ڈاکٹر شبانہ رضوی
یومِ اساتذہ "دنیابھر میں اساتذہ کی محنت اور ان کی تعلیم و تربیت کی خدمات کے اعتراف کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن نہ صرف اساتذہ کی عزت و تکریم کا اظہار کرتا ہے بلکہ معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ تعلیم ہر دور میں انسانی ترقی کا اہم ستون رہی ہے اور اساتذہ اس علم کے سفیر ہوتے ہیں جو نئی نسل کو شعور کی روشنی میں لانے کا کام کرتے ہیں۔
اسلام میں اساتذہ کی اہمیت
اسلام وہ واحد مذہب جس میں علم کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئ ہے۔ علم کے حوالے سے قرآن مجید میں تقریباً 750 آیات ہیں۔ یہ آیات علم کی قدر و قیمت، اس کی تلاش، اور علم کے حامل لوگوں کی فضیلت پر زور دیتی ہیں۔ اسلام میں اساتذہ کو علم کے وارثین کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ قرآن مجید کی پہلی وحی بھی علم کے بارے میں ہے:
'پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔' (سورة العلق)
یہاں علم کی ترغیب اور اس کے حصول کا حکم دیا گیا ہے، جو اساتذہ کی ذمہ داری کو واضح کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں اساتذہ کی قدر اور عزت کے حوالے سے مختلف احادیث بھی ملتی ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:'علم حاصل کرو، کیونکہ جو علم حاصل کرتا ہے وہ اللہ کی راہ میں ہے۔'
یہ حدیث اساتذہ کی خدمات کی عظمت کو واضح کرتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:'جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہوں، چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کرے۔'
یہ قول اساتذہ کی عظمت اور ان کی قدر کو بیان کرتا ہے۔ ایک حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'تم میں سے بہترین وہ ہے جو کہ قرآن سیکھے اور سکھائے۔'یہ حدیث اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ تعلیم اور تربیت دونوں ہی اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ اسلام میں تربیت کی اہمیت بھی اساتذہ کے کردار کو اور زیادہ اہم بناتی ہے۔اساتذہ کی اہمیت کے حوالے سے براہ راست قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے، لیکن تعلیم اور علم کی اہمیت پر بہت سی آیات ہیں جو اساتذہ کے مقام کو بھی واضح کرتی ہیں۔ اسی طرح، احادیث میں براہ راست اساتذہ کا ذکر تو کم ہے، مگر علم حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی فضیلت پر بہت سی احادیث ملتی ہیں، جواساتذہ کے مقام و مرتبے کو ظاہر کرتی ہیں۔ علم اور اساتذہ کی اہمیت کے حوالے سے چند احادیث:
نبی ﷺ نے فرمایا: 'جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ پر چلے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔' (صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سب ملعون ہیں، سوائے اللہ کے ذکر، اس کے پسندیدہ اعمال، عالم اور متعلم کے۔'(ترمذی)
'بیشک اللہ اور اس کے فرشتے، آسمان و زمین والے، حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں، اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔'(ترمذی)
یہ احادیث ظاہر کرتی ہیں کہ علم سکھانے والے کو اسلام میں کتنا بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ اساتذہ جوکہ علم کی روشنی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔
دیگر مذاہب میں اساتذہ اور گرو کی عظمت
ہندو مت میں گرو کا مقام بے حد بلند ہے۔ لفظ "گرو" سنسکرت میں "گُ" (اندھیرے) اور "رو" (روشنی) سے مل کر بنا ہے، جس کا مطلب ہے وہ شخص جو اندھیرے کو روشنی میں بدلتا ہے۔
ہندو مذہب کے مشہور اشعار میں کہا گیا ہے:
"گرو برہمہ، گرو وشنو، گرو دیو مہیشورہ،
گرو ساکشات پرم برہمہ، تسامئی شری گروے نمہ"
ہندو اور بودھ دونوں مذاہب میں "گرو پورنیما" منائی جاتی ہے۔ یوم اساتذہ اور گرو پورنیما دونوں ہی مواقع اساتذہ کی عظمت کو ظاہر کرتےہیں۔ یوم اساتذہ، اساتذہ کی تعلیمی خدمات کو سراہتا ہے جبکہ گرو پورنیما گرو کی روحانی تعلیمات کی قدر کو اجاگر کرتی ہے۔
یومِ اساتذہ کی تاریخ اور اہمیت
یومِ اساتذہ کی تاریخ بہت قدیم ہے اور مختلف ممالک میں یہ مختلف دنوں میں منایا جاتا ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے: اساتذہ کی عظمت کا اعتراف اور ان کی خدمات کا شکریہ ادا کرنا۔ہند میں پہلی بار یومِ اساتذہ 5 ستمبر 1962 کو ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یومِ ولادت کے موقع پر منایا گیا۔
ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن: ایک مختصر تعارف :
ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن 5 ستمبر 1888 کو تمل ناڈو کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مدراس کرسچن کالج سے فلسفہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بطور لیکچرر اپنے علمی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی تدریسی صلاحیتوں اور فلسفیانہ بصیرت نے انہیں جلد ہی ایک ممتاز فلسفی اور معلم کے طور پر متعارف کروا دیا۔
