رمضان اور اردو شاعری: روحانی اور ادبی جلوے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-03-2025
رمضان اور اردو شاعری: روحانی اور ادبی جلوے
رمضان اور اردو شاعری: روحانی اور ادبی جلوے

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی 

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی روحانی برکتوں، رحمتوں اور نورانی جلوؤں کے ساتھ ہر سال اہلِ ایمان کے دلوں کو منور کرتا ہے۔ رمضان المبارک صرف ایک مہینہ نہیں بلکہ روحانی تربیت، سماجی یگانگت اور تہذیبی رنگا رنگی کا حسین امتزاج ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف عبادات اور ریاضتوں کا عروج لیے ہوتا ہے بلکہ اسلامی ادب اور شاعری میں بھی اسے منفرد مقام حاصل ہے۔ شعراء کرام نے اپنے کلام میں رمضان کی عظمت، روزے کی فضیلت، عبادات کی روحانیت، اور اس مہینے کے معاشرتی و اخلاقی اثرات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ رمضان کے شب و روز، اس کی محفلیں، سحری و افطاری کے مناظر، اور سماجی و ثقافتی روایات ہمیشہ ہی سے شعرا کی توجہ کا مرکز رہی ہیں.

مغل دور، نوابی اور بادشاہی ادوار میں رمضان کی رونقیں ایک خاص انداز لیے ہوتی تھیں۔ محلات میں خصوصی محافل منعقد کی جاتیں جہاں قرآن خوانی کے ساتھ نعتیہ اور صوفیانہ مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ شعرا کو دعوت دی جاتی کہ وہ رمضان کی برکتوں پر اشعار سنائیں۔ لکھنؤ، دہلی، حیدرآباد اور دیگر ثقافتی مراکز میں رمضان کی راتیں مشاعروں اور محفلوں سے جگمگاتی تھیں۔

یہ روایت رفتہ رفتہ عوامی سطح پر بھی مقبول ہوئی، اور رمضان میں ایسی سحری جگانے والی ٹولیاں وجود میں آئیں جو نہ صرف شعری انداز میں سحری کا اعلان کرتیں بلکہ رمضان کے فضائل بھی بیان کرتیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی فضا میں ایک خاص روحانی کیفیت محسوس کی جاتی ہے۔ ہر طرف نورانیت، سحری و افطار کے حسین مناظر، مساجد میں عبادات کا جوش و خروش، اور قرآن کی تلاوت سے گونجتی ہوئی محفلیں دلوں کو ایک نئی تازگی بخشتی ہیں۔رمضان کی عبادتوں اور تقدس کو شاعروں نے ہمیشہ منفرد انداز میں پیش کیا۔ اسی کیفیت کو شاعر معین گریڈیہوی کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

"میں کیا لکھوں اے صائموں اب اس کی شان میں

خوشیاں ہیں روزے دار کے ہر اک مکان میں"

یہ شعر رمضان کے ان لمحات کی تصویر کشی کرتا ہے جب گھروں میں خوشیوں کا سماں ہوتا ہے اور ہر طرف رحمتوں کی برسات نظر آتی ہے۔یہ صرف خوشیوں کی بات نہیں بلکہ رمضان کی رحمتوں کا اقرار بھی ہے:

"فضل خدا سے رحمت و انوار کی حسیں

ہونے لگی ہیں بارشیں سارے جہاں میں"

یہ اشعار اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ روزے داروں کے چہرے پر ایک الگ ہی نور ہوتا ہے، اور یہ مہینہ محض بھوک پیاس برداشت کرنے کا نہیں بلکہ حقیقی روحانی ترقی اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے.

روزہ صرف بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو صبر، تقویٰ اور ضبطِ نفس کی عادت پیدا کرتا ہے۔ یہ خود کو خواہشات سے روکنے اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ شاعر نے روزے کی برکتوں کو یوں بیان کیا ہے:

"چہرا چمک رہا ہے ابھی روزے دار کا

جو مشکلیں تھیں ٹل گئیں سب ایک آن میں"

یہ شعر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ روزہ جسمانی مشقت کے باوجود ایک روحانی طہارت اور اندرونی روشنی کا ذریعہ بنتا ہے۔

اردو کے نامور شعراء نے رمضان کے تقدس کو بیان کرنے کے لیے خوبصورت اشعار کہے ہیں، جو اس مہینے کے روحانی اثرات اور عبادات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔الطاف حسین حالی نے روزوں کی فضیلت کچھ یوں بیان کی:

"یہ فیض ہے رمضان کے روزوں کا اے حالی

دل پاک ہوا، روح کو تسکین ملی ہے"

یہ شعر روزے کی روحانی برکات کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح رمضان میں دل و دماغ کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے۔رمضان  صبر اور تقویٰ کا درس دیتا ہے، اور شعراء نے اس پہلو کو بھی اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔

"سحر و افطار میں ہے رازِ عبادت پنہاں

یہ مہینہ ہے خدائی کی عنایت کی مثال"

سحری کا وقت رمضان کا ایک خاص پہلو ہوتا ہے جس میں بندۂ مومن اللہ کی رضا کے لیے خوراک تناول کرتا ہے اور روزے کی نیت کرتا ہے۔ لکھنؤ اور دہلی جیسے ادبی مراکز میں رمضان کی سحری جگانے والی ٹولیاں اپنی خاص پہچان رکھتی تھیں۔ یہ ٹولیاں پورے شہر میں گھوم کر شعری انداز میں سحری کی یاد دہانی کراتیں۔ سحری کی شاعری میں نہ صرف روزے کے فضائل بیان کیے جاتے بلکہ کچھ اشعار میں اس مہینے کی سادگی اور اتحاد کی خوبصورتی کو بھی اجاگر کیا جاتا تھا۔

