سید محمد ہادی :ایک کھلاڑی کی سات کھیلوں میں مہارت کی کہانی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-09-2024
 حیدرآباد ی سید محمد ہادی :ایک کھلاڑی کی سات کھیلوں میں مہارت کی کہانی
حیدرآباد ی سید محمد ہادی :ایک کھلاڑی کی سات کھیلوں میں مہارت کی کہانی

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

سید محمد ہادی ۔ ایک حیدرآبادی جو کھیلوں کی دنیا کا نواب بھی تھا اور نظام بھی۔ کیونکہ ایک دور ایسا تھا جب کھیلوں کے میدان پر ان کے ہر فن مولا کردار کا بول بالا تھا ، آج ہم ایک ایسے کھلاڑی کو آل راونڈر مانتے ہیں جو کسی ایک کھیل میں ایک سے زیادہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ مگر محمد ہادی کی بات ہی کچھ اور تھی ۔وہ کسی ایک کھیل کے آل راونڈر نہیں تھے بلکہ یہ خدا داد صلاحیتوں کا چمتکار تھا کہ ایک کھلاڑی اور سات کھیلوں کا ماہر تھا ۔ یہی نہیں جس نے دو کھیلوں میں ملک کی نمائندگی کی ۔ کرکٹ میں جلوہ دکھایا ، ٹینس میں ڈیوس کپ سے ومبلڈن اوپن اور 1924اولمپکس گیمز تک ملک کی نمائندگی کی ۔ کیمبریج یونیورسٹی میں ہاکی، ٹیبل ٹینس اور فٹ بال میں لوہا منوایا ۔ یہی نہیں گھڑ سواری اور پولو کے میدان میں بھی رنگ جمایا تھا۔

 یہ ہے حیدرآبادی محمد ہادی کی کہانی ۔جس کا ہر صفحہ آپ کو حیران کردے گا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا داد صلاحیتوں کا سلسلہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہا ۔جب اس ہر فن مولا شخص  نے ہندوستانی کرکٹ اور فٹ بال کے آفیشل کی شکل میں دھاک جمائی اور اس کے بعد فٹ بال پر ایک کتاب بھی لکھی ، اس کے بعد بھی سید محمد ہادی کی یشقدمی نہیں رکی ۔وہ  سرکاری سطح پر  حیدرآباد میں فزیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر بنے اور اس کے بعد ہندوستانی حکومت میں تعلیم کے جوائنٹ سکریٹری بن گئے ،یہ ہے حقیقی ہر فن فولا شخصیت لیکن آج کی رنگین دنیا کی چکنا چوند زندگی نے اس شخصیت کو یادوں سے بھی مٹا دیا ہے کیونکہ یہ بلیک اینڈ وہائٹ دور کی کہانی ہے یعنی تقسیم ملک سے قبل کی ۔

رین بو ہادی

شاید آپ نے ابتک یہ نام نہیں سنا ہو مگر ہندوستان کی تاریخ میں ایسے ہر فن مولا کا نام ہے جس کی دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ آزادی سے قبل یہ نام کھیلوں کی دنیا میں ایک حیران کن اور خدا داد صلاحیتوں کے مالک کے طور پر ہوتا تھا ۔۔سات کھیلوں میں مہارت کی وجہ سے انہیں ۔ رین بو ہادی ۔ کا لقب دیا گیا۔ یعنی کہ قوس و قزح ۔ سات رنگوں کا حسین ملن ۔ جو آسمان پر بھی کبھی کبھی نظر آتا ہے ۔ سید محمد ہادی کو حقیقی ہر فن مولا کہا جاسکتا ہے جنہوں نے جو حیدرآباد کے نظام کالج میں نوجوانی میں فٹ بال کھیلی ۔جب تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی گئے ، تو فٹ بال، ہاکی اور ٹیبل ٹینس یونیورسٹی کی نمائندگی کی ۔ اس کے ساتھ وہ گھڑ سواری اور پولو میں بھی ماہر تھے،اہم بات یہ ہے کہ محمد ہادی نے بعد میں کرکٹ اور ٹینس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ ہادی نے سات بار ومبلڈن میں حصہ لیا ۔۔

سر آسمان جاہ نے لیا تھا محمد ہادی کو گود اور کی تھی پرورش 


ابتدائی زندگی

اگر  بات کریں سید محمد ہادی کی ابتدائی زندگی کی ۔ تو وہ  12 اگست 1899 حیدرآباد، آندھرا پردیش میں پیدا ہوئے۔سید محمد ہادی کے والد سید محمد تھے، ریاست حیدرآباد میں پائیگاہ فوج میں افسر تھے۔ سید محمد ہادی کی عمر بمشکل دو سال کی تھی۔ ان کی دیکھ ریکھ حیدرآباد کے نظام کے دربار میں ریاست حیدرآباد کے سابق وزیر اعظم سر آسمان جاہ کے خاندان نے کی   ۔ ان کا بچپن آسمان جاہ کے بیٹے نواب معین الدولہ کے ساتھ گزرا، جو حیدرآباد  میں اسپورٹس کی دنیا میں مقبول و معروف نام تھے ۔

