سبھی مذاہب کے چٹانی اتحاد سے ہے ملک مضبوط ۔ شنکر کیموری

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 08-11-2024
سبھی مذاہب کے چٹانی اتحاد سے ہے ملک مضبوط ۔ شنکر کیموری
سبھی مذاہب کے چٹانی اتحاد سے ہے ملک مضبوط ۔ شنکر کیموری

 

محفوظ عالم : پٹنہ

ہندوستان کی مٹی میں جامع ثقافت بستا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب ہمارے ملک کی وہ عظیم وراثت ہے جہاں ہر مذاہب کے لوگ پر امن اور خیر سگالی کے ساتھ ایک جگہ ایک ساتھ صدیوں سے رہتے آ رہے ہیں۔ شاعروں نے اس بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی بے پناہ کوششیں کی ہے۔ ان کے اشعار اور مشاعروں میں وہ وراثت آج بھی زندہ ہے اور فروغ پا رہا ہے۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار معروف شاعر شنکر کیموری نے کیا۔

شنکر کیموری شاعری کی دنیا کا ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا شاعری کا سفر کافی جدوجہد بھرا رہا ہے۔ دراصل میری پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جہاں اردو اور شعر و شاعری سے دور دور تک کسی کو واسطہ نہیں تھا لیکن جس جگہ میں رہتا تھا وہاں اردو کا ماحول تھا اور اس ماحول نے مجھے اردو اور اردو شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ جب میرے خاندان کے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا۔

واضح رہے کہ شنکر کیموری بنیادی طور پر نعتیہ مشاعرہ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے غزل، نظم، قطعہ کو نعت رسول پاک صلی علیہ وسلم کی شکل میں ڈھالا ہے۔ وہ ایک عوامی شاعر ہیں اور مشاعرہ ان کا میدان ہے۔ نعت گوئی کے اس مبارک فن کے سلسلے میں شنکر کیموری کہتیں ہیں کہ خالق کائنات جس کو توفیق دیتا ہے وہ اس طرف مائل ہو جاتا ہے اور اللہ جس کو شعور و سلیقہ دیتا ہے وہی اس کے محبوب صلی علیہ وسلم کی تعریف کر سکتا ہے اور لکھ سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ سب قدرت کا انتظام ہے۔ کہا گیا ہے کہ

 مصلی رکھتے ہیں صہبا و جام رکھتے ہیں

فقیر سب کے لیے انتظام رکھتے ہیں۔

نعت گوئی قدرت کا ایک عظیم تحفہ

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ نعتیہ شاعری قدرت کا دیا گیا ایک عظیم تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ۔

تیری مجال کیا ہے شنکر جو نعت کہہ لے

تیری زبان سے ان کا فیضان بولتا ہے

اور

زباں میلی نہیں ہوتی دہن میلا نہیں ہوتا

نبی کے نام لیوا کا سخن میلا نہیں ہوتا

شنکر کیموری کہتے ہیں کہ

کبھی آموں کے اونچے پیڑ پر ساون کی راتوں میں

پپیہا ‘پی کہاں’ گائے تو طیبہ یاد آتا ہے۔

شنکر کیموری کی کتاب عقیدت کے پھول، اہل علم میں کافی پزیرائ حاصل کی ہے۔ لوگوں کو ان کے اشعار کہنے اور حضرت محمد صلی علیہ وسلم پر ان کے اشعار سن کر تعجب بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی۔ شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ سرکار مدینہ تو سب کے ہیں وہ رحمت العالمین ہیں اور ان کی شان میں اشعار کہنا میرے لئے باعث عظمت ہے۔ شنکر کیموری آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے اپنا اشعار روانی کے ساتھ سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ۔  

کچھ اس طرح سے چمکا نبوت کا آئینہ

چمکا دیا ہے دین کی قسمت کا آئینہ

 

بخشیں نہ جائیں گے وہ گنہگار امتی

جب تک نہیں چمکے گا شفاعت کا آئینہ

 

اسلام کو بچا لیا پیارے حسین نے

دھویا گیا لہو سے شہادت کا آئینہ

 

اور نعت نبی کا شوق عبادت سے کم نہیں

شنکر چمک گیا تیری قسمت کا آئینہ

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ سرکار محمد صلی علیہ وسلم تو سب کے ہیں۔ دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر آئے ہیں ان میں اول و آخر حضور اکرم صلی علیہ وسلم ہیں تو ان کی شان میں جو اشعار پڑھیں گے وہ نعت پاک کے اشعار ہونگے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی لغزش نہیں ہو اور جو مرتبہ سرکار ہے وہ لفظوں سے دے رہے ہیں یا نہیں دے رہے ہیں ان باتوں کا میں نے خاص خیال رکھا ہے۔ شنکر کیموری کہتیں ہیں کہ

