محفوظ عالم : پٹنہ
سیاحت ہو، تجارت ہو یا سماج کی ترقی، بغیر مذہبی رواداری اور آپسی خیر سگالی کے ممکن نہیں ہے۔ آپسی بھائی چارہ کسی بھی سوسائٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی ہے۔ صوفیوں نے کثیرالمذاہب اس ملک میں قومی یکجہتی قائم کرنے اور بھلائی کے کاموں کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کی مثال قائم کی ہے۔ سماج کو تعلیم یافتہ بنانے کا ایک ایسا مشن شروع کیا جس پر آج بھی لوگ کام کر رہے ہیں۔
بہار ٹورازم کنکلیو 2024 سے خطاب کرتے ہوئے معروف اسلامک اسکالر اور خانقاہ منعمیہ میتن گھاٹ پٹنہ سیٹی کے سجادہ نشین ڈاکٹر مولانا شمیم الدین احمد منعمی نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
صوفیوں کی سرزمین ہے بہار
بہار وہ سرزمین ہے جہاں گوتم بودھ، مہاویر جین اور گورو گووند سنگھ جیسے عظیم مذہبی پیشوا آئے اور انہوں نے معاشرہ اور لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کی کوشش کی۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں صوفیوں نے لوگوں کے بیچ خوشحالی کا چراغ روشن کیا۔ عظیم صوفی مخدوم جہاں شیخ سرف الدین یحییٰ منیری وہ عظیم ہستی گزرے ہیں جن کی تعلیمات سے آج بھی پورا ملک روشن ہے۔ صوفی ازم کو پوری دنیا جانتی ہے لیکن صوفی ازم پر لکھنے اور قلم بند کرنے کا کام بہار میں ہوا ہے۔ وہ پہلا شخص جس نے صوفی ازم پر لکھا اور اسے ایک تعلیم کا شکل دیا وہ مخدوم جہاں شیخ سرف الدین یحییٰ منیری ہیں۔ ان کی پیدائش منیر ہے اور میدان عمل بہار شریف ہے۔ عربی، فارسی اور ہندی تینوں زبانوں میں انہوں نے کام کیا۔
امیر خسرو دلی میں تھے لیکن ان کی جگہ بہار نے لی
ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کے مطابق شیخ سرف الدین یحییٰ منیری عربی، فارسی اور ہندی کے بڑے اسکالر تھے۔ امیر خسرو کے فورن بعد بہار میں انہوں نے خسرو کی جگہ لے لی۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بہار میں سیاحت کو اس طرح سے ترقی کرے اور بتائیں کہ خسرو دلی میں ضرور تھے لیکن خسرو کے بعد جس نے ہندی کو دنیا میں پہچان دلایا وہ جگہ بہار ہے۔ اس کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ نالندہ یونیورسیٹی سنسکرت، عربی، فارسی کا ایک اہم مرکز رہا ہے جسے دیکھ کر دنیا حیرت کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ مخدوم جہاں شیخ سرف الدین یحییٰ منیری نے بہار میں ایک انقلاب لایا اور خط کے ذریعہ لوگوں کو تعلیم دینے کی شروعات کی۔ انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ مذہبی تبلیغ کی، سماجی فلاح کی بنیاد ڈالی اور آپسی خیر سگالی کا ماحول قائم کیا بلکہ اس زمانہ میں خط و کتابت سے تعلیم کا آغاز کیا اور کہا کہ کوئی دور ہے تو اسے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کوئی سوال کسی کے ذہن میں ہو وہ پوچھے اس کا جواب لکھ کر بھیج دوں گا۔ قریب 1700 خط لکھا گیا، اوفیسروں کے نام، مختلف عہدہ پر فائض لوگوں کے نام اور عام لوگوں کے نام۔ دنیا جانتی ہے کہ بہار ایک ایسی جگہ ہے جہاں کورس پانڈیس کورس کی طرح 13ویں صدی میں خط کے ذریعہ تعلیم پہنچایا جا رہا تھا۔
سبھی مذاہب میں جو مشترکہ چیز ہو اس پر کریں غور
ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ بہار میں ٹورازم کو ضرور بڑھایا جانا چاہئے۔ اور اس پر بھی کوشش کیا جانا چاہئے جو سبھی مذاہب میں مشترکہ ہو اور وہ سماج میں ایک پل کا کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ صوفیوں کے دربار میں سبھی حاضر ہوتے ہیں۔ ایک بار اس دربار میں ایک جوگی آیا اور کہا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، بال پک گئے ہیں لیکن میرا مقصد پورا نہیں ہوا ہے۔ صوفی سنت نے پوچھا کہ تمہارا مقصد کیا ہے۔ جوگی نے کہا کہ میں کرشن بھگت ہوں اور میں ان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ بات ایک مسلم صوفی سے کہا جا رہا ہے۔ اس صوفی سنت نے کہا کہ میری آنکھوں میں دیکھو، تھوڑی دیر میں دیکھا گیا کہ وہ جوگی ناچنے لگا اور ناچتے ناچتے بیہوش ہو گیا۔ ہوش میں آیا تو اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا میں ورن داون میں کھڑا ہوں اور ہر طرف بانسری بجائی جا رہی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کا خالق اور پیدا کرنے والا وہ ایک ہی ہے۔
ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ کسی بھی صوبہ اور ملک کی خوشحالی کے لیے شانتی کا انتظام، آپسی پیار اور امن و محبت ہونا ضروری ہے۔ یہ کام ہوگا تو ملک ترقی کرے گا اور سیاحت کا بھی فروغ ہوگا۔ ان کے مطابق ایک دوسرے کو جاننا بھی ضروری ہے، یہ شوق ہونا چاہئے کے ایک دوسرے مذاہب کے متعلق جانکاری ہو تاکہ غلطفہمیوں کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے۔ اگر کوئی ہندو مذہب کو نہیں جانتا ہے، بودھ مذہب کے بارے میں جانکاری نہیں رکھتا ہے یا اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے تو یہ اچھا نہیں ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کو جانیں گے تو محبت ہوگی اور اس معاملہ میں بھی لوگوں کو صحیح جانکاری ہونی چاہئے اور صحیح لوگوں سے مسئلہ کو پوچھا جانا چاہئے تاکہ صحیح علم حاصل ہو سکے۔
دنیا کو دکھانے کے لئے بہار میں ہے بہت کچھ
ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کا کہنا ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، گوتم بدھ کو یہاں سے تعلیم ملنے کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ بہار سب کی نگاہ میں آنے والا ریاست ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک عالم اور مذہبی پیشوا آئے اور انہوں نے پوری دنیا کو امن و آشتی اور محبت و بھائی چارہ کا پیغام دیا۔ آج بھی دنیا کو دکھانے کے لیے بہار میں بہت کچھ ہے۔ یہ جگہ تاریخی اعتبار سے کافی اہم رہا ہے۔ بہار کے بغیر تاریخ ادھوری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلی ملک کی دارالحکومت ہے لیکن دلی کے پاس گوتم بدھ، مہاویر جین، مخدوم جہاں شیخ سرف الدین یحییٰ منیریؒ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاحت سے لوگوں کو تعلیم حاصل ہوتی ہے وہ براہ راست تجربہ کرتے ہیں اور چیزوں کو قریب سے محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ سبھی مذاہب میں آپسی بھائی چارہ ہو اور قومی یکجہتی مضبوط ہو تاکہ جو لوگ بہار کو دیکھنے آئیں گے وہ یہاں کی عظیم وراثت اور تاریخی واقعات سے سبق لیں اور وہ اپنے علم و ادب میں مزید اضافہ کر سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمانداری سے کام کیا جائے اور پر امن ماحول اور سازگار فضا قائم کرنے کے سلسلے میں ہر شخص اپنی سطح سے ضرور کوشش کرتا رہے۔