مصر کی سرزمین پہ اردو زبان کی خوشبو کو بکھیرنے والی شاعرہ ولاء جمال العسیلی کو کیوں ہے ۔۔۔ ہندوستان سے محبت

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-04-2024
 مصر کی سرزمین پہ اردو زبان کی خوشبو کو بکھیرنے والی شاعرہ  ولاء جمال العسیلی  کو کیوں ہے ۔۔۔ ہندوستان سے محبت
مصر کی سرزمین پہ اردو زبان کی خوشبو کو بکھیرنے والی شاعرہ ولاء جمال العسیلی کو کیوں ہے ۔۔۔ ہندوستان سے محبت

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

مِرے کانوں میں مصری گھولتا ہے

کوئی بچہ جب اُردو بولتا ہے

 مشتاق دربھنگوی صاحب کا یہ شعر دنیائے عرب کی اولین صاحبِ دیوان اردو شاعرہ  ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی پر صادق آتا ہے ۔ جو اب ہندوستان میں اردو ادب اور  مشاعرے کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ۔ جن کی شاعری اہل اردو کے لیے اس لیے حیران کن ہے کہ ان کا تعلق مصر سے ہے۔ زبان کی مٹھاس کے ساتھ ان کے لہجے اور انداز بیاں نے بہت کم وقت میں لاتعداد مداح پیدا کئے ہیں ۔ اردو سے ایک مصری خاتون کے لگاو اور محبت کا ثبوت ان کی شاعری کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے ۔در اصل لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ہندوستان۔ مصر کے رشتے، مصر کی ممی کی تاریخ سے بھی زیادہ پرانے ہیں ۔لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اردو کی جڑیں بھی اب مصر میں سو سالہ تاریخ رکھتی ہیں۔

آواز دی وائس کے لیے امینہ ماجد  سے ایک خاص انٹرویو میں ڈاکٹر ولاء جمال نے اردو سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان سے اظہار محبت کچھ اس انداز میں کیا کہ ۔۔۔ اگر انڈیا  نہ آؤں تو سکون نہیں ملتا، میں سال انڈیا آنے کی کوشش کرتی ہوں۔ مجھے ہندوستان کی  تہذیب اور ثقافت بہت پسند ہے، مجھے 'ہندوستانی' کہنا بھی اچھا لگتا ہے، مجھے کو عزت اور احترام حاصل ہوتا ہے ،اس کے لیے میں بہت شکر گزار ہوں۔

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں رہنے والی خاتون ادیبہ ،قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں بطورِ ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں

awazurduڈاکٹر ولا جمال 


آپ کو بتا دیں کہ مصری یونیورسٹیز میں اردو زبان کی تدریس کاسلسلہ گزشتہ تقریباً 80 سال سے جاری ہے۔1939 میں شاہ فاروق کے حکم پر مصر کے سرکاری ادارے معہد اللغات الشرقیہ ( اورینٹل لینگویج انسٹی ٹیوٹ ) نے جامعہ قاہرہ میں کام شروع کیا۔جولائی 1952 کے بعد مصری حکومت نے برصغیر سے خوشگوارتعلقات استوارکرنے کے لیے اردو زبان میں ریڈیونشریات کا آغاز کیا تھا۔معہد اللغات الشرقیہ میں اردو کی تدریس کا آغاز، اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے حسن الاعظمی نے کیا جو 1938 میں جامعہ الازہر سے العالمیہ کی سند حاصل کرچکے تھے۔

جبکہ مصر میں اردو کی فصل تیار کرنے کے لیے پہلا بیج 1930 میں ہندوستان سے مصر گئے کچھ لوگوں نے بویا تھا۔ جبکہ اسی سال ایک ہندوستانی صحافی ابو سعید العربی نے پہلی بار اردو زبان کا ایک رسالہ بعنوان ’جہان اسلامی‘، قاہرہ سے شائع کیا تھا

اردو سے محبت اور شاعری سے لگاو کے بارے میں ڈاکٹر ولاء جمال  کہتی ہیں کہ میں نے  مصر میں ہی چار سال میں اردو زبان سیکھی،میں کبھی بھی پاکستان نہیں گئی۔جبکہ ہندوستان کے چار دورے کئے ہیں ۔یہ اردو سے لگاو اور محبت تھی جس کے سبب میں نے اردو میں  ایم اے کیا۔ پھر پی ایچ ڈی بھی کی۔ تدرسی ذمہ داری سنبھالی تو میرا تبادلہ شعبہ اردو میں ہو گیا۔  اب میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوں۔

awazurduڈاکٹر ولاجمال ایک مشاعرے میں 


آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ مجھے اردو شاعری کا جنون ہے۔ کالج میں پڑھنے کے بعد شاعری کا فیصلہ کیا ۔ مجھے اردو شاعری بہت پسند ہے۔ اردو زبان میں مٹھاس ہے۔ یہی میری اس زبان سے محبت کا راز ہے

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ولاء جمال کہتی ہیں کہ سب سے پہلے میں نے نظم کہی، غزل نہیں کیونکہ یہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ پہلا شعر ی مجموعہ تھا ۔۔ سمندر ہے درمیاں" ۔۔۔ جس میں نثری اور آزاد نظمیں ہیں۔ اس طرح میں صاحب کتاب بنی ۔

