محفوظ عالم : پٹنہ
کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا اور مخلص استاد اپنے طلباء کی زندگی میں تعلیمی انقلاب لاتا ہے۔ وہ اپنے طالب علموں کو نہ صرف با کردار، با اخلاق اور ایک اچھا شہری بناتا ہے بلکہ اس کے اندر علمی ذوق پیدا کر کے اعلیٰ اقدار کا حامل اور کامیاب شخص بنانے میں اپنی بھر پور کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسی میں سے ایک نام ہے قومی ایوارڈ یافتہ اور مشہور و معروف ٹیچر مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا۔ مولانا قاسمی بہار کے مشہور و معروف عالم دین ہیں اور ہر طبقہ و مسلک میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یوم اساتذہ کے موقع پر آواز دی وائس نے معروف ٹیچر اور درجنوں کتابوں کے مصنف مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی سے تفصیلی بات چیت کیا۔
استاد کی شان بلند ہوتی ہے
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ دراصل استاد کی حیثیت بہت بلند ہوتی ہے، وہ طلبا کو با شعور بناتے ہیں انہیں عقل و شعور اور فہم و ادراک سے آراستہ کرتے ہیں۔ استاد طلبا کو معاشرہ کا ایک قابل قدر رکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ انہیں تعلیم سے آراستہ کر کے ایک ذمہ دار اور مثالی شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے استاد کی شان بلند ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوم اساتذہ کی اہم اور مثالی تقریب کے موقع پر ایسے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق جہاں تک یوم اساتذہ کے موقع پر مجھے قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اصل یہ ہے کہ استاد کی جو حیثیت ہوتی ہے وہ بہت ہی بلند ہوتی ہے۔ اس لیے استاد کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خود بھی اعلیٰ اقدار کے حامل ہو اور اپنے طلبا کو بھی ایک مثالی طالب علم بنانے میں اہم رول ادا کرے اور یہ ایک بڑی خدمت ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی قدردانی کے طور پر اساتذہ کو 5 ستمبر کو نوازا جاتا ہے۔ مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عنایت کیا کہ یوم اساتذہ کے موقع پر 1999 میں صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کی تدریسی و تصنیفی خدمات کو سراہتے ہوئے راشٹر پتی ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا۔ مولانا کہتیں ہیں کہ یقیناً جب وہ دن یاد آتا ہے تو مجھے کافی خوشی ہوتی ہے، اور فخر حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 ستمبر کو مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی میں اس تقریب میں شامل ہوا اور یہ تقریب دہلی میں منعقد ہوئی۔ اس میں شرکت کرتے وقت احساس ہوا کہ یقیناً یہ ایوارڈ ایک بڑا ایوارڈ ہے، جو قابل قدر اور قابل فخر بھی رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس موقع پر پورے ملک کے قریب ساڑھے تین سو اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر اساتذہ موجود تھے۔
جب مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کو ملا نیشنل ایوارڈ
جہد مسلسل کے بغیر اس مقام تک پہنچنا مشکل
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کی پیدائش بہار کے ضلع دربھنگہ کے ایک علمی گاؤں دوگھرا میں ہوئی۔ وہ 25 اکتوبر 1951 کو پیدا ہوئے اور مدرسہ سے تعلیم کی شروعات کی۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے مولانا نے عالم کی ڈگڑی حاصل کی، پھر وہ فاضل فارسی، فاضل اردو، فاضل حدیث، فاضل عربی ادب کی ڈگڑی بھی انہوں نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے حاصل کیا۔ تعلیم حاصل کرنے کا مولانا کا ذوق اس قدر مضبوط تھا کہ انہوں نے پرائیویٹ سے بہار اسکول ایکزامینیشن بورڈ سے میٹرک کیا، مگدھ یونیورسیٹی سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ بہار یونیورسیٹی مظفر پور سے ایم اے اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے ایم اے عربی کی ڈگڑی حاصل کی۔ 1974 میں انہوں نے بہار اسکول اکزامینشن بورڈ سے ٹیچر ٹریننگ کیا اور اپنے رٹائرمینٹ کے بعد 2015 میں نالندہ اوپن یونیورسیٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگڑی حاصل کی۔
