پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 20-08-2024
 پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر

 

        ڈاکٹر عمیر منظر
         تحریک آزادی ہند کی تاریخ اردو شاعری کے ذکر کے بغر مکمل نہیں ہوسکتی۔پہلی ناکام جنگ آزادی (1857)نے تو پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف ایک صور پھونک دیا تھا مگر اس سے بہت پہلے ملک کے طول و عرض میں الگ الگ محاذ پر ہندستان کے لوگ انگریزوں سے مزاحم تھے۔ان سے لڑرہے تھے اور برطانوی سامراج کے لیے ایک چیلنج بن رہے تھے۔وطن سے محبت اور جاں نثاری کی تاریخ رقم کررہے تھے۔تاریخ کے ایک لمبے سفر کے بعد جب ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو بظاہر یہ سب ایک خواب لگتا ہے۔ جن ترقیوں سے اب ہم لطف اندوز ہورہے ہیں اس وقت کے حالات کا اندازہ شاید نہ کرسکیں مگر وطن سے محبت اور اس کے لیے مر مٹنے کاوہ جذبہ ہی تھا جس نے انگریزوں کو واپس جانے پر مجبور کردیا۔
تحریک آزادی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اور اس پر لکھنے والوں کے لیے بے شمار واقعات ہیں۔ قربانی کی ایک ایک حیرت انگیز داستانیں ہیں۔وطن پر نثار ہونے کا بے پناہ جذبہ ہے۔اپنے اپنے اعتبار سے اور اپنی اپنی سطح سے ہر شخص ہندستان سے محبت کی داستان رقم کررہا ہے۔شاعر تو معاشرہ کا ترجمان ہوتا ہے وہ لوگوں کے جذبات و احساسات کو پیش کرتا ہے۔اس کے سامنے سماج کا ایک ایک فرد ایک اجتماعی جذبے کی داستان بن جاتا ہے اور پھر لفظوں سے وہ ان کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ سب کے اندر جوش اورجذبے کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔اردو شاعری نے ٹیپو سلطان کی شجاعت سے بہادر شاہ ظفر کی اسیری تک کو تحریک آزادی کے تناظر میں اس طرح پیش کردیا ہے کہ اس کے بغیر آزادی کی اس تحریک کی تاریخ رقم نہیں کی جاسکتی۔
ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ بہت پہلے انگریزوں کی چالوں کو بھانپ چکے تھے اور اسی لیے ان کی سخت مزاحمت نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیے تھے۔دونوں انگریزوں سے نہیں ہارے بلکہ اپنوں کی غداری اور سازش کا شکار ہوئے۔سراج الدولہ کے دست راست میر مدن اور موہن نے اپنی مٹی کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا ندرانہ پیش کردیا۔ان کی شہادت کو کسی شاعر نے دومصروں میں نظم کرکے تاریخ کے اس صفحے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔
للکاریں وہ گونجتے رن کی
موہن لعل اور میر مدن کی
پٹنہ کے صوبیدار راج راجہ رام نرائن لال موزوں نے سراج الدولہ کی شہادت (1757)پر ایک شعر کہہ کر قوم کو بیدار کرنے کا کام کیا۔یہی شعر ان کی پہچان بھی بن گیا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پر کیا گزری
