سرورجنی نائیڈو: شاعری سے سیاست تک ایک ناقابلِ فراموش سفر

Story by  ڈاکٹر شبانہ رضوی | Posted by  [email protected] | Date 19-02-2025
سرورجنی نائیڈو: شاعری سے سیاست تک ایک ناقابلِ فراموش سفر
سرورجنی نائیڈو: شاعری سے سیاست تک ایک ناقابلِ فراموش سفر

 

ڈاکٹر شبانہ رضوی

سرورجنی نائیڈو، ہندوستانی تاریخ کی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی زندگی تحریک اور الہام سے بھرپور ہے۔ شاعری اور سیاست میں ان کا غیرمعمولی سفر نہ صرف ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ان کے کردار کو نمایاں کرتا ہے بلکہ ادبی دنیا پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔

وہ 13 فروری 1879 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر اگھورناتھ چٹوپادھیائے ایک معروف سائنسدان اور ماہر تعلیم تھے، جبکہ ان کی والدہ ورندا دیوی بنگالی زبان کی شاعرہ تھیں، جنہوں نے سروجنی نائیڈو کو کم عمری سے ہی ادب اور فنون لطیفہ سے روشناس کرایا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانی ادب میں ایک منفرد پہچان بنائی، جو ان کے بعد کے ادبی اور سیاسی کارناموں کی بنیاد بنی۔

سرورجنی نائیڈو، جو کہ ہندوستان کی نامور انگریزی شاعرہ تھیں، کی شاعری نے ان کے ادبی کیریئر کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کے کلام میں جمالیات، فطرت کی خوبصورتی اور سماجی شعور کا امتزاج ملتا ہے۔

ادبی سفر کا آغاز اور "The Golden Threshold"

ان کے پہلے مجموعے The Golden Threshold (1905) نے انہیں ادبی دنیا میں نمایاں مقام بخشا۔ اس مجموعے میں ہندوستانی ثقافت، قدرتی مناظر اور محبت کے جذبات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ ان کی مشہور نظم In the Bazaars of Hyderabad ہندوستانی ثقافت اور بازاروں کی رنگینی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے:

"What do you sell, O ye merchants?
Richly your wares are displayed.
Turbans of crimson and silver,
Tunics of purple brocade..."

یہ نظم نہ صرف ایک خوبصورت بصری منظر پیش کرتی ہے بلکہ ہندوستانی معاشرت کی اقتصادی و ثقافتی سرگرمیوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

دیگر نمایاں شعری مجموعے اور موضوعات

سرورجنی نائیڈو کی شاعری میں رومانی، جمالیاتی اور سماجی موضوعات کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ The Bird of Time میں انہوں نے زندگی کے عارضی ہونے کا بیان کیا، جبکہ The Queen’s Rival میں تاریخی و رومانی تناظر کو اجاگر کیا:

"Queen Gulnaar sat on her ivory bed,
Around her countless treasures were spread;
Her chamber walls were richly inlaid
With agate, porphyry, onyx and jade..."

یہ اشعار نائیڈو کی شاعرانہ مہارت اور جذبات کی گہرائی کو نمایاں کرتے ہیں۔

سماجی شعور اور طبقاتی مسائل

سرورجنی نائیڈو کی نظمیں سماجی مسائل اور طبقاتی جدوجہد کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ The Weavers میں انہوں نے ہندوستانی جولاہوں کی زندگی کے مختلف مراحل کو شاعری کا حصہ بنایا:

"Weavers, weaving at break of day,
Why do you weave a garment so gay?
Blue as the wing of a halcyon wild,
We weave the robes of a newborn child."

اسی طرح Broken Wings میں انہوں نے محبت، درد اور انسانی جذبات کو حساس انداز میں بیان کیا، جبکہ The Village Song میں دیہی زندگی کی سادگی اور حسن کو نمایاں کیا۔

ان کی شاعری میں نغمگی اور احساسات کی گہرائی نمایاں ہے۔ The Lotus میں انہوں نے روحانی معنویت کو اجاگر کیا، جبکہ The Dance of the Spring میں موسم بہار کی خوشیوں اور چیلنجز کا ذکر کیا۔ ان کی شاعری نہ صرف حسن اور محبت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ہندوستانی سماج کی حقیقتوں کو بھی فنکارانہ انداز میں پیش کرتی ہے، جو انہیں اپنے عہد کی ایک منفرد شاعرہ بناتا ہے۔

سرورجنی نائیڈو کی شاعری میں سماجی اور سیاسی شعور نمایاں ہے، جہاں انہوں نے سماجی انصاف، طبقاتی فرق، خواتین کے حقوق اور قومی یکجہتی جیسے موضوعات کو اجاگر کیا۔ ان کے کلام میں زبان کی خوبصورتی، تخلیقی فکر اور اظہار کی بے باکی پائی جاتی ہے، جس میں ہندوستانی ثقافت، فطرت کی دلکشی اور محبت کے لطیف جذبات جھلکتے ہیں۔ ان کی شاعری ہندوستانی ادب کے لیے ایک جمالیاتی اور فکری ورثہ ثابت ہوئی، جو آج بھی قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ ان کے مشہور مجموعے The Golden Threshold (1905)، The Bird of Time اور The Broken Wing میں آزادی، محبت اور انسانی جذبات کے متنوع پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی سے قلمبند کیا گیا ہے، جو انہیں ہندوستانی انگریزی ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔

سرورجنی نائیڈو نے گاندھی جی کی ستیہ گرہ تحریک میں بھرپور حصہ لے کر ہندوستانی سیاست میں قدم رکھا اور 1925 میں انڈین نیشنل کانگریس کی پہلی خاتون صدر بن کر خواتین کی سیاسی شمولیت کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے خواتین کے حقوق، تعلیم اور سماجی اصلاحات کے لیے نمایاں کام کیا، جس سے خواتین کی خودمختاری کو فروغ ملا۔ نمک ستیہ گرہ تحریک میں گرفتاری اور جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود وہ آزادی کی جدوجہد میں ثابت قدم رہیں۔ آزادی کے بعد وہ اتر پردیش کی پہلی خاتون گورنر بنیں اور ریاستی ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ ان کی شاعری اور سیاسی خدمات نے ہندوستانی ادب اور سیاست میں انمٹ نقوش چھوڑے، اور وہ آج بھی ایک مثالی رہنما کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔

سرورجنی نائیڈو کی زندگی، شاعری اور جدوجہد ایک ایسی روشن داستان ہے جو حوصلہ، جرات اور قربانی کا استعارہ بن گئی۔ انہوں نے اپنی شاعری سے احساس جگایا، سیاست میں انقلاب برپا کیا، اور خواتین کی خودمختاری کی راہ ہموار کی۔ جیل کی صعوبتیں، آزادی کی جدوجہد، اور قیادت کے اعلیٰ مدارج—ہر مرحلے پر انہوں نے ثابت کیا کہ ایک عورت اپنی فکری قوت اور عملی اقدامات سے تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے۔ ان کی وراثت صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ ایک متحرک تحریک کی صورت میں آج بھی زندہ ہے، جو نسلوں کو بیداری، عزم اور جرات کا درس دیتی رہے گی۔