1952 میں وہ بھارت کے پہلے نائب صدر اور 1962 میں بھارت کے دوسرے صدر بنے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی تعلیمات اور علمی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بھارت کا سب سے بڑا شہری اعزاز "بھارت رتن" دیا گیا۔ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہا کہ 'ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے طلباء کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ںمعاشرتی ذمہ داریوں کا بھی احساس دلائے۔
ان کی خواہش تھی
'میری سالگرہ منانے کے بجائے اگر 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جائے تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی۔'اسی خواہش کی بنا پر بھارت میں ہر سال 5 ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتاہے
اساتذہ کی موجودہ دور میں اہمیت
انسانیت کی تاریخ میں کبھی ایسا دور نہیں آیا جب استاد کی ضرورت اور اہمیت نہ رہی ہو۔ آج کے جدید دور میں، جہاں تعلیم نے نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے، اساتذہ کا کردار اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ وہ نہ صرف علم دیتے ہیں بلکہ طلباء کی شخصیت سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
اساتذہ کا کردار اور ذمہ داریاں
اساتذہ کی ذمہ داریاں صرف نصابی تعلیم تک محدود نہیں ہوتیں۔ ان کا کردار اس سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ وہ طلباء کی شخصیت کو نکھارتے ہیں، ان کی اخلاقی تربیت کرتے ہیں اور انہیں معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں۔یوم اساتذہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ اساتذہ ہمارے معاشرے کا ایک اہم ستون ہیں اور ان کی عزت اور احترام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
فلسفیانہ نقطۂ نظر
فلسفیانہ نقطۂ نظر سے، استاد کا کام طالب علم کی ذہنی اور اخلاقی ترقی میں معاونت کرنا ہے۔' افلاطون نے اپنے استاد سقراط کی تعلیمات کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ ایک حقیقی استاد وہ ہوتا ہے جو طلباء کی آزادانہ سوچ اور سچائی کی طرف رہنمائی کرے۔'یہ نقطۂ نظر اساتذہ کے کردار کی وسعت کو بیان کرتا ہے جو صرف تعلیم تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کی سمت اور اخلاقی اقدار کے تعین میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
"استاد کی عظمت: ایک ادبی تجزیہ"
ادبی دنیا میں استاد کی عظمت و اہمیت بے حد نمایاں ہے۔ ادب اور فلسفہ کے میدان میں استاد کا کردار علم دینے تک محدود نہیں بلکہ طالب علم کی فکری اور روحانی نشوونما میں بھی اہم ہوتا ہے۔
استاد، ایک معلم اور رہنما کے طور پر، دانشورانہ بصیرت کو اجاگر کرتا ہے اور طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔
ادبی اور فکری موضوعات پر استاد کی رہنمائی، انسانیت اور اخلاقیات کی گہرائیوں میں ایک نئی روشنی ڈالتی ہے۔استاد کی یہ عظمت نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھی نمایاں ہوتی ہے، جو طالب علموں کو ایک باوقار اور معنی خیز زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔ادب میں بھی اساتذہ کی عظمت کو بھرپور طریقے سے سراہا گیا ہے۔
کبیر کے مشہور دوہے میں کہا گیا ہے:
'گرو گوبند دو کھڑے، کاکے لگوں پائے،
بلھری گرو آپنے، گوبند دیو بتائے۔'
یہ دوہا اساتذہ کی عظمت کو دیوتا گوبند (خدا) سے بھی بڑھ کر بیان کرتا ہے، جو طلباء کی رہنمائی کرتے ہیں اور انہیں علم کی روشنی فراہم کرتے ہیں۔یوم اساتذہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ اساتذہ ہماری زندگیوں میں کیا مقام رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے علم کے منار ہوتے ہیں، جو ہمیں زندگی کے سفر میں درست سمت دکھاتے ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر
تو نے علم کا جو خزانہ دیا
میں نے جھک کر اسے ہدیہ کیا
اے معلم! تیری عظمت کو سلام,
مولانا محمد علی جوہر نے اس شعر میں استاد کی عظمت اور ان کے علمی خزانے کو سلام پیش کیا ہے۔
علامہ اقبال:
استاد کے مقام کو، کس سے بھلا کہوں
ہر علم کی بنیاد ہے، ہر ذہن کی روشنی
علامہ اقبال نے اس شعر میں استاد کو علم کی بنیاد اور ذہن کی روشنی قرار دیا ہے۔
اکبر الہ آبادی
خدا نے علم دیا ہے جو تمہیں، استاد کے سبب
شکر کرو کہ یہ احسان استاد کا ہے
اکبر الہ آبادی نے اس شعر میں استاد کو علم کے حصول کی بنیاد قرار دیا ہے اور اس کے احسان کو سراہا ہے۔
میاں محمد بخش
استاد علم دا خزانہ، ویکھ لے سبھ کیہہ جاندا
علم دے نال ہوندا ایمان، استاد دی قدر نہ پچاندا
میاں محمد بخش نے اپنے شعر میں استاد کو علم کا خزانہ قرار دیا ہے اور اساتذہ کی قدر نہ کرنے والوں کو تنبیہ کی ہے۔
جواب شوق
یہ علم کی دنیا میں استاد ہی ہے جو چراغ جلائے
ہر ذہن کو روشنی بخشے، ہر دل میں امیدوں کے خواب جگائے
جواب شوق نے اس شعر میں استاد کو علم کے چراغ جلانے والا قرار دیا ہے اور طلباء کے دلوں میں امیدوں کے خواب جگانے والا کہا ہے۔
استاد کی تربیت اور رہنمائی کا اثر نسلوں پر پڑتا ہے۔ اساتذہ اپنے علم کے ذریعے طلباء کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتے ہیں اور انہیں معاشرے کے فعال رکن بناتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی، جہاں علم کی فراوانی ہے، ایک اچھے استاد کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کی خدمات کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے عملی اقدامات بھی کریں۔