مالیگاؤں:گمشدہ بچوں کی تلاش - ایک مشن ۔ ایک خدمت

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 14-02-2024
مالیگاؤں:گمشدہ بچوں کی تلاش - ایک مشن ۔ ایک خدمت
مالیگاؤں:گمشدہ بچوں کی تلاش - ایک مشن ۔ ایک خدمت

 

شاہ تاج خان ۔ پونے

               مہاراشٹر اور خاص طور پر مالیگاؤں میں اگر کوئی بچہ گُم ہو جائے تو اُسے اپنے گھر کا راستہ تلاش کرنے میں مدد کے لیے فوراً ایک ٹیم پہنچ جاتی ہے۔اُن کا نیٹ ورک ایکٹو ہو جاتا ہے ۔کبھی کچھ گھنٹوں تو کبھی کبھی کچھ منٹوں میں ہی بچہ اپنے گھر والوں یا پھر گھر والے اپنے بچے تک پہنچ جاتے ہیں۔مالیگاؤں میں مستعدی سے کام کرنے والے اِس گروپ کا کوئی باقاعدہ دفتر نہیں ہے۔صرف واٹس ایپ پر ‘‘گمشدہ بچوں کی تلاش گروپ’’ میں چند بے لوث خدمات انجام دینے والے حضرات ہیں ۔جو گروپ پر گمشدگی کی خبر موصول ہوتے ہی حرکت میں آجاتے ہیں۔ ضیاء الرحمان انصاری عرف ضیاء مسکان نے 2017میں یہ گروپ تشکیل دیاتھا۔اِس گروپ نے مشترکہ کوششوں کے سبب اب تک تقریباً 20 ہزار بچوں کو ان کے گھر پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

جو بھٹک گئے ہوں انہیں رستہ بتاؤں

               سماجی کارکن ضیاء مسکان اور ان کا گروپ پولس انتظامیہ سے مستقل رابطہ میں رہتا ہے۔ضیاء مسکان نے آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ‘‘ہمارا گروپ صرف مالیگاؤں تک محدود نہیں ہے بلکہ مراٹھواڑہ،خاندیش،مغربی مہاراشٹر ،ممبئی وغیرہ میں بھی ہمارے گروپ کے ارکان گمشدہ بچوں کی تلاش میں پولس و انتظامیہ کی مدد کرتے ہیں۔’’شہر و مضافات سے گُم ہوئے یا اغوا ہوئے بچوں کو تلاش کر کے اُن کے والدین اور رشتے داروں تک پہنچانے کے لیے متحرک یہ ٹیم نئی ٹکنالوجی کابہترین استعمال کر کے گمشدہ بچوں کو اُن کے گھر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ ضیاء مسکان کہتے ہیں کہ‘‘ہمارے گروپ میں سرکاری ملازمین و اہلکار،سماجی خدمت گار،اخباری نمائندے اور شہر کے تقریباً ہر محلّے سے لوگ شامل ہیں۔’’گروپ ایڈمن ضیاء مسکان اپنے لائحہ عمل کے متعلق بتاتے ہیں کہ‘‘شہر کے کسی بھی علاقے میں کسی بچے کے ملنے یا گمشدہ ہونے کی اطلاع جیسے ہی ہم تک پہنچتی ہے تو سب سے پہلے اُس بچے کی تصویر اور بچے کی تفصیل پر مبنی ایک پوسٹ تیار کرکے وہ اپنے واٹس ایپ گروپ پر شیئر کر دیتے ہیں۔کچھ ہی دیر میں بچے کے گمشدہ ہونے کی خبر وائرل ہو جاتی ہے۔اکثر مختصر وقت میں ہی بچے کے متعلق ہمیں معلومات مل جاتی ہیں اور پھر ہم اُسے مکمل تفتیش اور تصدیق کے بعد ہی والدین کے حوالے کرتے ہیں۔جس کے لیے ہم متعلقہ پولس سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔’’واضح رہے کہ یہ پوری ٹیم محض انسانیت ا ور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہوکر کام کرتی ہے۔اِس کام میں ضیاء مسکان اور ان کے ساتھی ضرورت پڑنے پر تمام اخراجات بھی خود اٹھاتے ہیں۔ضیاء مسکان آکسیجن سلینڈر کی سپلائی کا کاروبار کرتے ہیں۔