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ میں نے تعلیم کے میدان میں جو خدمات انجام دئے وہ یہ ہے کہ ایک استاد کی حیثیت سے میں نے تعلیمی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے درس و تدریس کا آغاز مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ سے کیا۔ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ بہار کا ایک باوقار ادارہ ہے جہاں مولانا کی بحالی 1976 میں ہوئی۔ اس وقت سے لیکر 2011 تک وہ اسی ادارہ سے منسلک رہے۔ قریب 16 برسوں تک وہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے زمانہ میں اس بات کی کوشش کی کہ طلبا کہ درمیان ہمہ جہت ترقی ہو علمی اعتبار سے، اخلاقی اعتبار سے اور وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکے اور یقیناً یہ ایک بڑی خدمت ہے اور بڑا کام ہے۔ مولانا کی خوبی یہ رہی ہے کہ وہ طالب علموں کے درمیان ہمیشہ گھرے رہے۔ طلبا درس سے مطمئن و فیضیاب ہوتے، جس سے استاد اور شاگرد میں ربط و تعلق کو استوار کیا اور ان کی مقبولیت بڑھتی رہی۔ مولانا کے سیکڑو شاگرد ایسے ہیں جو آج بڑے بڑے عہدہ پر فائض ہیں اور ملک اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
پوری زندگی درس و تدریس میں لگایا
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی تدریسی کام میں لگایا اور ایک اچھے ٹیچر کی حیثیت سے اپنے طلبا کو بھی اسی معیار پر اتارنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں طلبا کے لیے کافی کام کیا۔ طلبا کے لیے ادبی مباحثہ، مشاعرہ اور مختلف پروگرام کراتا رہا۔ تاکہ ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہو اور وہ مستقبل میں اپنے خوابوں کا حقیقی مسافر بن جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے طلبا کے ساتھ پورا انصاف کیا۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے وہ کہتیں ہیں کی میں نے پوری کوشش کی کہ جو علم اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا ہے اس علم کو ان طلبا تک پورے طور پر پہنچاؤں۔ چنانچہ اللہ کا فضل رہا کہ طلباء میرے تعلیم سے بہت مطمئین نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شاگردوں میں اچھے اچھے طلبا بھی پیدا ہوئے جو مختلف فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔
ماضی کے طلبا اور آج کے طلبا میں فرق
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ پہلے کے طلبا میں اخلاقی قدریں اعلیٰ درجہ کی تھی۔ وہ اپنے استاد کی بیحد قدر کرتے اور ہر وقت ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وقت جیسے جیسے گزرتا جا رہا ہے اخلاقی قدروں کے اندر گراوٹ پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کا جو دور تھا اس وقت گھر کے لوگ بھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے اور ان کو اچھا بنانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ مستقبل میں وہ ایک اچھا شہری بنے اور کامیاب ہوں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے اندر بے راہ روی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کا پھیلاؤ تو ہوا ہے لیکن اخلاقی اقدار کے اندر گراوٹ آتی جا رہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ اس معاملہ میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ طالب علم ہی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اگر وہ با اخلاق اور با کردار ہونگے تو معاشرہ خوبصورت ہوگا اس لیے طلبا کے اخلاقی قدروں کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
طلبا اور اساتذہ کے درمیان ربط کی کمی
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ طالب علم اور استاد میں ربط کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں طالب علم تھا اس وقت کے اساتذہ کا طلبا کے ساتھ ایک غیر معمولی ربط ہوا کرتا تھا۔ اس کا اثر ہم جیسے طالب علموں پر پڑا اور طالب علمی کے زمانے میں ہی ہمارے اساتذہ جن کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، ان کتابوں کا مطالعہ ہم لوگ بھی کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ فوقانیہ میں ہی ہم لوگ بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ کر چکیں تھے اور اس کو پوری طرح سے سمجھنے لگے تھے۔ اس وقت اساتذہ اور طلبا کے درمیان کافی گہرا تعلق تھا اس تعلق نے ہم لوگوں کے اندر بہت صلاحیت پیدا کیا۔ آج طلبا و اساتذہ کے درمیان ربط کی کمی ہو گئی ہے جس سے نقصان ہو رہا ہے۔
ایوارڈ اور کتاب