ٹیپو سلطان نے شجاعت وبہادری کا جو غیر معمولی مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔انگریزاس کے نام سے خوف کھاتے تھے وہ جواں مردی اور شجاعت کی علامت بن کرزندہ رہے۔آج بھی ایک سچے محب وطن کے طور پر ان کا نام لیا جاتا ہے ایک فتح کے موقع سعادت یار خاں رنگین نے سات ز بانوں پر مشتمل قصیدہ لکھا۔یہ قصیدہ رنگین کے سیاسی شعور کا تعارف ہی نہیں پیش کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ بادشاہ کتنی زبانیں جانتے تھے نیز انگریزوں کی تضحیک و تذلیل کا ادبی پیرایہ بھی ان کے یہاں کیسا تھا۔
کیوں نہ شاہاں جہاں سے ہوئے تجھ کوبرتری
ہے کہ جس سے آشکارا تیری شان حیدری
آج  ہفت اقلیم میں تیرا کوئی ثانی نہیں
کس کی طاقت ہے کہ تجھ سے کرسکے وہ ہم سری
چاہیے کنگ فرنگ کو اپنے سمجھے وہ کوئی
جو کہ دروازے پہ تیرے ہو تلنگا سنتری
شعرا نے ایک طرف جہاں بہت وضاحت کے ساتھ انگریزوں کے ظلم و جبر کی داستان لکھی تو دوسری طرف غزل کے عام اسلوب میں بھی اس حکایت کو بیان کیا میر کا ایک شعر اسی واقعہ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔
جس جا کہ خس وخاک کے اب ڈ ھیر لگے ہیں
واں ہم نے انھیں آنکھوں سے دیکھی ہیں بہاریں
سوادا کہتے ہیں
باغ دلی میں جو اک روز ہوا میرا گزر
نہ وہ گل ہی نظر آیا،نہ وہ گلشن نہ بہار
میر عبدالحئی تاباں،مصحفی،نظیر،رضا برق،آزردہ،منیر شکوہ آبادی،جوہر فرخ آبادی،بہادر شاہ ظفر، سالک دہلوی،ظہیر دہلوی،داغ،حکیم آغاجان عیش،اور حافظ غلام دستگیر مبین وغیرہ کا کلام آزادی کی سمت و رفتار اور عام ہندستانیوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔مرزا غالب اگرچہ اعلی درجے کے فن کار تھے مگر 1857کے حادثے کا ان پر غیر معمولی اثر ہوا۔ایک خط میں انھوں نے صرف ایک جملہ میں پوری تباہی کی داستان رقم کردی۔،شہر صحرا ہوگیا ہے‘۔جبکہ ایک دوسرے خط میں انھوں نے لکھا ”دلی واللہ اب شہر نہیں،کیمپ ہے،چھاونی ہے،نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار“۔ایک منظوم خط میں تباہی کی اس داستان اور بے چارگی کے ان ایام کی جو تصویر کشی کی ہے اس میں کتنا درد اور مایوسی ہے۔ملاحظہ کریں۔
 
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل  ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جاسکے یاں کا
تباہی کی اس داستان کا کوئی ایک پہلو نہیں ہے۔شیفتہ،مفتی صدرالدین آزردہ کو گرفتار کیا گیا،منیر شکوہ آبادی،نواب باندہ علی بہادر خاں اور ولایت حسین کو کالے پانی کی سزا دی گئی۔مگر ان سزاؤں اور اذیتوں کے باوجود کسی کی زبان بند نہیں کی جاسکی۔منیر شکوہ آبادی نے تو ”مصائب قید“کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار سے قید کی اذیتوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔
کچھ شدائد قید کے کہہ دوں اگر
خون ٹپکے ہر لب تحریر سے
باندہ کے زنداں میں لاکھوں ستم
سہتے تھے ہم گردش تقدیر سے
گھاس ترکاری کے بدلے تھی نصیب
خشک تر تھی سبزہ شمشیر سے
بھینس کی سانی سے بدتر دال تھی
سخت دانہ،دانہئ زنجیر سے
کوٹھری گرمی میں دوزخ سے فزوں
دست و پابد تر تھے آتش گیر سے
کانپتے تھے موسم سرما میں یوں
جیسے عریاں سردیئ کشمیر سے
واجد علی شاہ اختر نے بھی ایک مثنوی میں اپنے مصائب کاذکر کیا ہے۔حزن اختر میں معزولی کے بعد کی پوری داستان ہی تقریباً آگئی ہے۔
کوئی رنج زنداں میں ایسا نہیں
جو اس بے سروپا کو پہنچا نہیں
