اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 14-08-2023
اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار
اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

 

 ڈاکٹر سمیع احمد

اردوایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک و ملت کو جب کبھی بحرانی حالات کاسامنا ہواتو اردو نے اس کیفیت سے نکالنے میں ایک کلید ی رول اداکیا۔معاملہ ملک کی آزادی کاہو یاغاصب طاقتوں سے لوہا لینے کا ،اردو نے ہرمحاذ پر زندہ دلی کاثبوت دیا۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں جب انگریزی حکومت کے خلاف آزادی کا بگل پھونکا گیا تو اردو عوام کو جگانے اور لوگوں کے دلوں میں جذبۂ حریت کو فروغ دینے میں پیش پیش رہی۔یہ اردو صحافت ہی کاکرشمہ تھا کہ اس نے آزادی کی چنگاری کو شعلہ بنادیااور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہندوستان انگریزوں کی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا ۔اردو صحافت کی فطرت میں ہی حق گوئی ،بے باکی ،احتجاج اور انقلاب شامل ہے۔اردو صحافت نے محض اپنے دم خم پر جنگ آزادی میں جو سرفروشانہ کردار ادا کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاریخ میں درج ہے کہ اردو صحافت کے اسی سرفروشانہ کردار کی بدولت ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔

1857ءکی ناکام جنگ کے بعد حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے مسلم علما اور اردو کے صحافیوں کوتختۂ مشق بنانا شروع کیا۔اس زمانے کے اردو کے معروف صحافی اور ’دہلی اردو اخبار‘ کے مدیر مولوی محمد باقر کو جذبۂ حریت کی تشہیر کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ غلام ہندوستان میں شائع ہونے والے اردو اخبارات کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے غلامی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں عوام الناس میں قومی شعور کو بیدار کیا،اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ قومی شعور کی بیداری ہی آزادی کا پہلا زینہ ہے۔

عوام کو محکومیت کا احساس دلانا اور ان کی رگِ حمیت کو جھنجھوڑنا دراصل شعور کی بیداری کا حصہ ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اردو صحافت نے یہی کیا ۔اردو صحافت نے عوام کو محکومیت کے خلاف بیدار بھی کیا اور انھیںیہ احساس بھی دلایا کہ غلامی کے ماحول میں انسان کی قوت فکر اور قوت پرواز دونوں مضمحل ہوجاتی ہیں۔اردو صحافت کی ایک تابناک تاریخ رہی ہے ۔

مولوی محمد باقر،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خاں ،مولانا ابوالکلام آزاداورمولانا حسرت موہانی وغیرہ اردو کے ایسے جیالے صحافی تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ان کی قربانیوں کے طفیل ہندوستا ن کوآزادی نصیب ہوئی۔یہ اُردو کااحسان ہے کہ اس نے ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا، جس نے ناقابل شکست برطانوی حکومت کی جڑیں ہلا دیں۔ بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیوایسے مجاہدین آزادی تھے جنہوںنے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے آزادیٔ وطن کی خاطر تختۂ دار کو ہنس کر گلے لگالیا۔تحریک آزادی میں اردو صحافت کے فعال کردار کے حوالے سے معروف صحافی محمد عثمان فارقلیط کا خیال ہے

اُردو اخبارات نے جو قربانیاں دیں، اُن کا موازنہ کسی دوسری زبان کی صحافت سے نہیں کیا جا سکتا۔‘( الجمعیۃ، دہلی)

 اردو اخبارات کے سرسری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کے مظالم کے خلاف سب سے پہلے جیمس اگسٹس ہکی نے ’کلکتہ ایڈورٹائزر‘کے نام سے ایک اخبار نکالا،اُس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیگر لوگوںنے اخبارات جاری کیے اور انگریزوں کے ہر اُس عمل کو طشت از بام کیا جو ہندوستانیوں کے افکارونظریات سے متصادم ہوتا۔ اس طرح اردو اخبارات نے آزادی کی تحریک میں نمایاں خدمات انجام دیں۔اگر دیکھیں تو اُردو اخبارات نے ابتدا سے ہی قارئین کے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بٹھا دیا

