ٹیچنگ کی روزی حلال ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ آپ اس کے ساتھ انصاف نہ کریں۔ڈاکٹر اسلم پرویز

Story by  شاہ تاج خان | Posted by  [email protected] | Date 11-09-2024
  ٹیچنگ کی روزی حلال ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ آپ اس کے ساتھ انصاف نہ کریں۔ڈاکٹر اسلم پرویز
ٹیچنگ کی روزی حلال ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ آپ اس کے ساتھ انصاف نہ کریں۔ڈاکٹر اسلم پرویز

 

 شاہ تاج خان (پونے)

آج کی تعلیم رچتی بستی نہیں ہے،ہ یہ نیل پالش ہے حنا نہیں ہے۔اپنا رنگ نہیں چھوڑتی محض اوپری پرت کی مانند ہے

درس و تدریس کبھی بھی ایک پیشہ نہیں تھا۔جس نے اسے پیشے کے طور پر اپنا لیا وہ کبھی بھی ایک اچھا ٹیچر نہیں بن سکا۔

دنیا کہتی ہے تعلیم و تربیت لیکن میں اسے تربیت و تعلیم کہتا ہوں

 مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویزسے نے یوم اساتذہ کے موقع پر اس پیشے، اور اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے ان تاثرات کا اظہار کیا ۔انھوں نے آواز دی وائس سے  ماضی کی تعلیم اور آج کی تعلیم کے ساتھ بدلتے ماحول پر بھی روشنی ڈالی ۔اس پیشے کی حساسیت  اور اہمیت کا ذکر کیا ،اساتذہ کی اخلاقی ذمہ داریوں کا ذکر کیا اور تعلیمی ماحول کے بارے میں اپنے تجربات بیان کئے ۔ آپ کو بتا دیں کہ ہر سال پانچ ستمبر کویومِ اساتذہ اسکولوں میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بچوں کے اندر ذہنی، اخلاقی، سماجی، نفسیاتی، تجرباتی انداز سے سوچنے سمجھنے کی ۔صلاحیتوں کو فروغ دینے میں اساتذہ بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔یومِ اساتذہ کے موقع پرایک طویل عرصے تک استاد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے  والے پروفیسر اسلم پرویز  سے بات چیت پیش خدمت ہے 
وہ جو نسلیں سنوارتے ہیں
مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق وائس چانسلرڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے اپنے تجربات اور یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں  شروعات پرائمری اسکول سے بلکہ پری پرائمری اسکول سے کروں گا۔پرانی دلّی کے بلیماران میں ایک علاقہ ہے بارہ دری شیر افگن۔وہاں پر تعلیمی سماجی مرکز کے نام سے ایک اسکول تھا۔اس اسکول میں ڈھائی تین سال کے بچوں کو داخلہ مل جایا کرتا تھا۔وہاں پر میری والدہ مجھے لے کر گئی تھیں۔اس اسکول میں ایک نِمّی میڈم تھیں۔وہ بہت محبت سے ہمیں پڑھاتی تھیں۔ایک دھندلی سی شبیہ میرے ذہن میں ہے کہ میں اسٹول پر کھڑے ہوکر اپنی کلاس کوبتاتا تھا یا پڑھاتا تھا۔میرے ذہن میں جب یہ باتیں آئیں تو اپنی والدہ سے پوچھا تواس بات کی تصدیق میری والدہ نے کی۔ انھوں نے بتایا کہ نِمّی میڈم تمھیں اسٹول پر کھڑا کر دیا کرتی تھیں اور تم کلاس کو پریکٹس کرایا کرتے تھے۔نمی میڈم مجھے ہمیشہ یاد رہیں۔میں مانتا ہوں کہ بچپن کی جو نفسیات بچے کے ذہن میں لا شعور میں کہیں بیٹھتی ہیں تو وہ زندگی میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
پرائمری اسکول کی اگر بات کریں تومیں نے سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔پرائمری اسکول میں میرے ایک استاد تھے عبدالرب کاردار۔تھیئٹر کا مشہور نام کاردار صاحب نے مجھے تقریر کرنا سکھائی۔انھوں نے مجھے سکھایا کہ کمر کے پیچھے ہاتھ باندھ لینا ،پبلک کو نہ دیکھنا اپنی نظر اوپر رکھنا ، جو رٹایا ہے اسے پڑھتے چلے جانا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب میں تیسری کلاس میں تھا۔اس مقابلے کے لیے وہ مجھے امروہہ لے کر گئے تھے۔مجھے تقریری مقابلے میں شرکت کی غرض سے لے جانے کے لیے انھوں نے بہت پاپڑ بیلے تھے کیونکہ میری والدہ اجازت نہیں دے رہی تھیں۔استاد کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ میرے استاد کئی مرتبہ میرے گھر آئے۔مجھے امروہہ ساتھ لے جانے کے لیے میری والدہ کو منایا۔کاردار صاحب کی جانب سے ہر طرح کی یقین دہانی کے بعد میری والدہ اس شرط پر راضی ہوئیں کہ باہر نکلتے ہوئے استاد محترم ہمہ وقت میرا ہاتھ پکڑے رہیں گے۔امروہہ میں سیرت النبی کے جلسہ میں وہ مجھے لے کر گئے۔جو تقریر میرے استاد نے مجھے یاد کرائی تھی اس کا عنوان تھا‘‘اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی’’۔ یہ میرے لیے بہت بڑا بریک تھا مجھے وہاں سے بہت حوصلہ اور ہمت ملی۔تیسری جماعت میں ہی اسٹیج پر آنے اور سامعین کے سامنے بولنے کا موقع بہت جلدی مل گیا تھا۔اس کے بعد میں جس اسکول میں بھی رہا وہاں ایک مقرر کی حیثیت سے میں جگہ بناتا چلا گیا۔کارپوریشن کے سرکاری پرائمری اسکول سے پانچویں جماعت پاس کر نے کے بعد چھٹی جماعت میں اجمیری گیٹ پرواقع اینگلو عربک اسکول میں میرا داخلہ ہوا۔اس کے در و دیوار سے آج بھی مجھے وہی خوشبو آتی ہے جو طالب علمی کے دور میں آتی تھی۔میں آج بھی اس اسکول میں جاتا ہوں۔
ڈاکٹرمحمد اسلم پرویز 