awazurduضیا مسکان اور ان کے ساتھی بچھڑوں کو ملانے کا مشن انجم دے رہے ہیں


awazurduمالیگاوں کے لیے یہ گروپ بہت بڑی خدمت انجام دے رہا ہے 


کام یہ صبح و شام کریں گے

               ‘‘2010 میں میرے پڑوس میں رہنے والا ایک بچہ کوئی ڈھائی سال کے ایک بچے کو میرے پاس لایا تھا۔اُسے وہ بچہ روتا ہوا ملا تھا۔حالانکہ اُس وقت واٹس ایپ اتنا عام نہیں تھا ۔لیکن میں نے کچھ سوچ کر بچے کا حلیہ اور اُس کی تفصیل اپنے دوستوں کو بھیج دی۔تقریباً 45 منٹ کے اندر ہی بچے کے والدین تک خبر پہنچ گئی۔’’وہ خوش ہوتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مجھے محسوس ہوا کہ سوشل میڈیا کا بہتر استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ابتدا میں انہیں لوگوں کا زیادہ تعاون نہیں ملا مگر میں نے اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ میری کوششوں کو سراہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ وقت بھی آیا جب

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

گلشن کے سب رکھوالوں پر فرض ہے اُن کا دھیان

awazurdu ضیاء مسکان اور ان کا گروپ  پولیس کے لیے بھی بہت مددگار ثابت ہوا ہے


 پولیس نے کئی مرتبہ ضیاء مسکان اور ان کا گروپ  کو ایوارڈ سے نوازا ہے


               ضیاء مسکان مالیگاؤں میں برسوں پہلے گمشدہ بچوں کے متعلق کیے جانے والی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘1955 میں صادق سر مرحوم اور ماسٹر محمد ہارون نے گمشدہ ہونے والے بچوں کی تلاش کا کام شروع کیا تھا۔ان دونوں افراد نے مل کر کمسن بچوں کو تحفظ دینے کا کام بھی کیا۔بچوں کو ان کے گھروں تک بہ خیرو عافیت پہنچانے کے لیے انہیں بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔صادق سر کے انتقال کے بعد ہارون ماسٹر یہ ذمّہ داری سنبھالتے رہے ۔ اب وہ کافی ضعیف اور کمزور ہو گئے ہیں۔اِس لیے اب اُن کی سرپرستی میں یہ خدمت ‘‘گمشدہ بچوں کی تلاش گروپ ’’ کے نوجوان انجام دے رہے ہیں۔’’وہ بتاتے ہیں کہ کئی بار ان کی ٹیم نے اغوا ہوئے بچوں کی بازیابی میں بھی مدد کی۔ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بچے کے سگے چچا نے اُس کا اغوا کر لیا تھا۔پوری ٹیم نے سمجھداری اور تال میل کے ساتھ کام کرتے ہوئے اُس بچے کو آزاد کرایا اور پھربچے کو پولس کی موجودگی میں اُس کے والدین کے سپرد کیا تھا۔وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کئی مرتبہ نہ تو بچے گُم ہوتے ہیں اور نہ ہی اغوا ہوتے ہیں بلکہ خود گھر سے بھاگ جاتے ہیں ۔ایسے بچوں کو اُن کے والدین کے سپرد کرنے سے پہلے بچوں کو تلاش کرنے میں بہت زیادہ محنت اور وقت لگتا ہے۔ایسے ہی ایک واقعہ کے متعلق انہوں نے بتایا کہ‘‘دو بچے بھیونڈی سے مالیگاؤں ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔مگر آٹھ دن میں ہی وہ مدرسے سے بھاگ گئے۔مدرسے کے ذمّہ داران انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہے اورپھر انہوں نے ‘‘گمشدہ بچوں کی تلاش گروپ’’ سے رابطہ قائم کیا۔ گروپ نے اپنے مخصوص انداز میں سرچ آپریشن شروع کیا ۔اور بچوں کو واپس مدرسہ پہنچائے بنا دم نہیں لیا۔’’چونکہ یہ بچے نہ تو گُم ہوئے تھے اور نہ ہی اغوا ۔اِس لیے انہیں تلاش کرنے میں گروپ کو اٹھارہ گھنٹوں کی سخت محنت کے بعد کامیابی حاصل ہو سکی تھی۔