ہمارے ساتھ یہی شرط ہے کہ جو بھی چلے

 خود اپنی تیغ پہ اپنا لہو سجا کے چلے

ملک کی تعمیر و ترقی میںاُرد و صحافت کا رول شروع سے ہی اہم رہا ہے۔ اردو کے ادیبوںا ورصحافیوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام کو بیدار کیا۔ اس وقت کے اخبارات میں جس طرح کی خبریں شائع ہوتی تھیں، اس کے کچھ نمونے ملاحظہ کریں

دریافت ہوتا ہے کہ ان دنوں میں ہنگامہ چوری کا وہاں ایسا بازار گرم ہے کہ رات کو سونا ترک کر دیا ہے۔ ہر شب چور دولت مندوں کے گھروں سے جو کچھ نقد جنس پاتے ہیں ، لے جاتے ہیں اور ارباب پولیس سے کچھ تدارک اس کا نہیں ہو سکتا۔ ظاہرہے چوروں سے سازش رکھتے ہیں ورنہ ممکن نہیں کہ ہر شب بے سازشِ پاسبان اور ارباب پولیس کے چوری کرنے کی جرأت کر سکیں۔‘‘ ( دہلی اردو اخبار، 19؍اپریل  1841)

 یاد رہے کہ 31 مئی 1857ءکے دہلی اردو اخبار میں مولوی محمد باقر لکھتے ہیں

انگریزوں کے تکبر نے ان کو قہرِ الٰہی میں مبتلا کیا ہے۔ان اللّٰہ لایحب المتکبرین - اب کہاں انگلش مَین اورفرینڈ آف انڈیا۔۔۔ اور وہ لن ترانیاں ۔ حکمت و حکومت داناؤں انگلستانیوں کی۔۔۔

جنگ ِ آزادی کے ہیرو مولوی احمداللہ شاہ کی لکھنؤ میں انقلابی سرگرمیوں کی ایک رپورٹ ’طلسم‘ لکھنؤ اخبار نے شائع کیا۔ شاہ صاحب نے  1856کے اواخر میں اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس سلسلہ کی خبر ’ طلسم‘ کے 13؍فروری1857کے شمارے میں ملتا ہے

وہ جو احمد اللہ گھسیاری منڈی میں مقیم ہیں، جو چاہتے ہیں زبان بولتے ہیں، بے خوف و بیم ہیں۔ بہت بھیڑ بھاڑ رہتی ہے، مولوی امیر علی صاحب مغفور کا ماجرا یاد کرتے ہیں، زبانی جدوجہد کرتے ہیں، آخر جب یہ خبر حکام کو پہنچی ، طبیعت ان کی فکرِ انتقام کو پہنچی۔ 20؍جنوری کو حسب الحکم شہر کے کو توال آئے۔ بعد فہمائش فرمایا کہ یہ بیان آپ کا بہت بے جا ہے۔ نری خرابی کے ڈھنگ ہیں۔ شاہ صاحب نے لب کھولے تو بہ بانگ بولے کہ تم بھی مسلمان ہو۔ اگر شرع کا دھیان ہو اور سامان و اسباب ضرورت مہیا ہو، فرمائیے تم پر اُس وقت جہاد فرض نہ ہو تو کیا ہو؟ اس طرح میں بھی جہاد کو فرض جانتا ہوں ، بے سامانی سے ناچار ہوں اگر بہم پہنچے تو تیار ہوں۔

اُردو زبان اور اردو صحافت، اُس دور میں عوام کے دلوں میں آزادی کا جوت جگارہی تھی۔ان دنوں تقریباً ہر سیاسی جماعت کے پاس اُردو کا ایک جریدہ ہواکرتاتھا، یہاں تک کہ مہاتما گاندھی کے مشہور اخبار ’ہریجن ‘ کا بھی اُردو ایڈیشن نکلتا تھا۔ آزادی کے وقت اردو صحافت 125سال پرانی تھی اور یہ انڈین نیشنل کانگریس سے 73سال قبل وجود میں آچکی تھی۔ 125سال کا یہ طویل عرصہ شاندار کارناموں، بے غرض قربانیوں اور مخلصانہ عمل کا دور تھاجسے عموماً نظر انداز کیا جارہا ہے۔

