سبھی مذاہب میں ہے حضرت امام حسین کے لیے احترام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 13-07-2024
سبھی مذاہب میں ہے حضرت امام حسین کے لیے احترام
سبھی مذاہب میں ہے حضرت امام حسین کے لیے احترام

 

محفوظ عالم ۔ پٹنہ 

امام حسین نے کربلا کے میدان میں ہندوستان آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تاریخ میں یہ بات ملتی ہے کہ یزید کے ظلم کے خلاف امام حسین نے جکھنے سے انکار کر دیا اور کربلا کے میدان میں یزید جنگ پر آمادہ ہوا تو امام حسین نے کہا کہ ہمارا راستہ چھوڑ دو اور ہمیں ہندوستان جانے دو۔ آج ہندوستان میں سبھی مذاہب کے لوگ امام حسین کو یاد کرتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے معروف شیعہ عالم دین مولانا امانت حسین نے کہا کہ حضرت امام حسین نےایک وقت ہندوستان کا رخ کرنے کا ارادہ کیا تھا ،یہ کربلا کی جنگ کا وقت تھا،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان ہر دور میں امن کی سرزمین رہا ہے ۔ٹھنڈی ہواوں کا مرکز رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسین کا مقصد تھا کہ  اتحاد قائم ہو اور ہر قوم و ملت میں انسانیت ہو۔ انسانیت، مذہب سے بڑھ کر ہے، دنیا میں پہلے انسانیت ہے اس کے بعد ہی مذہب ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ حضرت امام حسین کا بیحد احترام کرتے ہیں اور محرم کے جلوس میں شرکت کرنا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔انسانیت کی حفاظت حضرت امام حسین کا سب سے بڑا پیغام تھا۔ کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے لیکن ظالم کا ساتھ نہیں دیا۔ حضرت امام حسین کی شہادت آج بھی ظلم کے خلاف ایک جنگ ہے اور مظلوم، بے بس اور بے سہاروں کا ساتھ دینے کی سبق اور ہدایت ہے۔

جلوس میں سبھی مذاہب کے لوگوں کی شرکت

 مولانا امانت حسین کے مطابق بہار کی سرزمین پہلے سے ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال پیش کرتی رہی ہے، محرم کے موقع پر سبھی مذاہب کے لوگ محرم کے جلوس میں شرکت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ اور خیر سگالی کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور سے پٹنہ میں نوابوں کے دور سے ہی محرم کا خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ اس شہر کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر قوم و ملت کے لوگ چاہے وہ ہندو ہو مسلمان ہو، سکھ ہو یا عیسائی سب اس میں شریک ہوتے ہیں اور امام حسین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال گردش کرتا ہے کہ امام حسین نے انسانیت کو بچایا اور ظلم کے خلاف آواز دی اس وقت ہم موجود نہیں تھے لیکن آج ان کو نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ ان کے سبق کو اپنی زندگی کے لیے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ مولانا امانت حسین نے کہا کہ یوم عاشورہ کو جلوس نکلتا ہے اس جلوس میں سبھی فرقہ اور مذہب کے لوگ کسی نہ کسی سطح پر اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھائی چارہ کی یہ ایک عظیم مثال ہے اور اسی بھائی چارہ اور انسانیت کا سبق امام حسین دیتے ہیں۔

انسانیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں

مولانا امانت حسین نے کہا کہ ظلم کے خلاف نہیں جھکنا اور حق کو لیکر باطل سے ٹکرا جانا اور شہید ہو کر پوری دنیا کو یہ پیغام دینا کہ مظلوم کوئی بھی ہو اس کی مدد کرو۔ یہ حضرت امام حسین کا ایک ایسا سبق ہے جس کی ضرورت انسانیت کو ہے۔ مولانا امانت حسین کے مطابق انسانیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، پٹنہ کے لوگ محرم کے موقع پر اس بھائی چارہ کی عظیم مثال پیش کرتے رہے ہیں۔ مولانا امانت حسین کا کہنا ہے کہ دراصل محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ محرم حرمت کا  مہینہ ہے، اس مہینہ میں جنگ و قتال سے پرہیز کرنے کا حکم ہے۔ واضح رہے کہ محرم کی دس تاریخ کا روزہ رمضان کے فرض روزوں کے بعد تمام روزوں سے افضل مانا جاتا ہے۔ دس تاریخ کو یوم عاشورہ منایا جاتا ہے۔ دسویں تاریخ کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کو لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ محرم رحمت اور برکت کا مہینہ ہے، اس مہینہ کا احترام پہلے بھی کیا جاتا تھا اور بعد میں بھی اس کا احترام کرنے کا حکم ہوا۔ اس مہینہ میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی غلط کام سر زد نہیں ہو۔

مظلوم کی مدد ہر حال میں ضروری

مولانا امانت حسین کا کہنا ہے کہ محرم کے موقع پر پٹنہ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ امام حسین کو مختلف مذاہب کے لوگ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور خاص طور سے جب جلوس نکلتا ہے اس وقت ہندو بھائیوں کی شرکت خیر سگالی کے ماحول میں چار چاند لگاتی نظر آتی ہے۔ اس دن ہر شخص امام حسین کی قربانیوں کو، ان کی شہادت کو، باطل کے خلاف ان کی جنگ کو اور ظلم کے خلاف ان کی آواز پر لبیک کہتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسین کا مقصد ہے کہ دنیا میں ظالم کو مت بخشو مظلوم کی مدد کرو اور انسانیت کی بقا کو مقدم رکھو، چنانچہ امام حسین نے شہادت تو دے دی لیکن یہ پیغام دیا کہ ہم جان دے سکتے ہیں لیکن ظالم کے ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔

ظلم کے خلاف حق کی لڑائی

مولانا امانت حسین نے کہا کہ دراصل حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا یزید خلیفہ وقت بن گیا۔ تمام لوگوں نے یزید کی بیعت کی لیکن امام حسین نے یزید کی بیعت نہیں کی۔ یزید جانتا تھا کہ سب نے بیعت کر لیا لیکن امام حسین نے بیعت نہیں کیا تو گویا سب کی بیعت بیکار ہے۔ یزید کو معلوم تھا کہ اگر امام حسین بیعت کر لیتے ہیں تو ہمارے خلافت پر مہر لگ جائے گی لیکن حضرت حسین یہ جانتے تھے کہ یزید اس لائق نہیں ہے کہ وہ اسلام کا خلیفہ یا اسلام کا قائد بنے۔ یزید نے امام حسین کو اپنی بیعت کے لیے طلب کیا، امام حسین نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ مولانا امانت حسین کے مطابق امام حسین یزید کے کردار اور اس کے مزاج سے واقف تھے۔ یزید کے کردار میں ظلم کرنا تھا یہ اس کی خصوصیت تھی۔ امام حسین یزید کے ظلم کے خلاف تھے اور انہوں نے اس کی بیعت نہیں کی۔ بہرحال یزید نے کہا کہ اگر وہ بیعت نہیں کرتے ہیں تو ان کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ امام حسین نے کہا کہ ہم سر تو دے سکتے ہیں لیکن بیعت نہیں کریں گے۔ اس غرض سے انہوں نے مدینہ سے سفر کیا اور کربلا کے میدان میں اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی علیہ و سلم نے کہا تھا کہ مجھ سے حسین ہے اور میں حسین سے ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کردار میرا ہے وہی کردار حسین کا ہے۔ اس طرح سے امام حسین نے ظالم کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ ظلم کتنا بھی بڑا ہو وہ ظلم ہی رہے گا اور باطل کے سامنے حق کا انتخاب کرنا چاہئے ظلم کا نہیں بلکہ مظلوم کی مدد کرنی چاہئے۔

جب امام حسین نے ہندوستان آنے کی خواہش ظاہر کی

مولانا امانت حسین کا کہنا ہے کہ امام حسین نے ہندوستان آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ان کے مطابق تاریخ میں یہ بات ملتی ہے کہ امام حسین نے کربلا کے میدان میں ایک خواہش ظاہر کی تھی کہ تمہیں اس طرح جنگ کرنا ہے تو ہمیں ہندوستان جانے دو، ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہندوستان چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں امام حسین کو بلا تفریق مذہب و ملت لوگ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی امام حسین کو ماننے والے لوگ ہیں وہ اپنے اپنے طور پر اعزا داری کرتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ہم نہیں تھے کہ آپ کا ساتھ دیتے لیکن آج آپ کی یاد کو باقی اور تازہ رکھے ہوئے ہیں۔

موجودہ وقت میں امام حسین کا سبق

مولانا امانت حسین کا کہنا ہے کہ محرم کا مہینہ اور خاص طور سے حضرت امام حسین کے سبق کو تبھی لوگ سمجھ سکتے ہیں جب امام حسین کی سیرت کو پڑھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امام حسین کو پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ امام حسین کی سیرت اتحاد اور انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ ظلم کے خلاف لڑنے اور مجبوروں کا ساتھ دینے کا پیغام دیتی ہے۔ ان کے مطابق امام حسین کا سیرت واضح کرتا ہے کہ کردار کے ذریعہ اپنے پیغام کو پہنچاؤ تلوار کے ذریعہ اپنے پیغام کو مت پہنچاؤ۔ ان کے مطابق جب لوگ امام حسین کی سیرت پڑھیں گے تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ مولانا امانت حسین نے کہا کہ کئی بار امام حسین نے جنگ کو روکا اور انسانوں کا خون بہانے سے منع کیا۔

محرم کے جلوس میں مظلوم بن کر نکلے

مولانا امانت حسین کے مطابق محرم کے جلوس میں نکلے تو مظلوم بن کر نکلے۔ دنیا کو پیغام دے کہ ہم غم منا رہے ہیں سوگ منا رہے ہیں۔ کسی بھی حال میں کسی پر ظلم نہ کریں۔ راستہ میں کسی کو تکلیف نہیں پہنچائے، یہ امام حسین کی سیرت نہیں ہے۔ لیکن وہ نقطہ ہمیشہ یاد رہے کہ ہم کسی بھی طرح ظلم نہیں کرے اور نہ ہی ظالم کا ساتھ دیں۔ مولانا امانت حسین نے کہا کہ امام حسین کا پیغام ہے کہ خواہ کسی بھی مذہب کا کوئی شخص ہو اس کا احترام کرو، انسانیت ہی سب سے بڑی چیز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج جس طرح سے محرم کے جلوس میں لوگ ناچتے گاتے نکلتے ہیں وہ نہایت ہی غلط ہے، کئی صوبوں میں لوگ شراب پی کر جلوس میں جاتے ہیں یہ سیرت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حرام چیزوں سے بلکل دور رہے اور اصل امام حسین کی جو سیرت ہے اور جو سبق ہے اس پر چلنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ امام حسین نے انسانیت کی تعلیم دی ہے اور ظلم کے خلاف لڑنا سکھایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امام حسین کی سیرت سے سبق لیتے ہوئے ہم بھائی چارہ، خیر سگالی اور انسانیت کے فروغ کے لیے کام کریں اور غلط چیزوں سے بلکل ہی دور رہے۔