وہی شریعت وہی حقیقت جو بات نکلی نبی کے منہ سے

وہ جس کو کہہ دیں حلال لکھدو وہ جس کو کہہ دیں حرام لکھدو

وہ یہ بھی کہتیں ہیں کہ

میں یہ نہیں کہتا کہ خزینہ مجھے دے دو

تم سارا جہاں لے لو مدینہ مجھے دے دو

اہل علم کے صحبت نے بنایا شاعر

شنکر کیموری کے مطابق وہ 10 جنوری 1962 کو اس وقت کے بہار کا ضلع بھبھوا اور موجودہ وقت کے ضلع کیمور میں پیدا ہوئے۔ بھبھوا میں ہی تعلیم حاصل کی، گریجویشن پولیٹیکل سائنس سے کیا اور پولیٹیکل سائنس سے ہی ایم اے کی تعلیم مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا سے حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ میری پرورش ایک طرح سے اردو کے ماحول میں ہوئی ہے۔ ہمارے محلہ میں سیرت کا جلسہ ہوتا تھا اس میں ہمیشہ شرکت کرتے تھے اور جب میں میٹرک میں تھا اس وقت وہاں ایک ادارہ بزم ادب کے نام سے قائم تھا۔ اس ادارہ کے صدر اسرا الحق شبنم تھے اور محمد اسلام انصاری گھائل، محی الدین انصاری جیسے لوگ اس سے جڑے تھے، میرا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ تھا۔ میں نے ان لوگوں سے کافی کچھ سیکھا، ایک طرح سے وہ استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک دن ایسا ہوا کہ سیرت کے جلسہ میں مدعو تھا، میں نے اس میں اپنا کلام پڑھا۔ کلام لوگوں کو پسند آیا اور حاضرین جلسہ نے میرا حوصلہ بڑھایا لیکن میرا تلفظ صحیح نہیں تھا۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ کلام سنانے کا انداز تب بہتر ہوگا جب اردو آئے گی۔

جب میں نے اردو سیکھی

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ جیسا میں نے قبل میں بتایا کہ میرے خاندان میں اردو اور شاعری سے کسی کا واسطہ نہیں تھا لیکن اردو کا ماحول اور ادبی دوستوں کی خوبصورت مجالس نے میرے اندر اردو سیکھنے اور سرکار پر نعت کہنے کے جذبہ کو پروان چڑھایا۔ خاص طور سے سیرت کے جلسہ نے سرکار محمد صلی علیہ وسلم پر نعت کہنے اور ان کی شان میں گفتگو کرنے کا حوصلہ دیا۔ پھر کیا تھا مجھے ہر قیمت پر اشعار کہنے تھے اور اس کے لیے اردو سیکھنا لازمی تھا۔ اردو اب باقاعدہ میری زبان بننے والی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو ہندوستان کی اس عظیم وراثت کی زبان ہے جس کو ہم گنگا جمنی تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ دراصل اردو مختلف زبانوں کا ایک سنگم ہے۔ اردو کے بغیر تو بات کرنے کا سلیقہ تک میسر نہیں ہوتا ہے۔ میں نے اردو سیکھنی شروع کی۔ ڈاکٹر محمد یاسین انصاری صاحب میرے اردو کے استاد گرامی تھے۔ میں نے ان سے اردو پڑھی اور اس طرح سے اردو سے محبت ہوتی گئی، میں اردو کا شاعر ہو گیا اور یہ زبان میری زبان بن گئی۔

 

مشاعروں کا مثبت پیغام

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ مشاعروں سے سماج کو ایک پیغام جاتا ہے، آپسی بھائی چارہ، قومی ملت، قومی یکجہتی و خیر سگالی کا۔ اس لیے شعر و شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ ایک اچھے و صالح معاشرہ کے لئے مشاعروں کے پلیٹ فارم سے کوشش کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر متحد رہنے کا پیغام ایک شاعر اپنے اشعار سے سامعین کو دیتا ہے۔ اس کے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ دراصل سماج سے متاثر ہو کر ہی ایک شاعر اپنا اشعار کہتا ہے۔ بلاشبہ میں یہ کہوں گا کہ معاشرہ کو تھوڑا اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک کثیرالمذاہب ملک ہے جہاں سبھی مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں، جو ہماری چٹانی اتحاد ہے وہی اس ملک کی اصل طاقت اور ہماری پہنچان ہے۔ شنکر کیموری کے مطابق ہمیں آج بھی اس ملک کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان تو وہ خوبصورت ملک ہے جس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ ادھر سے ہمیں ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ جس ہندوستان کے لئے حضرت امام حسین نے کہا کہ ہمیں ہند کی طرف جانے دو۔ شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ ہندوستان وہ سرزمین ہے جہاں کتنے صوفی سنت، اولیا سب اس سرزمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ صوفی سنتوں اور بزرگان دین کی دعاؤں سے ہمارا ملک آگے بڑھ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ میں یہ کہتا ہوں کہ ۔

