ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
اردو شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اکبرالہ آبادی کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔طنزو مزاح میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ان کی سنجیدہ شاعری بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔اس باب میں بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ کئی اصناف پر انھیں قدرت حاصل تھی۔غزلوں کے علاوہ نظموں،قطعات اور رباعیات پر ان کی دسترس کے کہنے۔ان کی شاعری میں علم وحکمت کے بہت سے پہلو تھے۔معنی نے کیا کیا پہلو نکال لیں گے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ان کے یہاں مزاح کے متعدد رنگ ملتے ہیں۔وہ صرف لفظوں سے نہیں کھیلتے بلکہ معنی ومفہوم سے ان کی قادراکلامی کا ثبوت ملتا ہے۔ان کی شاعری کا توانا پہلو وہ تہذیبی بیانیہ ہے جس کی طرف کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے۔ہندستان جیسے کثیر لسانی اور مذہبی ملک میں انھوں نے مذہبی اور تہذیبی افکار کے مختلف پہلوؤں کو شاعری کا جامہ عطا کیا ہے۔اس مزاح میں طنزکا پہلو بہت روشن نظر آتا ہے۔جیسے ان کا بہت مشہور شعر ہے
پہنچے ہوٹل پہ تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزا بھول گئے
ان کے اشعار کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ متعدد زبانوں،تہذیبوں اور ثقافتوں کے عالم تھے۔اسلام کے حوالے سے ان کے بے شمار اشعار ہیں اور اس کے مطالعہ سے نت نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔
ایک رباعی میں کہتے ہیں
مذہب کے جو ہورہیں تو سرکار کا خوف
مذہب سے اگر پھریں تو پھٹکار کا خوف
دونوں سے اگر بچیں تو سرکار کو ہے
بے رونقی دکان و دربار کا خوف
طنزو مزاح کے پیرایے میں وہ بڑی سے بڑی بات بھی بہ آسانی کہہ لینے کا ہنر جانتے تھے۔انھوں نے رمضان اور اس سے متعلقات بہت سے موضوعات پر اشعار کہے ہیں اور معنی کے کیا خوب روشن پہلو نکالے ہیں۔ایک رباعی میں انھوں نے رمضان کی تعریف کیا خوب صورت انداز میں کی ہے۔کہتے ہیں
ہے ماہ صیام کی نہایت تعریف
بے شبہ یہ ہے مہذب و پاک و لطیف
نااہلوں کو یہ کبھی لگاتا نہیں منھ
کہتے ہیں اسی سبب سے رمضاں کو شریف
رمضان میں تلاوت قرآن کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔عام طورپر روزہ داروں کی کوشش رہتی ہے کہ کم از کم ایک قرآن پاک ختم کرلیں۔اس تناظر میں اکبر کی یہ رباعی ملاحظہ فرمائیں۔
ہر حال میں بہر روح انسب وہ ہے
اللہ و رسول کا بھی مطلب وہ ہے
قرآن کو غور سے پڑھو اور سمجھو
اکبر بخدا کہ جان مذہب وہ ہے
جیسا کہ شروع میں کہا جاچکا ہے کہ اکبر کے یہاں ہندستان کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی سے متعلق بہت اشعار ملتے ہیں۔سیاسی،سماجی اور ثقافتی زندگی کے بہت سے پہلو ان کے اشعار میں روشن ہیں۔ہندستانی معاشرے میں مسلمانوں کے یہاں بہت سی چیزیں ہندوانہ رسم و رواج سے بھی ملی ہیں۔اس حوالے سے اکبر کی ایک رباعی ہے
ہندو مسلم میں ہند کی نیو بھی ہے
افطار میں ہے کھجور تو سیو بھی ہے
اللہ اللہ ہے زباں پر بیشک
لیکن اک رنگ بم مہادیو بھی ہے
اس رباعی کا بنیادی مضمون یہ ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں ازروئے ثقافت اسلامی شعائر کے ساتھ ہندوانہ چیزیں بھی ملی ہوئی ہیں۔تیسرے اور چوتھے مصرعے کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی زبان پر تو اللہ اللہ ضرور رہتا ہے لیکن ان کی اس پکار میں بم بم مہادیووالا انداز بھی ملا رہتا ہے۔بم بم مہادیو ہندوؤں کا وہ فقرہ ہے جسے وہ لوگ مذہبی یاتراکرتے ہوئے یا اسی طرح کے دوسرے موقعوں پر بآواز بلند بولتے جاتے ہیں۔کانوڑ کے لوگ اکثر ایسا بولتے ہوئے چلتے ہیں۔
ایک اورپر لطف رباعی میں وہ کہتے ہیں۔
قائم یہی بوٹ اور موزہ رکھیے
دل کو مشتاق مس ڈسوزا رکھیے
ان باتوں پر معترض نہ ہوگا کوئی
پڑھیے جو نماز اور روزہ رکھیے
اکبر کی قادرالکلامی کا جواب نہیں۔درج ذیل رباعی کا یہ پہلو دیکھیں کہ انھوں نے محاورہ کو اصل معنی میں استعمال کرکے ایک دوسرا استعارہ بنا دیا۔ چراغ سحری کا کیا خوب استعمال کیا ہے۔
صد حیف کہ ماہ رمضاں ختم ہوا آج
پھر رات کو عالم ہے وہی بے خبری کا
اٹھتے تھے سحر کھانے کو اور جلتی تھیں شمع
افسوس گیا نور چراغ سحری کا
چاند رات کی تیاری بھی کیا خوب ہوتی ہے۔چاند دیکھنے کا اہتمام کس کس انداز سے کیا جاتا ہے۔لطائف اکبر میں چاند رات کے حوالے سے ایک لطیفہ یہ بیان کیا جاتا ہے۔
ایک شیخ صاحب کو چاند کی پہلی تاریخ دورہ پڑا کرتا تھا۔ایک مرتبہ لوگوں میں رویت ہلال کے بارے میں اختلاف ہوگیا ایک صاحب نے اس کا حل سوچا اور آپس میں لڑنے جھگڑنے سے اچھا ہے کہ شیخ صاحب کو جاکر دیکھ لو اگر وہ ان پر دورہ پڑگیا تو چاند ہے ورنہ نہیں۔
انتیس کی عید کا خاصا اہتمام ہوتا ہے۔درج ذیل رباعی میں اکبر نے سائنس اور نیچر کی رعایت سے کیا خوب لطف پیدا کیا ہے۔نیچر کے مطابق تیس روزے مکمل کرکے چھوڑیں گے۔
بدلی کے سبب سے چاند آیا نہ نظر
بیٹھے رمضاں کے نمازی ہیں ملول
سائنس نے کرلیا تھا منظور انتیس
نیچر نے کہا کہ تو سہی تیس وصو ل
اکبر الہ آبادی کی شاعری کا بنیادی جوہر تو طنزو مزاح ہے اور اس حوالے سے ان کا کلام بے مثال ہے مگر اسی کے ساتھ ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انھو ں نے خو د کو کسی ایک مضمون تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں نت نئے پہلو نکالتے رہے۔رمضان سے متعلق سنجیدہ شعر کہنا تو آسان ہے مگر اس میں مزاح کے پہلو کی بھی رعایت رکھنا یہ بڑا کارنامہ ہے۔اکبر کی ان رباعیوں میں لطف وانبساط کے بہت سے پہلو ہیں جو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