پروفیشنل کیرئیر کی

اگر بات کریں سید محمد ہادی کا  اسپورٹس کیریئر کی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سید محمد ہادی نے جوانی میں گھڑ سواری اور پولو سیکھا اور نظام کالج کے لیے فٹ بال میں اپنے جوہر دکھائے۔ان کی بے پناہ صلاحیتوں کے سبب آسمان جاہ کے خاندان نے انگلینڈ میں ان کی تعلیم کا بندوبست کرنے میں مدد کی۔ ٹینس کھلاڑی کے طور پر، سید محمد ہادی کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے  انٹر نیشنل  اسپورٹس میں توجہ کا مرکز بن گئے تھے ۔ انہوں نے  پیٹر ہاؤس میں تعلیم حاصل کی اور کیمبرج کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ سید محمد ہادی نے کیمبرج ٹیم کو آکسفورڈ یونیورسٹی اور دورہ کرنے والی امریکی ٹیموں کے خلاف کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔انہوں  نے فیلڈ ہاکی، فٹ بال اور ٹیبل ٹینس  میں بھی یونیورسٹی  کی نمائندگی کی ۔

محمد ہادی نے ٹینس میں ڈیوس کپ سے ومبلڈن اوپن تک ملک کی نمائندگی کی 


ٹینس میں جلوہ

اگر محمد ہادی  کے پروفیشنل  ڈینس دور پر نظر ڈالیں تو سید محمد ہادی نے سب سے پہلے 1924 اور 1925 میں ڈیوس کپ میں ہندوستان کی نمائندگی کی،وہ اپنے چار میچ ہارے لیکن ملک کی نمائندگی  کی خوشی کہیں زیادہ تھی ۔اس کےساتھ سید محمد ہادی نے ومبلڈن میں پانچ سال تک ہندوستان کی نمائندگی بھی کی، یہی نہیں  1926 میں ڈبلز میں کوارٹر فائنل تک پہنچے  ۔وہ 1924 اولمپکس میں بطور ٹینس کھلاڑی حصہ لینے والے پہلے ہندوستانیوں میں سے ایک تھے۔

رنجی ٹرافی کی پہلی سینچری

اگر بات کریں  محمد ہادی  کے  کرکٹ کیرئیر کی، جب 1934 میں رنجی ٹرافی کا آغاز ہوا تو ہادی سنچری بنانے والے پہلے بلے باز بن گئے۔ ایک کرکٹر کے طور پر سید محمد ہادی نے ہندوستان میں کئی فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلے، جن میں ایک غیر سرکاری ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ وہ  آسٹریلیا کے خلاف غیر سرکاری ٹیسٹ میچ سیریز میں بھی ٹیم میں شامل تھے۔ وہ 1941 تک رنجی ٹرافی میں حیدرآباد الیون کے لیے کھیلتے رہے۔

محمد ہادی نے کیمریج یونیورسٹی میں ہاکی اور فٹ بال کھیلی 


ایک منتظم کا کردار

کھیلوں کے میدان سے رخصت ہونے کے بعد سید محمد ہادی کے  ایک ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھی کامیاب رہے ۔ہادی 1936 میں انگلینڈ کے دورے پر ہندوستانی ٹیم کے خزانچی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1939-40 میں، ہادی حیدرآباد فٹ بال ایسوسی ایشن اور حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے فاونڈر ممبر رہے تھے۔جب 1959 میں آل انڈیا کونسل آف اسپورٹس کی تشکیل ہوئی تو ہادی اس کے پہلے سیکرٹری تھے۔ہادی نے کیمبرج سے ایم اے کرنے کے علاوہ ماسٹرز کیا تھا۔انہوں نے حیدرآباد میں فزیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور آخر کار ہندوستانی حکومت میں تعلیم کے جوائنٹ سکریٹری بن گئے۔

ہر فن مولا  سید محمد ہادی کا  14 جولائی 1971  کوحیدرآباد میں 72 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔انہیں  پھیپھڑوں کے کینسر تھا ۔ اگر بات کریں اس ہر فن مولا کی یاد کی  تو  تو آپ کو بتا دیں کہ نواب معین الدولہ  نے انہیں گود لیا تھا،وہ خود  ہندوستان میں کرکٹ کے ایک بڑے فین تھے ۔جن کی یاد میں  معین الدولہ گولڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ آج تک کھیلا جاتا ہے۔ ٹورنامنٹ کی رنر اپ ٹرافی کو  ہادی میموریل ٹرافی کہا جاتا ہے ۔ سید محمد ہادی کی کہانی ۔ تاریخ کا ایک گمشدہ باب ۔ جو یوں تو یہ بلیک اینڈ وہائٹ دور کی یاد  ہے، مگر رنگین دنیا میں اس کی ابتک کوئی دوسری مثال سامنے نہیں آسکی ہے،ہم کہہ سکتے ہیں کہ  ہادی جیسا کوئی نہیں