ان کتابوں کے علاوہ ڈاکٹر ولاء جمال درجنوں مضامین، فیچرز اور انشائیے بھی مصر سے دنیائے اردو کو تحفے میں پیش کر چکی ہیں۔ اُردو شعر و ادب سے جنون کی حد تک دلچسپی رکھنے والی ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کو دنیائے ادب کے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلی بار میں ہندوستانی گئی تو ایک پروگرام میں شرکت کے بعد مجھ پر اس تہذیب اور ثقافت کا سحر ہوگیا۔مجھے ایسا لگا گویا کسی نے جادو کردیا ،اسی کے بعد میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک نظم لکھ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تو لوگوں نے اس کی تعریف کی ۔جب داد ملی تو میں نے اس طرف توجہ دی۔ سوچا کہ شاعری کی کوشش کروں گی تو ضرور کامیاب ہوسکتی ہوں کیونکہ مجھ میں جنون پیدا ہورہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں کاغذ پر وہ لکھتی ہوں جو کسی کو نہیں بتاتی، جس سے مجھے سکون ملتا ہے۔

awazurduمشاعرے میں داد وصول کرتے ہوئے ڈاکٹر ولا جمال 


ڈاکٹر ولا جمال نے بتایا کہ  ایک وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ اردو کیا ہوتی ہے۔مصر میں ہم اردو کے بارے میں نہیں جانتے تھے، ہم ہندی زبان سے صرف ہندی فلموں کی وجہ سے واقف رہے۔ جب میں نے مصر میں اہل اردو سے دریافت کیا کہ یہ اردو کیا ہے؟  تو جواب آیا کہ یہ ہندی ہے۔ چنانچہ جب مجھے معلوم ہوا کہ اردو بھی ہندی کی طرح ہے تو میں نے مجھے اسے سیکھنا چاہیے کیونکہ مجھے ہندوستانی فلموں میں دلچسپی تھی اور گانے بھی سنتی رہی تھی، اس لیے مجھے یہ پسند آیا۔

ڈاکٹر والا جمال نے کہا کہ میری نظموں کے دو مجموعے ہیں جن میں ایک ۔۔۔  سمندرِ ہے درمیاں اور دوسرا ۔۔۔  دخترمیر ہے۔

اپنی نظموں کے مجموعہ دختر میر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں  میں نے مصر کا بھی حوالہ دیا ۔اس میں ایک شعر ہے کہ ۔۔۔۔

میں نیل کے کنارے ہوں لیکن نگاہ میں

جہلم ہے گنگا جمنا ہے راوی چناب ہے

یہ شعر اس بات کا ثبوت ہے کہ  ڈاکٹر ولاء جمال ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب سے بے حد متاثر ہیں۔ ڈاکٹر ولا کی اردو شاعری افسانے اور مضامین تو متاثر کن ہیں ، ان کی شخصیت بھی انتہائی متاثر کن ہے، طبعیت میں ٹھہراؤ، نرم گوئی، مہذب رویہ اور حاضر جوابی ان کی شخصیت کے دلچسپ پہلو ہیں

awazurduزبان کے ساتھ لہجے اور انداز بیان نے دی ڈاکٹر ولا جمال کو مقبولیت 


ڈاکٹر ولا جمال کے مطابق کہ مصر میں اردو زبان اسکول میں نہیں کالج میں سیکھی جاتی ہے، اس لیے شاید بہت سے لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے۔ اگر کوئی پوچھے تو ہم بتاتے ہیں کہ ہمارے شعبہ میں طلبہ کی تعداد زیادہ ہے۔ لوگوں کو اس بات میں بھی دلچسپی ہے کہ تقریباً 7 یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔  طلباء کی تعداد 3 ہزار سے زیادہ ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے زیادہ کام نہیں ہوا ہے کیونکہ مصر میں ترجمے پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

ڈاکٹرولاء جمال کہتی ہیں کہ اردو کی ذمہ داری آپ سب پر ہے۔ زبان کا مستقبل روشن ہے کیونکہ میری مادری زبان اردو نہیں ہے لیکن آپ لوگ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ یہ وہ رشتہ ہے جو ہندوستان اور مصر کے درمیان ۔اردو اور عربی کے درمیان ہے۔ اس طرح اردو کا مستقبل روشن ہوگا۔ ڈاکٹر ولا جمال کہتی ہیں کہ مجھےوقت بہت کم ملتا ہے، کیونکہ میں پڑھاتی ہوں،ماں بھی ہوں، مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں، جب بھی وقت ملتا ہے،مطالعہ کرتی ہوں۔

مصری شاعرہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں میرے دو پسندیدہ شہر لکھنؤ اور کولکتہ ہیں جن پر میں نے شاعری کی ہے۔ میں نے کولکتہ اور لکھنؤ کی تہذیب میں ایک سحر پایا ہے ۔ اگر بات کروں لکھنو کی تومجھے  شہر کی تہذیب کے ساتھ اس کے ذائقے دار کباب پسند ہیں، مجھے ہندوستانی کھانا بہت پسند ہے۔

ڈاکٹرولا جمال  کہتی ہیں کہ ہندوستان پھر آوں گی ۔۔۔۔ ہندوستان میرے دل میں ہے۔ اس ملک کی محبت اور تہذیب مجھے اس کے قریب رکھتی ہے ۔

 سنیئے ۔۔۔ آواز دی وائس کے ساتھ ڈاکٹر ولا جمال کا انٹرویو