہلے پریشانی کو دور کرنا ہی فرض ہوتا ہے،یہی انسانیت ہے اور یہی ملک کی گنگا جمنی تہذیب ۔ ان الفاظ کے ساتھ  پریاگ راج  کے یاد گار حسین کالج کے ایک ٹیچر رضا عباس زیدی نے  28فروری کی شب کے حالات کا ذکر کیا ۔جب مہا کمبھ کے دوران افراتفری اور بھگد ڑمیں سینکڑوں عقیدت مند سڑکوں پر بھٹک رہے تھے۔ اس وقت انتظامیہ نے  یادگار حسینی  کالج کے دروازے کھول دئیے بلکہ پناہ لینے والے عقیدت مندوں کو ہر ممکن مدد پہنچانے کی کوشش کی ۔ سونے کے لیے بستروں سے کھانے تک سب سہولیات مہیا کرائیں ۔ بچوں کے لیے دودھ کا انتظام کیا گیا ۔

رپورٹس کے مطابق جیسے ہی یاتریوں نے 28 جنوری کی رات کو مہا کمبھ میں مونی امواسیہ امرت سنن کے لئے جمع ہونا شروع کیا، سنگم ناک کے قریب بھاری رکاوٹوں کی وجہ سے بھیڑ ہوگئی۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، جس کے نتیجے میں آدھا کلومیٹر طویل رکاوٹ بن گئی۔ اس کے درمیان، افواہیں پھیل گئیں کہ ناگا سادھو اپنے مقدس غسل کے لیے آ رہے ہیں، جس سے بھیڑ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رکاوٹیں ٹوٹ گئیں، اور لوگ گرنے والوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھے۔ اس دوران جو بھیڑ شہر کے مختلف راستوں میں بھٹک گئی تھی وہ محفوظ مقام تلاش کررہی تھی ۔شہر کے یادگار حسینی کالج ان بحرانی حالات میں  سب سے بڑا سہارا بنا ۔

مہا کمبھ میلہ : بحران میں کیسے بنا یادگار حسینی کالج گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

محمد مہدی گوہر کاظمی نے سب سے پہلے رات کو اس بحران کی نزاکت کو محسوس کیا،جو کہ کالج مینیجر ہیں ۔انہوں نے سڑکوں پر پریشان حال لوگوں کو دیکھا ،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ۔ تو انہوں نے فوری طور پر فیصلہ لیا کہ کالج کے دروازے  کھول دئیے جائیں ۔ انہوں نے کالج کے اسٹاف کو بھی طلب کیا ۔کالج کے کمرے کھلوائے۔ فرنیچر کو ہٹایا اور بستر لگانے کی جگہ بنائی ،بستر  مہیا کرائے ۔ پریشان حال یاتریوں کے لیے کالج کی چھت بڑی راحت کا سامنان بنی ۔اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ  دیکھتے ہی دیکھتے  مقامی لوگ آگئے اور ہر کسی نے اپنے طورپر مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ بستر  اکھٹا کئے گئے ،کھانے کا انتظام کیا گیا،چائے اور بسکٹ کے ساتھ بچوں کے لیے دودھ  کا انتظام کیا ۔ اس میں ہر کوئی پیش پیش رہا ۔ جس نے یتریوں کی اس رات کی پریشانی کو دور کیا ،جن کے کالج میں آنے اور جانے کا سلسلہ دو دن جاری رہا ۔ 

وہ کہتے ہیں کہ سب کچھ  اتنی تیزی سے ہوا کہ ہم سب کو بھی یقین نہیں آیا۔ہزاروں کی بھیڑ تھی۔کسی کو کچھ نہیں معلوم نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے لیکن کچھ ہی دیربعد مقامی خواتین نے کھچڑی اور  مٹر پلاو پکان کر بھیجنا شروع کیا اور مقامی لوگوں نے دیگر انتظامات سنبھال لیے ۔ کالج کے کلاس اور ہال کھول کر سونے کا انتظام کیا گیا۔ لوگ بستر پر لیٹتے ہی سو گئے ،۔ یہاں تک کہ کالج کے میدان میں  بھی یاتریوں نے ڈیرا ڈالا ۔انہوں نے کہا کہ دو دن کے دوران چھ سے سات ہزار لوگوں نے کالج میں پناہ لی اور پھر سفرپر آگے بڑھے۔