علم کی جھیل کا تیراک بنایا ہے مجھے
ڈاکٹر محمد اسلم پرویزنے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جنھوں نے میری شخصیت کو بنانے میں براہ راست بہت اہم رول ادا کیا۔میرے ایک استاد جنھوں نے ایک نئی جہت کا میری زندگی میں آغاز کیا۔وہ تھے تہذیب الحسن صاحب۔ ویسے تو تہذیب صاحب تاریخ پڑھاتے تھے لیکن ہمیں سائنس پڑھاتے تھے۔وہ دلیل اور تجربوں کے ساتھ بہت دلچسپ انداز میں ہمیں پڑھاتے تھے۔انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اسکو ل میں سائنس فیئر کا انعقاد کیا گیا۔پہلی مرتبہ فزکس لیب میں سائنس فیئر ہوا تھا۔اس وقت ٹوائلٹ فلش کرنے کے لیے جو اوپر دیوار میں پانی کی ٹنکی لگتی تھی جس میں ایک چین لٹکتی رہتی تھی۔میں وہ ورکنگ ماڈ ل تیارر کر کے لے کر گیا تھا۔گھر میں لیب بنانا ،تجربات کرنا اور ہر کام کو اپنے ہاتھوں سے کر کے سیکھنے کی تحریک مجھے تہذیب الحسن صاحب سے ہی ملی تھی۔میری زندگی میں تہذیب الحسن صاحب کا بہت اہم رول ہے۔ میرے اندر سائنسی فکر اور سائنسی مزاج انہیں کی صحبت میں پروان چڑھا۔انھوں نے تجربہ کر کے سیکھنے کی تحریک ڈالی۔
اینگلو عربک اسکول میں ایک ٹیچر تھے محمد قاسم صدیقی اور ایک تھے ماسٹر محمد انیس صاحب۔انھوں نے مجھے لکھنا سکھایا۔ اسکول میگزین‘‘اعتمادیہ’’ کے قاسم صدیقی صاحب ایڈیٹر تھے۔میں نے اسکول میگزین کے لیے کہانی لکھی تھی جس کا عنوان تھا‘‘فرار’’۔وہ ایک جیل توڑنے والے کی کہانی تھی۔میں بہت سوچتا تھا ۔جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھتا تھا۔ میری لکھی وہ پہلی کہانی میگزین میں جب شائع ہوئی تب میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا۔میرے لیے وہ بہت حوصلہ افزاء پل تھا ۔میں بہت خوش تھا۔ماسٹر انیس صاحب میرے لکھے مضامین کی اصلاح کرتے تھے۔یہ وہ ٹیچر ہیں جنھوں نے اسکول کے دور میں براہ راست مجھے متاثر کیا۔اس کے علاوہ ایسے اساتذہ بھی تھے جن کا سیدھے طور پر نہیں لیکن میں نے ان کا اثر قبول کیا۔جیسے مجھے کسی کا لباس اچھا لگتا تھا، کسی کی چال ڈھال مجھے اچھی لگتی تھی، کسی کے پڑھانے کا انداز مجھے اچھا لگتا تھا، کسی کا طرز تکلم مجھے بہت پسند تھا ۔میں ان چیزوں کو اپنے اندر جذب کرتا تھا۔میں یہ سب چیزیں اپنے اندر سموتا رہتا تھا۔میں نے تبھی یہ بات سمجھی کہ ایک استاد کو طالب علم مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے۔ہر ٹیچر کو اپنے ہر زاویہ کو درست رکھنا چاہیے۔کیا معلوم کس زاویہ کا اثر کوئی بچہ قبول کر لے۔یہ جو علم مجھے ملا اس بات نے مجھے آگے چل کر ایک محنتی اور حق ادا کرنے والا ٹیچر بننے میں بہت مدد کی۔
فکرو فن تہذیب و حکمت دی شعور و آگہی
اپنی زندگی میں اساتذہ کے اثر کا اعتراف کرتے ہوئے کئی مرتبہ اسلم پرویز صاحب کبھی آگے نکل جاتے تھے اور پھر اپنے کسی استاد کا نام ذہن میں آتے ہی کہتے کہ اس ٹیچر کا ذکر کیے بنا میری بات مکمل نہیں ہو سکتی۔اپنے مڈل اسکول کی بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس وقت مڈل کلاس میں تین زبانوں کا فارمولہ ہوتا تھا۔عربی، فارسی اور سنسکرت میں سے ایک زبان کا انتخاب کر سکتے تھے۔میں نے عربی لی تھی۔وہ میرے بہت کام آئی۔مجھے عبدالمقتدرصاحب نے عربی پڑھائی تھی۔یہ نا صرف عربی پڑھاتے تھے بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی سمجھاتے تھے۔اچھا انسان بننے کے لیے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں یہ انھوں نے ہی سمجھایا ۔
