ٹیچرز ڈے پر خاص پیشکش
منصورالدین فریدی:نئی دہلی
یہ خوشیوں کے شہر کولکتہ کے ایک مکان کا منظر تھا، ایک بڑے سے کمرے میں میں بچھی روایتی طرز کی مسہری پر ایک ضعیف شخص لیٹا ہوا تھا ، سرہانے کی کرسی پر ایک اور شخص انتہائی احترام سے بیٹھا ہوا تھا ، کمرے میں بہت بھیڑ تھی، ہر کسی کی نظر ان دونوں پر ٹکی تھیں، کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے مسکراتے ہوئے کہا ___
جناب یہ نوبل پرائز آپ کی پڑھائی اور ریاضی سے محبت کا نتیجہ ہے،جو آپ نے مجھ میں پیدا کی تھی
ان الفاظ کے ساتھ اس شخص نے بستر پر لیٹے ضعیف شخص کے گلے میں 'نوبل' پرائز کا میڈل ڈال دیا_
ساتھ ہی اس کا ایک جملہ ہر کسی نے سنا کہ ’’سر یہ آپ کا نوبل ہے۔ یہ میرا نہیں ہے۔"
جی ہاں! آپ کو بتا دیں کہ نوبل پرائز یافتہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے سائنس داں ڈاکٹر عبدالسلام تھے جنہیں اپنے عقیدے کے تنازع کے سبب ملک بدر کیا گیا تھا اور بستر پر لیٹے ہوئے شخص کا نام پروفیسر انیلندر گنگولی تھا جو ان کے استاد تھے_
یاد رہے کہ 1979 میں نوبل انعام جیتنے کے بعد، ڈاکٹر عبدالسلام نے ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی سے پروفیسر انیلندرا گنگولی کو تلاش کرنے کی درخواست کی تھی،-
جنہوں نے انہیں لاہور کے سناتن دھرم کالج میں تقسیم سے پہلے کے دور میں ریاضی پڑھایا تھا۔ انہیں اپنے استاد سے ملنے کے لیے دو سال انتظار کرنا پڑا اور بالآخر 19 جنوری 1981 کو پروفیسر گنگولی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہندوستان آئے ,جو آزادی کے بعد کولکتہ منتقل ہو گئے تھے۔
جب ڈاکٹر سلام ان کے گھر ان سے ملنے گئے تو پروفیسر گنگولی کمزور تھے اور اٹھ کر بیٹھنے اور ان کا استقبال کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔
ڈاکٹر سلام نے اپنا نوبل میڈل لیا اور کہا کہ سر یہ تمغہ آپ کی پڑھائی اور ریاضی سے محبت کا نتیجہ ہے جو آپ نے مجھ میں پیدا کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے تمغہ اپنے اساتذہ کے گلے میں ڈالا اور کہا ’’سر یہ آپ کا انعام ہے۔ یہ میرا نہیں ہے
یادگار ملاقات کا ایک جذباتی منظر
یاد رہے کہ پاکستانی پارليمان کی جانب سے احمدی مسلمانوں کو غير مسلمان قرار دينے کے لیے ايک متنازعہ بل کی منظوری کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے سن 1974 ميں پاکستان چھوڑ ديا تھا۔
انہيں سن 1979 ميں فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گيا۔ وہ کسی بھی ميدان ميں نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہيں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا انتقال اکيس نومبر سن 1996 کو برطانوی شہر آکسفورڈ ميں ہوا تھا۔
یہ بھی حیران کن ہے کہ پاکستان کے لیے کسی بھی میدان میں واحد نوبل انعام حاصل کرنے والے شخص نے اس کو ہندوستانی استاد کے نام منسوب کردیا جو کہ ایک غیرمسلم تھے جبکہ پاکستان میں انہیں وہ اس عزت اور احترام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے وہ بھی ان کے عقیدے کے سبب ۔
ایک تھا عبدالسلام
ڈاکٹر عبدالسلام انتيس جنوری سن 1926 کو پاکستانی صوبہ پنجاب ميں جھنگ کے ايک قريبی گاؤں ميں پيدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق درميانے درجے کی آمدنی والے گھرانے سے تھا ۔ انہوں نے اردو ميڈيم اسکول ميں ابتدائی تعليم حاصل کی۔ چودہ برس کی ہی عمر ميں انہوں نے ميٹرک کے امتحانات ميں رياضی ميں سب سے زيادہ نمبر حاصل کيے اور سترہ برس ميں اپنا پہلا ريسرچ پيپر چھاپ ڈالا۔ ليکن اس وقت بھی کسی کو يہ علم نہ تھا کہ آگے جا کر يہی عبدالسلام فزکس ميں ’يونيفيکيشن تھيوری‘ کے ليے کافی خدمات ادا کرنے پر فزکس کے نوبل انعام کا حقدار قرار پائے گا۔