ہر وقت میری ان آنکھوں میں

ایشور بھی رہے اللہ بھی رہے

ہردئے میں بھجن ہوتا بھی رہے

ہونٹوں پر میرے کلمہ بھی رہے

دل اللہ پڑھتا بھی رہے

ہری اوم نمہ جپتا بھی رہے

تسبیح رہے مالا بھی رہے

پوجا بھی رہے سجدہ بھی رہے

ایمان دھرم کا دور چلے

ہندو بھی پیے مسلم بھی پیے

پینے کا مزہ تب آئے گا کہ

زم زم بھی رہے گنگا بھی رہے۔

مشاعروں کا معیار اور محبت کی کوشش

شنکر کیموری کے مطابق مشاعروں کی مقبولیت میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا ہے۔ آج بھی مشاعروں میں اہل ذوق کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے لیکن ہاں مشاعروں کے معیار میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے کئی اسباب ہیں۔ اس کو بہتر کرنے کے تعلق سے کوششیں کرنی چاہئے۔ ان کے مطابق حالانکہ اردو مشاعرہ کا اسٹیج آج بھی ہندی مشاعروں سے بہتر ہے وہ اس معنی میں کہ اردو کے مشاعروں میں باتیں شعر کے ذریعہ کی جاتی ہے لیکن ہندی کے پروگراموں میں شعر کی جگہ باتیں زیادہ ہو رہی ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اردو زبان کے فروغ میں شاعروں اور مشاعرہ پروگراموں کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ شاعروں کے ساتھ ساتھ اردو ادیب، پروفیسر، اردو کے طالب علم اور صحافی اردو کا فروغ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل ہم لوگ اردو سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ سبھی زبانوں کی ترقی ہو اس کے ساتھ ہی ہم اردو کی بھی ترویج و اشاعت چاہتے ہیں۔ جب ہماری گنگا جمنی تہذیب نکھرتی ہے اس سے ہماری محبت اور ملک کا اتحاد مضبوط ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج لوگ کہتے ہیں کہ سماج میں دوریاں بڑھ رہی ہے لیکن میں اس بات کو نہیں مانتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سبھی مذاہب کے لوگ نہ صرف اچھے ہیں بلکہ مثبت سونچ و فکر رکھتے ہیں۔ سب میں قومی ملت اور قومی یکجہتی کا جذبہ ہے لیکن اتنے بڑے ملک میں اس طرح کی غلط کوشش کوئی کرتا بھی ہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اور ایک بات آپ سمجھ لیجئے کہ۔

اپنے گھر میں انہیں دیکھا تو یہ محسوس ہوا

جیسے کٹیا میں چلی آئی محل کی خوشبو

تیرے گیسو، تیرے لب تیرے دہن کی خوشبو

میری سانسوں میں بسی ہے ترے تن کی خوشبو

لاکھ چاہے کوئی بھارت سے نہیں مٹ سکتی

خواجہ اجمیری کی اور رام لکھن کی خوشبو

نئی نسل کو کیا یہ بات معلوم ہے

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں نوجوان نسل میں یکجہتی کے معاملہ میں کچھ کمزور یاں دیکھی جا رہی ہے اس تعلق سے میرا کہنا ہے کہ نئی نسل کو سمجھانے اور انہیں تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ بھٹک گیے ہیں تو اہل علم کو اس پر توجہ دینا چاہئے اور اس تعلق سے بھی مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں معاشرہ کے اہل علم اور تجربہ کار لوگوں کو سامنے آنا چاہئے اور نئی نسل کو ملک کی تاریخ اور قومی ثقافت و یکجہتی کے متعلق بتانے کی ضرورت ہے۔ شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ غور کیجئے کہ ملک محمد جائسی کی پدماوت ایک شاہکار تخلیق ہے۔ رس خان نے کرشن بھگتی کے گیت گائے۔ پنڈت جگن ناتھ آزاد وہ ہندو تھے لیکن اردو کی شاعری کی، پنڈت دیا شنکر نسیم جو مثنوی نگار ہیں جن کی مثنوی بی اے میں پڑھائی جاتی ہے، آنند نارائن ملا۔ ایک نہیں سیکڑوں مثالیں ہیں جس سے ہماری تاریخ اور ہمارا ملک لبریز ہے۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ علم کی کمی کچھ لوگوں کو گمراہ کر سکتی ہے، ایسے لوگوں کو ملک کی تاریخ اور اس کی وراثت کو پڑھنا چاہئے۔

شنکر کیموری کا کہنا ہے کہ حضرت محمد صلی علیہ وسلم کی تعلیمات زندگی اتنی پر رونق اور وسیع ہے کہ اگر ان کی سیرت کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے تو معاشرہ میں انقلابی تبدیلیاں آ جائے گی۔ ان کے مطابق سب کچھ مالک حقیقی کے فیصلوں کا منتظر ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے کہ۔

نعت خوانی مصطفی کی اور شنکر کی زبان

سونچئے یہ کیا ہوا اور سونچتے رہ جائیے