نویں جماعت میں اسٹریم کا انتخاب کرنا ہوتا تھا تب میں نے سائنس کا انتخاب کیا۔اس دوران مجھے پریکٹکل کرنے کا اتناجنون اور خبط رہتا تھا کہ اپنے گھر کے اندر میں نے ایک چھوٹی سی لیب بنا لی تھی جس میں اسکول سے آنے کے بعد پریکٹیکل کیا کرتا تھا۔ اس وقت علم کیمیا میں میری دلچسپی بہت زیادہ تھی۔اینگلو عربک اسکول کے ساتھ ہی دلی کالج ہوا کرتا تھا۔ جو اب ذاکر حسین کالج ہے۔وہاں بوٹنی کے ڈاکٹروریندر کمار تھے اور ایک تھے ڈاکٹر ناگر۔ ڈاکٹر ناگر زولوجی پڑھاتے تھے۔ان اساتذہ سے مجھے ہائر سیکینڈری امتحان کی تیاری میں بہت مدد ملی تھی ۔ان کے سبب ہی میں ہائر سیکینڈری اچھے نمبروں سے پاس کر سکا۔میں وریندر کمار صاحب سے بہت متاثر تھا۔یہ میرے آئیڈیل بن گئے تھے۔وہ نصاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور انسانیت بہت پڑھاتے تھے۔ڈاکٹر ویریندر کمار چونکہ بوٹنی پڑھاتے تھے تو طلبا کو ٹور پر لے جایا کرتے تھے۔راستے میں وہ ہمیں کوئی پیسہ خرچ نہیں کرنے دیتے تھے بلکہ اپنی جیب سے خرچ کیا کرتے تھے۔وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ جب بڑے موجود ہیں تو بچے پیسے خرچ نہیں کریں گے۔میں نے ان سے یہ بات سیکھی اور عملی زندگی میں شامل کی۔
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
بی ایس سی میں نے دلی کالج سے کی تھی ۔اس وقت دلی کالج میں بی ایس سی آنرز نہیں تھا ۔حالانکہ میرا داخلہ بی ایس سی آنرز میں کروڑی مل کالج میں ہو گیا تھا لیکن میں ان اساتذہ اور دلی کالج کے ماحول سے اتنا متاثر تھا کہ کالج چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوا ۔کالج میں ایک ٹیچر تھیں مس سنیتا پوری۔اور ایک ڈاکٹر بسواس ہوا کرتے تھے۔ڈاکٹر بسواس کی یہ خاصیت تھی کہ وہ نوٹس کی مدد لیے بنا پڑھاتے تھے۔ان کی اس عادت کو میں نے آگے چل کر اپنایا۔زولوجی میں ایک ڈاکٹر رویندرچترویدی ہوتے تھے۔ان سے میں نے بورڈ پر کلر تصویریں بنا کر پڑھانے کا طریقہ سیکھا۔وہ ہمیشہ رنگ برنگے چاک کے ڈبے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔وہ تصویر میں الگ الگ رنگ کے ذریعہ چیزوں کو نمایاں کرتے تھے۔ جب تک میں نے پڑھایا ہمیشہ کلر چاک کا استعمال کیا میں پڑھانے کے دوران کلرفل اسکیچ بنایا کرتا تھا۔ کالج میں کلر چاک نہیں ملتی تھیں اس لیے میں اپنے ساتھ رنگ برنگے چاک کے مختلف ڈبے نئی سڑک سے خرید کر لایا کرتا تھا۔ان ٹیچروں سے متاثر ہوکر میں نے آگے چل کر بوٹنی کا انتخاب کیا اور ایم ایس سی بوٹنی میں کیا۔حالانکہ بچپن سے میری دلچسپی ہمیشہ کیمسٹری میں تھی مگر ٹیچروں سے متاثر ہونے کے سبب میں نے بوٹنی کو ترجیح دی۔میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سبجیکٹ کا انتخاب اورشخصیت پر اساتذہ کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل و بدخشاں