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ قومی ایوارڈ ملنے سے پہلے بھی مختلف اعزاز سے مجھے نوازا گیا تھا۔ 1995 میں تعلیمی خدمات کے اعتراف میں بہار ریاستی کانگریس کمیٹی کی جانب سے اعزاز ملا۔ 1997 میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اعزاز ملا۔ بہار اردو اکیڈمی نے میری کتاب تذکرہ علمائے بہار کی تصنیف پر 2006 میں ایوارڈ دیا۔ حسن عسکری ایوارڈ بہار اردو اکیڈمی نے 2014 میں دیا وغیرہ۔
اسی طرح مولانا کی درجنوں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہے جس میں کئی کتابیں نصاب میں بھی شامل ہے۔ مولانا کی کتابیں اردو اور عربی دونوں میں موجود ہے۔ انہوں نے قرآن کا ترجمہ بھی کیا اور اس سال ان کی کتاب قرآن کا تفسیر بھی شائع ہو چکی ہے۔ تفسیر القرآن کے نام سے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کتاب دیدہ زیب ہے اور مطالعہ کے قابل ہے۔ یقیناً اس سے لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا اور لوگ فائدہ حاصل کر بھی رہے ہیں۔ مولانا کے کتابوں کے کچھ نام یہ ہیں: قدیم اردو زبان کی تاریخ، اسلامک اسٹڈیز، تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ، بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ، تذکرہ علمائے بہار، مشاہیر بہار کے خطوط، ہمارا دین، تین ہفتہ امریکہ وغیرہ۔
اساتذہ اور طلبا کو پیغام
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے لیے میرا پیغام ہے کہ وہ اپنے خدمت میں مخلص ہو اور اپنی تعلیم سے طلبا کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچائے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا کے اندر اخلاقیات کی تعلیم اور اس رجھان کو عام کرے ساتھ ہی ان کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ استاد کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اگر استاد مخلص ہوگا تو یقیناً طلبا کا مستقبل روشناس ہوگا۔ مولانا کا کہنا ہے کہ طلبا کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی عزت کرے۔ وہ انہیں بناتے ہیں سنوارتے ہیں، اعلیٰ کردار کا حامل بناتے ہیں، اس لیے ان کی عزت، ان کا احترام ہر موقع پر انہیں ملحوظ رکھنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ ان سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ طالب علمی کا زمانہ وہ وقت ہوتا ہے جب طالب علم اپنے مقصد کو اور اپنے خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ اس لیے یہ بیحد ضروری ہے کہ اپنے وقت کا پابند رہے اور اپنے ٹیچر کا احترام کرے تاکہ پڑھنے پڑھانے کا ایک اچھا ماحول قائم ہو اور طالب علم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔
مختلف ملکوں کا سفر
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی کا کہنا ہے کہ میں نے تعلیمی اسفار بھی کیے امریکہ حکومت کی دعوت پر 2003 میں، میں امریکہ گیا اور وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھا وہاں کی میٹنگوں میں شرکت کی اور حکومت ہند اور حکومت بہار کی ترجمانی کی۔ یہاں کہ نصاب تعلیم اور مدارس کے نصاب تعلیم پر گفتگو کیا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے تجربات کو وہاں کی میٹنگوں میں شیر کیا اور جب واپس آیا تو اپنے طلبا کے درمیان بھی اس تجربہ کو بتایا اور تین ہفتہ امریکہ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس کے مطالعہ سے بہت سی غلطفہمیاں دور ہوتی ہے۔ وہ کتاب ایک سفر نامہ ہے۔
بیرونی دورے
اسی طرح 2011 میں ایران گیا۔ اور ایران کے علمی حلقوں میں شریک ہوا اور وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھا۔ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور یہاں کے تعلیمی نظام سے لوگوں کو روشناس کرایا اور یہ بتانے کی کوشش کہ کس طریقہ سے بہار کے اندر مدرسہ ایجوکیشن بورڈ تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے اور کس طریقہ سے عصری اور اسلامی تعلیم کو ملا کر کے ایک اچھا ماحول پیدا کر رہا ہے۔ جس سے طلبا میں ہمہ جہت ترقی ہوتی ہے۔ وہ دینی تعلیم اور عصری علوم میں کمال حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے وہاں بتایا کہ مدرسہ کی ڈگڑیوں کو مساوات کا درجہ حاصل ہے۔ وہاں سے واپسی کے بعد میں نے بڑے پیمانے پر طلبا کو اس جانب متوجہ کیا اور بتایا کی ایران میں، میں نے کیا دیکھا اور وہاں کے تعلیمی ادارہ اور تعلیم کا نظام کیا ہے جس سے طلبا کو کافی فائدہ ہوا۔ دراصل مولانا کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ وہ آج بھی تعلیمی کاموں میں مصروف ہے اور مختلف تعلیمی اداروں اور تنظیموں سے جڑ کر کام کر رہے ہیں۔