اردو کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘22 مارچ1822 کو کولکاتا سے منشی ہری ہر دت نے شائع کیاتھا جس کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ تھے۔انھوں نے اپنے اخبارمیں انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ظالمانہ پالیسیوں کو طنزوتنقید کا نشانہ بنایا۔ 1836میں مولوی محمد باقر نے دہلی سے دہلی اردو اخبار‘نکالا۔مولوی محمد باقر ایک بے باک اور نڈر صحافی تھے-انھوں نے انتہائی جرأ ت سے کام لیتے ہوئے فرنگیوں کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف لکھا اور عوام میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں انگریزافسر ہڈسن کے حکم سے انھیں گولی مارکر شہید کردیاگیا۔ اردو صحافت کی تاریخ میں مولوی باقر کوپہلے شہید صحافی کے طورپر یادکیا جاتا ہے۔

صحافت ایک عظیم اور جرأت مندانہ پیشہ ہے ،اس کی اہمیت اور افادیت ہرزمانے میںمحسوس کی گئی ہے ۔دنیا میں بڑے بڑے انقلابات بھی صحافت کی مرہون منت ہیں۔مقامی فکرواحساس کو آفاقیت سے ہم کنار کرنے میں بھی صحافت کے کردار کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے قلم وقرطاس سے رشتہ استوار کیا، ممالک کو مسخر کرنے اور بڑی سے بڑی جنگ کو فتح کرنے میں اسے دیر نہیں لگتی۔یہی وجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی جیسے عظیم شاعر نے آج سے برسوں قبل صحافت کی اہمیت اور اخبار کی معنویت کو محسو س کرلیا تھا، انھوں نے کہا کہ جنگ جیتنے کے لیے تیر وکمان کی نہیں اخبار کی ضرورت ہے،شعر ملاحظہ کریں

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

کتنی صداقت ہے اکبر ؔالہ آبادی کے اس شعر میں کہ فکری اور نظریاتی جنگ میں فتحیاب ہونے کے لیے توپ کی نہیں ہمیں اخبار کی ضرورت ہے۔یہ سچ ہے کہ اُردو اخبارات نے عوام میں وہ سماں باندھااور انہیں اس حد تک تیار کیا کہ توپ کے دہانے کھولنے والے انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جاناپڑا۔

’دہلی اُردو اخبار‘ کے بعد تو ملک کے کونے کونے سے اُردواخبارات کے نکلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سرسید احمد خان کے بھائی سید محمد خاں نے دہلی سے ’سید الاخبار’ 1837 میں جاری کیا۔ محبوب عالم کی ادارت میں گوجرانوالہ (موجودہ پاکستان) سے 1887میں’پیسہ‘ اخبار نکلنے لگا۔ اس زمانے میں اس اخبارکی اشاعت بہت زیادہ تھی ۔یہ اخبار عوام میں بہت زیادہ مقبول تھا ،حتی کہ سات برس کی مدت میں اس کی اشاعت دس ہزار تک ہوگئی تھی۔ لاہور سے مولانا ظفر علی خاں ’زمیندار‘اخبارکے ذریعے اپنی طنزیہ شاعری سے انگریزوں کی نیند حرام کیے ہوئے تھے، تو دہلی سے مولانا محمد علی جوہرؔ اخبار ’ہمدرد‘ کے ذریعہ عوام کو بیدار کر رہے تھے۔