تعلیم کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچے ۔جہاں سے انھوں نے اپنی پی ایچ ڈی تک کی تعلیم مکمل کی۔دلی کالج کے اساتذہ کے اثر کو قبول کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ بسوا س صاحب کے فیزیولوجی پڑھانے کا اندازمجھے اتنا اچھا لگاکہ جب میں ایم ایس سی کرنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گیا تو میں نے فزیولوجی کا انتخاب کیا اور پھراسپیشلائزیشن اسی میں کیا اور پھر پی ایچ ڈی بھی فزیولوجی میں کی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہمارے ایک ٹیچر تھے محمد محمود الرحمن خان آفریدی۔یہ برسٹل سے پی ایچ ڈی تھے۔بہت اچھی فزیولوجی پڑھاتے تھے مجھے یہ ٹیچر بے حد پسند تھے۔دوسرے خالد محمود صاحب جو وائرولوجی پڑھاتے تھے۔وہ ہالینڈ سے پڑھ کر آئے تھے بہت اچھے استاد تھے۔ایک فنگس اسٹڈی کے پروفیسر ابرار مصطفی خان تھے جو یو ایس سے پی ایچ ڈی تھے۔ایک اسرار احمد تھے جو انٹا مولوجسٹ تھے اور شاعر بھی۔شیدا تخلص رکھتے تھے۔بہت اچھا پڑھاتے تھے۔یہ وہ اساتذہ تھے جنہوں نے مجھے سبجیکٹ پڑھانے کا سلیقہ دیا۔اگر یوں کہوں توغلط نہ ہوگاکہ میں ان سب سے اپنے ترکش میں تیر اکٹھے کرتا چلا گیا۔جب میں درس و تدریس سے وابستہ ہوا تو ان سب کو مکس کرکے ایک کمپاؤنڈ بنایا۔میں نے ہر وہ چیز اس میں سے لی جو مجھے ٹیچروں میں اچھی لگی تھی۔اور وہ تمام باتیں چھوڑ دیں جو مجھے ٹیچروں میں ناپسند تھیں۔جیسے کبھی بھی میں نے نوٹس کے ذریعہ لیکچر نہیں دیا ۔میں لیکچر سے پہلے گھنٹوں پڑھتا تھا اور پھر کلاس میں پڑھاتا تھا۔میں پہلے خود سمجھتا تھا اور پھر طلبا کو سمجھاتا تھا۔کوئی بھی چیز جو خودنہیں سمجھا وہ کبھی پڑھائی ہی نہیں۔میں ہمیشہ زندگی سے جوڑ کر پڑھاتا تھا۔
جو علم کا علم ہے استاد کی عطا ہے
جب ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ٹیچر بننے کا ارادہ کب اور کیوں کیاتو انھوں نے بہت سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ جب میں نے اچھے نمبروں سے ہائر سیکینڈری پاس کیاتو پری میڈیکل میں داخلہ لینے کی بجائے بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ بہت پہلے سے ہی میرے ذہن میں تھا کہ مجھے ٹیچر بننا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ نِمّی میڈم نے چاک ہاتھ میں لے کر مجھے اسٹول پر بورڈ کے سامنے کھڑا کرنے کی جو بنیاد ڈالی۔ شاید وہ ایک وجہ تھی کہ جب میں نے ڈاکٹر بننے کے بجائے در س و تدریس کے پیشے کو ترجیح دی ۔خاص بات یہ رہی کہ اس وقت میرے والدین نے بھی مجھے نہیں روکابلکہ میرے انتخاب کا احترام کیا۔
اپنے متعدد اساتذہ کا ذکر کرتے ہو انھوں نے کہا کہ دلی کالج میں نیاز صاحب تھے جن کا ڈریسنگ سینس اور بولنے کا اندازبہت اچھا تھا۔دوسرے تھے بھیشم ساہنی صاحب۔شرافت کے پتلے، بیگ ہاتھ میں لیے دوسری طرف کا کندھا ہلکا سا جھکا ہوااور کوٹ پہن کر وہ آتے تھے۔ ان ٹیچروں نے مجھے مختلف انداز میں متاثر کیا۔میں نے اپنے ٹیچروں سے انکساری ،ٹیم ورک اور ایمانداری سے کام کرناسیکھا۔ مجھے ایسے ٹیچر ملے جنھوں نے مجھ پر پیسے خرچ کیے۔تو میں نے بھی وہی سیکھا۔میں نے کبھی پیسہ جوڑ کر نہیں رکھا اور میرا کام کبھی رکا نہیں۔
 ڈاکٹرمحمد اسلم پرویز 