لکھنو کے شعرا نے بھی مجاہدین آزادی کے حوصلوں کو مہمیز دی اور برطانوی سامراج کے ظلم و جبر کی داستان پیش کی۔ عاشق لکھنوی کے بقول۔
محلے ہیں سنسان کوچے اجاڑ
گرا لکھنو پر ہے غم کا پہاڑ
شبلی نے ز مانے کے متعدد اہم واقعات پر نظمیں لکھیں۔واقعہ کان پور،تقسیم بنگال،شہر آشوب اسلام وغیرہ کے نام سے۔ان کا شعر ہے۔
گھروں کو لوٹنے کے بعد زندوں کو جلا دینا
بلا دمغربی کے یہ نئے آئین دیکھے ہیں
برطانوی تسلط کے بعد اگرچہ پورے ملک پر ایک خاص کیفیت طاری تھی مگر جدوجہد اور آزادی کے لیے کوششیں برابر جاری رہیں اور ان کوششوں کو شعرا کے کلام سے مہمیز ملتی رہی۔پورے ملک میں الگ الگ ناموں سے لوگوں نے تنظیمیں اور جماعتیں بنائیں اور اس کے تحت اس لڑائی کو جاری رکھا۔1857میں شکست ضرورہوئی مگر اس نے وطنیت کے جذبے کو ابھاردیا۔لوگوں میں وطن سے محبت کا جذبہ بیدار ہونے لگا۔اور بے شمار نظمیں وطن سے محبت اور تعلق کی بنیاد پر کہی جانے لگیں۔حالی کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں۔
اے وطن اے مرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسمان وز میں
تیری اک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہر گز اگر بہشت ملے
محمد حسین آزاد،اسماعیل میرٹھی،چکبست،سرورجہان آبادی،اقبال،سلیم پانی پتی،اکبر،تلوک چند محروم وغیرہ کی شاعری نے ایک نیا پیغام اور ایک نیا ولولہ عام ہندستانیوں کو دیا۔اور اس طرح رفتہ رفتہ آزادی کی لڑائی تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔اکبرالہ آبادی نے ایک واضح پیغام دیا۔
کہتا ہوں میں ہندو مسلماں سے یہی
اپنی اپنی روش پہ تم نیک رہو
لاٹھی ہے ہوائے دہر پانی بن جاؤ
موجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہو
1905میں سودیشی تحریک شروع ہوا۔دیکھتے دیکھتے یہ تحریک عوام میں نہ صرف مقبول ہوتی گئی بلکہ اس نے برطانوی معیشت پر ایک کاری وار کردیا۔اس موقع پر شعرا نے سیاست دانوں کے اس فیصلہ کو اپنی شاعری کے توسط سے عوام میں پہنچانے کا کام کیا۔
سوراج کی پڑی ہے تو پیچھے پڑے رہو
منزل اگر کڑی ہے تو تم بھی کڑے رہو
جو کام ہوسکے وہ کرو قوم کے لیے
جس جس جگہ کے تم ہو نگینے جڑے رہو
امام الدین خاں راقب
ایک رہنے کا یہی پیغام سیاسی رہنماؤں نے بھی دیا یہاں تک کہ وہ منزل نظر آنے لگی۔جوش نے پیش گوئی کی۔
وہ ہندزنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں  
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی ز نجیریں
جوش ملیح آبادی نے آزادی کی اس پوری تحریک کی کیا خوب منظر کشی کی ہے۔حالانکہ شعرا نے امید ویقین کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا اور بار بار یہ یقین دلایا تھا کہ ہم سوراج دیکھیں گے۔لالہ چند فلک نے کہا تھا۔
کبھی وہ دن بھی آئے گا کہ ہم سوراج دیکھیں گے
دیار ہند میں پھر ہندیوں کا راج دیکھیں گے
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں سوراج دیکھنے کو ملا ہے۔آزادی کی تحریک ہندستان کی بلا شبہ ایک غیر معمولی تحریک تھی جس کے ایک ایک قدم پر بے مثال قربیانیوں کے نقش ہیں۔اور یہ انھیں کا پھل ہے جو آزادی کی صورت میں ہمیں ملا ہے۔