ادھر لاہور سے مہاشے خوشحال چند خورسند نے اپنی ادارت میں 13اپریل 1923کو ’ملاپ‘ اخبار جاری کیا ،تو وہیں لکھنؤ سے منشی نول کشور نے ’اودھ اخبار‘ جاری کیا۔یہ وہ اخبارات تھے جن کے اداریے ایک احتجاجی رنگ لیے ہوتے اور ان میں شائع والے بیشتر مضامین کی نوعیت بھی انقلابی ہوتی۔ان اخبارات کا عوام میں ایک خاص اثر ہوتا اور وہ ان سے تحریک پاکر ملک کی آزادی کی جنگ میں شامل ہوتے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں کئی اہم اخبارات جاری ہوئے۔کولکاتاسے مولانا ابوالکلام آزاد نے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘جاری کیا تو کولکاتا سے ہی ’عصر جدید‘ اور ’ہند‘ نکلے۔ دہلی سے ’الامان‘اور ’وحدت‘ممبئی سے’خلافت‘ لکھنؤ سے ’حق‘، ’ہمدم‘ اور ’سرفراز‘،جبکہ لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات میں’انقلاب،احسان‘ اور ’شہباز‘ اہم ہیں۔ قدیم اخباروں میں ’زمیندار‘ اور ’سیاست‘ انتہائی مقبول تھے۔قاری کو ان میں اپنے دل کی آواز سنائی دیتی،جس کی وجہ سے انھیں ان اخبارات کاانتظار رہتا۔اردو ایک سیکولر زبان ہے،گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے ،یہ ہرمذہب و مسلک کے لوگوں کی زبان ہے یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم صحافیوں اور ان کے ہندو مالکان نے اردو اخبارات نکالے اور اردو زبان وادب کی آبیاری کی۔ ’تیج‘ (دہلی) ،’پر تاپ‘، ’ملاپ‘ اور ’وندے ماترم،ویر بھارت‘ ایسے ہی اخبارات تھے جن کے مالکان ومدیران غیر مسلم تھے۔

حریت فکر اور آزادیٔ تحریر کے متوالے اردو کے مدیر اور صحافی انگریزوں کے ذریعے ڈھائے گئے مظالم کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے۔ ادھر انگریزوں کا ظلم بڑھتا گیااور انہیں جیلوں میں ٹھونس دیاجاتا،قید با مشقت کی سزادی جاتی، پھانسی پر لٹکایا جاتا مگر تحریک آزادی کے متوالے ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے۔۱۸۵۷ءمیں ’کوہ نور‘ لاہور کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ رائے کو باغیانہ تحریر کے لیے تین سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ ’صادق الاخبار‘ دہلی کے ایڈیٹر سید جمیل الدین ہجرؔ کو بھی تین ماہ کی سزا دی گئی۔ ’مظلوم دکن‘ حیدر آباد کے ایڈیٹر عظیم الدین کو 1898ءمیں شہر بدر ہونا پڑا۔

ہفت روزہ ’سچائی‘ کے ایڈیٹر لالہ جسونت رائے کو دو سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی ۔’انڈیا‘ اخبار (گوجرانوالہ) کے ایڈیٹر لالہ دینا ناتھ کو حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں تین برس کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ مولانا حسرتؔ موہانی سے بار بار ضمانتیں طلب کی گئیں اور ان کا پریس بھی ضبط کر لیا گیا۔ ’سوراجیہ ‘ الٰہ آباد کے ایڈیٹر شانتی نارائن بھٹناگر کو کئی برسوں تک جیل کی سزا کاٹنی پڑی۔ اِسی اخبار کے نندگوپال کو 1910میں دس برسوں کی قید کی سزا ہوئی اور اسی اخبار کے دوسرے ایڈیٹر پنڈت کو سا رام کو بھی دس برسوں کی قید با مشقت کی سزا ہوئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا ظفر علی خاں اور مولانا حسرتؔ موہانی کاتو ہمیشہ جیل آناجانا لگا رہتا۔ ’ملاپ‘ لاہور کے مہاشے کرشن کو کئی بار سزائیں دی گئیں۔ ’ملاپ‘ لاہور کے مدیر رنبیر جی کو تو پھانسی کی سزا ہو گئی تھی مگر اس سے پہلے ہی انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا جس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔

اردو اخبارات کی آزادی کی جنگ میں جھونکنے کا عمل ہندوستان تک ہی محدود نہ تھا بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں، جہاں جہاںہندوستانی رہتے تھے، وہ آزادی کی تحریک کا حصہ تھے۔مجاہدین آزادی نے اس کام کے لیے اردو اخبارات کا سہارا لیا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی نے ہندوستان جلا وطن حکومت بنائی تھی۔ اُس حکومت کے صدر لالہ ہردیال اور وہ وزیراعظم تھے۔’غدر‘نام سے ان کی ایک سیاسی پارٹی تھی۔اپنے موقف کی ترجمانی کے لیے انھوںنے ’غدراخبار‘کے نام سے یکم نومبر1913کو کیلی فورنیا میں اردو کا ایک اخبار جاری کیا۔یہ اخبار اردو کے علاوہ ہندی، مراٹھی ، گورمکھی اور گجراتی زبانوں میں بہ یک وقت نکلتا تھا۔ اس کے ایڈیٹر رام چندر اور معاون مولانا برکت اللہ بھوپالی خود تھے۔ یہ اخبار ہندی ایسوسی ایشن آف ینگ کوسٹ کا آرگن تھا۔ کچھ دنوں بعد ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوراٹر کے ساتھ اس کا دفتر بھی سان فرانسسکو منتقل ہو گیا۔ ایسوسی ایشن کا دوسرا نام ’غدر پارٹی‘ تھا۔ یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ ایسوسی ایشن کا اصل نام پردۂ خفا میں چلا گیا۔