وہ پاکستان کی خلائی و بالا فضائی تحقیق اور جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کے بانیوں میں سے تھے، جنھوں نے پاکستان میں سائنس کی تحقیق کے میدان میں جھنڈے گاڑے۔ سنہ1960 سے 1974ء تک وہ حکومتِ پاکستان کے مشیر برائے سائنس رہے۔ سنہ 1962 میں پروفیسر عبدالسلام پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ ہوئے اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹيکنالوجی کی بنیاد رکھی۔
اسی دور کے ایک اور نامور سائنس دان ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کے ہمراہ ڈاکٹر سلام نے پاکستان میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت کی سمت کا تعین کیا۔ سنہ 1998 میں ڈاکٹر سلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام
ڈاکٹر عبدالسلام 1960 سے 1974ء تک حکومت پاکستان کے مشیر برائے سائنس بھی رہے جب کہ اس کے علاوہ ملک میں سائنسی تحقیق سے متعلق سرکاری اداروں کے قیام میں ان کا اہم کردار رہا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1998ء میں پاکستان نے جب اپنے پہلے جوہری تجربات کیے تھے تو اس وقت سائنسدانوں کی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے اور ان میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے بھی ایک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔
تاہم 1996ء میں ان کے انتقال کے بعد سے ڈاکٹر عبدالسلام کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری یا ملکی سطح پر کوئی بڑی تقریب دیکھنے میں نہیں آئی۔بد قسمتی سے پاکستانی معاشرے میں شروع ہی سے تنگ نظری کا معاملہ عام ہے
تنگ دلی اور تنگ نظری
یہ بھی المیہ ہے کہ ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی اور شخصیت پر بننے والی ڈاکومنٹری فلم 2019 میں دنیا کے ہر شخص کی پہنچ میں آ چکی تھی۔ یکم اکتوبر 2019 سے اس فلم کو مشہور ویب سائٹ نیٹ فلکس پر جاری کیاگیا تھا۔ نیٹ فلکس پر آنے سے قبل یہ ڈاکومنٹری فلم دنیا کے مشہور فلم فسٹیولز میں ریلیز کی جا چکی ہے۔ یہ فلم دنیا کے 30 شہروں کے سینما گھروں کی زینت بنی اور 6 فلم فیسٹولز میں ’’بہترین ڈاکومنٹری فلم‘‘ کا ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔
فلم ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس میں ان کی زندگی اور سائنسی خدمات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس ڈاکومنٹری فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر عبد السلام کے بیٹوں، بیویوں اور چند مشہور سائنسدانوں کے تاثرات ان کی زبانی بھی شامل ہیں۔مشکل حالات میں کیسے ڈاکٹر عبد السلام نے اپنے شوق کو پروان چڑھایا اور کیسے ایک غیر معمولی ذہین دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے بعد ان کی زندگی کے اس حصہ کو بھی اجاگر کیا گیا _
بقول ایک پاکستانی فاتح ملک کہ مگر جب ساری دنیا میں پذیرائی حاصل کرنے کے بعد اپنی عوام اور پاکستان کے حکمرانوں نے صرف اور صرف مذہب اور عقیدہ کو بنیاد بنا کر ایک ہیرو کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا وہ کسی طور بھی مستحق نہ تھا۔ یہ فلم پاکستانی معاشرے کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اور ہماری علمی حالت کی گراوٹ کے اسباب بتلانے کے لئے چشم کشا ہے_ وہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کا المیہ ہے
پاکستانی شاگرد کا ہندوستانی استاد کے لیے احترام
پاکستان نے 1996میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں واقع نیشنل سینٹر فار فزکس کا نیانام پروفیسر عبد السلام سینٹر فار فزکس میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ۔بس یہ تھا ملک و قوم کی خدمت کا صلہ ۔مگر اس کے بعد احمدیہ یا قادیانی ہونے کے سبب انہیں بھلا دیا گیا۔
اپنے ایک آرٹیکل میں خود ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے بارے میں کچھ یوں لکھا تھا کہ
ہماری تعلیمی اور اقتصادی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، تعلیمی پسماندگی اور خصوصیت سے غلط اور ناقص تعلیم ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ قوم نے اپنے تعلیمی نظام کی طرف توجہ نہیں دی۔