تربیت و تعلیم
موجودہ دور میں اساتذہ کے تعلق سے انھوں نے اپنے خیالات اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں درس و تدریس کبھی بھی ایک پیشہ نہیں تھا۔جس نے اسے پیشے کے طور پر اپنا لیا وہ کبھی بھی ایک اچھا ٹیچر نہیں بن سکا۔ ظاہر ہے روزی تو سب کو کمانا ہے کیونکہ گھر چلانا ہے لیکن ٹیچنگ ایسی چیز ہے جِس کی روزی حلال ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ آپ اس کے ساتھ انصاف نہ کریں۔ٹیچنگ کے ساتھ انصاف یہ ہے کہ اگر آپ تعلیم کو تربیت سے نہیں جوڑتے تو آپ ٹیچر نہیں ہیں۔تعلیم و تربیت بلکہ میں تو اسے الٹا بولتا ہوں کہ تربیت و تعلیم۔ اس بات پر مکمل یقین بھی رکھتا ہوں کہ تعلیم کی کمی تربیت کے ذریعے سنبھال لی جاتی ہے لیکن تربیت کی کمی زندگی بھر نہیں سنبھلتی۔تربیت ہی اہم ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ تربیت بچپن سے ، گھر سے دیجیے پھر اچھی تعلیم دیجیے۔میری والدہ جنھوں نے میری زندگی بنا دی ان کی تعلیم تو کچھ بھی نہیں تھی ان کے پاس صرف تربیت تھی۔
آج جس طرح کی تعلیم دی جا رہی ہے وہ اندر نہیں اتر رہی ہے۔تعلیم رچتی بستی نہیں ہے۔اتنا سمجھ لیجیے کہ یہ نیل پالش ہے حنا نہیں ہے۔اپنا رنگ نہیں چھوڑتی محض اوپری پرت کی مانند ہے۔یہی سبب ہے کہ شخصیت وجود میں نہیں آرہی ہیں۔شخصیتیں جب تک نہیں بنیں گی جب تک ان کی شخصیت سازی نہ ہو۔شخصیت سازی وہی کر سکتا ہے جس کی خود کی کوئی شخصیت ہو۔شخصیت وجود میں نہ آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم والدین کے طور پر نہ تو بچے کی صحیح تربیت کرتے ہیں اور نہ ہم ٹیچر بننے کا حق ادا کرتے ہیں۔جب میں ذاکر حسین کالج کا پرنسپل بنا تو کالج کے پہلے دن آڈیٹوریم میں بچوں سے بات کرتے ہوئے یہی کہتا تھا کہ مجھے اس میں دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کتنے فیصد نمبر حاصل کرکے اس کالج سے نکلے۔مجھے دلچسپی اس بات میں ہے کہ آپ کتنے اچھے انسان بن کر اس کالج سے نکلے۔