اُردو صحافت کے ذکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کچھ اور اخبارات پرروشنی ڈالیں گے۔ مثلاً ’امین الاخبار‘جو الٰہ آباد سے ہفتہ وار نکلتا تھا ،جس کی کاپی رضالائبریری (رام پور) میں موجود ہے۔’ اخبار عام‘ کا بھی ذکر لازمی ہے جو لاہور سے سہ روزہ نکلتاتھا ،اس کے مدیر گوپی ناتھ تھے۔ 18؍ اگست 1881کی ایک کاپی مہر الٰہی لائبریری میں موجود ہے )ڈاکٹر میرا لٰہی [م ندیم[ علی گڑھ کا ذاتی ذخیرہ)اسی طرح آگرہ سے ایک پندرہ روزہ اخبار ’مفید عام‘ نکلتا تھا، جس کے مالک احمد خاں صوفی تھے، اس کی کاپی بھی رضا لائبریری (رام پور) میں موجود ہے۔ ’ہندوستانی اخبار‘ کے ذکر میں بالترتیب’سائنٹفک سوسائٹی‘ اور رسالہ ’تہذیب الاخلاق ‘ کا ذکر بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ ’سائنٹفک سوسائٹی‘ کا پہلا شمارہ 30؍مارچ1966 کو علی گڑھ سے شائع ہوا اور ’تہذیب الاخلاق‘ کا اجرا 24؍دسمبر 1970کو عمل میں آیا۔ لکھنو سے شائع ہونے والا اخبار ’طلسم لکھنؤ‘ 25؍جولائی 1856ءکو مولوی محمد یعقوب انصاری فرنگی محلّی نے جاری کیا،جو انگریز حکومت پر نکتہ چینی کے لیے بے مثال تھا۔’ طلسم‘ میں قلعۂ معلی کی خبریں بھی متواتر شائع ہوتیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کے خلاف جب انگریزوں نے مقدمہ چلایا تو ’طلسم‘ کا 16؍سمبر 1856کا شمارہ مبینہ بغاوت ۱۸۵۷ءکے معاملہ میں بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ یہ شمارہ نیشنل آرکائیوز ، نئی دہلی میں بغاوت کے کاغذات میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار اخبارات تھے جو ہندوستان کے مختلف گوشوں سے نکل رہے تھے۔ مثلاً ’شمس الاخبار،سلطان الاخبار، جلوہ طور،البشیر، سفیر ہند‘ اور ’الجمعیۃ‘( دہلی) وغیرہ... یہ وہ اخبارات تھے جن کا عوام میں ایک خاص اثر تھا ۔عوام کے جذبہ و احساس سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ان اخبارات کا قاری کو انتظار رہتا۔

ہندوستان میں اردو صحافت کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی گئی تھی۔ اوّل انگریزوں کے جبر و ستم کے خلاف اور دوم حریت فکر و آزادیٔ تحریر پر۔ اردو اخبارات نے حریت فکر اور آزادیٔ تحریر کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں ہر ممکن کوشش کی۔ جب اُن کے اُس حق پر حرف آیا تو وہ انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے، احتجاج کیا اورصحافیوں نے ہر قسم کی اذیتیں برداشت کیںمگر ان کے احتجاجی تیوراور انقلابی فکرمیں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔اُردو اخبارات نے جنگِ آزادی کے دوران جو مثالی کردار ادا کیا ، اُسے تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا، اردو صحافت کا یہ سرفروشانہ کردار ہے، جس پر اُردو کو ہمیشہ ناز رہے گا۔