"جگمگ ہے گاؤں شہر، مکان، مسجدیں ہر سو

خوشیاں ہیں بوڑھے بچے ہر اک نوجوان میں"

یہ اشعار رمضان کی رونق اور سماجی ہم آہنگی کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں۔سحریجگانے والی ٹولیاں ایکخوبصورت ثقافتی روایت رہی ہیں، جو رمضان کی مخصوص پہچان بن گی تھیں۔ لکھنؤ جیسے شہروں میں سحری کے اعلانات اور نعتیہ اشعار سنانے کا ایک خاص انداز ہوا کرتا تھا۔یہ روایت نہ صرف لوگوں کو سحری کے لیے جگانے کا ذریعہ تھی بلکہ رمضان کی برکات کو یاد دلانے کا بھی ایک منفرد انداز تھا۔

افطار کا وقت ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے جو روزے دار کے لیے بے پناہ خوشی کا باعث بنتی ہے۔ اس وقت دعا کی قبولیت، اللہ کی رحمت، اور رزق کے شکر کا احساس غالب ہوتا ہے۔مگر بعض اوقات افطار کا استعمال نمائشی انداز میں بھی کیا جاتا ہے،اگرچہ رمضان کو زیادہ تر عقیدت و احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، مگر کچھ شعرا نے طنزیہ انداز میں معاشرتی تضادات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جدید دور میں رمضان کی اصل روح کو نظرانداز کر کے محض دکھاوے کی عبادات کرنے والے افراد پر ایک طنزیہ نظر ڈالتی ہوئی شاعری بھی موجود ہے:

"نہیں روزے سے ہیں تو کیا، اداکاری تو کرنی ہے

امیر شہر کی دعوت ہے، افطاری تو کرنی ہے"

یہاں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگ رمضان میں مذہبی جوش و خروش کا مظاہرہ صرف رسمی طور پر کرتے ہیں، جبکہ اصل تقویٰ اور سادگی کہیں کھو جاتی ہے۔

"جہاں پر لومڑی کی طرح ہر چہرہ نظر آئے

وہاں تھوڑی بہت ہم کو بھی عیاری تو کرنی ہے"

یہ مصرعہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ معاشرے میں رمضان کے تقدس کو بھی بعض لوگ اپنی مطلب پرستی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یہ اشعار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ کچھ لوگ رمضان کو محض ایک رسم و رواج کے طور پر اپناتے ہیں، جبکہ اس کی اصل روح کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

رمضان صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا مہینہ ہے جو سماجی برائیوں کو ختم کرنے، انصاف قائم کرنے اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا درس دیتا ہے۔ رمضان ایک ایسا امتحان ہے جس میں کامیابی حاصل کرنے والا شخص ہی اصل معنوں میں کامیاب قرار پاتا ہے۔ شاعر نے اس کامیابی کو یوں بیان کیا:

"دل سے معین رکھا ہے روزہ کو جس نے بھی

سمجھو کہ پاس ہو گیا وہ امتحان میں"

یہ شعر اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ روزہ رکھنے کا اصل مقصد صرف بھوکا رہنا نہیں بلکہ اس کے روحانی فوائد کو حاصل کرنا ہے۔

رمضان محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔ قدیم دور میں بادشاہوں کے دربار سے لے کر گلی محلوں تک، رمضان کی محافل کا رنگ منفرد ہوتا تھا۔ آج بھی رمضان کی راتوں میں نعتیہ مشاعرے، محافلِ ذکر اور خصوصی شبینہ محافل اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

"یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رمضان شاعروں کے لیے محض ایک مذہبی موقع نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی تجربہ ہے، جہاں عبادات کے ساتھ ساتھ فن اور ادب کی لطافت بھی شامل ہو جاتی ہےشاعری کی یہی خوبی ہے کہ وہ کسی بھی روایت، جذبے اور موقع کو نہ صرف محفوظ رکھتی ہے بلکہ اسے ایک لازوال شکل بھی دیتی

رمضان شاعری میں ایک منفرد اور حسین موضوع کے طور پر شامل رہا ہے۔ چاہے وہ رمضان کی برکات کا ذکر ہو، روزے کی فضیلت ہو، سحری و افطار کے دلکش مناظر ہوں یا معاشرتی اصلاح کا درس، شعراء کرام نے ہمیشہ اپنی شاعری میں رمضان کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ یہ مقدس مہینہ نہ صرف ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ہے بلکہ اس کی عظمت کو لفظوں میں سمو کر شعراء نے ایک لازوال ادبی سرمایہ تخلیق کیا ہے۔

"اللہ بخش دے گا خطا روزے دار کی

رکھیں ہمیشہ تازگی ذکر و بیان کی"

رمضان صرف روزوں اور عبادات کا مہینہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی تربیت گاہ بھی ہے، جہاں بندہ اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر قربِ الہیٰ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شعراء نے اپنی شاعری کے ذریعے اس مقدس مہینے کی فضیلت، برکات، اور عبادات کی روح کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ان اشعار کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ رمضان اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جو ہمیں اپنی اصلاح اور مغفرت کا موقع فراہم کرتی ہے

یہی رمضان کا حقیقی پیغام ہے کہ ہم اپنے کردار کو سنواریں، اپنی روح کو پاک کریں اور اللہ کی رحمتوں کو سمیٹنے کی کوشش کریں۔