گم شدہ میں ہوں تو۔۔۔!

               ‘‘بچوں کے گُم ہو جانے کے بعد بچے تو رو ہی رہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب والدین کی حالت بھی بہت خراب ہوتی ہے۔والدہ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو تو بچہ مل جانے کے بعد بھی بند نہیں ہوتے۔بچوں کے گھر واپس پہنچ جانے کے بعد جو اطمینان اور سکون مجھے ملتا ہے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔’’بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں کا پتہ بھول چکے بزرگ افراد کو بھی ضیاء مسکان اور ان کی ٹیم گھر تک پہنچاتی رہی ہے۔اکثر ذہنی معذور افراد بھی بھٹک جاتے ہیں جن کو ان کے گھروں تک پہنچانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔مگر اب یہ ٹیم ہر گمشدہ شخص کو ایک چیلینج کی طرح لیتی ہے اور جب تک کام مکمل نہ ہو جائے یہ آرام سے نہیں بیٹھتے۔ضیاء مسکان کہتے ہیں کہ‘‘ایسا نہیں ہے کہ ہر بار ہم کامیاب ہو ہی جائیں۔کچھ ایسے بچے بھی ہیں جنہیں ہم لگاتار تلاش کر رہے ہیں۔حالانکہ ایسے بچوں کے تعداد کم ہے مگر ہر بچہ اپنے گھر والوں کے لیے اہم ہے۔’’ایک بچے کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ہم ابھی تک اسے ڈھونڈ نہیں پائے ہیں۔لیکن اسے تلاش کرنے کی ہماری کوشش جاری ہے۔

awazurdu  مالیگاوں  میں پولیس اور لاپتہ لوگوں کے رشتہ داروں کے لیے ضیاء مسکان اور ان  کا گروپ  ایک بڑی امید ہوتا ہے

 


awazurdu ضیاء مسکان اور ان کا گروپ ایک بڑی سماجی خدمت انجام دے رہا ہے 


سب کے لیے سوچیں گے بھلائی

               چھوٹے، معصوم بچے غلط ہاتھوں میں بھی پڑ سکتے ہیں۔اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے ضیاء مسکان مزید کہتے ہیں کہ ‘‘ہر سال ایک بڑی تعداد میں بچے گُم ہو جاتے ہیں۔کچھ خوش قسمت واپس اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہوتی ہے جو کبھی واپس اپنے گھر نہیں پہنچ پاتے۔ہماری پوری ٹیم ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ بچے کے کسی غلط ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے ہم بچے تک پہنچ جائیں اور اُسے خیریت کے ساتھ اُس کے گھروالوں تک پہنچا دیں۔’’ضیاء مسکان کو شکایت ہے کہ کافی بڑے بچے بھی اپنے گھر کا پتہ یا فون نمبر تک نہیں بتا پاتے۔دوسرے یہ کہ جب لوگ اپنے رشتے داروں کے گھر ملنے کے لیے نئے شہر میں آتے ہیں تو بچے راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ ضیاء مسکان اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چھٹیوں کے دوران بچوں کے گمشدہ ہونے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ہمیں بچوں کے گمشدہ ہونے کی کئی گنا زیادہ خبریں ملتی ہیں۔وہ لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں اور انہیں اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں ورنہ ہر بار آپ کا بچہ گھر واپس پہنچ سکے یہ ضروری نہیں ہے۔

awazurdu

awazurdu